مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایسے فیصلے کریں جن سے خدا کی بڑائی ہو

ایسے فیصلے کریں جن سے خدا کی بڑائی ہو

ایسے فیصلے کریں جن سے خدا کی بڑائی ہو

‏”‏ہوشیار آدمی اپنی روِش کو دیکھتا بھالتا ہے۔‏“‏ —‏امثا ۱۴:‏۱۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏الف)‏ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ہمیں کس بات کا خیال رکھنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

ہم ہر روز بہت سے فیصلے کرتے ہیں۔‏ کچھ فیصلے تو زیادہ اہم نہیں ہیں۔‏ لیکن کچھ فیصلے ہماری زندگی پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔‏ چاہے ہم چھوٹے فیصلے کریں یا بڑے،‏ ہمیں اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اِن سے خدا کی بڑائی ہو۔‏‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳۱ کو پڑھیں۔‏

۲ آپ کو فیصلے کرنا آسان لگتا ہے یا مشکل؟‏ اگر ہم روحانی طور پر پُختہ بننا چاہتے ہیں تو ہمیں خود میں یہ صلاحیت پیدا کرنی چاہئے کہ ہم اچھے اور بُرے میں تمیز کریں اور خدا کی مرضی کے مطابق فیصلہ کریں،‏ نہ کہ لوگوں کی مرضی کے مطابق۔‏ (‏روم ۱۲:‏۱،‏ ۲؛‏ عبر ۵:‏۱۴‏)‏ یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم اچھے فیصلے کرنا سیکھیں؟‏ کبھی‌کبھار ہمیں فیصلہ کرنا کیوں مشکل لگتا ہے؟‏ ہمیں کونسے اقدام اُٹھانے چاہئیں تاکہ ہمارے فیصلوں سے خدا کی بڑائی ہو؟‏

ہمیں اچھے فیصلے کرنا کیوں سیکھنا چاہئے؟‏

۳.‏ ہم کن باتوں کی وجہ سے غلط فیصلے کرنے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟‏

۳ شاید سکول میں یا کام کی جگہ پر ہمارے ساتھی جھوٹ بولیں،‏ چوری کریں یا کوئی اَور غلط کام کریں۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ ہم پر بھی کوئی ایسا کام کرنے کا دباؤ ڈالیں جو خدا کی مرضی کے خلاف ہے۔‏ اگر ہم نے پہلے سے یہ فیصلہ نہیں کِیا کہ ایسی صورتحال میں ہم کیا کریں گے تو شاید ہم ”‏بِھیڑ کی پیروی“‏ کرنے لگیں۔‏ شاید ہم اُن کے بُرے کاموں میں اُن کا ساتھ دینے لگیں یا پھر دوسروں کے سامنے اُن کے کاموں پر پردہ ڈالنے لگیں۔‏ (‏خر ۲۳:‏۲‏)‏ لیکن اگر ہم نے بائبل کے اصولوں کے مطابق اپنے ضمیر کی تربیت کی ہے تو ہم ہمیشہ ایسے فیصلے کریں گے جن سے یہوواہ خدا کی بڑائی ہو۔‏ ہم نہ تو لوگوں کے ڈر سے اور نہ ہی اُن میں مقبول ہونے کی خاطر کوئی ایسا کام کریں گے جو ہمارے ضمیر کے خلاف ہو۔‏—‏روم ۱۳:‏۵‏۔‏

۴.‏ دوسرے لوگ شاید ہمارے لئے فیصلے کیوں کرنا چاہیں؟‏

۴ کئی لوگ ہمارے لئے فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ اکثر اُن کی نیت بُری نہیں ہوتی۔‏ وہ صرف ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہمارے دوست اور رشتہ‌دار اِس بات پر اصرار کریں کہ ہم اُن کے مشورے پر عمل کریں۔‏ اگر ہم اپنے گھر والوں سے دُور بھی رہتے ہوں تو بھی شاید رشتہ‌دار ہماری زندگی کے اہم فیصلوں میں دخل دینا چاہئیں۔‏ مثال کے طور پر جب ہم بیمار ہوتے ہیں اور ہمیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے تو شاید وہ اصرار کریں کہ ہم وہ علاج کروائیں جو اُن کے خیال میں ٹھیک ہے۔‏ لیکن اِس معاملے میں ہر مسیحی کو ”‏اپنا ہی بوجھ“‏ اُٹھانا ہے یعنی خود فیصلہ کرنا ہے۔‏ (‏گل ۶:‏۴،‏ ۵‏)‏ بائبل میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ہمیں خون سے پرہیز کرنا چاہئے۔‏ (‏اعما ۱۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ لیکن بہت سے ایسے علاج بھی ہیں جن کے بارے میں بائبل میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا ہے۔‏ لہٰذا ہر مسیحی کو خود فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ کونسا علاج کروائے گا اور کونسا نہیں۔‏ * یاد رکھیں کہ انسانوں کو خوش کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم خدا کی نظر میں پاک‌دل رہیں۔‏—‏۱-‏تیم ۱:‏۵‏۔‏

