پہلے ”اُس کی راستبازی“ کی تلاش کرو
پہلے ”اُس کی راستبازی“ کی تلاش کرو
”پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تُم کو مل جائیں گی۔“—متی ۶:۳۳۔
۱، ۲. (ا) خدا کی راستبازی سے کیا مُراد ہے؟ (ب) خدا کی راستبازی کا تعلق کس سے ہے؟
یسوع مسیح نے پہاڑی وعظ میں یہ نصیحت کی تھی کہ ”پہلے [خدا] کی بادشاہی“ کی تلاش کرو۔ (متی ۶:۳۳) آجکل یہوواہ کے گواہ اِس نصیحت سے بڑی اچھی طرح واقف ہیں۔ ہم اپنے ہر کام اور بات سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم اِس بادشاہت کے دل سے منتظر ہیں اور وفاداری سے اِس کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن یسوع مسیح نے خدا کی ”راستبازی کی تلاش“ کرنے کی نصیحت بھی کی تھی۔ خدا کی راستبازی سے کیا مُراد ہے؟ اور اِس کی تلاش کرنے کا کیا مطلب ہے؟
۲ اصلی زبان کے جن الفاظ کا ترجمہ ”راستبازی“ کِیا گیا ہے، اُن کا مطلب ”انصاف“ یا ”جائز“ بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا خدا کی راستبازی یہ ہے کہ ہم وہی کام کریں جو اُس کے اصولوں کے مطابق صحیح اور جائز ہیں۔ یہوواہ ہمارا خالق ہے۔ اِس لئے وہ اچھائی اور بُرائی، صحیح اور غلط کے سلسلے میں معیار قائم کرنے کا حق رکھتا ہے۔ (مکا ۴:۱۱) تاہم اِس کا یہ مطلب نہیں کہ یہوواہ نے سخت اصولوں اور معیاروں کی ایک لمبی چوڑی فہرست بنا رکھی ہے۔ دراصل خدا کی راستبازی کا تعلق اُس کے انصاف سے ہے۔ صحائف واضح کرتے ہیں کہ محبت، حکمت اور طاقت کے علاوہ انصاف بھی یہوواہ کی اہم صفت ہے۔ یہ صفات یہوواہ کے ہر کام میں نظر آتی ہیں۔ لہٰذا خدا کی راستبازی انسانوں کے لئے اُس کی مرضی سے منسلک ہے۔ خدا کی راستبازی میں اُس کے معیار بھی شامل ہیں جن کے مطابق زندگی گزارنے سے ہمیں اُس کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔
۳. (ا) پہلے خدا کی راستبازی کی تلاش کرنے کا کیا مطلب ہے؟ (ب) ہمیں یہوواہ کے معیاروں پر کیوں چلنا چاہئے؟
(رومیوں ۱۲:۲ کو پڑھیں۔) ہم سزا کے ڈر کی وجہ سے یہوواہ کی فرمانبرداری نہیں کرتے۔ اِس کے برعکس ہم یہوواہ سے محبت کی بِنا پر اُس کے معیاروں پر چلتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ ہمارا خالق ہے اور اُس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے میں ہی ہمارا بھلا ہے۔ ہمیں خدا کی بادشاہت کے بادشاہ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنا چاہئے جس نے راستبازی سے محبت رکھی۔—عبر ۱:۸، ۹۔
۳ اب سوال یہ ہے کہ پہلے خدا کی راستبازی کی تلاش کرنے کا کیا مطلب ہے؟ سادہ الفاظ میں اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہوواہ کی مرضی کے مطابق چلیں۔ اُس کی راستبازی کی تلاش کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اصولوں اور معیاروں کی بجائے یہوواہ کے اصولوں اور معیاروں کی پابندی کریں۔۴. یہوواہ کی راستبازی کی تلاش کرنا اتنا اہم کیوں ہے؟
