مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

باب 96

ایک امیر حاکم کا سوال

ایک امیر حاکم کا سوال

متی 19:‏16-‏30 مرقس 10:‏17-‏31 لُوقا 18:‏18-‏30

  • ایک امیر آدمی نے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے متعلق سوال کِیا

یسوع مسیح یروشلیم کے سفر پر تھے اور اب پیریہ سے گزر رہے تھے۔ راستے میں ایک امیر آدمی بھاگا بھاگا اُن کے پاس آیا اور اُن کے سامنے گھٹنوں کے بل گِر گیا۔ یہ جوان آدمی ”‏ایک حاکم“‏ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی عبادت‌گاہ کا پیشوا تھا یا عدالتِ‌عظمیٰ کا ایک رُکن تھا۔ اُس نے یسوع مسیح سے یہ سوال کِیا:‏ ”‏اچھے اُستاد، مجھے کیا کرنا چاہیے تاکہ مجھے ہمیشہ کی زندگی ورثے میں ملے؟“‏—‏لُوقا 8:‏41؛‏ 18:‏18؛‏ 24:‏20‏۔‏

اِس پر یسوع نے اُس سے کہا:‏ ”‏آپ مجھے کیوں اچھا کہہ رہے ہیں؟ کوئی اچھا نہیں سوائے خدا کے۔“‏ (‏لُوقا 18:‏19‏)‏ ہو سکتا ہے کہ اُس آدمی نے یسوع مسیح کے لیے لقب ”‏اچھا اُستاد“‏ اِس لیے اِستعمال کِیا کیونکہ ربّیوں کو اِسی لقب سے پکارا جاتا تھا۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ یسوع ایک اچھے اُستاد تھے لیکن اُنہوں نے اُس آدمی پر واضح کِیا کہ لفظ ”‏اچھا“‏ لقب کے طور پر صرف خدا کے لیے اِستعمال کِیا جانا چاہیے۔‏

پھر یسوع مسیح نے اُس سے کہا:‏ ”‏لیکن اگر آپ زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو حکموں پر عمل کرتے رہیں۔“‏ اُس جوان آدمی نے کہا:‏ ”‏کون سے حکموں پر؟“‏ یسوع نے دس حکموں میں سے اِن پانچ کا ذکر کِیا:‏ ”‏قتل نہ کرو؛ زِنا نہ کرو؛ چوری نہ کرو؛ جھوٹی گواہی نہ دو؛ ماں باپ کی عزت کرو۔“‏ اِس کے بعد اُنہوں نے اِس اہم حکم کا بھی ذکر کِیا:‏ ”‏اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جس طرح تُم اپنے آپ سے کرتے ہو۔“‏—‏متی 19:‏17-‏19‏۔‏

اُس آدمی نے کہا:‏ ”‏اِن سب حکموں پر تو مَیں عمل کرتا ہوں۔ پھر مجھ میں کس بات کی کمی ہے؟“‏ (‏متی 19:‏20‏)‏ شاید اُسے لگ رہا تھا کہ وہ کوئی ایسا نیک کام کرنا بھول گیا ہے جس سے اُس کو ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔ یسوع مسیح نے بھانپ لیا کہ اُس آدمی نے یہ سوال خلوصِ‌دل سے پوچھا ہے اِس لیے اُنہیں ”‏اُس پر پیار آیا۔“‏ (‏مرقس 10:‏21‏)‏ مگر اُس آدمی کی راہ میں ایک رُکاوٹ تھی۔‏

دراصل اُس کو اپنے مال‌ودولت سے بڑا پیار تھا اِس لیے یسوع مسیح نے اُس سے کہا:‏ ”‏آپ کو ایک اَور کام کرنے کی ضرورت ہے:‏ جائیں، اپنا مال بیچ کر سارا پیسہ غریبوں کو دے دیں تاکہ آپ آسمان پر خزانہ جمع کریں۔ اور پھر میرے پیروکار بن جائیں۔“‏ یسوع کی بات سُن کر اُس آدمی کو اپنا مال‌واسباب غریبوں میں بانٹ دینا چاہیے تھا جو اُسے بدلے میں کچھ نہیں دے سکتے تھے اور پھر یسوع کا پیروکار بن جانا چاہیے تھا۔ لیکن اُس نے ایسا نہیں کِیا بلکہ وہ غمگین ہو کر وہاں سے چلا گیا۔ اُسے اپنا مال‌ودولت اِتنا عزیز تھا کہ اُس نے حقیقی خزانہ حاصل کرنے کا موقع گنوا دیا۔ (‏مرقس 10:‏21، 22‏)‏ یہ دیکھ کر یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جن لوگوں کے پاس پیسہ ہے، اُن کے لیے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا کتنا مشکل ہوگا!‏“‏—‏لُوقا 18:‏24‏۔‏

