مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسوع مسیح کے بارے میں سوالوں کے جواب

یسوع مسیح کے بارے میں سوالوں کے جواب

یسوع مسیح کے بارے میں سوالوں کے جواب

‏”‏لوگ کیا کہتے ہیں کہ مَیں کون ہوں؟‏“‏‏—‏لوقا ۹:‏۱۸‏،‏ ”‏کیتھولک ترجمہ۔‏“‏

یہ سوال یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے اِس لئے پوچھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لوگ اُن کے بارے میں فرق‌فرق رائے رکھتے ہیں۔‏ لیکن دراصل لوگوں کو اُن کے بارے میں کسی اُلجھن کا شکار نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ یسوع مسیح کسی سے چھپ کر نہیں رہتے تھے اور نہ ہی پوشیدگی میں کام کرتے تھے بلکہ وہ گاؤں اور شہروں میں جا کر لوگوں سے ملتے تھے۔‏ وہ کُھلے عام تعلیم دیتے تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ لوگ جانیں کہ دراصل وہ کون ہیں۔‏—‏لوقا ۸:‏۱‏۔‏

یہ جاننے کے لئے کہ یسوع مسیح حقیقت میں کون تھے،‏ ہمیں اُن کی تعلیم اور اُن کے کاموں پر غور کرنا چاہئے۔‏ اُن کی تعلیم اور اُن کے کاموں کے بارے میں ہم متی،‏ مرقس،‏ لوقا اور یوحنا کی اِنجیلوں میں پڑھ سکتے ہیں۔‏ خدا نے یہ اِنجیلیں اِس لئے لکھوائیں تاکہ ہم یسوع مسیح سے خوب واقف ہو جائیں۔‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۷‏۔‏

سوال:‏ کیا یسوع مسیح کے وجود کا کوئی ثبوت ہے؟‏

جواب:‏ جی‌ہاں۔‏ بہت سے تاریخ‌دانوں نے یسوع مسیح کے وجود کی تصدیق کی۔‏ مثال کے طور پر یسوع مسیح کے زمانے کے تاریخ‌دان یوسیفس اور تستُس نے اُن کا ذکر کِیا۔‏ سب سے اہم ثبوت اِنجیلوں سے ملتا ہے کیونکہ اِن میں بہت سے اشارے دئے گئے ہیں کہ یسوع مسیح محض کسی کہانی کے فرضی کردار نہیں تھے۔‏ اِن میں جب کسی واقعے کا ذکر ہوا ہے تو اکثر اِس کے وقت اور جگہ کے بارے میں تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب لوقا نے یہ بتایا کہ یسوع مسیح نے تعلیم دینا کب شروع کِیا تو اُنہوں نے سات ایسے حکمرانوں کا ذکر کِیا جو اُس وقت حکومت کر رہے تھے اور جن کی تصدیق تاریخ‌دان بھی کرتے ہیں۔‏—‏لوقا ۳:‏۱،‏ ۲،‏ ۲۳‏۔‏

ثبوت کو مدِنظر رکھتے ہوئے یسوع مسیح کے وجود سے انکار نہیں کِیا جا سکتا۔‏ انگریزی کتاب یسوع مسیح کے وجود کا ثبوت میں لکھا ہے کہ ”‏زیادہ‌تر عالم اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی صدی عیسوی میں ایک شخص رہتا تھا جو یسوع ناصری کے نام سے مشہور تھا۔‏“‏

سوال:‏ کیا یسوع مسیح،‏ خدا ہیں؟‏

جواب:‏ جی‌نہیں۔‏ یسوع مسیح نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کِیا تھا کہ وہ خدا کے برابر ہیں۔‏ اِس کے برعکس اُنہوں نے ہمیشہ یہ ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ خدا * کے تابع ہیں۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے یہوواہ کو ’‏میرا خدا‘‏ اور ’‏واحد اور سچا خدا‘‏ کہا۔‏ (‏متی ۲۷:‏۴۶؛‏ یوحنا ۱۷:‏۳‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ اگر یسوع مسیح خود خدا ہوتے تو کیا وہ کسی اَور کو میرا خدا یا واحد خدا کہتے؟‏

یسوع مسیح نے یہ بھی ظاہر کِیا کہ وہ اور یہوواہ خدا دو الگ ہستیاں ہیں۔‏ جب لوگ یہ شک کر رہے تھے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں آئے ہیں تو یسوع مسیح نے اُن سے کہا:‏ ”‏تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی مل کر سچی ہوتی ہے۔‏ ایک تو مَیں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ اِس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح اور یہوواہ خدا دو الگ ہستیاں ہیں ورنہ یسوع مسیح دو گواہوں کا ذکر کیسے کر سکتے تھے؟‏

