زبان کی طاقت کا صحیح اِستعمال کریں
”میرے مُنہ کا کلام . . . تیرے حضور مقبول ٹھہرے۔“—زبور 19:14۔
1، 2. یعقوب نے زبان کی طاقت کو ظاہر کرنے کے لیے آگ کی مثال کیوں دی؟
یہ اکتوبر 1871ء کی بات ہے۔ امریکہ کی ریاست وسکونسن میں واقع جنگل میں ایسی آگ لگی جو بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اِس آگ سے جتنی تباہی ہوئی، اُتنی تباہی پہلے کبھی امریکہ کے کسی جنگل میں نہیں ہوئی۔ اِس آگ نے اِتنی شدت پکڑ لی کہ اِس کے شعلوں اور تپش نے 1200 سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر دیا اور تقریباً 2 ارب درختوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ لیکن یہ آگ لگی کیسے؟ لگتا ہے کہ یہ ریل گاڑیوں کی چنگاری سے لگی تھی۔ اِس واقعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یعقوب 3:5 میں درج یہ بات واقعی سچ ہے: ”دیکھو۔ تھوڑی سی آگ سے کتنے بڑے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔“
2 شاگرد یعقوب آگ کی مثال سے کون سا سبق دینا چاہتے تھے؟ اُنہوں نے کہا: ”زبان بھی ایک آگ ہے۔“ (یعقو 3:6) آگ کی طرح ہماری زبان میں بھی نقصان پہنچانے کی طاقت ہے۔ بائبل میں تو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ”موت اور زندگی زبان کے قابو میں ہیں۔“ (امثا 18:21) بِلاشُبہ ہم اِس وجہ سے بولنا نہیں چھوڑیں گے کہ کہیں ہماری زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جس سے دوسروں کو ٹھیس پہنچے۔ ذرا سوچیں، کیا ہم اِس وجہ سے آگ اِستعمال کرنا چھوڑ دیں گے کہ کہیں اِس سے کسی کو نقصان نہ پہنچے؟ جی نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر آگ کو قابو میں رکھا جائے تو ہم اِسے کھانا پکانے، اپنے جسموں کو حرارت پہنچانے اور اندھیرے میں روشنی کرنے کے لیے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ اِسی طرح اگر ہم اپنی زبان کو قابو میں رکھتے ہیں تو ہم اِسے خدا کی بڑائی کرنے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اِستعمال کر سکتے ہیں۔—زبور 19:14۔
3. اِس مضمون میں ہم کن تین سوالوں پر غور کریں گے؟
یعقوب 3:9، 10 کو پڑھیں۔) آئیں، اِس سلسلے میں تین سوالوں پر غور کریں: (1) ہمیں کب بات کرنی چاہیے؟ (2) ہمیں کس طرح کے الفاظ اِستعمال کرنے چاہئیں؟ اور (3) ہمیں کیسے بات کرنی چاہیے؟
3 اپنے خیالات اور احساسات کا اِظہار کرنا خدا کی طرف سے ایک بخشش ہے، چاہے ہم ایسا بول کر کریں یا اِشاروں کی زبان میں۔ ہم خدا کی اِس بخشش کو کیسے اِستعمال کر سکتے ہیں تاکہ اِس سے دوسروں کو فائدہ ہو نہ کہ نقصان؟ (ہمیں کب بات کرنی چاہیے؟
4. کن حالات میں چپ رہنا مناسب ہو سکتا ہے؟
