”تُم نہ اُس دن کو جانتے ہو نہ اُس گھڑی کو“
”تُم نہ اُس دن کو جانتے ہو نہ اُس گھڑی کو“
”پس جاگتے رہو کیونکہ تُم نہ اُس دن کو جانتے ہو نہ اُس گھڑی کو۔“—متی ۲۵:۱۳۔
آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟
خاتمے کے دن اور گھڑی کو نہ جاننے سے ہمیں کونسے فائدے ہوتے ہیں؟
ممسوح مسیحیوں نے یہ کیسے ظاہر کِیا ہے کہ وہ جاگ رہے ہیں؟
ہم کن طریقوں سے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم مسیح کے آنے کے لئے تیار ہیں؟
۱-۳. (الف) کونسی صورتیں دس کنواریوں اور توڑوں کی تمثیلوں کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں؟
ذرا سوچیں کہ ایک بڑا افسر آپ سے کہتا ہے کہ آپ نے اُسے ایک اہم میٹنگ کے لئے چھوڑ کر آنا ہے۔ اُسے میٹنگ پر لے جانے سے چند منٹ پہلے آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کی گاڑی میں تو پٹرول بہت کم ہے۔ آپ جلدی سے پٹرول لینے کے لئے جاتے ہیں۔ لیکن آپ کے جانے کے بعد وہ افسر آ جاتا ہے۔ وہ آپ کو اِدھراُدھر ڈھونڈتا ہے لیکن آپ اُسے کہیں نظر نہیں آتے۔ وہ آپ کا انتظار نہیں کر سکتا اِس لئے وہ کسی اَور ڈرائیور سے کہتا ہے کہ اُسے میٹنگ میں لے جائے۔ آپ جلد ہی واپس آ جاتے ہیں مگر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ افسر تو جا چُکا ہے۔ اِس صورت میں آپ کو کیسا لگے گا؟
۲ اب ذرا تصور کریں کہ آپ ایک افسر ہیں۔ آپ کچھ عرصے کے لئے کہیں باہر جا رہے ہیں۔ جانے سے پہلے آپ تین لائق ملازموں کو چنتے ہیں اور اُنہیں کچھ اہم کام کرنے کی ذمہداری سونپتے ہیں۔ آپ اُنہیں اچھی طرح کام سمجھا دیتے ہیں اور وہ تینوں اِسے کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب آپ واپس آتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ اُن میں سے دو ملازموں نے کام کِیا ہے اور ایک نے نہیں کِیا۔ اور جس ملازم نے کام نہیں کِیا، وہ آپ کے سامنے بہانے بنا رہا ہے۔ اصل میں اُس نے وہ کام کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ اِس صورت میں آپ کیسا محسوس کریں گے؟
۳ دس کنواریوں اور توڑوں کی تمثیلوں میں یسوع مسیح نے کچھ ایسی ہی صورتیں بیان کی تھیں۔ اِن تمثیلوں میں یسوع مسیح نے ظاہر کِیا تھا کہ آخری زمانے کے دوران کیوں بعض ممسوح مسیحی تو عقلمند اور دیانتدار ثابت ہوں گے اور کچھ نہیں ہوں گے۔ * (متی ۲۵:۱-۳۰) یسوع مسیح نے اپنی اِن تمثیلوں کے معنی کو واضح کرنے کے لئے کہا: ”پس جاگتے رہو کیونکہ تُم نہ اُس دن کو جانتے ہو نہ اُس گھڑی کو۔“ اُن کے شاگرد اُس مقررہ وقت کو نہیں جانتے تھے جب یسوع مسیح، شیطان کی دُنیا کو ختم کریں گے۔ (متی ۲۵:۱۳) آج ہمیں بھی ’جاگتے رہنے‘ کی ضرورت ہے۔ یسوع مسیح کی نصیحت پر عمل کرنا ہمارے لئے کیوں فائدہمند ہے؟ کن لوگوں نے یہ ثابت کِیا ہے کہ وہ جاگ رہے ہیں؟ اور ہمیں اب کیا کرنا چاہئے تاکہ ہم جاگتے رہیں؟
’جاگتے رہنے‘ کے فائدے
۴. کیا جاگتے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر وقت یہی سوچتے رہیں کہ خاتمہ کب آئے گا؟
۴ بعض کاموں میں وقت کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی فیکٹری میں کام
