یہوواہ خدا کی خدمت کریں جو حقیقی آزادی کا سرچشمہ ہے
یہوواہ خدا کی خدمت کریں جو حقیقی آزادی کا سرچشمہ ہے
”خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں اور اُس کے حکم سخت نہیں۔“—۱-یوح ۵:۳۔
آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟
شیطان ہمیں یہ تاثر کیسے دیتا ہے کہ خدا کے حکم بہت سخت ہیں؟
ہمیں اپنے دوستوں کا انتخاب سوچسمجھ کر کیوں کرنا چاہئے؟
یہوواہ خدا کے وفادار رہنے کے لئے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
۱. یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو کیا آزادی دی تھی اور اِس سے ہم یہوواہ خدا کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
صرف یہوواہ خدا ہی مکمل آزادی کا مالک ہے۔ وہ اِسے ہمیشہ جائز طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کے ہر چھوٹےچھوٹے کام کو کنٹرول نہیں کرتا۔ اِس کے برعکس اُس نے اُنہیں اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی آزادی دی ہے۔ اِس آزادی کی بدولت وہ اپنی جائز خواہشوں کو پورا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ غور کریں کہ اُس نے آدم اور حوا کو صرف ایک حکم دیا تھا۔ اُس نے اُن سے کہا تھا کہ تُم ”نیکوبد کی پہچان کے درخت“ کا پھل نہ کھانا۔ (پید ۲:۱۷) اِس حکم کو ماننا آدم اور حوا کے لئے لازمی تھا۔ پھر بھی اُنہیں بہت سارے معاملات میں اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی آزادی حاصل تھی۔
۲. آدم اور حوا اُس آزادی کو کیوں کھو بیٹھے جو یہوواہ خدا نے اُنہیں دی تھی؟
۲ خدا نے آدم اور حوا کو اِتنی آزادی کیوں دی تھی؟ خدا نے اُنہیں اپنی صورت پر بنایا تھا اور اُنہیں ضمیر عطا کِیا تھا۔ اِس لئے خدا کو توقع تھی کہ وہ اُسے اپنا خالق سمجھتے ہوئے اُس سے محبت کریں گے اور اُس کی مرضی پر چلیں گے۔ (پید ۱:۲۷؛ روم ۲:۱۵) مگر افسوس کی بات ہے کہ آدم اور حوا نے اپنے خالق کی کوئی قدر نہ کی۔ اُنہوں نے اُس آزادی کی بھی ناقدری کی جو خدا نے اُنہیں دی تھی۔ اُنہوں نے یہ فیصلہ کِیا کہ وہ اپنے اچھے بُرے کا انتخاب خود کریں گے۔ اُن کا خیال تھا کہ اِس طرح اُنہیں زیادہ آزادی حاصل ہوگی۔ درحقیقت اُن کے اِس غلط فیصلے کی وجہ سے نہ صرف وہ خود بلکہ اُن کی ساری اولاد بھی گُناہ کی غلامی میں آ گئی جس کے بہت ہی سنگین نتائج نکلے۔—روم ۵:۱۲۔
۳، ۴. یہوواہ خدا کے حکموں کے بارے میں شیطان ہمیں کیا سوچنے پر اُکساتا ہے اور وہ یہ کیسے کرتا ہے؟