سوال:‏ کیا یسوع مسیح محض ایک نیک انسان تھے؟‏

جواب:‏ جی‌نہیں۔‏ وہ صرف نیک انسان ہی نہیں تھے بلکہ خدا نے اُنہیں کئی خاص کردار بھی سونپے تھے۔‏ اِن میں سے کچھ یہ ہیں:‏

‏’‏خدا کا اِکلوتا بیٹا۔‏‘‏‏(‏یوحنا ۳:‏۱۸‏)‏ یسوع مسیح جانتے تھے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔‏ زمین پر پیدا ہونے سے بہت عرصہ پہلے اُن کی زندگی آسمان پر شروع ہوئی تھی۔‏ اِس لئے اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں آسمان سے .‏ .‏ .‏ اُترا ہوں۔‏“‏ (‏یوحنا ۶:‏۳۸‏)‏ یہوواہ خدا نے سب سے پہلے یسوع مسیح کو خلق کِیا۔‏ پھر یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کے ساتھ مل کر باقی ساری چیزیں بنائیں۔‏ چونکہ خدا نے صرف یسوع مسیح کو ہی براہِ‌راست خلق کِیا تھا اِس لئے اُنہیں ’‏خدا کا اِکلوتا بیٹا‘‏ کہا جا سکتا ہے۔‏—‏یوحنا ۱:‏۳،‏ ۱۴؛‏ کلسیوں ۱:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

‏”‏ابنِ‌آدم۔‏“‏‏(‏متی ۸:‏۲۰‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے اکثر خود کو ”‏ابنِ‌آدم“‏ کہا۔‏ اِنجیلوں میں یہ اصطلاح تقریباً ۸۰ مرتبہ آئی ہے۔‏ اِس اصطلاح سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انسان کے روپ میں خدا نہیں بلکہ ہر لحاظ سے انسان تھے۔‏ یہ کیسے ہوا کہ خدا کا اِکلوتا بیٹا انسان کے طور پر پیدا ہوا؟‏ یہوواہ خدا نے پاک روح کے ذریعے اپنے بیٹے کی زندگی کو ایک یہودی کنواری کے رحم میں منتقل کر دیا جس کا نام مریم تھا۔‏ یوں یسوع ایک بےگُناہ اور بےعیب انسان کے طور پر پیدا ہوئے۔‏—‏متی ۱:‏۱۸؛‏ لوقا ۱:‏۳۵؛‏ یوحنا ۸:‏۴۶‏۔‏

‏”‏اُستاد۔‏“‏‏(‏یوحنا ۱۳:‏۱۳‏)‏ یسوع مسیح نے یہ واضح طور پر بتایا کہ خدا نے اُنہیں ’‏تعلیم دینے اور بادشاہی کی خوشخبری کی مُنادی کرنے‘‏ کی ذمہ‌داری سونپی ہے۔‏ (‏متی ۴:‏۲۳؛‏ لوقا ۴:‏۴۳‏)‏ اُنہوں نے بڑے سادہ طریقے سے لوگوں کو بتایا کہ خدا کی بادشاہت کیا ہے اور اِس کے ذریعے خدا کی مرضی کیسے پوری ہوگی۔‏—‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

‏”‏کلام۔‏“‏‏(‏یوحنا ۱:‏۱‏)‏ یسوع مسیح،‏ یہوواہ خدا کے ترجمان تھے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ خدا نے اُن کے ذریعے اپنا پیغام انسانوں تک پہنچایا۔‏—‏یوحنا ۷:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

سوال:‏ کیا یسوع ہی وہ مسیح تھے جن کی طرف نبیوں نے اشارہ کِیا تھا؟‏

جواب:‏ جی‌ہاں۔‏ کئی نبیوں نے بتایا تھا کہ ایک ایسا شخص آئے گا جو خدا کے مقصد کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔‏ بائبل میں اِس شخص کو ممسوح یا مسیح کہا گیا ہے۔‏ یہ دونوں الفاظ ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہیں جسے ایک اہم عہدے پر مقرر کِیا جائے۔‏ ایک مرتبہ ایک عورت نے یسوع سے کہا:‏ ”‏مَیں جانتی ہوں کہ مسیح .‏ .‏ .‏ آنے والا ہے۔‏“‏ اِس پر اُنہوں نے اُس عورت سے کہا:‏ ”‏مَیں جو تجھ سے بول رہا ہوں وہی ہوں۔‏“‏—‏یوحنا ۴:‏۲۵،‏ ۲۶‏۔‏