کرتے ہیں، آپ کو ڈاکٹر سے ملنا ہے یا پھر بس یا ٹرین پکڑنی ہے تو آپ کو وقت کا خیال رکھنا پڑتا ہے تاکہ آپ کو دیر نہ ہو جائے۔ لیکن آگ بجھانے والا عملہ یا قدرتی آفت کے بعد لوگوں کی جانیں بچانے والا عملہ اگر ہر وقت گھڑی کو دیکھتا رہے تو وہ اپنے کام پر دھیان نہیں دے پائے گا۔ یوں عملے کے لوگوں کی اور دوسرے لوگوں کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔ ایسے حالات میں اہم بات یہ ہے کہ اُن کی توجہ وقت کی بجائے اُن کے کام پر رہے۔ اِس دُنیا کا خاتمہ تیزی سے نزدیک آ رہا ہے اِس لئے آجکل مُنادی کا کام کرنا اشد ضروری ہے۔ اِس کام کے ذریعے ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں نجات دینے کے لئے کیا بندوبست کِیا ہے۔ جاگتے رہنے اور خدا کی مرضی کے مطابق چلنے کے لئے یہ جاننا ضروری نہیں کہ خاتمہ کب آئے گا۔ دراصل خاتمے کے دن اور گھڑی سے واقف نہ ہونا ہمارے لئے فائدہمند ہے۔ اِس سے ہمیں کمازکم پانچ فائدے ہوتے ہیں۔۵. خاتمے کے وقت کو نہ جاننے سے ہمیں کیا ظاہر کرنے کا موقع ملتا ہے؟
۵ پہلا فائدہ: خاتمے کے وقت کو نہ جاننے سے ہمیں یہ ظاہر کرنے کا موقع ملتا ہے کہ ہم کس نیت سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔ دراصل خاتمے کا وقت نہ بتا کر یہوواہ خدا نے ہمیں اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا ہے کہ ہم اُس کے وفادار رہیں گے یا نہیں۔ ایسا کرنے سے اُس نے ہمیں عزت بخشی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم اِس دُنیا کے خاتمے سے بچنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ لیکن ہم صرف اِس لئے خدا کی خدمت نہیں کرتے کہ ہم ہمیشہ کی زندگی پانا چاہتے ہیں بلکہ ہم محبت کی وجہ سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔ (زبور ۳۷:۴ کو پڑھیں۔) ہمیں خدا کی مرضی پر چلنے سے خوشی ملتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں جو تعلیم دے رہا ہے، وہ ہمارے فائدے کے لئے ہے۔ (یسع ۴۸:۱۷) ہم اُس کے حکموں کو بوجھ نہیں سمجھتے۔—۱-یوح ۵:۳۔
۶. جب ہم محبت کی وجہ سے خدا کی خدمت کرتے ہیں تو اُسے کیسا محسوس ہوتا ہے اور کیوں؟
۶ دوسرا فائدہ: خاتمے کے وقت کو نہ جاننے سے ہمیں یہوواہ خدا کا دل شاد کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہم کسی خاص دن یا کسی انعام کو ذہن میں رکھ کر خدا کی خدمت نہیں کرتے بلکہ محبت کی وجہ سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔ یوں ہم یہوواہ خدا کو یہ ثابت کرنے کا ایک اَور موقع فراہم کرتے ہیں کہ شیطان جھوٹا ہے۔ (ایو ۲:۴، ۵؛ امثال ۲۷:۱۱ کو پڑھیں۔) ہم جانتے ہیں کہ شیطان نے اِس دُنیا میں دُکھ اور غم کا طوفان پیدا کر رکھا ہے۔ اِس لئے ہم شیطان کی گھٹیا حکمرانی کو رد کرتے ہیں اور یہوواہ خدا کی حکمرانی کی حمایت کرتے ہیں۔
۷. آپ اپنی زندگی یہوواہ خدا اور دوسروں کی خدمت کرنے کے لئے کیوں استعمال کرنا چاہتے ہیں؟
۷ تیسرا فائدہ: خاتمے کے مقررہ وقت کو نہ جاننے سے ہمیں یہوواہ خدا اور دوسروں کی بےلوث خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ آجکل جو لوگ خدا کو نہیں جانتے، اُن میں سے بھی بعض کہتے ہیں کہ یہ دُنیا زیادہ دیر چلنے والی نہیں۔ چونکہ اُنہیں اِس بات کا خوف ہے کہ کوئی بہت بڑی تباہی آنے والی ہے اِس لئے اُن کی سوچ یہ ہے کہ ”آؤ کھائیں پئیں کیونکہ کل تو مر ہی جائیں گے۔“ (۱-کر ۱۵:۳۲) لیکن ہم مستقبل سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ ہم اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کی دُھن میں نہیں رہتے۔ (امثا ۱۸:۱) اِس کی بجائے ہم ”اپنی خودی کا انکار“ کرتے ہیں اور اپنا وقت، توانائی بلکہ اپنا سب کچھ دوسروں کو بادشاہت کی خوشخبری سنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ (متی ۱۶:۲۴) ہمیں خدا کی خدمت کرنے سے خوشی ملتی ہے، خاص طور پر جب ہم خدا کو جاننے میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو ہماری خوشی دوبالا ہو جاتی ہے۔
