’تیری جان جھک کر مجھ پر نظر کرے گی‘
خدا کے نزدیک جائیں
’تیری جان جھک کر مجھ پر نظر کرے گی‘
فروتنی ایک ایسی خوبی ہے جو سب کو بھاتی ہے۔ ہم عام طور پر فروتن لوگوں سے دوستی کرنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ آجکل یہ خوبی بہت ہی کم لوگوں میں نظر آتی ہے۔ خاص طور پر اُن لوگوں میں تو یہ مشکل سے ہی دِکھائی دیتی ہے جن کے پاس کوئی اختیار ہو۔ یہوواہ خدا سب سے زیادہ قدرت اور اختیار کا مالک ہے۔ کیا اُس میں فروتنی کی صفت پائی جاتی ہے؟ آئیں، اِس سلسلے میں یرمیاہ نبی کے الفاظ پر غور کریں۔ اُنہوں نے لکھا: ”بےشک تیری جان مجھے یاد کرے گی اور جھک کر مجھ پر نظر کرے گی۔ مَیں اِس بات کو یاد رکھوں گا۔ اِس لئے مَیں تیری مدد کا منتظر رہوں گا۔“—نوحہ ۳:۲۰، ۲۱، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
یرمیاہ نبی نے نوحہ کی کتاب اُس وقت لکھی جب بنیاسرائیل بہت ہی کٹھن دَور سے گزر رہے تھے۔ ابھی تھوڑا عرصہ پہلے ہی یرمیاہ نبی نے دیکھا تھا کہ اُن کے شہر یروشلیم کو بابل کی فوجوں نے تباہ کر دیا تھا۔ یرمیاہ نبی کے دُکھ کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ دراصل خدا نے بنیاسرائیل کو اُن کے گُناہوں کی سزا دی ہے۔ کیا یرمیاہ نبی بالکل نااُمید ہو گئے تھے؟ کیا وہ یہ سوچتے تھے کہ یہوواہ خدا نہایت بلندوبالا ہستی ہونے کی وجہ سے اُن لوگوں کی فریاد نہیں سنے گا جنہوں نے توبہ کر لی ہے؟ ذرا یرمیاہ نبی کے الفاظ کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ اپنی قوم کی طرف سے یہوواہ خدا سے کیا کہتے ہیں۔
بہت سے لوگ مایوسی کے عالم میں تھے لیکن یرمیاہ نبی کا دل اُمید سے بھرا ہوا تھا۔ اُنہوں نے یہوواہ خدا کو پکار کر کہا: ”بےشک تیری جان * [یعنی خود یہوواہ خدا] مجھے یاد کرے گی اور جھک کر مجھ پر نظر کرے گی۔“ (آیت ۲۰) یرمیاہ نبی کو یقین تھا کہ یہوواہ خدا اُنہیں نہیں بھولے گا اور نہ ہی وہ اُن لوگوں کو بھولے گا جنہوں نے اپنے گُناہوں سے توبہ کر لی ہے۔ لیکن قادرِمطلق خدا اِن لوگوں کے لئے کیا کرے گا؟—مکاشفہ ۱۵:۳۔
یرمیاہ نبی کو پورا اعتماد تھا کہ یہوواہ خدا ”جھک کر“ اُن لوگوں پر نظر کرے گا جو اپنے گُناہوں پر پشیمان ہیں۔ وہ ”بلندوبالا“ ہونے کے باوجود جھک کر اپنے بندوں کو بُری حالت سے نکال لے گا اور اُنہیں پھر سے اپنی قربت میں لے آئے گا۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا نہایت مہربان اور شفیق ہے۔ (زبور ۸۳:۱۸) یرمیاہ نبی کو پوری اُمید تھی کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کی مدد کرے گا۔ اور اِسی اُمید نے اُن کے دُکھی دل کو تسلی بخشی تھی۔ اُن کا عزم تھا کہ وہ اُس وقت کے منتظر رہیں گے جب خدا اپنے بندوں کو چھڑا لے گا۔—آیت ۲۱۔
ہم نوحہ ۳:۲۰، ۲۱ سے یہوواہ خدا کے بارے میں دو باتیں سیکھتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہوواہ خدا فروتن ہے۔ حالانکہ وہ بےانتہا ”قدرت“ کا مالک ہے پھر بھی جب ہم مایوسی کی حالت میں ہوتے ہیں تو وہ جھک کر ہمیں اِس سے نکالنے کو تیار رہتا ہے۔ (ایوب ۳۷:۲۳؛ زبور ۱۱۳:۵-۷) اِس سے واقعی ہمیں بہت تسلی ملتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہوواہ خدا رحمدل ہے۔ وہ اُن لوگوں کو ”معاف کرنے کو تیار“ رہتا ہے جو اپنے گُناہوں سے توبہ کرتے ہیں اور اُنہیں یہ موقع دیتا ہے کہ وہ پھر سے اُس کے دوست بن جائیں۔ (زبور ۸۶:۵) فروتنی اور رحمدلی میں چولیدامن کا ساتھ ہے۔
خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا انسانی حکمرانوں کی طرح مغرور اور بےحس نہیں ہے۔ کیا آپ یہوواہ خدا کے بارے میں مزید سیکھنا چاہتے ہیں جو نہایت فروتن ہے اور جو ”جھک کر“ اپنے بندوں کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے تیار رہتا ہے؟
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 5 پُرانے یہودی عالموں نے اِس آیت میں اصطلاح ”تیری جان“ کی بجائے ”میری جان“ استعمال کی۔ یوں اُنہوں نے یہ تاثر دیا کہ یرمیاہ نبی اپنے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ لفظ جان خدا کے لئے استعمال کرنے سے خدا کی بےادبی ہوگی کیونکہ پاک صحیفوں میں یہ لفظ زمینی مخلوق کے لئے استعمال کِیا گیا ہے۔ لیکن بائبل میں خدا کے لئے اکثر ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو عموماً انسانوں کے لئے کئے جاتے ہیں تاکہ ہم اُسے بہتر طور پر جان سکیں۔ بائبل میں لفظ جان، زندگی یا پوری ہستی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اِس لئے جب یرمیاہ نبی نے کہا کہ ”تیری جان مجھے یاد کرے گی“ تو وہ دراصل یہ کہہ رہے تھے کہ ”تو“ یعنی یہوواہ خدا مجھے یاد کرے گا۔
[صفحہ ۱۰ پر عبارت]
جب ہم مایوسی کی حالت میں ہوتے ہیں تو خدا جھک کر ہمیں اِس سے نکالنے کو تیار رہتا ہے۔