مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایسے دوڑیں کہ انعام جیت جائیں

ایسے دوڑیں کہ انعام جیت جائیں

ایسے دوڑیں کہ انعام جیت جائیں

‏”‏ایسے ہی دوڑو تاکہ جیتو۔‏“‏—‏۱-‏کر ۹:‏۲۴‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏الف)‏ پولس رسول نے یہودیہ اور یروشلیم کے مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے کونسی تمثیل پیش کی؟‏ (‏ب)‏ پولس رسول نے تمام مسیحیوں کو کیا کرنے کی تاکید کی؟‏

پولس رسول نے عبرانیوں کے نام جو خط لکھا،‏ اِس میں اُنہوں نے ایک نہایت عمدہ تمثیل کے ذریعے اپنے بہن‌بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کی۔‏ اُنہوں نے کہا کہ مسیحیوں کی زندگی ایک دوڑ کی طرح ہے۔‏ اُنہوں نے مسیحیوں کو یاد دلایا کہ اُن سے پہلے بھی خدا کے بہت سے خادموں نے اِس دوڑ میں حصہ لیا تھا اور اِسے مکمل کِیا تھا۔‏ اُنہوں نے کہا کہ خدا کے یہ خادم ”‏گواہوں کا ایسا بڑا بادل“‏ ہیں جو مسیحیوں کو گھیرے ہوئے ہے۔‏ پولس رسول نے یہ بھی کہا کہ اگر یہودیہ اور یروشلیم کے مسیحی خدا کے اِن خادموں کے ایمان اور اُس اَن‌تھک محنت کو یاد رکھیں گے جو اُنہوں نے خدا کے لئے کی تھی تو وہ بھی ہمت نہیں ہاریں گے اور مشکلات کے باوجود دوڑتے رہیں گے۔‏

۲ پچھلے مضمون میں ہم نے ’‏گواہوں کے بڑے بادل‘‏ میں شامل کچھ لوگوں کی زندگی پر غور کِیا تھا۔‏ وہ اپنے مضبوط ایمان کی وجہ سے یہوواہ خدا کے وفادار رہے۔‏ اُنہوں نے ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو مکمل کِیا۔‏ ہم اُن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ جیسا کہ آپ کو پچھلے مضمون سے یاد ہوگا،‏ پولس رسول نے تمام مسیحیوں کو تاکید کی تھی کہ ”‏جب کہ گواہوں کا ایسا بڑا بادل ہمیں گھیرے ہوئے ہے تو آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اُس گُناہ کو جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے دُور کرکے اُس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔‏“‏—‏عبر ۱۲:‏۱‏۔‏

۳.‏ پولس رسول نے یونانی کھلاڑیوں کے بارے میں جو کچھ کہا،‏ اِس سے مسیحی کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۳ پولس رسول نے یہ کیوں کہا کہ ’‏ہر ایک بوجھ کو دُور کر دیں‘‏؟‏ ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ پہلی صدی کے مسیحی کس طرح کے ماحول میں رہتے تھے۔‏ اِس میں لکھا ہے کہ ”‏یونانی کھلاڑی مقابلے کی تیاری کرتے وقت اور مقابلے میں حصہ لیتے وقت کوئی کپڑے نہیں پہنتے تھے۔‏“‏ * آج ہمیں شاید یہ خیال بُرا لگے کہ یونانی کھلاڑی بِنا کپڑے مقابلے میں حصہ لیتے تھے۔‏ لیکن اِن کے نزدیک کپڑے بھی ایک بوجھ تھے۔‏ وہ کسی بھی قسم کا وزن نہیں اُٹھانا چاہتے تھے کیونکہ اِس کی وجہ سے وہ ہارنے کے خطرے میں ہوتے۔‏ وہ ہر حال میں انعام جیتنا چاہتے تھے اِس لئے وہ بِنا کپڑوں کے مقابلوں میں حصہ لیتے تھے۔‏ لہٰذا جب پولس رسول نے مسیحیوں سے کہا کہ ’‏ہر ایک بوجھ کو دُور کریں‘‏ تو وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر اُن کی زندگی میں کوئی ایسا بوجھ ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو ہارنے کے خطرے میں ہیں تو اِس بوجھ کو اُتار دیں۔‏ یہ نہ صرف اُس زمانے کے مسیحیوں کے لئے بہت اچھی ہدایت تھی بلکہ ہمارے لئے بھی ہے۔‏ ہماری زندگی میں کونسی چیزیں بوجھ کی طرح ہو سکتی ہیں؟‏

