باب 84
مسیح کی شاگردی—ایک سنجیدہ معاملہ
-
مسیح کے شاگردوں کو قربانیاں دینے کو تیار ہونا چاہیے
یسوع مسیح نے فریسیوں کے ایک پیشوا کے گھر کھانا کھاتے وقت بہت سے اہم سبق دیے۔ اب یسوع یروشلیم کی طرف جا رہے تھے اور بہت سے لوگ اُن کے ساتھ تھے۔ مگر کیا یہ لوگ واقعی اُن کے شاگرد بننا چاہتے تھے؟ کیا وہ اُن فرائض کو نبھانے کے لیے تیار تھے جو یسوع کے شاگردوں پر عائد ہوتے ہیں؟
راستے میں یسوع مسیح نے ایک ایسی بات کہی جو شاید لوگوں کو عجیب لگی ہو۔ اُنہوں نے کہا: ”جو شخص میرے پاس آتا ہے لیکن اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں یہاں تک کہ اپنے آپ سے نفرت نہیں کرتا، وہ میرا شاگرد نہیں بن سکتا۔“ (لُوقا 14:26) اِس بات کا کیا مطلب تھا؟
یسوع یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ اُن کے پیروکاروں کو سچمچ اپنے رشتےداروں سے نفرت کرنی ہوگی بلکہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اُن کے پیروکاروں کو اپنے رشتےداروں سے زیادہ یسوع مسیح سے محبت کرنی ہوگی۔ اُن کو اُس آدمی کی طرح نہیں ہونا چاہیے جس کا ذکر یسوع نے شاندار دعوت والی مثال میں کِیا تھا۔ اِس آدمی نے اِس اہم دعوت پر جانے سے محض اِس لیے معذرت کی کیونکہ اُس کی ابھی ابھی شادی ہوئی تھی۔ (لُوقا 14:20) خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں کے باپدادا یعقوب نے لیاہ سے ”نفرت کی“ لیکن راخل سے محبت کی یعنی اُنہیں لیاہ سے کم محبت تھی اور راخل سے زیادہ۔—پیدایش 29:31۔
غور کریں کہ یسوع مسیح نے کہا کہ ایک شاگرد کو ”اپنے آپ سے [بھی] نفرت“ کرنی چاہیے۔ اِس کا مطلب ہے کہ ایک سچے شاگرد کو یسوع سے اپنی زندگی سے بھی زیادہ محبت کرنی چاہیے، یہاں تک کہ اُسے یسوع کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہونا چاہیے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کا شاگرد بننا ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو خوب سوچ بچار کرنے کے بعد اُٹھایا جانا چاہیے۔
یسوع کے شاگردوں کو توقع کرنی چاہیے کہ اُنہیں مشکلات اور اذیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یسوع نے کہا: ”جو اپنی سُولی نہیں اُٹھاتا اور میری پیروی نہیں کرتا، وہ میرا شاگرد نہیں بن سکتا۔“ (لُوقا 14:27) یسوع کے سچے شاگردوں کو تکلیف اور ذِلت سہنے کو تیار ہونا چاہیے، بالکل جیسے اُن کے مالک نے سہی تھی۔ یسوع کو تو اپنے دُشمنوں کے ہاتھوں مرنا بھی پڑا۔
جو لوگ یسوع مسیح کے ساتھ یروشلیم جا رہے تھے، اُنہیں اِس بات کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت تھی کہ مسیح کا شاگرد ہونے میں کیا کچھ شامل ہے۔ یسوع نے اِس بات کو واضح کرنے کے لیے یہ مثال دی: ”فرض کریں کہ آپ میں سے ایک آدمی ایک مینار بنانا چاہتا ہے۔ کیا وہ پہلے بیٹھ کر یہ اندازہ نہیں لگائے گا کہ اُس کے پاس اِسے مکمل کرنے کے لیے کافی پیسے ہیں یا نہیں؟ ورنہ شاید وہ مینار کی بنیاد ڈالے لیکن اِسے مکمل نہ کر سکے۔“ (لُوقا 14:28، 29) لہٰذا یسوع کے شاگرد بننے سے پہلے اِن لوگوں کو یہ عزم کر لینا چاہیے کہ خواہ کچھ بھی ہو، وہ مسیح کے شاگرد ہونے کا ہر فرض نبھائیں گے۔ اِس بات پر زور دینے کے لیے یسوع نے ایک اَور مثال دی۔