۳ اگر شیطان، فرشتوں کو اور بےعیب انسانوں کو خدا کے خلاف بغاوت کرنے پر ورغلا سکتا ہے تو اُس کے لئے ہمیں ورغلانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ شیطان کے حربے آج بھی نہیں بدلے۔ وہ ہمیں یہ سوچنے پر اُکساتا ہے کہ خدا کے حکم بہت سخت ہیں اور اگر ہم خدا کے حکم مانیں گے تو ہم زندگی کا مزہ نہیں لے سکیں گے۔ (۱-یوح ۵:۳) دُنیا میں بہت سے لوگ ایسی ہی سوچ رکھتے ہیں۔ اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں تو اُن کی سوچ ہم پر بھی اثر کر سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں ایک بہن کی مثال پر غور کریں جن کی عمر ۲۴ سال ہے۔ وہ بُرے دوستوں کی صحبت سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ اُسے ڈر تھا کہ اگر وہ اپنے دوستوں سے فرق نظر آئے گی تو اُس کے دوست اُسے پسند نہیں کریں گے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حرامکاری کر بیٹھی۔ شاید آپ نے خود بھی دیکھا ہوگا کہ دوستوں کا اثر بہت طاقتور ہوتا ہے۔
۴ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کلیسیا کے کچھ لوگ بھی ہم پر بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ایک نوجوان نے کہا: ”کلیسیا میں میرے کچھ دوست ایسے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ چکر چلا رہے تھے جو یہوواہ کے گواہ نہیں تھے۔ مَیں اِن دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے اُنہی جیسا بنتا جا رہا تھا۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ مَیں یہوواہ خدا سے دُور ہوتا جا رہا ہوں۔ مجھے اجلاسوں پر جانے سے کوئی خوشی نہیں ہوتی تھی اور مَیں مُنادی کے کام میں تو بہت ہی کم حصہ لیتا تھا۔ اِن باتوں کی وجہ سے مجھے احساس ہوا کہ مجھے اِن دوستوں کا ساتھ چھوڑ دینا چاہئے۔ اور مَیں نے ایسا ہی کِیا۔“ کیا آپ اِس حقیقت سے واقف ہیں کہ آپ کے دوست آپ پر بہت گہرا اثر ڈال سکتے ہیں؟ آئیں، اِس سلسلے میں بائبل سے ایک مثال پر غور کریں۔—روم ۱۵:۴۔
اُس نے اُن کے دل موہ لئے
۵، ۶. ابیسلوم نے لوگوں کو دھوکا کیسے دیا اور کیا اُن کی سازش کامیاب ہوئی تھی؟
۵ بائبل میں ایسے بہت سے لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جنہوں نے دوسروں پر بُرا اثر ڈالا تھا۔ اِن میں سے ایک ابیسلوم تھے جو داؤد بادشاہ کے بیٹے تھے۔ ابیسلوم بہت ہی خوبصورت تھے۔ لیکن شیطان کی طرح اُن کے دل میں بھی اختیار حاصل کرنے کی ہوس پیدا ہو گئی۔ وہ اپنے باپ داؤد کا تخت ہتھیانا چاہتے تھے حالانکہ وہ تخت کے وارث نہیں تھے۔ * ابیسلوم نے بادشاہ بننے کی خاطر بڑی چالاکی سے کام لیا۔ اُنہوں نے لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ اُنہیں اُن کی بڑی فکر ہے جبکہ بادشاہ کو اُن کی کوئی پرواہ نہیں۔ جس طرح اِبلیس نے حوا کو یہ یقین دِلایا تھا کہ وہ اُس کی بھلائی چاہتا ہے اُسی طرح ابیسلوم نے لوگوں کو یقین دِلایا کہ وہ اُن کی بھلائی چاہتے ہیں۔ اور جیسے اِبلیس نے یہوواہ خدا کے بارے میں جھوٹ بولا تھا ویسے ہی ابیسلوم نے اپنے باپ کے بارے میں بہت بڑا جھوٹ بولا تھا۔—۲-سمو ۱۵:۱-۵۔