‏’‏ہر ایک بوجھ کو دُور کر دیں‘‏

۴.‏ نوح کے زمانے میں لوگ کن کاموں میں مگن تھے؟‏

۴ ‏’‏ہر ایک بوجھ‘‏ میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ اِس میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کی وجہ سے ہماری توجہ اپنی دوڑ سے ہٹ جاتی ہے اور ہم پوری لگن سے دوڑنا چھوڑ دیتے ہیں۔‏ آئیں،‏ اِس سلسلے میں نوح کے زمانے میں رہنے والے لوگوں کی مثال پر غور کریں۔‏ یسوع مسیح نے کہا تھا:‏ ”‏جیسا نوح کے دنوں میں ہوا تھا اُسی طرح ابنِ‌آدم کے دنوں میں بھی ہوگا۔‏“‏ (‏لو ۱۷:‏۲۶‏)‏ یہ سچ ہے کہ جس طرح نوح کے زمانے میں تباہی آئی تھی اِسی طرح ہمارے زمانے میں بھی تباہی آنے والی ہے۔‏ لیکن اِس آیت میں یسوع مسیح لوگوں کے طرزِزندگی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔‏ ‏(‏متی ۲۴:‏۳۷-‏۳۹ کو پڑھیں۔‏)‏ نوح کے زمانے میں زیادہ‌تر لوگوں کو خدا کی پرواہ نہیں تھی۔‏ اُن کا دھیان کس طرف تھا؟‏ وہ کھانے،‏ پینے اور بیاہ‌شادی کرنے میں مگن تھے۔‏ یہ روزمرہ کے کام تھے جنہیں کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔‏ لیکن یسوع مسیح نے کہا کہ اِن لوگوں کو ”‏خبر نہ ہوئی۔‏“‏ بائبل کے ایک اَور ترجمے کے مطابق یسوع مسیح نے کہا کہ لوگ ”‏بےفکر رہے۔‏“‏ ‏(‏کیتھولک ترجمہ)‏ دراصل مسئلہ یہ تھا کہ لوگ اپنے کاموں میں اِتنے مگن تھے کہ اُنہوں نے نوح کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دیا۔‏

۵.‏ اگر ہم ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو مکمل کرنا چاہتے ہیں تو کیا کرنا ضروری ہے؟‏

۵ نوح اور اُن کے گھروالوں کی طرح ہم پر بھی بہت سی ذمہ‌داریاں ہیں۔‏ ہمیں اپنی اور اپنے گھروالوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔‏ شاید اِس میں ہماری کافی توانائی خرچ ہو اور بہت وقت لگے۔‏ شاید ہمیں فکر ہو کہ ہم مہنگائی اور بےروزگاری کے اِس دور میں اپنی ضروریات کیسے پوری کریں گے۔‏ یہوواہ کا گواہ ہونے کے ناطے ہم پر اَور بھی بہت سی ذمہ‌داریاں ہیں۔‏ مثال کے طور پر ہم خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرتے ہیں،‏ ہم اجلاسوں پر پیش کئے جانے والے مضامین کی تیاری کرتے ہیں اور اجلاسوں پر جاتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ ہم اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لئے ذاتی طور پر بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں یا پھر خاندانی عبادت کرتے ہیں۔‏ نوح کو بھی اپنی ضروریات پوری کرنی پڑتی تھیں۔‏ لیکن اِس کے ساتھ‌ساتھ خدا نے اُنہیں ایک بہت بڑا کام کرنے کو کہا۔‏ نوح نے ’‏جیسا خدا نے اُنہیں حکم دیا تھا ویسا ہی عمل کِیا۔‏‘‏ (‏پید ۶:‏۲۲‏)‏ ہمیں نوح کی مثال پر عمل کرنا چاہئے۔‏ اگر ہم ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو مکمل کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ہر طرح کے غیرضروری بوجھ کو اپنے اُوپر سے اُتار پھینکیں۔‏