اُنہوں نے کہا: ”فرض کریں کہ ایک بادشاہ کسی دوسرے بادشاہ کے خلاف جنگ کرنے نکلتا ہے۔ کیا وہ پہلے مشورہ نہیں کرے گا کہ آیا وہ اپنے 10 ہزار فوجیوں کے ساتھ مخالف کے 20 ہزار فوجیوں کو شکست دے سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر لُوقا 14:31-33۔
اُسے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ دوسرے بادشاہ کو شکست نہیں دے پائے گا تو وہ صلح کرنے کے لیے دُور سے ہی اُس کے پاس سفیر بھیجے گا۔“ یسوع نے اِن مثالوں کا سبق یوں واضح کِیا: ”لہٰذا یہ جان لیں کہ آپ میں سے جو شخص اپنے سارے مال کو خدا حافظ نہیں کہتا، وہ میرا شاگرد نہیں بن سکتا۔“—یسوع مسیح کی یہ بات صرف اُن لوگوں پر لاگو نہیں ہوتی تھی جو اُن کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ جو کوئی بھی یسوع کا شاگرد بننا چاہتا ہے، اُسے اِن باتوں پر عمل کرنا چاہیے۔ اُسے اپنا سب کچھ، یہاں تک کہ اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہونا چاہیے۔ اِس لیے یہ قدم اُٹھانے سے پہلے خوب سوچ بچار اور دُعا کرنا ضروری ہے۔
پھر یسوع مسیح نے ایک ایسے موضوع پر بات کی جس کا ذکر وہ پہاڑی وعظ میں بھی کر چُکے تھے۔ اُس وقت اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو ’دُنیا کا نمک‘ کہا تھا۔ (متی 5:13) غالباً اُن کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح نمک چیزوں کو خراب ہونے سے محفوظ رکھتا ہے اُسی طرح اُن کے شاگرد لوگوں کو خدا سے دُور ہونے اور غلط کاموں میں پڑنے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اب جبکہ یسوع کا دورِخدمت ختم ہونے والا تھا، اُنہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”بےشک نمک اچھی چیز ہے۔ لیکن اگر نمک کا ذائقہ ختم ہو جائے تو اُسے پھر سے نمکین کیسے بنایا جا سکتا ہے؟“ (لُوقا 14:34) شاگرد جانتے تھے کہ اُس زمانے میں نمک میں کبھی کبھار ریت اور مٹی ملی ہوتی تھی جس کی وجہ سے وہ کسی کام کا نہیں ہوتا تھا۔
لہٰذا یسوع مسیح اپنے شاگردوں کو آگاہ کر رہے تھے کہ خواہ وہ کتنے ہی عرصے سے اُن کے شاگرد کیوں نہ ہوں، اُنہیں اپنے اِس عزم پر قائم رہنا چاہیے کہ وہ شاگرد ہونے کے فرائض نبھاتے رہیں گے۔ اگر وہ اپنے اِس عزم پر قائم نہیں رہیں گے تو وہ ایسے نمک کی طرح ہوں گے جس کا ذائقہ ختم ہو گیا ہو اور جو کسی کام کا نہ ہو۔ ایسی صورت میں شاید اُن کا مذاق اُڑایا جائے گا، یہاں تک کہ یہوواہ خدا کی بدنامی ہوگی۔ اور اِتنا ہی نہیں، وہ اُس کی خوشنودی کھونے کے خطرے میں بھی ہوں گے۔ یسوع مسیح نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے شاگردوں کا ایسا انجام ہو اِس لیے اُنہوں نے آخر میں کہا: ”جس کے کان ہیں، وہ سنے۔“—لُوقا 14:35۔