۴ یہوواہ کی راستبازی کی تلاش کرنا اتنا اہم کیوں ہے؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے آئیں آدم اور حوا کی مثال پر غور کریں۔ اُن کی وفاداری کو پرکھنے کے لئے یہوواہ خدا نے اُنہیں حکم دیا کہ نیکوبد کی پہچان کے درخت کا پھل نہ کھائیں۔ اِس حکم پر عمل کرنے سے آدم اور حوا اِس بات کی حمایت کر سکتے تھے کہ صرف یہوواہ ہی صحیح اور غلط کے سلسلے میں معیار قائم کرنے کا حق رکھتا ہے۔ (پید ۲:۱۷؛ ۳:۵) آدم اور حوا اِس آزمائش میں ناکام ہو گئے۔ ہم چونکہ اُن کی اولاد ہیں اِس لئے اُن کی ناکامی کی سزا ہمیں بھی بھگتنی پڑتی ہے۔ ہمیں مصیبت اور موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (روم ۵:۱۲) لیکن خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”جو صداقت اور شفقت کی پیروی کرتا ہے زندگی اور صداقتوعزت پاتا ہے۔“ (امثا ۲۱:۲۱) واقعی پہلے خدا کی راستبازی کی تلاش کرنے سے ہم اُس کی قربت میں آ جاتے ہیں جو ہمارے لئے نجات کا باعث بنتا ہے۔—روم ۳:۲۳، ۲۴۔
راستبازی کا دکھاوا نہ کریں
۵. ہمیں کس خطرے سے بچنا چاہئے؟
۵ پولس رسول نے روم میں رہنے والے مسیحیوں کے نام خط میں ایک خطرے سے خبردار کِیا۔ اگر ہم پہلے خدا کی راستبازی کی تلاش کرنے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اِس خطرے سے بچنا ہوگا۔ پولس رسول نے کہا: ”مَیں اُن کا گواہ ہوں کہ وہ خدا کے بارے میں غیرت تو رکھتے ہیں مگر سمجھ کے ساتھ نہیں۔ اِس لئے کہ وہ خدا کی راستبازی سے ناواقف ہو کر اور اپنی راستبازی قائم کرنے کی کوشش کرکے خدا کی راستبازی کے تابع نہ ہوئے۔“ (روم ۱۰:۲، ۳) پولس رسول نے واضح کِیا کہ یہودی راستبازی کے لئے اپنے معیار قائم کرنے کی وجہ سے یہوواہ کی راستبازی کو نہ سمجھ پائے۔ *
۶. ہمیں کس سوچ سے بچنا چاہئے اور کیوں؟
۶ ہمیں اپنی خدمت کا دوسروں کی خدمت سے موازنہ نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا کرنے سے ہم خود کو راستباز ٹھہرانے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ ایسی سوچ کی وجہ سے شاید ہم اپنی لیاقتوں پر اِترانے لگیں جس سے ظاہر ہوگا کہ ہماری نظر میں یہوواہ کی راستبازی کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ (گل ۶:۳، ۴) یاد رکھیں کہ ہمیں یہوواہ سے محبت کی بِنا پر نیک کام کرنے چاہئیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو راستباز ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں تو اِس سے ظاہر ہوگا کہ ہم خدا سے محبت نہیں کرتے۔—لوقا ۱۶:۱۵ کو پڑھیں۔
۷. یسوع مسیح نے راستبازی کا دکھاوا کرنے والے لوگوں کو کیسے آگاہ کِیا؟
۷ یسوع مسیح جانتا تھا کہ وہ لوگ خدا کی خوشنودی حاصل نہیں کر سکتے جو ’اپنے پر بھروسا رکھتے ہیں کہ وہ راستباز ہیں اور باقی آدمی ناچیز ہیں۔‘ یسوع مسیح نے راستبازی کا دکھاوا کرنے والے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے یہ تمثیل پیش کی: ”دو شخص ہیکل میں دُعا کرنے گئے۔ ایک فریسی۔ دوسرا محصول لینے والا۔ فریسی کھڑا ہو کر اپنے جی میں یوں دُعا کرنے لگا کہ اَے خدا! مَیں تیرا شکر کرتا ہوں کہ باقی آدمیوں کی طرح ظالم بےانصاف زناکار یا اِس محصول لینے والے کی مانند نہیں ہوں۔ مَیں ہفتہ میں دو بار روزہ رکھتا اور اپنی ساری آمدنی پر دہیکی دیتا ہوں۔ لیکن محصول لینے والے نے لو ۱۸:۹-۱۴۔