۶،‏ ۷.‏ ہمیں یسوع مسیح کی کن ہدایتوں کو یاد رکھنا چاہئے؟‏

۶ جب پولس رسول نے مسیحیوں سے کہا کہ وہ ’‏ہر ایک بوجھ کو دُور کریں‘‏ تو کیا وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اُنہیں ہر ذمہ‌داری کو چھوڑ دینا چاہئے؟‏ جی‌نہیں۔‏ جیسا کہ ہم نے پچھلے پیراگراف میں دیکھا کہ کچھ ذمہ‌داریوں کو نبھانا ضروری ہوتا ہے۔‏ لیکن اِس کے ساتھ‌ساتھ ہمیں اِن کو حد سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہئے۔‏ یسوع مسیح نے زندگی کی ضروریات کے بارے میں کہا کہ ”‏فکرمند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا کیا پہنیں گے؟‏ کیونکہ اِن سب چیزوں کی تلاش میں غیرقومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تُم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۳۱،‏ ۳۲‏)‏ یسوع مسیح کی اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہم روزمرہ زندگی کے معاملات کو حد سے زیادہ اہمیت دیں گے تو یہ ہمارے لئے بوجھ بن سکتے ہیں۔‏

۷ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”‏تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تُم اِن سب چیزوں کے محتاج ہو۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا ہماری ضروریات پوری کرے گا۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ جب یسوع مسیح نے اصطلاح ”‏اِن سب چیزوں“‏ کو استعمال کِیا تو وہ اُن چیزوں کے بارے میں بات نہیں کر رہے تھے جن کی ہم خواہش رکھتے ہیں بلکہ اُن چیزوں کی جن کی ہمیں ضرورت ہے۔‏ یسوع مسیح نے کہا کہ ہمیں اُن چیزوں کی فکر میں نہیں رہنا چاہئے جن کی ’‏تلاش میں غیرقومیں رہتی ہیں۔‏‘‏ یہ ہمارے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔‏ اِس کی کیا وجہ ہے؟‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏خبردار رہو۔‏ ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل خمار اور نشہ‌بازی اور اِس زندگی کی فکروں سے سُست ہو جائیں اور وہ دن تُم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے۔‏“‏—‏لو ۲۱:‏۳۴‏۔‏

۸.‏ خاص طور پر ہمارے زمانے میں یہ اہم کیوں ہے کہ ہم ’‏ہر ایک بوجھ کو دُور کریں‘‏؟‏

۸ ہم اپنی منزل کے بہت قریب آ چکے ہیں۔‏ اِس لئے یہ بہت اہم ہے کہ ہم ’‏ہر ایک بوجھ کو دُور کریں۔‏‘‏ ہمیں کوئی بھی غیرضروری ذمہ‌داری نہیں اُٹھانی چاہئے ورنہ ہمارے لئے دوڑ کو مکمل کرنا مشکل ہو جائے گا۔‏ اگر ہماری ضروریات پوری ہو رہی ہیں تو ہمیں اِس پر راضی رہنا چاہئے۔‏ پولس رسول نے اِس سلسلے میں کہا:‏ ”‏دینداری قناعت کے ساتھ بڑے نفع کا ذریعہ ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تیم ۶:‏۶‏)‏ اگر ہم پولس رسول کی ہدایت پر عمل کریں گے تو ہم اُس کھلاڑی کی طرح ہوں گے جس نے ہر بوجھ کو اُتار پھینکا ہے۔‏ یوں ہمارے لئے ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ مکمل کرنا اور انعام جیتنا قدراً آسان ہو جائے گا۔‏

‏’‏وہ گُناہ جو آسانی سے اُلجھا لیتا ہے‘‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏الف)‏ وہ گُناہ کیا ہے جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ایک مسیحی کا ایمان کیسے کمزور پڑ سکتا ہے؟‏