۸. بائبل میں درج کونسی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں یہوواہ خدا اور اُس کے کلام پر اَور زیادہ بھروسا کرنے کی ضرورت ہے؟
۸ چوتھا فائدہ: خاتمے کے وقت کو نہ جاننے سے ہمارے اندر یہ احساس بڑھتا ہے کہ ہمیں یہوواہ خدا پر اَور زیادہ بھروسا کرنے اور اُس کے ہر حکم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ گنہگار ہونے کی وجہ سے ہم اکثر اپنی ذات پر بھروسا کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ پولس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی تھی کہ ”جو کوئی اپنے آپ کو قائم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گِر نہ پڑے۔“ اِس سلسلے میں اُنہوں نے اُن ۲۳ ہزار اسرائیلیوں کا ذکر کِیا جو کنعان کے ملک میں داخل ہونے سے تھوڑا پہلے خدا کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تھے۔ پولس رسول نے کہا کہ ”یہ باتیں اُن پر عبرت کے لئے واقع ہوئیں اور ہم آخری زمانہ والوں کی نصیحت کے واسطے لکھی گئیں۔“—۱-کر ۱۰:۸، ۱۱، ۱۲۔
۹. ہم مشکلات میں اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اور خدا کے اَور زیادہ قریب جانے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟
۹ پانچواں فائدہ: خاتمے کے وقت کو نہ جاننے سے ہمیں مشکلات میں اپنے ایمان کو مضبوط کرنے اور اپنی خوبیوں کو نکھارنے کا موقع ملتا ہے۔ (زبور ۱۱۹:۷۱ کو پڑھیں۔) یہ دُنیا واقعی ’بُرے دنوں‘ سے گزر رہی ہے۔ (۲-تیم ۳:۱-۵) شیطان کی دُنیا کے بہت سے لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں اِس لئے ہمیں اذیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ (یوح ۱۵:۱۹؛ ۱۶:۲) لیکن جس طرح سونا آگ میں جل کر اَور بھی خالص ہو جاتا ہے اُسی طرح اگر ہم مشکلات میں خاکساری سے کام لیں گے اور خدا کی رہنمائی کے مطابق چلیں گے تو ہمارا ایمان اَور بھی مضبوط ہو جائے گا۔ ہم مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہارتے بلکہ ہم یہوواہ خدا کے اَور بھی قریب ہو جاتے ہیں۔—یعقو ۱:۲-۴؛ ۴:۸۔
۱۰. کس صورت میں لگتا ہے کہ وقت بڑی تیزی سے کٹ جاتا ہے؟
۱۰ کبھیکبھار تو ہمیں لگتا ہے کہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے جبکہ بعض اوقات لگتا ہے کہ وقت گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ لیکن جب ہم کسی کام میں مصروف
ہوتے ہیں اور ہم بار بار گھڑی کو نہیں دیکھتے تو وقت بڑی تیزی سے کٹ جاتا ہے۔ اِسی طرح اگر ہم اُس کام میں مگن رہیں گے جو یہوواہ خدا نے ہمیں دیا ہے تو شاید ہمیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور خاتمے کا وقت آ جائے گا۔ اِس سلسلے میں بہت سے ممسوح مسیحیوں نے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ جب یسوع مسیح ۱۹۱۴ء میں بادشاہ بن گئے تو اِس کے بعد کیا ہوا۔ ہم دیکھیں گے کہ اُس وقت کیسے بعض ممسوح مسیحیوں نے ظاہر کِیا کہ وہ خاتمے کے لئے تیار ہیں جبکہ بعض نے ظاہر کِیا کہ وہ تیار نہیں ہیں۔ممسوح مسیحی ’تیار رہتے‘ ہیں