4 بات کرنا ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ لیکن اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمیں ہر وقت بولتے رہنا چاہیے۔ بائبل میں لکھا ہے: ”چپ رہنے کا ایک وقت ہے۔“ (واعظ 3:7) آئیں، دیکھتے ہیں کہ کن حالات میں چپ رہنا مناسب ہو سکتا ہے۔ جب دوسرے ہم سے بات کرتے ہیں اور ہم خاموشی سے اُن کی بات سنتے ہیں تو ہم اُن کے لیے احترام ظاہر کرتے ہیں۔ (ایو 6:24) جب ہم اپنی زبان کو قابو میں رکھتے ہیں اور کوئی راز فاش نہیں کرتے تو ہم سمجھداری ظاہر کرتے ہیں۔ (امثا 20:19) اِس کے علاوہ جب ہم ”غصے میں آتے وقت“ اپنی زبان کو قابو میں رکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں تو ہم عقلمندی کا ثبوت دیتے ہیں۔—زبور 4:4، اُردو جیو ورشن۔
5. خدا نے زبان کا جو تحفہ ہمیں دیا ہے، ہم اُس کے لیے قدر کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
5 بائبل میں یہ بھی لکھا ہے: ”بولنے کا ایک وقت ہے۔“ (واعظ 3:7) اگر آپ کا دوست آپ کو ایک خوبصورت تحفہ دیتا ہے تو یقیناً آپ اِسے سنبھال کر رکھ نہیں دیں گے بلکہ اِسے اچھے طریقے سے اِستعمال کریں گے اور یوں اِس کے لیے قدر ظاہر کریں گے۔ چونکہ زبان خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے اِس لیے جب ہم اِسے مناسب طریقے سے اِستعمال کرتے ہیں تو ہم اِس تحفے کے لیے قدر ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا کرنے میں یہ شامل ہے کہ ہم دوسروں کی حوصلہافزائی کریں؛ اپنے احساسات کا اِظہار کریں؛ اپنی ضروریات بتائیں اور خدا کی حمد کریں۔ (زبور 51:15) لیکن ہم کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بات کرنے کا مناسب وقت کیا ہے؟
6. بائبل میں مناسب وقت پر بات کرنے کی اہمیت کو کیسے واضح کِیا گیا ہے؟
6 امثال 25:11 میں مناسب وقت پر بات کرنے کی اہمیت کو واضح کِیا گیا ہے۔ اِس میں لکھا ہے: ”باموقع باتیں روپہلی [یعنی چاندی کی] ٹوکریوں میں سونے کے سیب ہیں۔“ سونے کے سیب بذاتِخود بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اِنہیں چاندی کی ٹوکری میں رکھا جائے تو اِن کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اِسی طرح جب ہم مناسب وقت پر بات کرتے ہیں تو ہماری باتیں اَور زیادہ دلکش اور مؤثر ہو جاتی ہیں۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟
7، 8. جاپان میں ہمارے بہن بھائیوں نے مناسب وقت پر لوگوں کو گواہی دینے سے یسوع مسیح کی مثال پر عمل کیسے کِیا؟
7 ہو سکتا ہے کہ جو بات ہم دوسروں سے کہنا چاہتے ہیں، اُس سے اُنہیں بہت فائدہ ہو لیکن اگر ہم اِسے مناسب وقت پر نہیں کہتے تو شاید یہ اِتنی مؤثر نہ ہو۔ (امثال 15:23 کو پڑھیں۔) مثال کے طور پر مارچ 2011ء میں مشرقی جاپان میں زلزلے اور سونامی کی وجہ سے شہر کے شہر ملیامیٹ ہو گئے۔ تقریباً 15 ہزار لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اگرچہ اِس علاقے کے یہوواہ کے گواہ بھی اِس آفت سے متاثر ہوئے لیکن اُنہوں نے اُن لوگوں کو بائبل سے تسلی دی جن کے عزیز ہلاک ہو گئے تھے۔ چونکہ یہاں کے بہت سے لوگ بدھمت مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور بائبل کی تعلیمات کے بارے میں نہیں جانتے تھے اِس لیے ہمارے بہن بھائیوں نے سوچا کہ ایسے وقت میں اِن لوگوں کو مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے میں بتانا مناسب نہیں ہوگا۔ لہٰذا اُنہوں نے اپنی زبان کو دوسروں کو تسلی دینے اور یہ بتانے کے لیے اِستعمال کِیا کہ اِنسانوں پر ایسی مصیبتیں کیوں آتی ہیں۔