۹ پولس رسول نے مسیحیوں کو صرف یہ تاکید نہیں کی کہ ’‏ہر ایک بوجھ کو دُور کر دیں‘‏ بلکہ یہ بھی کہا کہ اُس گُناہ کو دُور کریں ’‏جو آسانی سے اُلجھا لیتا ہے۔‏‘‏ اِس کا کیا مطلب ہے؟‏ اِس کا مطلب ہے،‏ ایمان کا کمزور پڑ جانا۔‏ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏آسانی سے اُلجھا لیتا“‏ کِیا گیا ہے،‏ بائبل میں یہ لفظ صرف عبرانیوں ۱۲:‏۱ میں استعمال ہوا ہے۔‏ ایک عالم البرٹ بارنز نے کہا:‏ ”‏کھلاڑی مقابلے میں حصے لیتے وقت کوئی ایسا لباس نہیں پہنیں گے جو اُن کی ٹانگوں میں اُلجھ جائے اور یوں اُن کے لئے دوڑنا مشکل ہو جائے۔‏ مسیحیوں کو بھی ہر اُس چیز کو دُور کر دینا چاہئے جو اُن کو اُلجھا سکتی ہے۔‏“‏ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے اُن کا ایمان کمزور پڑ سکتا ہے یہاں تک کہ ختم ہو سکتا ہے۔‏ ایک مسیحی کا ایمان کیسے کمزور پڑ سکتا ہے؟‏

۱۰ کسی کا ایمان راتوں رات کمزور نہیں پڑتا۔‏ ایسا آہستہ‌آہستہ ہوتا ہے اور اکثر اُس شخص کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ اُس کا ایمان کمزور ہوتا جا رہا ہے۔‏ عبرانیوں کے نام اپنے خط میں پولس رسول نے مسیحیوں کو یہ آگاہی دی کہ ’‏بہ کر اُن باتوں سے دُور نہ چلے جائیں جو ہم نے سنی ہیں۔‏‘‏ اُنہوں نے مسیحیوں کو اِس بات سے بھی خبردار کِیا کہ اُن کا ’‏دل بےایمان ہو کر زندہ خدا سے پھر‘‏ سکتا ہے۔‏ (‏عبر ۲:‏۱؛‏ ۳:‏۱۲‏)‏ جب مقابلے میں کسی کھلاڑی کی ٹانگیں اُس کے لباس میں اُلجھ جاتی ہیں تو عموماً وہ مُنہ کے بل گِر جاتا ہے۔‏ بعض کھلاڑی ایسا لباس کیوں پہنتے ہیں جو کھیل کی مناسبت سے نہیں ہوتا؟‏ شاید وہ لاپرواہ ہیں؛‏ شاید اُن کو اپنی کارکردگی پر بڑا مان ہے؛‏ شاید اُن کا دھیان دوڑ پر نہیں بلکہ کسی اَور بات پر ہے۔‏ ہم پولس رسول کی باتوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۱.‏ ایک عالم کے مطابق مسیحیوں کا ایمان کس وجہ سے کمزور پڑ سکتا ہے؟‏

۱۱ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جب ایک مسیحی کا ایمان کمزور پڑ جاتا ہے تو اِس میں غلطی اُسی کی ہوتی ہے۔‏ اُس نے ایک ایسی روش اختیار کی جس کے نتیجے میں اُس کا ایمان کم ہو گیا۔‏ ایک اَور عالم نے اُس گُناہ کے متعلق ”‏جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے،‏“‏ یہ کہا کہ ہم جس ماحول میں رہتے ہیں،‏ جن لوگوں کے ساتھ اُٹھتےبیٹھتے ہیں اور ہماری غلط خواہشیں،‏ یہ سب ہمارے ایمان پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔‏ اِن چیزوں کی وجہ سے ہمارا ایمان یا تو کمزور پڑ سکتا ہے یا پھر بالکل ہی ختم ہو سکتا ہے۔‏—‏متی ۱۳:‏۳-‏۹‏۔‏