۱۱. سن ۱۹۱۴ء کے بعد بعض ممسوح مسیحیوں نے یہ کیوں سوچا کہ یسوع مسیح آنے میں دیر کر رہے ہیں؟
۱۱ دس کنواریوں اور توڑوں کے بارے میں یسوع مسیح کی تمثیلوں پر پھر سے غور کریں۔ اگر کنواریوں کو معلوم ہوتا کہ دُلہا کب آئے گا یا نوکروں کو پتہ ہوتا کہ مالک کب آئے گا تو اُنہیں جاگتے رہنے یا تیار رہنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ لیکن چونکہ اُنہیں مقررہ وقت کا پتہ نہیں تھا اِس لئے اُنہیں ہر وقت تیار رہنے کی ضرورت تھی۔ ممسوح مسیحی کئی سالوں سے جانتے تھے کہ ۱۹۱۴ء کا سال بہت اہم ہوگا۔ لیکن وہ پوری طرح نہیں سمجھتے تھے کہ اِس سال میں کیا ہوگا۔ جب اِس سال میں اُن کی توقعات پوری نہ ہوئیں تو بعض ممسوح مسیحیوں نے سوچا کہ یسوع مسیح آنے میں دیر کر رہے ہیں۔ اکتوبر ۱۹۱۴ء کے بارے میں ایک بھائی نے کہا: ”ہم میں سے بعض کو پورا یقین تھا کہ ہم اکتوبر ۱۹۱۴ء کے پہلے ہفتے میں آسمان پر چلے جائیں گے۔“
۱۲. بعض ممسوح مسیحیوں نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ ”دیانتدار اور عقلمند“ ہیں؟
۱۲ ذرا سوچیں کہ ممسوح مسیحی کتنی مشکل صورتحال سے گزر رہے تھے۔ ایک تو اُن کی توقع کے مطابق خاتمہ نہیں آیا تھا اور دوسرا اُنہیں پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے بہت مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ مُنادی کا کام تو جیسے بند ہی ہو گیا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے ممسوح مسیحی سو گئے ہیں۔ لیکن پھر ۱۹۱۹ء میں کچھ ایسا ہوا جس نے اُنہیں نیند سے جگا دیا۔ یسوع مسیح نے اُن تمام لوگوں کی جانچ شروع کر دی جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ بعض مسیحی اِس جانچ پر پورا نہ اُترے۔ وہ اپنے مالک یسوع مسیح کے ”کاروبار“ کو جاری رکھنے کا اعزاز کھو بیٹھے۔ (متی ۲۵:۱۶، نیو اُردو بائبل ورشن) وہ چوکس نہیں تھے۔ وہ اُن بےوقوف کنواریوں کی طرح تھے جن کے پاس اپنی مشعلوں کو دوبارہ بھرنے کے لئے تیل نہیں تھا۔ جس طرح نکمّے نوکر نے اپنے مالک کے کہنے کے مطابق کام نہیں کِیا تھا اُسی طرح وہ بادشاہت کی خاطر قربانیاں دینے کو تیار نہیں تھے۔ لیکن زیادہتر ممسوح مسیحیوں نے اپنے مالک کے لئے وفاداری کا ثبوت دیا اور جنگ کے کٹھن دَور میں بھی اُس کی خدمت کرتے رہے۔
۱۳. سن ۱۹۱۴ء کے بعد زیادہتر ممسوح مسیحیوں کا نظریہ کیا تھا اور آج ممسوح مسیحیوں کا نظریہ کیا ہے؟
۱۳ سن ۱۹۱۶ء کے یکم فروری کے مینارِنگہبانی میں بتایا گیا کہ اُس وقت زیادہتر ممسوح مسیحیوں کا نظریہ کیا تھا۔ رسالے میں بتایا گیا کہ جو ممسوح مسیحی صحیح نظریہ رکھتے تھے، وہ مایوس نہیں ہوئے تھے۔ اِس میں یہ بھی کہا گیا تھا: ”ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری مرضی پوری ہو۔ اکتوبر ۱۹۱۴ء کے بارے میں ہماری توقع تو پوری نہیں ہوئی مگر ہمیں خوشی اِس بات ہے کہ خدا نے اپنے مقصد کو نہیں بدلا۔ اور ہم یہ چاہتے بھی نہیں کہ وہ ہماری خاطر اپنے مقصد کو بدلے۔