۶ کیا ابیسلوم کی سازش کامیاب ہوئی تھی؟ اُنہیں کسی حد تک تو کامیابی ضرور ملی تھی کیونکہ بائبل میں لکھا ہے کہ ”ابیؔسلوم نے اِسرائیل کے لوگوں کے دل موہ لئے۔“ (۲-سمو ۱۵:۶) لیکن ابیسلوم کا غرور آخرکار اُن کی بربادی کا باعث بنا۔ وہ نہ صرف اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ اُن ہزاروں لوگوں کو بھی موت کے مُنہ میں دھکیل دیا جو اُن کے دھوکے میں آ گئے تھے۔—۲-سمو ۱۸:۷، ۱۴-۱۷۔
۷. ہم ابیسلوم کی مثال سے کیا سیکھتے ہیں؟ (صفحہ ۲۰ پر تصویر کو دیکھیں۔)
۷ اسرائیلی اِتنی آسانی سے ابیسلوم کے جھانسے میں کیوں آ گئے تھے؟ شاید اُنہیں وہ وعدے بہت اچھے لگے تھے جو ابیسلوم نے اُن سے کئے تھے۔ یا شاید وہ اُن کی خوبصورتی سے متاثر ہو گئے تھے۔ معاملہ چاہے کچھ بھی ہو، یہ بات واضح ہے کہ وہ یہوواہ خدا کے اور اُس کے مقررہ بادشاہ کے وفادار نہیں تھے۔ آجکل بھی شیطان، یہوواہ خدا کے بندوں کے دل موہ لینے کے لئے ابیسلوم جیسے لوگوں کو استعمال کرتا ہے۔ ایسے لوگ شاید یہ کہیں کہ ”خدا کے حکم بہت سخت ہیں۔ جو لوگ خدا کے حکموں کو نہیں مانتے، اصل میں وہی زندگی کا مزہ لیتے ہیں۔“ جب آپ ایسی باتیں سنتے ہیں تو کیا آپ فوراً پہچان جاتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے اور آپ خدا کے وفادار رہتے ہیں؟ کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ ”کامل شریعت“ یعنی مسیح کی شریعت ہی حقیقی آزادی دے سکتی ہے؟ (یعقو ۱:۲۵) اگر ایسا ہے تو اِس شریعت کی قدر کرتے رہیں اور کبھی بھی اپنی آزادی کا ناجائز استعمال نہ کریں۔—۱-پطرس ۲:۱۶ کو پڑھیں۔
۸. مثالوں سے واضح کریں کہ خدا کے حکموں کو توڑنے سے خوشی حاصل نہیں ہوتی۔
۸ شیطان خاص طور پر نوجوانوں کو اپنا شکار بناتا ہے۔ ایک بھائی
کی مثال پر غور کریں جس کی عمر اب ۳۰ سال سے زیادہ ہے۔ اُس نے لکھا: ”جب مَیں نوجوان تھا تو مَیں یہ سوچتا تھا کہ خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے ہمیں تحفظ نہیں ملتا بلکہ ہم اُن کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔“ اپنی اِس سوچ کی وجہ سے وہ حرامکاری کر بیٹھا جس کا اُس کی زندگی پر بہت بُرا اثر ہوا۔ اُس نے کہا: ”شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس کئی سال تک مجھے ستاتا رہا۔“ ایک بہن کی مثال پر بھی غور کریں جس نے نوجوانی میں حرامکاری کی۔ اُس نے لکھا: ”حرامکاری کرنے کے بعد مجھ پر غم اور اُداسی کا اندھیرا چھا گیا۔ آج ۱۹ سال بعد بھی میری اُس غلطی کی بُری یادیں مجھے تنگ کرتی ہیں۔“ ایک اَور بہن نے لکھا: ”جب مَیں یہ سوچتی تھی کہ میرے بُرے چالچلن کی وجہ سے میرے گھر والوں اور دوستوں کو کتنا دُکھ پہنچا ہے تو مَیں مایوسی کے سمندر میں ڈوب جاتی تھی۔ مجھے احساس تھا کہ مَیں یہوواہ خدا کی قربت کھو چکی ہوں۔ اور اِس احساس کے ساتھ جینا میرے لئے بہت مشکل تھا۔“ لیکن شیطان چاہتا ہے کہ ہم انجام کی پرواہ نہ کریں۔۹. (الف) ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں جن سے یہ پتہ چلے کہ ہم خدا اور اُس کے قوانین کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟ (ب) خدا کو قریب سے جاننا کیوں ضروری ہے؟