۱۲.‏ ہمیں دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر جماعت کی کن ہدایتوں پر عمل کرنا چاہئے تاکہ ہمارا ایمان مضبوط رہے؟‏

۱۲ دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر جماعت ہمیں بارہا یہ ہدایت دیتی ہے کہ ہم اُن چیزوں کے سلسلے میں احتیاط برتیں جو ہم دیکھتے اور سنتے ہیں۔‏ اُنہوں نے ہمیں آگاہ کِیا ہے کہ دولت اور آسائشوں کے پیچھے بھاگنا،‏ تفریحات اور مشغلوں میں مست رہنا اور نت‌نئی چیزوں کو پانے کی جستجو کرنا کتنا خطرناک ہوتا ہے۔‏ ہمیں یہ سوچ کر دیانت‌دار اور عقل‌مند نوکر جماعت کی بات کو نہیں ٹالنا چاہئے کہ ”‏یہ تو تنگ‌نظری ہے۔‏“‏ ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا چاہئے کہ ”‏مَیں تو ٹھیک ہوں،‏ مجھے اِس ہدایت کی ضرورت نہیں۔‏“‏ شیطان کی دُنیا بڑی چالاکی سے ہمیں اُلجھانے کی کوشش کرتی ہے۔‏ کئی مسیحیوں کا ایمان اِس لئے کمزور پڑ گیا کیونکہ وہ لاپرواہ ہو گئے یا خود پر بڑا ہی مان کرنے لگے۔‏ اور بعض کا دھیان دُنیاوی چیزوں پر لگ گیا۔‏ اگر ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو گیا تو ہو سکتا ہے کہ ہم ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ مکمل نہ کر پائیں اور انعام نہ جیت پائیں۔‏—‏۱-‏یوح ۲:‏۱۵-‏۱۷‏۔‏

۱۳.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ دُنیا کی سوچ ہم پر اثر نہ کرے؟‏

۱۳ شیطان کی دُنیا میں لوگ اِسی کوشش میں رہتے ہیں کہ ہم اُن جیسی سوچ اپنائیں۔‏ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اُن چیزوں کو اہم خیال کریں جنہیں وہ اہم خیال کرتے ہیں اور اُن جیسے کام کریں۔‏ ‏(‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۲ کو پڑھیں۔‏)‏ اب یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم کیا کریں گے۔‏ کیا ہم اُن کی سوچ اپنائیں گے اور اُن جیسا بنیں گے؟‏ دراصل ”‏دُنیا کی رُوح“‏ یعنی دُنیا کی سوچ ہوا کی طرح ہے جو ہر طرف موجود ہے۔‏ یہ ہوا زہریلی ہے۔‏ اگر ہمیں پتہ چلے کہ ہمارے اِردگِرد کی ہوا زہریلی ہے تو کیا ہم اِس کے اثر سے بچنے کی ہر ممکن کوشش نہیں کریں گے؟‏ اِسی طرح دُنیا کی سوچ ہمارے لئے زہر کی طرح ہے اور ہمیں اِس کے اثر سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اِس زہریلی ہوا کے باوجود اپنی دوڑ جاری رکھیں؟‏ ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ اُنہوں نے دوڑ کو مکمل کرنے کے سلسلے میں بہترین مثال قائم کی۔‏ (‏عبر ۱۲:‏۲‏)‏ پولس رسول نے بھی ہمارے لئے اچھی مثال قائم کی۔‏ اُنہوں نے بھی ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ مکمل کی اور اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ اُن کی مانند بنیں۔‏—‏۱-‏کر ۱۱:‏۱؛‏ فل ۳:‏۱۴‏۔‏

آپ انعام جیت سکتے ہیں!‏

۱۴.‏ پولس رسول ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ مکمل کرنے کو کتنا اہم خیال کرتے تھے؟‏