۵.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے ایمان کا جہاز غرق نہ ہو جائے؟‏

۵ اگر ہم فیصلہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں تو ہم مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔‏ یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے لکھا کہ دودلا شخص اپنی ”‏سب باتوں میں بےقیام“‏ ہے۔‏ (‏یعقو ۱:‏۸‏)‏ وہ ایک ایسی کشتی کی طرح ہے جسے لہریں اِدھراُدھر اُچھالتی ہیں۔‏ چونکہ وہ خود کوئی فیصلہ نہیں کر پاتا اِس لئے وہ دوسروں کی رائے پر چلتا ہے۔‏ ایسی صورت میں اُس کے ایمان کا جہاز آسانی سے غرق ہو سکتا ہے اور پھر وہ شاید دوسروں کو اِس کا ذمہ‌دار ٹھہرائے۔‏ (‏۱-‏تیم ۱:‏۱۹‏)‏ ہم ایسی صورتحال میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ ”‏ایمان میں مضبوط“‏ رہنے سے۔‏ ‏(‏کلسیوں ۲:‏۶،‏ ۷ کو پڑھیں۔‏)‏ ہمارے فیصلوں سے یہ ظاہر ہونا چاہئے کہ ہم خدا کے کلام پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیم ۳:‏۱۴-‏۱۷‏)‏ لیکن کبھی‌کبھار ہمیں فیصلے کرنا مشکل لگتا ہے۔‏ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‏

کبھی‌کبھار ہمیں فیصلہ کرنا کیوں مشکل لگتا ہے؟‏

۶.‏ خوف ہم پر کیا اثر ڈال سکتا ہے؟‏

۶ بعض اوقات ہم خوف کی وجہ سے فیصلہ نہیں کر پاتے۔‏ شاید ہم خوف‌زدہ ہوں کہ ہم کوئی غلط فیصلہ کر بیٹھیں گے،‏ ہم اپنے فیصلے پر عمل نہیں کر پائیں گے یا لوگ ہم پر نکتہ‌چینی کریں گے۔‏ کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہتا کہ اُسے غلط فیصلہ کرکے شرمندگی یا مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔‏ لیکن ہم ایسے خوف پر قابو پا سکتے ہیں۔‏ اگر ہم یہوواہ خدا سے محبت رکھتے ہیں تو ہم کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے اُس کے کلام سے اور اُس کی تنظیم کی کتابوں اور رسالوں سے رہنمائی حاصل کریں گے۔‏ خدا کا کلام ہمیں ”‏علم اور تمیز“‏ بخشے گا اور یوں ہم کم ہی غلط فیصلے کریں گے۔‏—‏امثا ۱:‏۴‏۔‏

۷.‏ ہم داؤد بادشاہ کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۷ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم سب کبھی‌کبھی غلط فیصلے کرتے ہیں۔‏ (‏روم ۳:‏۲۳‏)‏ داؤد بادشاہ کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ بہت سمجھ‌دار شخص تھے اور خدا کے وفادار تھے۔‏ پھر بھی اُنہوں نے کچھ غلط فیصلے کئے جن کی وجہ سے اُن کو اور دوسروں کو بھی نقصان اُٹھانا پڑا۔‏ (‏۲-‏سمو ۱۲:‏۹-‏۱۲‏)‏ کیا اِس کے بعد داؤد بادشاہ فیصلہ کرنے سے ہچکچائے؟‏ جی‌نہیں۔‏ اُنہوں نے عمر بھر ایسے فیصلے کئے جن سے یہوواہ خدا خوش تھا۔‏ (‏۱-‏سلا ۱۵:‏۴،‏ ۵‏)‏ داؤد کی طرح ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا اُن لوگوں کی غلطیاں معاف کر دیتا ہے جو اُس سے محبت رکھتے ہیں اور اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں۔‏ یوں ہم ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے پریشان ہونے کی بجائے آگے کی طرف قدم بڑھائیں گے۔‏—‏زبور ۵۱:‏۱-‏۴،‏ ۷-‏۱۰‏۔‏