۹ اِن مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے قانون توڑنے کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے۔ لیکن اِس بات کا احساس ہمارے بہت سے نوجوانوں اور دیگر بہنبھائیوں کو ایک بھاری قیمت چُکانے کے بعد ہوا۔ (گل ۶:۷، ۸) لہٰذا خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں سمجھتا ہوں کہ مجھے گمراہ کرنے کے لئے شیطان کونسی چالیں استعمال کرتا ہے؟ کیا مَیں یہوواہ خدا کو اپنا دوست سمجھتا ہوں، ایک ایسا دوست جو ہمیشہ سچ بولتا ہے اور میری بھلائی چاہتا ہے؟ کیا مجھے یقین ہے کہ یہوواہ خدا مجھے ایسی چیزوں سے کبھی محروم نہیں رکھے گا جن سے مجھے فائدہ اور خوشی حاصل ہو سکتی ہے؟“ (یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸ کو پڑھیں۔) اگر ہم یہوواہ خدا کو قریب سے جانتے ہیں تو تب ہی ہم اِن سوالوں کے جواب ہاں میں دے سکتے ہیں۔ آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خدا آپ سے محبت کرتا ہے اِسی لئے اُس نے قانون اور اصول بنائے ہیں۔ وہ آپ سے آپ کی آزادی چھیننا نہیں چاہتا۔—زبور ۲۵:۱۴۔
خدا سے ”عاقل اور سمجھنے والا دل“ مانگیں
۱۰. ہمیں سلیمان بادشاہ کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کیوں کرنی چاہئے؟
۱۰ جب سلیمان جوان تھے تو اُنہوں نے بڑی عاجزی سے یہوواہ خدا سے کہا: ”مَیں چھوٹا لڑکا ہی ہوں اور مجھے باہر جانے اور بِھیتر آنے کا شعور نہیں۔“ اُنہوں نے یہوواہ خدا سے درخواست کی کہ وہ اُنہیں ”عاقل اور سمجھنے والا دل“ بخشے۔ (۱-سلا ۳:۷-۹، ۱۲) یہوواہ خدا نے سلیمان بادشاہ کی دُعا سنی۔ چاہے ہم جوان ہوں یا بوڑھے اگر ہم سلیمان بادشاہ کی طرح یہوواہ خدا سے حکمت مانگیں گے تو وہ ہماری ضرور سنے گا۔ یہوواہ خدا ہمیں حکمت اور دانائی دینے کے لئے کوئی معجزہ تو نہیں کرے گا۔ لیکن اگر ہم ہر روز اُس کے کلام کا مطالعہ کریں گے، اُس سے روحُالقدس مانگیں گے اور کلیسیا کے ذریعے ملنے والی تعلیم سے بھرپور فائدہ حاصل کریں گے تو ہمیں حکمت ضرور ملے گی۔ (یعقو ۱:۵) اِن تینوں کاموں کے ذریعے خدا کے خادم اُن لوگوں سے زیادہ دانشمند بن جاتے ہیں جو اُس کے حکموں کو نہیں مانتے۔ یہاں تک کہ خدا کے نوجوان خادم بھی اُن لوگوں کی نسبت زیادہ دانشمند ہوتے ہیں جو خدا کے اصول پر نہیں چلتے۔ اِس دُنیا کے ’دانا اور عقلمند‘ لوگ بھی خدا کے خادموں کی حکمت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔—لو ۱۰:۲۱؛ زبور ۱۱۹:۹۸-۱۰۰ کو پڑھیں۔
۱۱-۱۳. (الف) ہم زبور ۲۶:۴؛ امثال ۱۳:۲۰؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (ب) آپ اِن آیتوں میں دئے گئے اصولوں پر کیسے عمل کریں گے؟