۱۴ پولس رسول ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ مکمل کرنے کو کتنا اہم خیال کرتے تھے؟‏ اُنہوں نے افسس کی کلیسیا کے بزرگوں سے آخری بار مخاطب ہوتے وقت یہ کہا:‏ ”‏مَیں اپنی جان کو عزیز نہیں سمجھتا کہ اُس کی کچھ قدر کروں بمقابلہ اِس کے کہ اپنا دَور اور وہ خدمت جو خداوند یسوؔع سے پائی ہے پوری کروں۔‏“‏ (‏اعما ۲۰:‏۲۴‏)‏ وہ اِس دوڑ کو مکمل کرنے کے لئے اپنا سب کچھ یہاں تک کہ اپنی زندگی بھی قربان کرنے کو تیار تھے۔‏ پولس رسول نے لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنانے میں دن‌رات ایک کر دیا تھا۔‏ لیکن اُن کے نزدیک یہ ساری محنت فضول ہوتی،‏ اگر وہ اپنی دوڑ مکمل نہ کر پاتے۔‏ پولس رسول نے یہ نہیں سوچا کہ ”‏مَیں بڑے مضبوط ایمان کا مالک ہوں،‏ مَیں اِس دوڑ میں ناکام ہو ہی نہیں سکتا۔‏“‏ ‏(‏فلپیوں ۳:‏۱۲-‏۱۴ کو پڑھیں۔‏)‏ البتہ جب پولس رسول کو پتہ چلا کہ اُن کی موت نزدیک ہے تو تب اُنہوں نے کہا کہ ”‏مَیں اچھی کشُتی لڑ چکا۔‏ مَیں نے دوڑ کو ختم کر لیا۔‏ مَیں نے ایمان کو محفوظ رکھا۔‏“‏—‏۲-‏تیم ۴:‏۷‏۔‏

۱۵.‏ پولس رسول نے اپنے مسیحی بہن‌بھائیوں کی کیا حوصلہ‌افزائی کی؟‏

۱۵ پولس رسول کی خواہش تھی کہ دوسرے مسیحی بھی ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو مکمل کریں اور راستے میں تھک کر چُور نہ ہو جائیں۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے فلپی کی کلیسیا کے مسیحیوں سے کہا:‏ ‏”‏ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام کئے جاؤ۔‏“‏ پھر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏تاکہ مسیح کے دن مجھے فخر ہو کہ نہ میری دَوڑدھوپ بےفائدہ ہوئی نہ میری محنت اکارت گئی۔‏“‏ (‏فل ۲:‏۱۲،‏ ۱۶‏)‏ پولس رسول نے کُرنتھس کے مسیحیوں کی بھی حوصلہ‌افزائی کی کہ ”‏تُم بھی ایسے ہی دوڑو تاکہ جیتو۔‏“‏—‏۱-‏کر ۹:‏۲۴‏۔‏

۱۶.‏ مسیحیوں کو اپنا دھیان منزل پر کیوں جمائے رکھنا چاہئے؟‏

۱۶ جو کھلاڑی میراتھن جیسی لمبی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں،‏ اُنہیں دوڑ کے آخری مرحلے میں پہنچ کر ہی وہ پٹی نظر آتی ہے جہاں دوڑ ختم ہوتی ہے۔‏ لیکن ساری دوڑ کے دوران اُن کا دھیان اِس منزل پر لگا رہتا ہے۔‏ وہ جانتے ہیں کہ ہر قدم اُنہیں منزل کے قریب لے جا رہا ہے۔‏ جب اُن کو پتہ چلتا ہے کہ وہ دوڑ کے اختتام پر پہنچنے والے ہیں تو وہ پورے زور سے دوڑتے ہیں۔‏ مسیحیوں نے عزم کِیا ہے کہ وہ ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کو مکمل کریں گے اور انعام جیتیں گے۔‏ لہٰذا اُن کو چاہئے کہ وہ بھی دوڑ کے دوران اپنا دھیان منزل پر جمائے رکھیں۔‏