۸.‏ شادی کے سلسلے میں پولس رسول کی بات سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۸ اگر ہمیں فیصلہ کرنا مشکل لگے تو ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اکثر ہم ایک معاملے میں مختلف فیصلے کر سکتے ہیں جن میں سے کوئی بھی غلط نہیں۔‏ مثال کے طور پر شادی کے سلسلے میں پولس رسول نے یہ مشورہ دیا:‏ ”‏مَیں بےبیاہوں اور بیواؤں کے حق میں یہ کہتا ہوں کہ اُن کے لئے ایسے ہی رہنا اچھا ہے جیسا مَیں ہوں۔‏ لیکن اگر ضبط نہ کر سکیں تو بیاہ کر لیں کیونکہ بیاہ کرنا مست ہونے سے بہتر ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۷:‏۸،‏ ۹‏)‏ پولس رسول نے کہا کہ غیرشادی‌شُدہ رہنا بہتر ہے لیکن شادی کرنا بھی غلط نہیں۔‏

۹.‏ کیا ہمیں اِس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ دوسرے لوگ ہمارے فیصلے کے بارے میں کیا سوچیں گے؟‏ وضاحت کریں۔‏

۹ کیا ہمیں اِس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ دوسرے لوگ ہمارے فیصلے کے بارے میں کیا سوچیں گے؟‏ ہمیں ایک حد تک دوسروں کے احساسات کا لحاظ رکھنا چاہئے۔‏ ذرا غور کریں کہ پولس رسول نے اُن جانوروں کا گوشت کھانے کے بارے میں کیا ہدایت دی جو بُتوں کے لئے قربان کئے گئے تھے۔‏ اُنہوں نے واضح کِیا کہ بعض اوقات ایک فیصلہ غلط نہیں ہوتا لیکن شاید یہ دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث بنے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اگر کھانا میرے بھائی کو ٹھوکر کھلائے تو مَیں کبھی ہرگز گوشت نہ کھاؤں گا تاکہ اپنے بھائی کے لئے ٹھوکر کا سبب نہ بنوں۔‏“‏ (‏۱-‏کر ۸:‏۴-‏۱۳‏)‏ ہمیں بھی فیصلہ کرتے وقت یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارے فیصلے سے دوسروں کے ضمیر پر کیا اثر پڑے گا۔‏ لیکن اِس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہمارے فیصلے کے بارے میں یہوواہ خدا کیا سوچے گا۔‏ ‏(‏رومیوں ۱۴:‏۱-‏۴ کو پڑھیں۔‏)‏ بائبل کے کونسے اصول ایسے فیصلے کرنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں جن سے یہوواہ خدا کی بڑائی ہوتی ہے؟‏

اچھے فیصلے کرنے کے لئے چھ اقدام

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏الف)‏ گھر کے افراد کو فیصلے کرنے کے سلسلے میں کیا یاد رکھنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ بزرگوں کو کلیسیا کے لئے فیصلے کرتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟‏

۱۰ اپنے اختیار کے مطابق ہی فیصلے کریں۔‏ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مجھے یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے؟‏“‏ سلیمان بادشاہ نے لکھا:‏ ”‏تکبّر کے ہمراہ رسوائی آتی ہے لیکن خاکساروں کے ساتھ حکمت ہے۔‏“‏—‏امثا ۱۱:‏۲‏۔‏

۱۱ شاید والدین اپنے بچوں کو کچھ فیصلے کرنے کی اجازت دیں۔‏ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بچوں کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ ہر فیصلہ اپنی مرضی سے کریں۔‏ (‏کل ۳:‏۲۰‏)‏ گھر میں بیوی یا ماں کو بھی ایک حد تک اختیار حاصل ہے لیکن اُسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ گھر کا سربراہ شوہر ہے۔‏ (‏امثا ۱:‏۸؛‏ ۳۱:‏۱۰-‏۱۸؛‏ افس ۵:‏۲۳‏)‏ شوہر اگرچہ گھر کا سربراہ ہے لیکن اُسے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ وہ یسوع مسیح کے تابع ہے۔‏ (‏۱-‏کر ۱۱:‏۳‏)‏ کلیسیا کے بزرگ ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کا پوری کلیسیا پر اثر پڑتا ہے۔‏ لیکن وہ اِس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ خدا کے کلام میں لکھی ہوئی باتوں سے ’‏تجاوز نہ کریں۔‏‘‏ (‏۱-‏کر ۴:‏۶‏)‏ وہ دیانتدار نوکر جماعت کی ہدایات پر بھی عمل کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ اگر ہم اپنے اختیار کے مطابق ہی فیصلے کرتے ہیں تو ہم خود کو اور دوسروں کو پریشانیوں اور مسئلوں سے بچا سکتے ہیں۔‏