8 یسوع مسیح اِس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ اُنہیں کب خاموش رہنا اور کب بات کرنی چاہیے۔ (یوح 18:33-37؛ 19:8-11) ایک مرتبہ اُنہوں نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”مجھے تُم سے اَور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے۔“ (یوح ) مشرقی جاپان میں رہنے والے یہوواہ کے گواہوں نے یسوع مسیح کی مثال پر عمل کِیا۔ سونامی کے ڈھائی سال بعد اُنہوں نے بادشاہتی خبر نمبر 38 ”کیا مُردے پھر سے زندہ ہوں گے؟“ کو تقسیم کرنے کی مہم میں حصہ لیا۔ اُس وقت تک بہت سے لوگوں کی صورتحال سنبھل چکی تھی اور اب اُنہیں یہ خوشخبری سنائی جا سکتی تھی کہ خدا مُردوں کو زندہ کرے گا۔ بہت سے لوگوں نے اِس پرچے کو قبول کِیا۔ بِلاشُبہ ہر ملک میں لوگوں کی ثقافت اور عقیدے فرق ہوتے ہیں۔ اِس لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اِن لوگوں سے بات کرنے کا مناسب وقت کیا ہوگا۔ 16:12
9. بعض صورتحال بتائیں جن میں مناسب وقت پر بات کرنا زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے۔
9 ایسے بہت سے موقعے ہوتے ہیں جب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ بات کرنے کا مناسب وقت کیا ہے۔ مثال کے طور پر شاید کوئی شخص ہم سے ایسی بات کہے جس سے ہمارا دل دُکھے۔ ہو سکتا ہے کہ اُس کا اِرادہ ہمارا دل دُکھانا نہ ہو۔ ایسی صورتحال میں ہمیں سوچنا چاہیے کہ آیا معاملہ اِتنا سنگین ہے کہ اُس شخص سے بات کی جائے۔ اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں اُس سے بات کرنی چاہیے تو اچھا ہے کہ ہم اُس وقت بات کریں جب ہم غصے میں نہ ہوں ورنہ ہو سکتا ہے کہ ہم اُس سے کوئی اُلٹی سیدھی بات کہہ دیں۔ (امثال 15:28 کو پڑھیں۔) اِس کے علاوہ ہمیں اپنے رشتےداروں کو گواہی دینے کے لیے بھی مناسب وقت کا اِنتظار کرنا چاہیے۔ ہماری خواہش ہے کہ وہ یہوواہ خدا کو جانیں۔ لیکن ہمیں صبر اور سمجھداری سے کام لینا چاہیے۔ جب ہم مناسب وقت پر سوچ سمجھ کر بات کریں گے تو زیادہ اِمکان ہے کہ ہماری بات اُن کے دل کو چُھو لے۔
ہمیں کس طرح کے الفاظ اِستعمال کرنے چاہئیں؟
10. (الف) ہمیں سوچ سمجھ کر لفظوں کا اِنتخاب کیوں کرنا چاہیے؟ (ب) ”تلخ باتوں“ کی ایک مثال کیا ہے؟
10 ہماری باتوں سے دوسروں کو یا تو حوصلہ مل سکتا ہے یا اُن کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ (امثال 12:18 کو پڑھیں۔) اپنی باتوں سے دوسروں کو درد دینا شیطان کی دُنیا کا خاصہ ہے۔ فلموں اور ڈراموں وغیرہ میں لوگوں کو اپنی ”زبان تلوار کی طرح تیز“ کرنے اور ’تلخ باتوں کے تیر‘ چلانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ (زبور 64:3) مسیحیوں کو ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہیے۔ ”تلخ باتوں“ کی ایک مثال دوسروں کو طنز کرنا ہے۔ لوگ دوسروں کو نیچا دِکھانے یا اُن کا مذاق اُڑانے کے لیے اُن کو طنز کرتے ہیں۔ وہ طنز عموماً ہنسی مذاق کے لیے کرتے ہیں لیکن اکثر باتوں ہی باتوں میں وہ بےعزتی کرنے پر اُتر آتے ہیں۔ طنزیہ باتوں سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے اور مسیحیوں کو ایسی باتیں کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ مذاق ہماری باتوں میں جان ڈال سکتا ہے لیکن ہمیں ایسے مذاق سے گریز کرنا چاہیے جس سے طنز کی بو آئے۔ بائبل میں ہمیں تاکید کی گئی ہے: ”کوئی گندی بات تمہارے مُنہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کے لئے اچھی ہو تاکہ اُس سے سننے والوں پر فضل ہو۔“—اِفس 4:29، 31۔
11. مناسب لفظوں کے اِنتخاب کا تعلق ہمارے دل سے کیسے ہے؟
11 یسوع مسیح نے کہا: ”جو دل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔“ (متی 12:34) لہٰذا مناسب لفظوں کے اِنتخاب کا تعلق ہمارے دل سے ہے۔ عموماً ہماری باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اگر ہمارا دل محبت اور ہمدردی سے بھرا ہے تو یقیناً ہم مثبت اور حوصلہافزا باتیں کریں گے۔
12. ہم مناسب الفاظ کا اِنتخاب کرنے کی قابلیت کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟
12 مناسب لفظوں کا اِنتخاب کرنے کے لیے وقت اور سوچ بچار بھی درکار ہے۔ دانشمند بادشاہ سلیمان نے بھی ”دلآویز [یعنی دلکش] باتوں کی تلاش“ کرنے کے لیے ”بخوبی غور“ کِیا۔ (واعظ 12:9، 10) کیا آپ کو اکثر ”دلآویز باتوں کی تلاش“ کرنا مشکل لگتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیوں نہ اپنے ذخیرۂالفاظ کو بڑھائیں؟ ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ بائبل اور ہماری کتابوں اور رسالوں میں دیکھیں کہ کون سے الفاظ اِستعمال کیے گئے ہیں۔ اُن الفاظ کا مطلب سیکھیں جن سے آپ واقف نہیں ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ سیکھیں کہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے آپ لفظوں کو کیسے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ غور کریں کہ یہوواہ خدا کے پہلوٹھے بیٹے نے کہا: ”رب قادرِمطلق نے مجھے [یسوع مسیح کو] شاگرد کی سی زبان عطا کی تاکہ مَیں وہ کلام جان لوں جس سے تھکاماندہ تقویت پائے۔“ (یسع 50:4، اُردو جیو ورشن) جب ہم وقت نکال کر اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم دوسروں سے کیا کہیں گے تو ہمارے لیے مناسب الفاظ تلاش کرنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ (یعقو 1:19) ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں: ”کیا یہ الفاظ وہی خیال پیش کریں گے جن کا اِظہار مَیں کرنا چاہتا ہوں؟ مَیں جن الفاظ کا اِنتخاب کرتا ہوں، اُس سے سننے والوں پر کیا اثر ہوگا؟“
13. صاف اور واضح بات کرنا ضروری کیوں ہے؟