۱۷.‏ اگر ہمارا ایمان مضبوط ہے تو ہمارا دھیان کس بات پر رہے گا؟‏

۱۷ پولس رسول نے لکھا کہ ”‏ایمان اُمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اَن‌دیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔‏“‏ (‏عبر ۱۱:‏۱‏)‏ ابرہام اور سارہ نے آرام‌دہ زندگی چھوڑ دی اور ”‏زمین پر پردیسی اور مسافر“‏ کے طور پر رہنے لگے۔‏ وہ یہ کیسے کر پائے؟‏ دراصل خدا نے اُن سے جن چیزوں کا وعدہ کِیا تھا،‏ اُنہوں نے اِن کو ’‏دُور ہی سے پورا ہوتے دیکھ لیا تھا۔‏‘‏ موسیٰ نے ”‏گُناہ کا چند روزہ لطف اُٹھانے“‏ کی کوشش نہیں کی اور ”‏مصرؔ کے خزانوں“‏ کو خیرباد کہہ دیا۔‏ اُن کا ایمان اِتنا مضبوط کیوں تھا؟‏ کیونکہ ’‏اُن کی نگاہ اَجر پانے پر تھی۔‏‘‏ (‏عبر ۱۱:‏۸-‏۱۳،‏ ۲۴-‏۲۶‏)‏ پولس رسول نے کہا کہ خدا کے اِن خادموں نے جو کچھ کِیا،‏ وہ ”‏ایمان ہی سے“‏ کِیا۔‏ چونکہ اِن خادموں کا ایمان مضبوط تھا اِس لئے اُن کا دھیان اُن مشکلات اور مصیبتوں پر نہیں تھا جن کا اُنہیں سامنا تھا۔‏ اِس کی بجائے اُن کا دھیان اُن برکتوں پر تھا جو اُن کو مل رہی تھیں اور مستقبل میں ملنی تھیں۔‏

۱۸.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اُس ’‏گُناہ میں نہ پڑیں جو آسانی سے اُلجھا لیتا ہے‘‏؟‏

۱۸ عبرانیوں کے گیارھویں باب میں خدا کے جن خادموں کا ذکر کِیا گیا ہے،‏ ہمیں اُن کی مثال پر غوروفکر کرنی چاہئے اور اِن سے سیکھنا چاہئے۔‏ یوں ہمارا ایمان اَور بھی مضبوط ہو جائے گا اور ہم اُس گُناہ میں نہیں پڑیں گے ”‏جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے۔‏“‏ (‏عبر ۱۲:‏۱‏)‏ ہمارے مسیحی بہن‌بھائی بھی اپنے ایمان کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‏ ہمیں اُن کے ساتھ باقاعدگی سے جمع ہونا چاہئے تاکہ ہم ایک دوسرے کو ”‏محبت اور نیک کاموں کی ترغیب“‏ دے سکیں۔‏—‏عبر ۱۰:‏۲۴‏۔‏

۱۹.‏ یہ کیوں اہم ہے کہ ہم ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں دوڑتے رہیں؟‏

۱۹ ہم ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ کے آخری مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔‏ منزل بہت ہی قریب ہے۔‏ اگر ہم یہوواہ خدا پر ایمان رکھیں گے تو وہ ہماری مدد کرے گا تاکہ ’‏ہم ہر بوجھ کو اور اُس گُناہ کو جو آسانی سے اُلجھا لیتا ہے دُور‘‏ کریں۔‏ جی‌ہاں،‏ ہم بھی ایسے دوڑ سکتے ہیں کہ انعام جیتیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 یہودیوں کی نظر میں یہ بڑی بےحیائی کا کام تھا۔‏ دوسرے مکابیین کی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جب سردارکاہن یاسون نے یروشلیم میں یونانی طرز کا ورزش خانہ بنانا چاہا تو یہودیوں نے اِس کی سخت مخالفت کی۔‏—‏۲-‏مک ۴:‏۷-‏۱۷۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• ”‏ہر ایک بوجھ“‏ کو دُور کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

‏• ایک مسیحی کا ایمان کیسے کمزور پڑ سکتا ہے؟‏

‏• ہمارا دھیان انعام جیتنے پر کیوں لگا رہنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

وہ ’‏گُناہ کیا ہے جو ہمیں آسانی سے اُلجھا لیتا ہے‘‏؟‏ ہم اِس گُناہ میں کیسے پڑ سکتے ہیں؟‏