دُور کھڑے ہو کر اِتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اُٹھائے بلکہ چھاتی پیٹ پیٹ کر کہا کہ اَے خدا! مجھ گنہگار پر رحم کر۔ مَیں تُم سے کہتا ہوں کہ یہ شخص دوسرے کی نسبت راستباز ٹھہر کر اپنے گھر گیا کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کِیا جائے گا۔“—حد سے زیادہ راستباز نہ بنیں
۸، ۹. حد سے زیادہ راستباز بننے سے کیا مُراد ہے اور اِس سے ہم کس خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟
۸ اگر ہم پہلے خدا کی راستبازی کی تلاش کرنے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک اَور خطرے سے بچنے کی ضرورت ہے۔ واعظ ۷:۱۶ میں آگاہ کِیا گیا ہے: ”حد سے زیادہ نیکوکار نہ ہو اور حکمت میں اعتدال سے باہر نہ جا اِس کی کیا ضرورت ہے کہ تُو اپنے آپ کو برباد کرے؟“ اِس کے بعد ۲۰ آیت میں ایسی سوچ سے بچنے کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ اِس آیت میں لکھا ہے: ”زمین پر کوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اور خطا نہ کرے۔“ خود کو حد سے زیادہ راستباز سمجھنے والا شخص صحیح اور غلط کے سلسلے میں اپنے معیار قائم کرتا ہے اور پھر اُن کے مطابق دوسروں کو پرکھتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ اپنے معیاروں کو خدا کے معیاروں سے زیادہ بہتر سمجھتا ہے اور یوں خدا کی نظر میں ناراست ٹھہرتا ہے۔
۹ حد سے زیادہ راستباز بننے سے شاید ہم یہوواہ خدا کے فیصلوں اور کاموں پر شک کرنے لگیں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم اپنے بنائے ہوئے معیاروں کو زیادہ اہم سمجھنے لگیں گے۔ گویا کہ ہم یہوواہ خدا کے کاموں اور فیصلوں کو اپنے معیاروں کے مطابق پرکھ رہے ہوں گے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ معیار قائم کرنے کا حق صرف یہوواہ کا ہے ہمارا نہیں۔—روم ۱۴:۱۰۔
۱۰. ایوب کی طرح بعض اوقات ہم بھی یہوواہ کی راستبازی پر شک کرنے کی طرف مائل کیوں ہو سکتے ہیں؟
۱۰ شاید خدا کے فیصلوں اور کاموں پر شُبہ کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہ ہو۔ مگر خطاکار ہونے کی وجہ سے ہم سے یہ غلطی ہو سکتی ہے۔ جب ہم کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں یا پھر خود کسی مشکل کا شکار ہوتے ہیں تو ہم خدا کی راستبازی پر شک کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ ایوب یہوواہ خدا کا وفادار تھا مگر اُس سے بھی ایسی غلطی ہو گئی تھی۔ ایوب کی کتاب کے شروع میں لکھا ہے کہ وہ ”کامل اور راستباز تھا اور خدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا تھا۔“ (ایو ۱:۱) لیکن بعد میں اُس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جس کی وجہ سے وہ سوچنے لگا کہ اُس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ اِسی لئے اُس نے ”خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھہرایا۔“ (ایو ۳۲:۱، ۲) یاد کریں کہ ایوب خدا کا وفادار تھا پھر بھی اُسے اصلاح کی ضرورت تھی۔ لہٰذا اِس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ کبھیکبھی ہمیں بھی اپنی سوچ درست کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں دو باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ آئیں اِن دو باتوں پر غور کریں۔