۱۲.‏ (‏الف)‏ فیصلہ کرنے سے پہلے معلومات حاصل کرنا اور سوچ‌بچار کرنا کیوں ضروری ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے کن باتوں پر غور کر سکتے ہیں؟‏

۱۲ معلومات حاصل کریں اور سوچ‌بچار کریں۔‏ سلیمان بادشاہ نے لکھا:‏ ”‏محنتی کی تدبیریں یقیناً فراوانی کا باعث ہیں لیکن ہر ایک جلدباز کا انجام محتاجی ہے۔‏“‏ (‏امثا ۲۱:‏۵‏)‏ فرض کریں کہ آپ کو کاروبار کے سلسلے میں کوئی فیصلہ کرنا ہے۔‏ اِس صورت میں جلدبازی نہ کریں۔‏ پہلے تمام معلومات حاصل کریں۔‏ ایسے لوگوں سے مشورہ لیں جو اِس سلسلے میں تجربہ رکھتے ہیں۔‏ خدا کے کلام کے ایسے اصولوں پر غور کریں جو اِس معاملے پر لاگو ہوتے ہیں۔‏ (‏امثا ۲۰:‏۱۸‏)‏ اِس فیصلے کے فائدوں اور نقصانات کی فہرست بنائیں۔‏ اِس طرح آپ فیصلہ کرنے سے پہلے ”‏لاگت کا حساب“‏ لگا سکتے ہیں۔‏ (‏لو ۱۴:‏۲۸‏)‏ صرف یہ نہ سوچیں کہ اِس فیصلے سے آپ کو مالی لحاظ سے کونسے فائدے ہوں گے بلکہ یہ بھی سوچیں کہ اِس سے یہوواہ خدا کے ساتھ آپ کے رشتے پر کیا اثر پڑے گا۔‏ سچ ہے کہ معلومات حاصل کرنے اور اِن پر سوچ‌بچار کرنے میں وقت لگتا ہے۔‏ لیکن اِس طرح آپ جلدبازی میں غلط فیصلہ کرنے سے بچ جائیں گے۔‏

۱۳.‏ (‏الف)‏ یعقوب ۱:‏۵ میں ہمیں کس بات کا یقین دلایا گیا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خدا سے حکمت کیوں مانگنی چاہئے؟‏

۱۳ خدا سے حکمت مانگیں۔‏ ایسے فیصلے کرنے کے لئے جن سے خدا کی بڑائی ہوتی ہے،‏ ہمیں اُس سے مدد مانگنی چاہئے۔‏ یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے لکھا:‏ ”‏اگر تُم میں سے کسی میں حکمت کی کمی ہو تو خدا سے مانگے جو بغیر ملامت کئے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے۔‏ اُس کو دی جائے گی۔‏“‏ (‏یعقو ۱:‏۵‏)‏ اگر ہم اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں خدا کی حکمت کی ضرورت ہے تو یہوواہ خدا اچھے فیصلہ کرنے میں ہماری رہنمائی کرے گا۔‏ (‏امثا ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ اگر ہم اپنی سمجھ پر بھروسا کرتے ہیں تو ہم غلط فیصلہ کر سکتے ہیں۔‏ لیکن جب ہم خدا سے حکمت مانگتے ہیں اور اُس کے کلام کے اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہیں تو خدا کی پاک روح ہماری رہنمائی کرے گی۔‏ یوں ہم یہ سمجھ پائیں گے کہ ہم اصل میں ایک فیصلہ کیوں کرنا چاہتے ہیں۔‏—‏عبر ۴:‏۱۲؛‏ یعقوب ۱:‏۲۲-‏۲۵ کو پڑھیں۔‏