یہ بات سُن کر شاگرد بہت حیران ہوئے مگر پھر یسوع مسیح نے ایک ایسی بات کہی جسے سُن کر وہ اَور بھی حیران ہوئے۔ یسوع نے کہا:‏ ”‏دراصل ایک امیر آدمی کے لیے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا اُتنا ہی مشکل ہے جتنا ایک اُونٹ کے لیے سوئی کے ناکے سے گزرنا۔“‏ شاگردوں نے اُن سے پوچھا:‏ ”‏پھر کون نجات حاصل کر سکتا ہے؟“‏ اُنہیں لگ رہا تھا کہ نجات حاصل کرنا اِنسانوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ لیکن یسوع مسیح نے اُن سے کہا:‏ ”‏اِنسانوں کے لیے جو کچھ ناممکن ہے، وہ خدا کے لیے ممکن ہے۔“‏—‏لُوقا 18:‏25-‏27‏۔‏

اُس امیر آدمی کے برعکس یسوع مسیح کے شاگردوں نے اُن کا پیروکار بننے کی خاطر بڑی قربانیاں دی تھیں۔ اِس لیے پطرس نے کہا:‏ ”‏مالک!‏ ہم نے سب کچھ چھوڑ دیا ہے اور آپ کے پیروکار بن گئے ہیں۔ ہمیں کیا ملے گا؟“‏ یسوع نے جواب دیا:‏ ”‏جب سب کچھ نیا بنایا جائے گا اور اِنسان کا بیٹا اپنے شان‌دار تخت پر بیٹھے گا تو آپ جو میری پیروی کر رہے ہیں، 12 تختوں پر بیٹھیں گے اور اِسرائیل کے 12 قبیلوں کا اِنصاف کریں گے۔“‏—‏متی 19:‏27، 28‏۔‏

یسوع مسیح مستقبل کی بات کر رہے تھے جب زمین پر دوبارہ سے باغِ‌عدن جیسا فردوس قائم ہوگا۔ تب پطرس اور باقی شاگرد یسوع کے ساتھ اِس فردوس پر حکمرانی کریں گے۔ یہ کتنا شان‌دار اِنعام ہوگا!‏ اِس کے مقابلے میں وہ قربانیاں کچھ بھی نہیں جو شاگردوں نے دی تھیں۔‏

لیکن شاگردوں کو صرف مستقبل میں نہیں بلکہ اُس وقت بھی اِنعام مل رہا تھا۔ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جس شخص نے خدا کی بادشاہت کی خاطر گھر یا بیوی یا بھائی یا والدین یا بچے چھوڑ دیے ہیں، اُسے اِس زمانے میں کثرت سے ملے گا اور آنے والے زمانے میں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔“‏—‏لُوقا 18:‏29، 30‏۔‏

یسوع مسیح کے پیروکاروں میں محبت اور اپنائیت کا جو رشتہ تھا، وہ سگے رشتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھا۔ مگر جہاں تک اُس امیر آدمی کی بات تھی، غالباً اُسے نہ تو یہ اِنعام ملا اور نہ ہی خدا کی بادشاہت میں آسمان پر حکمرانی کرنے کا اِنعام۔ یہ کتنے افسوس کی بات تھی!‏

پھر یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏لیکن بہت سے لوگ جو پہلے ہیں، وہ آخری ہو جائیں گے اور جو آخری ہیں، وہ پہلے ہو جائیں گے۔“‏ (‏متی 19:‏30‏)‏ اِس کا کیا مطلب تھا؟‏

امیر آدمی اِس لحاظ سے ”‏پہلے“‏ تھا کہ اُس کا شمار یہودیوں کے حاکموں میں تھا۔ چونکہ وہ خدا کے حکموں پر عمل کر رہا تھا اِس لیے اُس کے لیے یسوع کا پیروکار بننا قدراً آسان تھا اور وہ اُن لوگوں کے لیے بہت کچھ کر سکتا تھا جو مسیح کی پیروی کر رہے تھے۔ لیکن اُس نے مال‌ودولت کو زندگی میں پہلا درجہ دیا۔ اُس کے برعکس عام لوگ یسوع کی تعلیم سُن کر جان گئے کہ وہ سچائی سکھا رہے ہیں اور اُنہیں زندگی کا راستہ دِکھا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ ”‏آخری“‏ تھے لیکن اب وہ ’‏پہلے ہو رہے تھے‘‏ کیونکہ وہ آسمان پر یسوع مسیح کے ساتھ تختوں پر بیٹھ کر فردوس پر حکمرانی کرنے کی اُمید رکھ سکتے تھے۔‏