13 بنیاِسرائیل کو خیمے لگانے اور اُتارنے کی ہدایت دینے کے لیے نرسنگا پھونکا جاتا تھا۔ اِس کے علاوہ نرسنگا پھونک کر اِسرائیلی فوج کو دُشمن پر حملہ کرنے کا اِشارہ بھی دیا جاتا تھا۔ اگر نرسنگے کی آواز صاف نہیں ہوتی تھی تو فوج کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑ سکتا تھا۔ اِسی لیے بائبل میں صاف اور واضح بات کرنے کی اہمیت پر زور دینے کے لیے نرسنگے کی مثال دی گئی ہے۔ اگر ہم زبان سے واضح بات نہیں کرتے تو ہو سکتا ہے کہ دوسروں کو ہماری بات سمجھ نہ آئے یا وہ کسی غلطفہمی کا شکار ہو جائیں۔ بِلاشُبہ ہمیں صاف اور واضح بات کرنی چاہیے لیکن ایسا کرتے وقت ہمیں دوسروں کے احساسات کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔—1-کُرنتھیوں 14:8، 9 کو پڑھیں۔
14. مثال دے کر بتائیں کہ یسوع مسیح نے لوگوں کو تعلیم دیتے وقت سادہ اور واضح الفاظ اِستعمال کیے۔
14 یسوع مسیح نے مناسب لفظوں کا اِنتخاب کرنے کے سلسلے میں بہترین مثال قائم کی۔ اِس سلسلے میں اُن کے پہاڑی وعظ پر غور کریں جو متی 5 سے 7 ابواب میں درج ہے۔ اپنے وعظ میں یسوع مسیح نے نہ تو بڑے بڑے الفاظ اِستعمال کیے اور نہ ہی غیرواضح باتیں کیں۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے سخت الفاظ اِستعمال نہیں کیے اور نہ ہی دل دُکھانے والی باتیں کیں۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے لوگوں کے دل تک پہنچنے کے لیے سادہ اور واضح الفاظ اِستعمال کیے۔ مثال کے طور پر جب یسوع مسیح نے لوگوں کو سمجھایا کہ وہ روزمرہ کی خوراک کے بارے میں فکرمند نہ ہوں تو اُنہوں نے بتایا کہ یہوواہ خدا ہوا کے پرندوں کو خوراک مہیا کرتا ہے۔ پھر اُنہوں نے اِن لوگوں کا موازنہ پرندوں سے کرتے ہوئے کہا: ”کیا تُم اُن سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟“ (متی 6:26) یسوع مسیح کی اِس سادہ اور واضح بات نے واقعی لوگوں کا دل چُھو لیا ہوگا۔ آئیں، اب دیکھتے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے کس طریقے سے بات کرنی چاہیے۔
ہمیں کیسے بات کرنی چاہیے؟
15. ہمیں نرمی سے بات کیوں کرنی چاہیے؟
15 جتنی ہماری بات اہم ہوتی ہے اُتنا ہی یہ بھی اہم ہوتا ہے کہ ہم یہ بات کس طریقے سے کرتے ہیں۔ جب یسوع مسیح نے ناصرة کے عبادتخانے میں تعلیم دی تو لوگ ”اُن کی دلکش باتوں پر حیران“ ہوئے۔ (لُو 4:22، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن) دلکش باتیں دوسروں کا دل موہ لیتی ہیں اور اُن پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ اور اگر یہ باتیں نرم لہجے میں کی جائیں تو یہ اَور بھی مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ (امثا 25:15) یسوع مسیح کی طرح ہمیں بھی لوگوں کے ساتھ نرمی اور خوشاخلاقی سے بات کرنی چاہیے اور اُن کے احساسات کا خیال رکھنا چاہیے۔ جب یسوع مسیح نے دیکھا کہ لوگ اُن کی باتیں سننے کے لیے کتنی دُور سے آئے ہیں تو اُنہیں اِن لوگوں پر ترس آیا اور وہ اُنہیں ’بہت سی باتوں کی تعلیم دینے لگے۔‘ (مر 6:34) یسوع مسیح نے تو اُس وقت بھی سختی سے بات نہیں کی جب اُن کی بےعزتی کی گئی۔—1-پطر 2:23۔
16، 17. (الف) اپنے گھر والوں اور کلیسیا میں اپنے قریبی دوستوں سے بات کرتے وقت ہم یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) مثال دے کر بتائیں کہ نرمی سے بات کرنے کا اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