“ ممسوح مسیحی تو بس خدا کے مقصد کے متعلق اَور گہری سمجھ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ آج بھی ممسوح مسیحی خاکساری سے کام لیتے ہیں اور خدا کی مرضی کے مطابق چلنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ اُنہیں خدا کی طرف سے الہام ملتا ہے۔ وہ بس اُس کام پر دھیان دیتے ہیں جو یسوع مسیح نے اُنہیں سونپا ہے۔ اور ”بڑی بِھیڑ“ یعنی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھنے والے مسیحی اُن کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔ وہ بھی روحانی طور پر جاگتے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔—مکا ۷:۹؛ یوح ۱۰:۱۶۔
”اَور بھی بھیڑیں“ تیار رہتی ہیں
۱۴. دیانتدار اور عقلمند نوکر کی ہدایات پر عمل کرنا ہمارے لئے کیوں فائدہمند ہے؟
۱۴ یہوواہ خدا نے دیانتدار اور عقلمند نوکر کو یہ ذمہداری دی ہے کہ وہ اُس کے بندوں کو وقت پر روحانی خوراک دے۔ انفرادی طور پر ممسوح مسیحی اِس بندوبست سے بھرپور فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ اُن کی طرح بڑی بِھیڑ کے وہ رُکن جو روحانی طور پر جاگ رہے ہیں، دیانتدار نوکر کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے وہ اپنی مشعلوں میں تیل بھرتے رہتے ہیں۔ (زبور ۱۱۹:۱۳۰؛ یوحنا ۱۶:۱۳ کو پڑھیں۔) یوں وہ مسیح کے آنے کے لئے تیار رہتے ہیں، یہاں تک کہ کڑی آزمائشوں میں بھی خدا کے وفادار رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر نازیوں کی ایک جیل میں بھائیوں کے پاس صرف ایک ہی بائبل تھی۔ اُنہوں نے دُعا کی کہ خدا اُنہیں اَور زیادہ روحانی خوراک دے۔ اِس کے کچھ عرصے بعد اُنہیں پتہ چلا کہ ایک اَور بھائی جیل میں آیا ہے اور وہ اپنی لکڑی کی ٹانگ میں مینارِنگہبانی کے کچھ نئے شمارے چھپا کر لایا ہے۔ اِس جیل سے رِہائی پانے والے ایک ممسوح مسیحی ارنسٹ واوَر نے بعد میں بتایا کہ یہوواہ خدا کی مدد سے بھائی رسالوں میں لکھی ہوئی بہت سی باتیں زبانی یاد کر لیتے تھے۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا: ”آجکل روحانی خوراک ہمیں بڑی آسانی سے مل جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اِس کی قدر کرتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ یہوواہ خدا اُن لوگوں کو برکتوں سے مالا مال کرے گا جو اُس پر بھروسا کرتے ہیں، اُس کے وفادار رہتے ہیں اور صرف اُسی کے دسترخوان سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔“
۱۵، ۱۶. ایک مسیحی جوڑے کو محنت سے مُنادی کا کام کرنے کا کیا صلہ ملا اور ہم ایسی مثالوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۵ زمین پر زندگی کی اُمید رکھنے والے مسیحی بھی بڑی محنت کے ساتھ مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں۔ یوں وہ مسیح کے بھائیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ (متی ۲۵:۴۰) وہ اُس شریر اور سُست نوکر کی طرح نہیں ہیں جس کا یسوع مسیح کی تمثیل میں ذکر کِیا گیا ہے۔ وہ خدا کی بادشاہت کی خاطر قربانیاں دینے اور محنت سے کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اِس سلسلے میں جان اور اُن کی بیوی مساکو کی مثال پر غور کریں۔ اُنہیں کینیا جانے کی دعوت دی گئی تاکہ وہ وہاں چینی زبان بولنے والوں کو خوشخبری سنائیں۔ شروع شروع میں تو وہ وہاں جانے سے ہچکچا رہے تھے۔ لیکن پھر اُنہوں نے اِس معاملے کے بارے میں دُعا کی اور اپنی صورتحال پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد کینیا جانے کا فیصلہ کر لیا۔
