نوجوانوں کا سوال
مَیں اپنی زبان پر کیسے قابو رکھ سکتا ہوں؟
”کبھی کبھار تو میری زبان میرے قابو میں رہتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار یہ میرے دماغ کی ایک نہیں سنتی اور قینچی کی طرح چلتی جاتی ہے۔“—جیمز۔
”جب مَیں ٹینشن میں ہوتی ہوں تو جو میرے جی میں آتا ہے، مَیں بول دیتی ہوں۔ اور جب میرے دماغ میں کوئی ٹینشن نہیں ہوتی تو مَیں ضرورت سے زیادہ بولتی جاتی ہوں۔ مطلب یہ کہ مَیں نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہی کرنی ہوتی ہے۔“—میری۔
پاک کلام میں لکھا ہے: ”زبان ... ایک آگ ہے“ اور ”تھوڑی سی آگ سے پورے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔“ (یعقوب 3:5، 6) کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ نہ چاہتے ہوئے کچھ اُلٹا سیدھا کہہ جاتے ہیں اور پھر آپ کے لیے مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو پھر یہ مضمون آپ کے بہت کام آ سکتا ہے۔
میرا اپنی زبان پر قابو کیوں نہیں رہتا؟
عیبدار ہونے کی وجہ سے۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”ہم سب بار بار غلطی کرتے ہیں۔ اگر کوئی بولتے وقت غلطی نہیں کرتا تو وہ کامل شخص ہے۔“ (یعقوب 3:2) عیبدار ہونے کی وجہ سے اکثر ہمارے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور ہم کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ اِسی طرح عیبدار ہونے کی وجہ سے اکثر ہماری زبان بھی لڑکھڑا جاتی ہے اور ہم کوئی غلط بات کہہ جاتے ہیں۔
”عیبدار ہونے کی وجہ سے نہ تو میرا اپنے دماغ پر مکمل اِختیار ہے اور نہ ہی اپنی زبان پر۔“—اینا۔
ضرورت سے زیادہ بولنے کی وجہ سے۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”کلام کی کثرت خطا سے خالی نہیں۔“ (امثال 10:19) جو لوگ بہت زیادہ بولتے ہیں اور دوسروں کی نہیں سنتے، اُن کے مُنہ سے اکثر کوئی ایسی بات نکل ہی جاتی ہے جو دوسروں کو بُری لگتی ہے۔
”ہمیشہ ذہین شخص وہ نہیں ہوتا جو کسی محفل میں بیٹھ کر سب سے زیادہ بولتا ہے۔ زمین پر جتنے بھی اِنسان آئے ہیں، اُن میں یسوع مسیح سے ذہین کوئی نہیں تھا۔ مگر یسوع مسیح بھی کچھ موقعوں پر خاموش رہے۔“—جولیا۔
طنزیہ باتیں کرنے کی وجہ سے۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”بےتامل [یعنی بغیر سوچے سمجھے] بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں۔“ (امثال 12:18) بغیر سوچے سمجھے کہی جانے والی باتوں میں طنزیہ باتیں بھی شامل ہیں۔ طنزیہ باتوں سے مُراد ایسی باتیں ہیں جو دوسروں کو ڈنک کی طرح چبھتی ہیں اور اُنہیں نیچا دِکھانے کے لیے کہی جاتی ہیں۔ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں، شاید وہ کہیں: ”مَیں تو مذاق کر رہا تھا۔“ لیکن دوسروں کو ذلیل کرنا کوئی مذاق نہیں ہے۔ خدا کے کلام میں ہمیں تلقین کی گئی ہے کہ ہم ”گالی گلوچ اور نقصاندہ باتوں سے باز رہیں۔“—اِفسیوں 4:31۔
”مجھے لگتا ہے کہ دوسروں کو مذاق کرنے میں میرا بڑا دماغ چلتا ہے۔ لیکن اِس وجہ سے مَیں طنزیہ باتیں بھی کہہ جاتی ہوں اور پھر کوئی مسئلہ کھڑا کر دیتی ہوں۔“—اوکسانا۔
زبان کو قابو میں کیسے رکھیں؟
ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زبان کو کیسے قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ شاید ایسا کرنا آسان نہ ہو لیکن پاک کلام میں درج اصول ہمارے بہت کام آ سکتے ہیں۔ ذرا اِس سلسلے میں کچھ اصولوں پر غور کریں۔
”دل میں سوچو اور خاموش رہو۔“—زبور 4:4۔
کبھی کبھار خاموشی بہترین جواب ہوتی ہے۔ لورا نامی ایک لڑکی کہتی ہے: ”غصے کی حالت میں شاید میرے احساسات کچھ اَور ہوں اور بعد میں کچھ اَور۔ عموماً جب میرا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میرے مُنہ سے وہ بات نہیں نکلی جو مَیں کہنے والی تھی۔“ بعض اوقات صرف کچھ سیکنڈ کے لیے خاموش رہنے سے بھی آپ غلط بات کہنے سے بچ سکتے ہیں۔
”کیا کان باتوں کو نہیں پرکھ لیتا جیسے زبان کھانے کو چکھ لیتی ہے؟“—ایوب 12:11۔
جیسا کہ اِس آیت میں بتایا گیا ہے، اُن باتوں کو پہلے سے پرکھ لیں جو آپ کہنا چاہتے ہیں۔ اِس طرح آپ خود کو اُس تکلیف سے بچا سکیں گے جو غلط باتیں کہنے کے بعد ہوتی ہے۔ لہٰذا کچھ کہنے سے پہلے خود سے یہ سوال پوچھیں:
کیا یہ بات سچی ہے؟ کیا یہ سخت تو نہیں؟ کیا اِسے کہنا ضروری ہے؟—رومیوں 14:19۔
اگر کوئی مجھے یہ بات کہے تو مجھے کیسا لگے گا؟—متی 7:12۔
کیا اِس بات سے دوسرے شخص کی رائے کے لیے احترام ظاہر ہوگا؟—رومیوں 12:10۔
کیا یہ وقت بات کرنے کے لیے مناسب ہے؟—واعظ 3:7۔
”خاکسار ہوں اور دوسروں کو اپنے سے بڑا سمجھیں۔“—فِلپّیوں 2:3۔
اگر آپ اِس مشورے پر عمل کریں گے تو آپ دوسروں کے بارے میں اچھا سوچیں گے۔ اِس طرح آپ اپنی زبان پر قابو رکھ پائیں گے اور پہلے تولو، پھر بولو کے اصول پر عمل کر پائیں گے۔ لیکن اگر تیر کمان سے نکل چُکا ہے اور آپ کوئی ایسی بات کہہ چُکے ہیں جس سے دوسرے شخص کو تکلیف پہنچی ہے تو؟ ایسی صورت میں بھی خاکساری کی خوبی آپ کے کام آئے گی۔ اگر آپ خاکسار ہوں گے تو آپ اُس شخص سے معافی مانگیں گے اور جلد از جلد مانگیں گے۔ (متی 5:23، 24) اِس کے علاوہ آپ آئندہ سوچ سمجھ کر بات کرنے کی کوشش کریں گے۔