کیا ہم تمام حقائق جانتے ہیں؟
۱۱، ۱۲. (ا) اگر ہم سمجھتے ہیں کہ خدا نے کوئی ناانصافی کی ہے تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟ (ب) تاکستان میں مزدوروں کی تمثیل سے ایسا کیوں لگ سکتا ہے کہ مالک ناانصافی کر رہا تھا؟
۱۱ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ بعض معاملات میں ہم کچھ حقائق سے ایو ۱:۷-۱۲؛ ۲:۱-۶) ایوب کو ذرا بھی علم نہیں تھا کہ شیطان اُس پر مصیبتیں لا رہا ہے۔ یہ بات یقین سے کہنا بھی مشکل ہے کہ آیا ایوب جانتا تھا کہ شیطان کون ہے۔ اِس لئے اُس نے غلطی سے یہ سوچ لیا کہ خدا اُس پر مصیبتیں لا رہا ہے۔ واقعی جب ہم تمام حقائق سے واقف نہیں ہوتے تو ہم غلط سوچ اپنا لیتے ہیں۔
تو واقف ہوتے ہیں مگر کچھ سے واقف نہیں ہوتے۔ ایوب کے معاملے میں بھی ایسا ہی تھا۔ وہ اِس بات سے واقف نہیں تھا کہ آسمان پر فرشتے خدا کے حضور جمع ہوئے تھے اور شیطان نے وہاں آکر ایوب پر جھوٹے الزام لگائے تھے۔ (۱۲ اِس بات کو سمجھنے کے لئے آئیں ہم یسوع مسیح کی ایک تمثیل پر غور کریں جس میں ایک مالک اپنے تاکستان میں مزدور لگاتا ہے۔ (متی ۲۰:۸-۱۶ کو پڑھیں۔) اِس تمثیل میں بتایا گیا ہے کہ کچھ مزدور سارا دن کام کرتے ہیں جبکہ کچھ صرف ایک گھنٹہ کام کرتے ہیں۔ لیکن گھر کا مالک سب مزدوروں کو ایک ہی جیسی مزدوری دیتا ہے۔ آپ کے خیال میں کیا یہ ٹھیک تھا؟ شاید آپ سوچیں کہ سارا دن کڑی دھوپ میں محنت کرنے والے مزدوروں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ اُنہیں تو زیادہ مزدوری ملنی چاہئے۔ آپ شاید یہ سوچیں کہ مالک کتنا بےرحم اور ظالم ہے۔ اِس مالک نے شکایت کرنے والے نوکروں کو جس طرح جواب دیا اُس سے بھی شاید آپ کو لگے کہ وہ اپنے اختیار کا غلط استعمال کر رہا تھا۔ لیکن کیا ہم تمام حقائق سے واقف ہیں؟
۱۳. ہم یسوع مسیح کی تمثیل کا ایک فرق زاویے سے جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟
۱۳ آئیں ایک فرق زاویے سے اِس تمثیل کا جائزہ لیں۔ یسوع مسیح کے زمانے میں مزدوروں کو روز کے روز مزدوری دی جاتی تھی۔ تاکستان کا مالک سمجھتا تھا کہ اگر ایک مزدور کو کسی دن مزدوری نہ ملے تو شاید اُس کے گھرانے کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی۔ اِس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ذرا اُن مزدوروں کے متعلق سوچیں جو مالک کو شام کے وقت ملے اور صرف ایک گھنٹہ ہی کام کر سکے تھے۔ یہ مزدور صبح سے کام ملنے کے انتظار میں تھے۔ اگر اُنہیں کام نہیں ملا تو اِس میں اُن کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اِس تمثیل میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ خود کام کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اگر اُنہیں صرف ایک گھنٹے کی ہی مزدوری دی جاتی تو وہ اپنے خاندان کی ضرورت کو پورا نہیں کر سکتے تھے۔ (متی ۲۰:۱-۷) ذرا تصور کریں کہ آپ پورا دن کام ملنے کے انتظار میں ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ کے خاندان کی ضروریات آپ کی روز کی کمائی سے ہی پوری ہو سکتی ہیں۔ اِس لئے آخرکار جب آپ کو کوئی ایسا کام مل جائے جس سے آپ اپنے خاندان کی ضرورت پوری کر سکیں تو آپ بہت خوش ہوں گے۔
۱۴. ہم یسوع مسیح کی تمثیل سے کونسا اہم سبق سیکھ سکتے ہیں؟
۱۴ پس کیا مالک سارا دن کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ ناانصافی کر رہا تھا؟ جینہیں۔ مالک نے کسی کو بھی کم مزدوری نہیں دی تھی۔ بازار میں مزدور بہت زیادہ تھے۔ مالک اگر چاہتا تو کم پیسے دے کر کام کروا سکتا تھا۔ لیکن اُس نے ایسا نہیں کِیا۔ اُس نے سب مزدوروں کو اتنے پیسے دئے جس سے وہ اپنے خاندان کے لئے دو وقت کی روٹی خرید سکتے تھے۔ اِن باتوں کے پیشِنظر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ مالک نہ تو کوئی ناانصافی کر رہا تھا اور نہ ہی وہ اپنے اختیار کو غلط استعمال کر رہا تھا۔ اِس کے برعکس اُس نے محبت کی بِنا پر یہ فیصلہ کِیا کہ سب مزدوروں کو برابر مزدوری ملنی چاہئے۔ ہم
اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟ اِس سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اگر ہم تمام حقائق نہیں جانتے تو ہم غلط نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔ یہ تمثیل ظاہر کرتی ہے کہ خدا کی راستبازی انسانی اصولوں اور معیاروں پر مبنی نہیں ہے۔ خدا کی راستبازی انسان کی راستبازی سے افضل ہے۔ہماری سوچ غلط یا محدود ہو سکتی ہے
۱۵. ہماری سوچ غلط یا محدود کیوں ہو سکتی ہے؟
۱۵ یہوواہ خدا کے فیصلوں اور کاموں پر اعتراض کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہماری سوچ غلط یا محدود ہو سکتی ہے۔ ہماری سوچ مختلف وجوہات کی بِنا پر غلط ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم خطاکار ہیں، ہم اپنے آسپاس کے لوگوں کی سوچ سے متاثر ہوتے ہیں اور کبھیکبھار شاید تعصب سے کام لیتے ہیں۔ ہماری سوچ محدود ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کی نیت کو جان نہیں سکتے۔ اِس کے برعکس یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی سوچ کسی بھی طرح غلط یا محدود نہیں ہے۔—امثا ۲۴:۱۲؛ متی ۹:۴؛ لو ۵:۲۲۔
۱۶، ۱۷. یہوواہ خدا نے داؤد اور بتسبع کو اُن کی زناکاری کے لئے موت کی سزا کیوں نہیں دی تھی؟
۱۶ اِس سلسلے میں آئیں داؤد کی مثال پر غور کریں۔ اُس نے بتسبع کے ساتھ زنا کِیا تھا۔ (۲-سمو ۱۱:۲-۵) شریعت کے مطابق اُنہیں موت کی سزا ملنی چاہئے تھی۔ (احبا ۲۰:۱۰؛ است ۲۲:۲۲) یہوواہ خدا نے اُنہیں سزا تو دی مگر اُنہیں جان سے نہ مارا۔ کیا یہوواہ کا یہ فیصلہ غلط تھا؟ کیا اُس نے داؤد کی طرفداری کی اور اپنے ہی قانون کو نظرانداز کر دیا؟ بعض لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں۔