۱۱ آئیں، اب چند آیتوں پر غور کریں جن میں دوستوں کے انتخاب کے سلسلے میں کچھ اہم اصول پائے جاتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم یہ سمجھنے کے قابل ہوں گے کہ خدا کو قریب سے جاننے کے لئے پاک کلام کو پڑھنا اور اِس پر سوچبچار کرنا اِتنا اہم کیوں ہے۔ زبور ۲۶:۴ میں لکھا ہے: ”مَیں بےہودہ لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھا۔ مَیں ریاکاروں کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گا۔“ امثال ۱۳:۲۰ میں ہم پڑھتے ہیں: ”وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائے گا۔“ پہلا کرنتھیوں ۱۵:۳۳ میں بتایا گیا ہے: ”بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔“
۱۲ اِن آیتوں سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ (۱) یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اپنے دوستوں کا انتخاب سوچسمجھ کر کریں۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ ہم کوئی ایسی غلطی کر بیٹھیں جس سے ہمیں نقصان ہو اور ہم اُس کی قربت سے محروم ہو جائیں۔ (۲) جن لوگوں کے ساتھ ہم اُٹھتے بیٹھتے ہیں، وہ ہم پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ غور کریں کہ اُوپر دی گئی آیتوں میں یہوواہ خدا نے کوئی قانون نہیں دیا۔ اُس نے یہ نہیں کہا کہ ”یہ کرو اور یہ نہ کرو۔“ اِن آیتوں میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا ہمیں سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ گویا وہ ہم سے یہ کہتا ہے: ”سب حقائق آپ کے سامنے ہیں۔ اب یہ فیصلہ آپ کو خود کرنا ہوگا کہ آپ اِن کے مطابق عمل کریں گے یا نہیں؟ آپ کیا چاہتے ہیں؟“
۱۳ چونکہ اِن آیتوں میں قانون نہیں بلکہ بنیادی اصول پائے جاتے ہیں اِس لئے یہ ہر زمانے کے لوگوں کے لئے فائدہمند ہیں۔ اور یہ مختلف صورتحال میں ہمارے کام آتے ہیں۔ اِن اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے خود سے پوچھیں: ”جو لوگ اپنی اصلیت چھپاتے ہیں، مَیں اُن کے ساتھ دوستی کرنے سے کیسے بچ سکتا ہوں؟ ایسی کونسی صورتیں ہو سکتی ہیں جن میں مَیں ایسے لوگوں کے ساتھ صحبت رکھنے کے خطرے میں پڑ سکتا ہوں؟ (امثا ۳:۳۲؛ ۶:۱۲) وہ ’دانا‘ لوگ کونسے ہیں جن سے یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ مَیں دوستی کروں؟ وہ ’احمق‘ لوگ کونسے ہیں جن سے یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ مَیں دُور رہوں؟ (زبور ۱۱۱:۱۰؛ ۱۱۲:۱؛ امثا ۱:۷) اگر مَیں بُرے لوگوں کے ساتھ دوستی کروں گا تو میری کونسی ’اچھی عادتیں‘ بگڑ جائیں گی؟ کیا خراب دوست ہمیں صرف کلیسیا سے باہر ہی ملتے ہیں؟ (۲-پطر ۲:۱-۳) “ آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟
۱۴. آپ اپنی خاندانی عبادت کو مؤثر بنانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟
۱۴ جس طرح ہم نے اِن تین آیتوں پر غور کِیا ہے اُسی طرح آپ بائبل کی دیگر آیتوں پر بھی غور کر سکتے ہیں تاکہ آپ اہم معاملات کے سلسلے میں خدا کی سوچ سے واقف ہو سکیں۔ ذرا سوچیں کہ کونسے موضوعات آپ اور آپ کے گھر والوں کے لئے اہم ہیں۔ اور پھر کیوں نہ خاندانی عبادت کے دوران ایسے موضوعات پر بات کریں۔ * خاندانی عبادت کے دوران اپنے گھر والوں کی یہ سمجھنے میں مدد کریں کہ یہوواہ خدا کے قوانین اور اصولوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ (زبور ۱۱۹:۷۲) یوں آپ اور آپ کے گھر والے نہ صرف یہوواہ خدا کے اَور قریب ہو جائیں گے بلکہ آپس میں بھی سب کا رشتہ مضبوط ہوگا۔
۱۵. ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک ”عاقل اور سمجھنے والا دل“ ہے؟
۱۵ ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک ”عاقل اور سمجھنے والا دل“ ہے؟ ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اِس بات کا جائزہ لیں کہ کیا ہماری سوچ پُرانے زمانے میں رہنے والے خدا کے بندوں جیسی ہے۔ مثال کے طور کیا ہماری سوچ داؤد بادشاہ جیسی ہے جنہوں نے لکھا: ”اَے میرے خدا! میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔“ (زبور ۴۰:۸) زبور ۱۱۹ لکھنے والے نے بھی کہا: ”آہ! مَیں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں۔ مجھے دنبھر اُسی کا دھیان رہتا ہے۔“ (زبور ۱۱۹:۹۷) یہوواہ خدا اور اُس کی شریعت کے لئے ایسی محبت پیدا کرنے کے لئے ہمیں سخت کوشش کرنی پڑے گی۔ جب ہم بائبل کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں، اِس پر سوچبچار کرتے ہیں اور دُعا کرتے ہیں تو ہمارے دل میں یہ محبت بڑھتی ہے۔ یہ محبت اُس وقت اَور گہری ہو جاتی ہے جب ہمیں اپنی زندگی میں یہ تجربہ ہوتا ہے کہ خدا کے حکموں کو ماننے سے بےشمار برکتیں ملتی ہیں۔—زبور ۳۴:۸۔
اپنی آزادی کو قائم رکھنے کے لئے جدوجہد کریں
۱۶. اگر ہم حقیقی آزادی کو قائم رکھنے کی جدوجہد میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟
۱۶ انسانی تاریخ کے دوران بہت سی قوموں نے آزادی حاصل کرنے کے لئے جنگیں لڑی ہیں۔ تو پھر جو حقیقی آزادی یہوواہ خدا نے آپ کو دی ہے، اُسے قائم رکھنے کے لئے آپ کو اَور بھی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں کہ آپ کے دُشمن صرف شیطان اور دُنیا کی روح ہی نہیں ہے۔ آپ کو اپنے حیلہباز دل اور اپنی کمزوریوں کے خلاف بھی جنگ کرنی پڑتی ہے۔ (یرم ۱۷:۹؛ افس ۲:۳) لیکن یہوواہ خدا کی مدد سے آپ اِس جنگ میں فتح حاصل کر سکتے ہیں۔ جب بھی آپ شیطان، دُنیا کی روح اور اپنے جسم کے خلاف لڑائی میں کامیاب ہوتے ہیں تو اِس کے کمازکم دو نتیجے نکلتے ہیں۔ پہلا یہ کہ آپ یہوواہ خدا کا دل شاد کرتے ہیں۔ (امثا ۲۷:۱۱) دوسرا یہ کہ جب آپ کو ”آزادی کی کامل شریعت“ پر چلنے سے فائدہ ہوتا ہے تو آپ کا یہ عزم اَور مضبوط ہو جاتا ہے کہ آپ ’زندگی کو پہنچانے‘ والے راستے پر چلتے رہیں گے۔ آخرکار آپ کو وہ شاندار آزادی حاصل ہوگی جو یہوواہ خدا اپنے وفادار بندوں کو دے گا۔—یعقو ۱:۲۵؛ متی ۷:۱۳، ۱۴۔