16 شاید ہمیں اُن لوگوں کے ساتھ نرمی سے بات کرنا مشکل لگے جنہیں ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں جیسے کہ ہمارے گھر والے یا کلیسیا میں ہمارے قریبی دوست۔ چونکہ ہم اِن لوگوں سے بےتکلف ہوتے ہیں اِس لیے ہو سکتا ہے کہ کبھی کبھار ہم اُن کے احساسات کا لحاظ رکھے بغیر اُن سے سختی سے بات کریں۔ لیکن کیا یسوع مسیح نے کبھی یہ سوچا کہ ”میرے شاگرد تو میرے قریبی دوست ہیں اِس لیے مَیں اُن سے سختی سے بھی بات کر سکتا ہوں؟“ جی نہیں۔ جب یسوع مسیح کے شاگرد بار بار اِس بات پر بحث کرتے تھے کہ اُن میں سے بڑا کون مر 9:33-37) بزرگوں کو بھی یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہوئے بہن بھائیوں کی ”نرمی سے“ اِصلاح کرنی چاہیے۔—گل 6:1، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
ہے تو یسوع مسیح نے نرمی سے اور بچے کی مثال دے کر اُن کی اِصلاح کی۔ (17 اگر کوئی ہمیں غصہ دِلانے والی بات کرتا ہے اور آگے سے ہم اُسے نرمی سے جواب دیتے ہیں تو اِس کا اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ (امثا 15:1) مثال کے طور پر ایک بہن اکیلے اپنے نوجوان بیٹے کی پرورش کر رہی تھی۔ اِس بہن کا بیٹا دوہری زندگی گزار رہا تھا۔ اُس کی کلیسیا کی ایک بہن نے اُس سے کہا: ”بڑے دُکھ کی بات ہے کہ آپ اپنے بچے کی اچھی تربیت نہیں کر پائیں۔“ یہ سُن کر بہن نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر یہ جواب دیا: ”سچ ہے کہ ابھی صورتحال اِتنی ٹھیک نہیں ہے لیکن مَیں پھر بھی اُس کی تربیت کرتی رہوں گی۔ اگر آپ مجھ سے ہرمجِدّون کے بعد اِس بارے میں بات کریں گی تو مَیں یقین سے بتا سکوں گی کہ مَیں اپنے بیٹے کی پرورش کرنے میں ناکام رہی یا نہیں۔“ چونکہ اِس بہن نے نرمی سے جواب دیا اِس لیے اِن دونوں بہنوں کے بیچ اِختلاف نہیں ہوا۔ جب بہن یہ بات کر رہی تھی تو اُس کا بیٹا بھی دُور کھڑا اُس کی بات سُن رہا تھا۔ اُسے احساس ہوا کہ اُس کی ماں نے یہ اُمید نہیں چھوڑی کہ ایک دن وہ صحیح راہ پر لوٹ آئے گا۔ بیٹے پر اپنی ماں کی بات کا اِتنا اثر ہوا کہ اُس نے بُرے لوگوں سے دوستی چھوڑ دی۔ بعد میں اُس نے بپتسمہ لیا اور اِس کے کچھ عرصے بعد وہ بیتایل میں خدمت کرنے لگا۔ چاہے ہم اپنے بہن بھائیوں، گھر والوں یا اجنبیوں کے ساتھ ہوں، ہماری باتیں ”ہمیشہ دلکش اور نمک کی طرح ذائقےدار“ ہونی چاہئیں۔—کُل 4:6، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
18. ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنے سے اپنی زبان کو مناسب طریقے سے اِستعمال کیسے کر سکتے ہیں؟
18 خیالات اور لفظوں کا اِظہار کرنے کی صلاحیت واقعی ایک شاندار نعمت ہے۔ آئیں، ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہوئے مناسب وقت دیکھ کر بات کریں؛ صحیح لفظوں کا اِنتخاب کریں اور نرمی سے بات کریں۔ یوں ہم اپنی زبان سے دوسروں کو تازگی پہنچائیں گے اور یہوواہ خدا کو خوش کریں گے جس نے ہمیں بولنے کی بخشش سے نوازا ہے۔