۱۴.‏ ہمیں فیصلہ کرنے میں غیرضروری طور پر دیر کیوں نہیں کرنی چاہئے؟‏

۱۴ فیصلہ کریں۔‏ جب تک آپ معلومات حاصل نہ کر لیں،‏ سوچ‌بچار نہ کرلیں اور خدا سے حکمت نہ مانگ لیں تب تک فیصلہ نہ کریں۔‏ ایک دانشمند شخص ”‏اپنی روِش کو دیکھتا بھالتا ہے۔‏“‏ (‏امثا ۱۴:‏۱۵‏)‏ لیکن فیصلہ کرنے میں غیرضروری طور پر دیر نہ کریں۔‏ کچھ لوگ فیصلہ نہ کرنے کے لئے بہانے بناتے ہیں۔‏ (‏امثا ۲۲:‏۱۳‏)‏ شاید وہ اِس انتظار میں ہوں کہ دوسرے اُن کے لئے فیصلہ کریں۔‏ لیکن اِس کے نتیجے میں وہ دوسروں کے ہاتھوں میں کٹھ‌پتلی بن جاتے ہیں۔‏

۱۵،‏ ۱۶.‏ ہمیں اپنے فیصلوں پر عمل کرنے کے لئے کیا کرنا پڑے گا؟‏

۱۵ فیصلے پر عمل کریں۔‏ اگر ہم فیصلہ تو کر لیتے ہیں لیکن اِس پر عمل نہیں کرتے تو ہماری کوششوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‏ سلیمان بادشاہ نے لکھا:‏ ”‏جو کام تیرا ہاتھ کرنے کو پائے اُسے مقدور بھر کر۔‏“‏ (‏واعظ ۹:‏۱۰‏)‏ ہم تب ہی کامیاب ہوں گے اگر ہم اپنے فیصلے پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔‏ مثال کے طور پر شاید کلیسیا میں ایک مبشر یہ فیصلہ کرے کہ وہ پائنیر کے طور پر خدمت شروع کرے گا۔‏ کیا وہ اپنے اِس فیصلے پر عمل کر پائے گا؟‏ اگر وہ ملازمت اور تفریح میں حد سے زیادہ وقت اور توانائی صرف نہیں کرے گا تو وہ ضرور کامیاب ہوگا۔‏

۱۶ ہمارے فیصلے کتنے بھی اچھے کیوں نہ ہوں،‏ اِن پر عمل کرنا اکثر مشکل ثابت ہوتا ہے۔‏ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوح ۵:‏۱۹‏)‏ ہمیں ”‏دُنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں“‏ لڑنا پڑتا ہے۔‏ (‏افس ۶:‏۱۲‏)‏ پولس رسول اور یہوداہ نے بھی بتایا کہ جو شخص خدا کی بڑائی کرنا چاہتا ہے،‏ اُسے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔‏—‏۱-‏تیم ۶:‏۱۲؛‏ یہوداہ ۳‏۔‏

۱۷.‏ یہوواہ خدا ہمارے فیصلوں کے سلسلے میں ہم سے کیا توقع کرتا ہے؟‏

۱۷ فیصلے کے نتائج کا جائزہ لیں اور اگر ضروری ہو تو اِس میں ردوبدل کریں۔‏ کبھی‌کبھار ہمارے فیصلوں کے نتائج وہ نہیں نکلتے جو ہم نے سوچے ہوتے ہیں۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏سب کے لئے وقت اور حادثہ ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۹:‏۱۱‏)‏ ہماری زندگی کے کچھ فیصلے ایسے ہیں جن کے بارے میں یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم مشکلات کے باوجود اِن پر قائم رہیں۔‏ مثال کے طور پر جب ہم اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کرتے ہیں یا شادی کر لیتے ہیں تو یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اِن فیصلوں پر قائم رہیں۔‏ ‏(‏زبور ۱۵:‏۱،‏ ۲،‏ ۴ کو پڑھیں۔‏)‏ البتہ ہماری زندگی کے بہت سے فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن میں ہم ردوبدل کر سکتے ہیں۔‏ ایک دانشمند شخص وقتاًفوقتاً اپنے فیصلے کے نتائج کا جائزہ لیتا ہے۔‏ اگر اُسے اپنے فیصلے میں کچھ تبدیلی کرنے یا پھر اِسے بالکل بدلنے کی ضرورت ہے تو وہ ضد یا غرور میں آکر یہ نہیں سوچتا کہ ”‏مَیں اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گا۔‏“‏ (‏امثا ۱۶:‏۱۸‏)‏ اُس کے لئے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے کاموں سے یہوواہ خدا کی بڑائی کرے۔‏