۱۷. (الف) جب ہم سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو ہمیں ہمت کیوں نہیں ہارنی چاہئے؟ (ب) جب ہم سے کوئی غلطی ہو جائے تو اُسے سدھارنے کے لئے یہوواہ خدا ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟
۱۷ ہم سب اکثر غلطیاں کرتے ہیں۔ (واعظ ۷:۲۰) ایسی صورت میں ہمت نہ ہاریں اور یہ نہ سمجھیں کہ آپ خدا کی خدمت کے لائق نہیں۔ اگر آپ سے غلطی ہو بھی جائے تو اُسے درست کرنے کی پوری کوشش کریں۔ اگر ضروری ہو تو اِس سلسلے میں بزرگوں سے مدد لیں۔ یعقوب رسول نے لکھا تھا کہ بزرگوں کی دُعا کے باعث ”بیمار بچ جائے گا اور [یہوواہ] اُسے اُٹھا کھڑا کرے گا اور اگر اُس نے گُناہ کئے ہوں تو اُن کی بھی معافی ہو جائے گی۔“ (یعقو ۵:۱۵) ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا بہت رحمدل ہے اور وہی آپ کو اپنی کلیسیا میں کھینچ لایا ہے کیونکہ اُس نے آپ کے دل میں کوئی اچھائی دیکھی تھی۔ (زبور ۱۰۳:۸، ۹ کو پڑھیں۔) لہٰذا جب تک آپ پورے دل سے یہوواہ خدا کی خدمت کرتے رہیں گے، وہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔—۱-توا ۲۸:۹۔
۱۸. اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری حفاظت کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۸ اپنی موت سے ایک رات پہلے یسوع مسیح نے اپنے ۱۱ رسولوں کے ساتھ دُعا کی اور اپنے باپ سے اُن کے لئے یہ درخواست کی: ”شریر سے اُن کی حفاظت کر۔“ (یوح ۱۷:۱۵) جس طرح یسوع مسیح کو اپنے رسولوں کی فکر تھی اُسی طرح اُنہیں آجکل اپنے تمام پیروکاروں کی بھی فکر ہے۔ اِس لئے ہمیں یقین ہے کہ یہوواہ خدا،یسوع مسیح کی دُعا کے جواب میں اِس آخری زمانے کے دوران ہماری حفاظت بھی کرے گا۔ امثال ۲:۷، ۸ میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ خدا ’راسترَو کے لئے سپر ہے اور اپنے مُقدسوں کی راہ کو محفوظ رکھتا ہے۔‘ یہ سچ ہے کہ ہمیں راستی کی راہ پر چلنے کے لئے مشکلات کا سامنا تو کرنا پڑے گا لیکن ہمیشہ کی زندگی اور حقیقی آزادی صرف اُنہی لوگوں کو ملے گی جو اِس راہ پر چلتے رہیں گے۔ (روم ۸:۲۱) لہٰذا کسی کے بہکاوے میں آکر اِس راہ سے نہ ہٹیں!
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 5 یہوواہ خدا نے داؤد بادشاہ سے وعدہ کِیا تھا کہ اُن کا ایک بیٹا پیدا ہوگا جو اُن کے تخت کا وارث ہوگا۔ لیکن یہ وعدہ ابیسلوم کی پیدائش کے بعد کِیا گیا تھا۔ اِس لئے ابیسلوم کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں داؤد کے تخت کا وارث نہیں چنا۔—۲-سمو ۳:۳؛ ۷:۱۲۔
^ پیراگراف 14 آپ ۱-کرنتھیوں ۱۳:۴-۸ آیتوں پر غور کر سکتے ہیں جن میں پولس رسول نے محبت کی تشریح بیان کی ہے۔ اِس کے علاوہ آپ زبور ۱۹:۷-۱۱ آیتوں پر بھی غور کر سکتے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ خدا کے قوانین پر عمل کرنے والوں کو بہت سی برکتیں ملتی ہیں۔
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
ہم ابیسلوم جیسے لوگوں کو کیسے پہچان سکتے ہیں اور اُن سے کیسے بچ سکتے ہیں؟