کیا اِس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ یسوع ہی مسیح تھے؟‏ دراصل مسیح کی شناخت تین باتوں سے ہوتی ہے جو مل کر صرف ایک ہی شخص کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔‏ کیا یسوع ہی وہ شخص تھے؟‏ آئیں اِن تینوں باتوں پر غور کریں۔‏

مسیح کا نسب‌نامہ۔‏ پاک صحیفوں میں بتایا گیا تھا کہ مسیح ابرہام اور داؤد کی نسل سے پیدا ہوگا۔‏ (‏پیدایش ۲۲:‏۱۸؛‏ زبور ۱۳۲:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ یسوع مسیح اِن دونوں کی نسل سے آئے تھے۔‏—‏متی ۱:‏۱-‏۱۶؛‏ لوقا ۳:‏۲۳-‏۳۸‏۔‏

پیشین‌گوئیوں کی تکمیل۔‏ پاک صحیفوں میں مسیح کے بارے میں سینکڑوں پیشین‌گوئیاں کی گئی تھیں۔‏ مثال کے طور پر اُن کی پیدائش اور موت کے بارے میں تفصیلات دی گئی تھیں۔‏ یہ ساری پیشین‌گوئیاں یسوع مسیح پر پوری ہوئیں۔‏ اِن میں سے چند ایک یہ ہیں:‏ وہ شہر بیت‌لحم میں پیدا ہوئے۔‏ (‏میکاہ ۵:‏۲؛‏ لوقا ۲:‏۴-‏۱۱‏)‏ اُنہیں مصر سے بلایا گیا۔‏ (‏ہوسیع ۱۱:‏۱؛‏ متی ۲:‏۱۵‏)‏ اور جب اُنہیں قتل کِیا گیا تو اُن کی ایک بھی ہڈی نہ توڑی گئی۔‏ (‏زبور ۳۴:‏۲۰؛‏ یوحنا ۱۹:‏۳۳،‏ ۳۶‏)‏ ظاہری سی بات ہے کہ یسوع مسیح خود کچھ نہیں کر سکتے تھے تاکہ یہ پیشین‌گوئیاں اُن پر پوری ہوں۔‏ *

خدا کی گواہی۔‏ جب یسوع پیدا ہوئے تو یہوواہ خدا نے فرشتوں کے ذریعے کچھ چرواہوں کو بتایا کہ مسیح پیدا ہوا ہے۔‏ (‏لوقا ۲:‏۱۰-‏۱۴‏)‏ یسوع مسیح کی زندگی میں کئی موقعوں پر آسمان سے خدا کی آواز سنائی دی اور خدا نے کہا کہ وہ یسوع مسیح سے خوش ہے۔‏ (‏متی ۳:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ ۱۷:‏۱-‏۵‏)‏ اِس کے علاوہ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو معجزے کرنے کی طاقت بخشی۔‏ یوں بھی یہ ظاہر ہوا کہ یسوع ہی خدا کے بھیجے ہوئے مسیح ہیں۔‏—‏اعمال ۱۰:‏۳۸‏۔‏

سوال:‏ یسوع مسیح کو کیوں اذیت سہنی پڑی اور اپنی جان قربان کرنی پڑی؟‏

جواب:‏ یسوع مسیح بےگُناہ تھے۔‏ اُنہوں نے کبھی کوئی ایسا کام نہیں کِیا تھا جس کی وجہ سے اُنہیں اذیت پہنچانا واجب ہوتا۔‏ پھر بھی اُن کے دُشمنوں نے اُنہیں مجرم ٹھہرا کر سولی پر چڑھا دیا۔‏ لیکن یسوع مسیح کو یہ توقع تھی کہ اُن کے ساتھ ایسا سلوک کِیا جائے گا اور اُنہوں نے اِس سے بچنے کی کوشش نہیں کی۔‏ اِس کی کیا وجہ تھی؟‏—‏متی ۲۰:‏۱۷-‏۱۹؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۲۱-‏۲۳‏۔‏