۱۶ اُنہوں نے بڑی محنت سے مُنادی کا کام کِیا اور یہوواہ خدا نے بھی اُن کے کام میں برکت ڈالی۔ اُنہوں نے بتایا کہ ”یہاں مُنادی کا کام بہت زبردست ہے۔“ اُنہوں نے سات لوگوں کو بائبل کا مطالعہ کرانا شروع کِیا۔ اِس کے علاوہ اُنہیں اَور بھی بہت سے اچھے تجربے ہوئے۔ اُنہوں نے کہا: ”ہم ہر روز یہوواہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے ہمیں یہاں خدمت کرنے کا موقع دیا ہے۔“ اَور بھی بہت سے بہنبھائیوں نے اپنی زندگی میں ایسے فیصلے کئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کی خدمت میں مگن رہنا چاہتے ہیں، چاہے خاتمہ آنے میں جتنا بھی وقت لگے۔ ذرا اُن ہزاروں بہنبھائیوں کے بارے میں سوچیں جنہوں نے گلئیڈ سکول سے تربیت حاصل کرنے کے بعد دوسرے ملکوں میں جا کر خدمت کی ہے۔ ایسے بہنبھائیوں کی زندگی کے بارے میں جاننے کے لئے اکتوبر ۱۵، ۲۰۰۱ء کے مینارِنگہبانی کے مضمون ”ہم اپنی بھرپور کوشش کرتے ہیں!“ کو پڑھیں۔ اِس مضمون کو پڑھنے سے آپ کو پتہ چلے گا کہ ایسے بہنبھائی ایک دن میں کتنے سارے کام کرتے ہیں۔ اِس سے آپ کو یہ سوچنے کا موقع ملے گا کہ آپ کن طریقوں سے یہوواہ خدا کی اَور زیادہ خدمت کر سکتے ہیں جس سے اُس کی بڑائی ہو اور آپ کو خوشی ملے۔
آپ بھی جاگتے رہیں
۱۷. یہ ہمارے لئے کیوں فائدہمند ہے کہ ہم خاتمے کے دن یا گھڑی کو نہیں جانتے؟
۱۷ ہمارے لئے یہ مایوسی یا نااُمیدی کی بات نہیں کہ ہمیں خاتمے کے دن یا گھڑی کا پتہ نہیں ہے۔ اِس کی بجائے یہ ہمارے لئے فائدہمند ثابت ہوا ہے۔ ہمیں موقع ملا ہے کہ ہم دلوجان سے خدا کی مرضی کے مطابق چلیں اور اُس کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کریں۔ چونکہ ہم ہل پر ہاتھ رکھ کر پیچھے نہیں دیکھتے یعنی اپنا دھیان یہوواہ خدا کی خدمت پر رکھتے ہیں اِس لئے ہمیں اَنگنت خوشیاں ملتی ہیں۔—لو ۹:۶۲۔
۱۸. ہم یہوواہ خدا کے وفادار کیوں رہنا چاہتے ہیں؟
۱۸ اِس دُنیا کا خاتمہ بہت نزدیک ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کو مایوس نہیں کرنا چاہتے۔ اُنہوں نے ہمیں اِس آخری زمانے میں ایک بہت ہی اہم کام کرنے کی ذمہداری دی ہے۔ ہم اُن کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُنہوں نے ہم پر اعتماد کِیا ہے اور ہمیں اپنی خدمت کے لائق سمجھا ہے۔—۱-تیمتھیس ۱:۱۲ کو پڑھیں۔
۱۹. ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم خاتمے کے لئے تیار ہیں؟
۱۹ چاہے ہم زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہیں یا آسمان پر، آئیں، ہم یہ عزم کریں کہ ہم بادشاہت کی مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کا کام جیجان سے کرتے رہیں گے۔ ہمیں خاتمے کے دن یا گھڑی کو جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اِسے جانے بغیر بھی تیار رہ سکتے ہیں اور ہم تیار رہیں گے بھی۔ (متی ۲۴:۳۶، ۴۴) ہمیں پورا یقین ہے کہ اگر ہم یہوواہ خدا پر بھروسا رکھیں گے اور اُس کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں سب سے اہم مقام دیں گے تو ہم کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔—روم ۱۰:۱۱۔
[فٹنوٹ]
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
کٹھن حالات میں بھی روحانی خوراک حاصل کرنے کی کوشش کریں۔