باب 55
یسوع کی باتوں سے شاگردوں کو دھچکا لگا
-
’میرا گوشت کھائیں اور میرا خون پئیں‘
-
بہت سے شاگردوں نے یسوع کی پیروی چھوڑ دی
یسوع مسیح کفرنحوم کی ایک عبادتگاہ میں اِس موضوع پر تعلیم دے رہے تھے کہ وہ ہی اصلی روٹی ہیں جو آسمان سے آئی۔ وہ اپنی اُس بات کی وضاحت کر رہے تھے جو اُنہوں نے اُن لوگوں سے کہی تھی جو گلیل کی جھیل کے مشرقی کنارے سے اُن کے پاس آئے تھے۔ یہ وہی لوگ تھے جنہیں یسوع مسیح نے معجزانہ طور پر روٹی اور مچھلیاں کھلائی تھیں۔
یسوع مسیح نے زندگی کی روٹی پر بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ”آپ کے باپدادا نے ویرانے میں من کھایا لیکن پھر بھی وہ مر گئے۔“ پھر اُنہوں نے کہا: ”مَیں وہ زندگی کی روٹی ہوں جو آسمان سے آئی ہے۔ اگر کوئی اِس روٹی کو کھائے گا تو وہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گا۔ دراصل جو روٹی مَیں دوں گا، وہ میرا جسم ہے۔ اور مَیں اِسے دوں گا تاکہ دُنیا کو زندگی ملے۔“—یوحنا 6:48-51۔
سن 30ء کے موسمِبہار میں یسوع مسیح نے نیکُدیمس کو بتایا تھا کہ خدا کو دُنیا سے اِتنی محبت ہے کہ اُس نے اپنے بیٹے کو نجاتدہندے کے طور پر زمین پر بھیجا۔ اب یسوع یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو اُن کا جسم کھانا ہوگا یعنی اُس قربانی پر ایمان ظاہر کرنا ہوگا جو وہ دینے والے تھے۔
مگر وہاں موجود لوگوں کو یہ بات بہت بُری لگی۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ”یہ آدمی ہمیں اپنا جسم کھانے کو کیسے دے سکتا ہے؟“ (یوحنا 6:52) یسوع مسیح لوگوں کو سمجھانا چاہتے تھے کہ وہ اُنہیں اصل میں نہیں بلکہ مجازی معنوں میں اُن کا جسم کھانے کو کہہ رہے تھے۔ یہ اُن کی اگلی بات سے ظاہر ہوا۔
اُنہوں نے کہا: ”جب تک آپ اِنسان کے بیٹے کا گوشت نہیں کھائیں گے اور اُس کا خون نہیں پئیں گے، آپ ہمیشہ کی زندگی نہیں پائیں گے۔ جو میرا گوشت کھاتا ہے اور میرا خون پیتا ہے، اُسے ہمیشہ کی زندگی ملے گی . . . کیونکہ میرا گوشت اصلی کھانا ہے اور میرا خون اصلی مشروب ہے۔ جو کوئی میرا گوشت کھاتا ہے اور میرا خون پیتا ہے، وہ میرے ساتھ متحد رہتا ہے۔“—یوحنا 6:53-56۔
ذرا سوچیں کہ یسوع مسیح کی بات یہودیوں کو کتنی ناگوار لگی ہوگی۔ اُنہیں لگا کہ یسوع اُنہیں آدمخور بننے یا خون کے سلسلے میں خدا کا حکم توڑنے کو کہہ رہے ہیں۔ (پیدایش 9:4؛ احبار 17:10، 11) لیکن یسوع مسیح کا مطلب یہ نہیں تھا کہ لوگ اصل میں اُن کا گوشت کھائیں اور خون پئیں۔ وہ تو یہ واضح کر رہے تھے کہ جو لوگ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اُنہیں اُس قربانی پر ایمان ظاہر کرنا ہوگا جو یسوع اپنا بےعیب جسم دے کر اور اپنا خون بہا کر دینے والے تھے۔ لیکن بہت سے لوگ، یہاں تک کہ یسوع کے بہت سے شاگرد بھی اُن کی بات کو نہیں سمجھے۔ کچھ شاگردوں نے کہا: ”یہ تو بکواس ہے۔ اِس آدمی کی باتیں ہم سے برداشت نہیں ہوتیں۔“—یوحنا 6:60۔
یسوع مسیح جانتے تھے کہ اُن کے کچھ شاگرد بڑبڑا رہے ہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے کہا: ”کیا میری باتیں آپ کو ناگوار گزری ہیں؟ تو پھر اُس وقت کیا ہوگا جب آپ اِنسان کے بیٹے کو وہاں جاتے دیکھیں گے جہاں سے وہ آیا ہے؟ . . . جو باتیں مَیں نے آپ سے کہی ہیں، وہ روح کی طرف سے ہیں اور زندگی دیتی ہیں۔ لیکن آپ میں سے کچھ میری باتوں پر یقین نہیں کرتے۔“ یہ سُن کر یسوع کے بہت سے شاگردوں نے اُن کی پیروی کرنا چھوڑ دی۔—یوحنا 6:61-64۔
اِس پر یسوع نے 12 رسولوں سے کہا: ”کیا آپ بھی مجھے چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں؟“ پطرس نے جواب دیا: ”مالک، ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو آپ ہی کرتے ہیں۔ ہم ایمان لائے ہیں اور جان گئے ہیں کہ آپ خدا کے مُقدس خادم ہیں۔“ (یوحنا 6:67-69) یہ وفاداری کا کتنا بڑا ثبوت تھا! حالانکہ پطرس اور باقی رسول یسوع کی بات کو پوری طرح سے سمجھ نہیں پائے تھے لیکن اُنہوں نے یسوع کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
پطرس کی بات سُن کر یسوع مسیح خوش تو ضرور ہوئے لیکن پھر بھی اُنہوں نے کہا: ”آپ 12 کو مَیں نے خود چُنا تھا نا؟ لیکن آپ میں سے ایک مجھے بدنام کرنے والا ہے۔“ (یوحنا 6:70) دراصل اُن کا اِشارہ یہوداہ اِسکریوتی کی طرف تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اِس موقعے پر یسوع کو اندازہ ہو گیا کہ یہوداہ غلط راہ پر چل نکلا ہے۔
اِس کے باوجود یسوع کو اِس بات پر خوشی تھی کہ پطرس اور باقی رسولوں نے اُن کی پیروی نہیں چھوڑی بلکہ اُن کے ساتھ وہ زندگیبخش کام کرتے رہے جو یسوع خود کر رہے تھے۔