پاک صحیفوں میں پیشین‌گوئی کی گئی تھی کہ مسیح اذیت سہے گا اور دوسروں کی خاطر اپنی جان قربان کرے گا۔‏ (‏یسعیاہ ۵۳:‏۵؛‏ دانی‌ایل ۹:‏۲۴،‏ ۲۶‏)‏ یسوع مسیح نے خود بھی کہا کہ وہ ”‏اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں“‏ دینے کے لئے آئے ہیں۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸‏)‏ جو لوگ یسوع مسیح کی قربانی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اِس پر ایمان رکھتے ہیں،‏ وہ یہ اُمید رکھ سکتے ہیں کہ وہ گُناہ اور موت سے چھٹکارا پائیں گے اور زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔‏ *‏—‏یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ ۱-‏یوحنا ۴:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

سوال:‏ کیا یسوع مسیح واقعی مُردوں میں سے زندہ ہوئے تھے؟‏

جواب:‏ جی‌ہاں۔‏ یسوع مسیح جانتے تھے کہ اُنہیں مرنے کے بعد زندہ کِیا جائے گا۔‏ (‏متی ۱۶:‏۲۱‏)‏ لیکن نہ تو یسوع مسیح نے اور نہ ہی بائبل لکھنے والوں نے کبھی یہ دعویٰ کِیا تھا کہ یسوع مسیح اپنی طاقت سے زندہ ہوں گے۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏خدا نے اُسے موت کے شکنجہ سے چھڑا کر زندہ کر دیا۔‏“‏ (‏اعمال ۲:‏۲۴‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن)‏ اگر ہم مانتے ہیں کہ یہوواہ خدا تمام چیزوں کا خالق ہے تو یہ ماننا مشکل نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو زندہ کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔‏—‏عبرانیوں ۳:‏۴‏۔‏

کیا اِس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت ہے کہ یسوع مسیح کو زندہ کِیا گیا تھا؟‏ ذرا اِن باتوں پر غور کریں:‏

چشم‌دید گواہوں کی شہادت۔‏یسوع مسیح کی موت کے ۲۲ سال بعد پولس رسول نے لکھا کہ یسوع مسیح جی اُٹھنے کے بعد ۵۰۰ سے زیادہ لوگوں کو دِکھائی دئے تھے۔‏ جب پولس رسول نے یہ بات لکھی تو اِن میں سے زیادہ‌تر زندہ تھے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۶‏)‏ ایک یا دو گواہوں کی شہادت کو تو نظرانداز کِیا جا سکتا ہے مگر ۵۰۰ چشم‌دید گواہوں کی شہادت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔‏

قابلِ‌اعتماد گواہ۔‏ یسوع مسیح کے شاگرد سارا وقت اُن کے ساتھ رہے تھے۔‏ لہٰذا وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یسوع مسیح کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‏ اُنہوں نے کُھلے عام گواہی دی کہ یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ ہوئے تھے۔‏ (‏اعمال ۲:‏۲۹-‏۳۲؛‏ ۳:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ اُن کے مذہب کا ایک بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ یسوع مسیح زندہ ہو گئے تھے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۱۲-‏۱۹‏)‏ یسوع مسیح کے جی اُٹھنے پر اُن کا ایمان اِتنا مضبوط تھا کہ وہ اِس کی خاطر مرنے کو بھی تیار تھے۔‏ (‏اعمال ۷:‏۵۱-‏۶۰؛‏ ۱۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یسوع مسیح دراصل زندہ نہیں ہوئے تھے،‏ یہ تو محض ایک کہانی ہے۔‏ لیکن ذرا سوچیں،‏ کیا یسوع مسیح کے شاگرد ایک کہانی کی خاطر مرنے کو تیار ہوتے؟‏

ہم نے یسوع مسیح کے بارے میں چھ اہم سوالوں پر غور کِیا ہے اور دیکھا ہے کہ بائبل میں اِن کے کیا جواب دئے گئے ہیں۔‏ اِن جوابوں سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع مسیح دراصل کون ہیں۔‏ لیکن یسوع مسیح کے بارے میں سچائی جاننے کی کیا اہمیت ہے؟‏ کیا اِس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ ہم یسوع مسیح کے بارے میں کیا مانتے ہیں؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 یہوواہ،‏ بائبل کے مطابق خدا کا ذاتی نام ہے۔‏

^ پیراگراف 21 اگر آپ کچھ اَور پیشین‌گوئیوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جو یسوع مسیح پر پوری ہوئیں تو کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے صفحہ ۲۰۰ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 25 یہ جاننے کے لئے کہ یسوع مسیح کی قربانی ہمارے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے،‏ کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے باب نمبر ۵ کو دیکھیں۔‏