۱۷ لیکن یاد رکھیں کہ زناکاری کے متعلق قانون یہوواہ خدا نے اسرائیلی قاضیوں کو دیا تھا جو کسی کے دل کا حال نہیں جان سکتے تھے۔ اِس قانون کے مطابق وہ زناکاری کے مقدموں میں بےطرفداری سے ایک جیسا فیصلہ کرنے کے قابل تھے۔ لیکن انسانوں کے برعکس، یہوواہ دل کا حال جانتا ہے۔ (پید ۱۸:۲۵؛ ۱-توا ۲۹:۱۷) اِس لئے یہوواہ خدا اُن قوانین کا پابند نہیں تھا جو اُس نے اسرائیلی قاضیوں کو دئے تھے۔ جس طرح تیز نظر والے کو نظر کے چشمے کی ضرورت نہیں ہوتی اُسی طرح یہوواہ کو بھی صحیح فیصلہ کرنے کے لئے اُن قوانین کی ضرورت نہیں جو اُس نے انسانوں کے لئے بنائے ہیں۔ یہوواہ خدا جانتا تھا کہ داؤد اور بتسبع اپنی غلطی پر سچے دل سے پشیمان ہیں۔ اِسی لئے یہوواہ خدا نے رحم اور محبت کی بِنا پر اُنہیں موت کی سزا نہ دی۔
یہوواہ کی راستبازی کی تلاش کرتے رہیں
۱۸، ۱۹. ہم یہوواہ خدا کے فیصلوں اور کاموں کو اپنے معیاروں کے مطابق پرکھنے سے کیسے گریز کر سکتے ہیں؟
۱۸ بعض اوقات جب ہم بائبل میں کسی واقعے کے بارے میں پڑھتے یا خود کسی مشکل سے گزرتے ہیں تو شاید ہمیں محسوس ہو کہ یہوواہ خدا ناانصافی کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں یہوواہ خدا کے فیصلوں اور کاموں کو اپنے اصولوں اور معیاروں کے مطابق پرکھنے سے گریز کرنا چاہئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں ہمیشہ تمام حقائق معلوم نہیں ہوتے اور ہماری سوچ غلط یا محدود ہو سکتی ہے۔ یہ کبھی نہ بھولیں کہ ”انسان کا قہر خدا کی راستبازی کا کام نہیں کرتا۔“ (یعقو ۱:۱۹، ۲۰) اِس طرح کبھی بھی ہمارا ”دل [یہوواہ] سے بیزار“ نہیں ہوگا۔—امثا ۱۹:۳۔
۱۹ یسوع مسیح کی طرح ہمیں بھی ہمیشہ یہ ماننا چاہئے کہ صحیح اور غلط کے سلسلے میں معیار قائم کرنے کا حق صرف یہوواہ خدا کا ہے۔ (مر ۱۰:۱۷، ۱۸) پس یہوواہ کے معیاروں کا علم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ (روم ۱۰:۲؛ ۲-تیم ۳:۷) یہوواہ کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارنے سے ہم یہ ظاہر کریں گے کہ ہم پہلے ”اُس کی راستبازی“ کی تلاش کر رہے ہیں۔—متی ۶:۳۳۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 5 ایک عالم کے مطابق، اصلی زبان کے جس لفظ کا ترجمہ ”قائم“ کِیا گیا ہے اُس کا مطلب ’ایک یادگار قائم کرنا‘ بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جس طرح لوگ اپنی بڑائی کے لئے کوئی یادگار قائم کرتے ہیں اُسی طرح یہودی بھی خدا کی بجائے اپنی بڑائی اور راستبازی کے معیار قائم کر رہے تھے۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
• یہوواہ کی راستبازی کی تلاش کرنا کیوں اہم ہے؟
• ہمیں کن دو خطروں سے بچنا چاہئے؟
• ہم پہلے خدا کی راستبازی کی تلاش کیسے کر سکتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۹ پر تصویر]
یسوع مسیح نے ہیکل میں دُعا کرنے والے دو آدمیوں کے متعلق تمثیل پیش کی۔ ہم اِس تمثیل سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
کیا ایک گھنٹہ کام کرنے والوں کو سارا دن کام کرنے والوں کے برابر مزدوری دینا جائز تھا؟