دوسروں کو اچھے فیصلے کرنا سکھائیں

۱۸.‏ والدین اپنے بچوں کو اچھے فیصلے کرنا کیسے سکھا سکتے ہیں؟‏

۱۸ والدین اپنے بچوں کو ایسے فیصلے کرنا سکھا سکتے ہیں جن سے یہوواہ خدا کی بڑائی ہو۔‏ اِس سلسلے میں والدین کی مثال بہت اہم ہے۔‏ (‏لو ۶:‏۴۰‏)‏ کبھی‌کبھی وہ بچوں کو بتا سکتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک فیصلہ کرنے کے لئے کونسے اقدام اُٹھائے تھے۔‏ وہ بچوں کو اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ خود اپنے لئے کچھ فیصلے کریں۔‏ جب بچے اچھے فیصلے کرتے ہیں تو والدین اُنہیں شاباش دے سکتے ہیں۔‏ اگر بچے غلط فیصلہ کرتے ہیں تو کیا والدین کو اُنہیں اِس کے نتائج سے بچانا چاہئے؟‏ کچھ والدین ایسا کرتے ہیں۔‏ لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ بچوں کو اپنے فیصلوں کے نتائج بھگتنے دیں۔‏ مثال کے طور پر شاید والدین اپنے بچے کو ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کی اجازت دیں۔‏ پھر اگر بچہ گاڑی چلاتے ہوئے سگنل توڑتا ہے اور اُس کا چالان ہو جاتا ہے تو شاید والدین چالان بھرنا چاہیں۔‏ لیکن اگر وہ بچے کو اپنے جیب‌خرچ سے چالان بھرنے کو کہتے ہیں تو وہ یہ سیکھ جائے گا کہ وہ اپنے کئے کا خود ذمہ‌دار ہے۔‏—‏روم ۱۳:‏۴‏۔‏

۱۹.‏ جب ہم کسی کو بائبل کے بارے میں تعلیم دیتے ہیں تو ہم اُسے اچھے فیصلے کرنا کیسے سکھا سکتے ہیں؟‏

۱۹ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ وہ دوسروں کو تعلیم دیں۔‏ (‏متی ۲۸:‏۲۰‏)‏ جب ہم کسی کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بہت اہم ہے کہ ہم اُسے اچھے فیصلے کرنا بھی سکھائیں۔‏ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏ کیا ہمیں اُنہیں ہر وقت یہ بتانا چاہئے کہ اُنہیں کیا فیصلہ کرنا چاہئے؟‏ جی‌نہیں،‏ بہتر یہ ہوگا کہ ہم اُنہیں سکھائیں کہ وہ بائبل کے اصولوں کے مطابق فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔‏ یاد رکھیں کہ ”‏ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپنا حساب دے گا۔‏“‏ (‏روم ۱۴:‏۱۲‏)‏ لہٰذا آئیں،‏ عزم کریں کہ ہم ہمیشہ ایسے فیصلے کریں گے جن سے یہوواہ خدا کی بڑائی ہو۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 اِس سلسلے میں ہماری بادشاہتی خدمتگزاری نومبر ۲۰۰۶ء میں صفحہ ۳-‏۶ پر شائع ہونے والے اِس مضمون کو دیکھیں:‏ ‏”‏مجھے خون کے اجزا سے تیارشُدہ دوائیوں اور اُس علاج کے بارے میں کیا فیصلہ کرنا چاہئے جس میں میرا اپنا ہی خون استعمال کِیا جائے گا؟‏‏“‏

آپ کا جواب کیا ہوگا؟‏

‏• ہمیں اچھے فیصلہ کرنا کیوں سیکھنا چاہئے؟‏

‏• خوف ہم پر کیا اثر ڈال سکتا ہے؟‏ اور ہم ایسے خوف پر قابو کیسے پا سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں کونسے چھ اقدام اُٹھانے چاہئیں تاکہ ہمارے فیصلوں سے خدا کی بڑائی ہو؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر بکس/‏تصویر]‏

اچھے فیصلے کرنے کے لئے چھ اقدام

۱ اپنے اختیار کے مطابق ہی فیصلہ کریں۔‏

۲ معلومات حاصل کریں اور سوچ‌بچار کریں۔‏

۳ خدا سے حکمت مانگیں۔‏

۴ فیصلہ کریں۔‏

۵ فیصلے پر عمل کریں۔‏

۶ فیصلے کے نتائج کا جائزہ لیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

جو شخص فیصلہ کرنے سے ہچکچاتا ہے،‏ وہ ایک ایسی کشتی کی طرح ہے جسے لہریں اِدھراُدھر اُچھالتی رہتی ہیں۔‏