آپبیتی
مَیں نے اپنی پہلی سی محبت کو قائم رکھا
یہ 1970ء کے موسمِگرما کی بات ہے۔ مَیں پینسلوانیا، امریکہ کے ایک ہسپتال میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ مَیں سخت بیمار تھا۔ اُس وقت مَیں فوج میں تھا اور میری عمر صرف 20 سال تھی۔ ایک میل نرس ہر آدھے گھنٹے بعد میرا بلڈ پریشر دیکھ رہا تھا۔ وہ عمر میں مجھ سے صرف چند سال بڑا تھا۔ وہ بہت پریشان دِکھائی دے رہا تھا کیونکہ میرا بلڈ پریشر گِرتا جا رہا تھا۔ مَیں نے اُس سے کہا: ”لگتا ہے کہ تُم نے کبھی کسی کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے نہیں دیکھا۔“ یہ سُن کر اُس کا رنگ اُڑ گیا اور بولا: ”نہیں، کبھی نہیں۔“
اُس وقت میرا مستقبل نہایت تاریک لگ رہا تھا۔ لیکن آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ مَیں بیمار کیسے پڑ گیا؟ آئیں، مَیں آپ کو اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں۔
جنگ سے میرا پہلا سامنا
ویتنام کی جنگ کے دوران مجھے جولائی 1969ء کو وہاں بھیجا گیا۔ جیسا کہ ہر نئے آنے والے فوجی کے ساتھ ہوتا تھا، مجھے بھی ویتنام کے وقت اور گرمی کا عادی ہونے کے لیے ایک ہفتہ دیا گیا۔ وہاں میرا کام آپریشن تھیئٹر میں اوزار تیار رکھنا اور ڈاکٹروں کی مدد کرنا تھا۔ مجھے بیماروں اور زخمیوں کی دیکھبھال کرنے کا بڑا شوق تھا اور مَیں سرجن بننا چاہتا تھا۔ آپریشن تھیئٹر میں کام کے دوران ہی مجھے ایک بیماری لگ گئی۔
میری ڈیوٹی جس فوجی ہسپتال میں لگائی گئی، وہ ایک چھاؤنی کے ساتھ ہی تھا۔ ابھی مجھے ڈیوٹی پر پہنچے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ زخمی فوجیوں سے بھرے کئی ہیلیکاپٹر وہاں آئے۔ مجھے اپنے کام سے بڑا لگاؤ تھا اور میرے اندر وطن کی محبت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اِس لیے مَیں فوراً کام میں لگ گیا۔ زخمیوں کو جلدی جلدی آپریشن کے لیے تیار کِیا گیا اور تھیئٹر میں بھیج دیا گیا۔ یہ تھیئٹر لوہے کے چھوٹے کنٹینر تھے جن میں ایئر کنڈیشن لگے ہوئے تھے۔ ہر تنگ سے تھیئٹر میں ایک سرجن، ایک بےہوش کرنے والا ڈاکٹر اور دو میل نرس، فوجیوں کی جان بچانے میں لگے ہوئے تھے۔ مَیں نے دیکھا کہ کچھ کالے رنگ کے بڑے تھیلے ہیلیکاپٹروں سے اُتارے نہیں گئے تھے۔ مجھے پتہ چلا کہ اِن تھیلوں میں اُن فوجیوں کے کٹے ہوئے اعضا ہیں جو بم پھٹنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ یہ تھا جنگ سے میرا پہلا سامنا۔
خدا کی رہنمائی کی تلاش
نوجوانی میں مجھے یہوواہ کے گواہوں کی تعلیم سننے کا کچھ موقع ملا۔ میری امی اُن کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتی تھیں مگر اُنہوں نے بپتسمہ نہ لیا۔ جب گواہ
میری امی کو مطالعہ کرانے آتے تھے تو مَیں بھی اُن کے ساتھ بیٹھتا تھا۔ اور مجھے اُن کی باتچیت سننا بڑا اچھا لگتا تھا۔ اُسی دوران ایک دن مَیں اپنے سوتیلے باپ کے ساتھ ایک کنگڈم ہال کے سامنے سے گزرا۔ مَیں نے اُن سے پوچھا: ”یہ کیا ہے؟“ اُنہوں نے کہا: ”اِن لوگوں سے دُور ہی رہنا۔“ چونکہ مَیں اپنے باپ سے پیار کرتا تھا اور مجھے اُن پر بھروسا تھا اِس لیے مَیں نے اُن کی بات مانی۔ اور یوں مَیں یہوواہ کے گواہوں سے دُور ہو گیا۔ویتنام سے واپس آنے کے بعد مَیں نے محسوس کِیا کہ مجھے خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ جنگ کی بھیانک یادوں نے مجھے بےحس کر دیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ جنگ میں دراصل کیا ہو رہا ہے۔ یہ خبریں عام ہو رہی تھیں کہ جنگ میں معصوم بچوں کو قتل کِیا جا رہا ہے۔ اِسی لیے لوگ جلوس نکال کر امریکی فوجیوں کے خلاف نعرے لگاتے تھے۔
مَیں خدا کی رہنمائی کی تلاش میں مختلف چرچوں کی عبادتوں میں جانے لگا۔ خدا سے تو مَیں شروع سے ہی پیار کرتا تھا مگر مَیں چرچ جانے والوں اور اُن کے رہنماؤں کے چالچلن سے مایوس تھا۔ آخرکار مَیں فروری 1971ء میں اِتوار کے دن ریاست فلوریڈا کے ایک کنگڈم ہال جا پہنچا۔
جب مَیں کنگڈم ہال میں داخل ہوا تو عوامی تقریر ختم ہونے والی تھی۔ لہٰذا مَیں مینارِنگہبانی کے مطالعے کے لیے رُک گیا۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ اُس دن کس موضوع پر بات ہو رہی تھی مگر مجھے یہ ضرور یاد ہے کہ وہاں چھوٹے چھوٹے بچے بھی آیتوں کو اپنی بائبلوں میں دیکھ رہے تھے۔ مَیں اِس بات سے بہت متاثر ہوا۔ مَیں بس خاموشی سے بیٹھ کر سب کچھ دیکھتا رہا۔ جب مَیں جانے لگا تو ایک بھائی میرے پاس آئے۔ وہ تقریباً 80 سال کے تھے اور اُن کا نام جم گارڈنر تھا۔ اُنہوں نے ایک کتاب مجھے دیتے ہوئے کہا: ”کیا آپ اِسے پڑھنا چاہیں گے؟“ اِس کتاب کا عنوان تھا، سچائی جو باعثِابدی زندگی ہے۔ ہم نے جمعرات کی صبح بائبل کا مطالعہ شروع کرنے کا پروگرام بنایا۔
اُس اِتوار کی شام کو میری ڈیوٹی تھی۔ اُس وقت مَیں ایک پرائیوٹ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں کام کرتا تھا۔ میری شفٹ رات 11 بجے سے لے کر صبح 7 بجے تک تھی۔ چونکہ اُس رات زیادہ مریض نہیں آئے تھے اِس لیے مجھے وہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا جو بھائی گارڈنر نے مجھے دی تھی۔ ایک نرس میرے پاس آئی، میرے ہاتھ سے کتاب چھینی اور کتاب کے عنوان کو پڑھنے کے بعد اُونچی آواز میں بولی: ”تُم تو یہوواہ کے گواہ بننے والے نہیں ہو نا؟“ مَیں نے اُس سے کتاب واپس لی اور بولا: ”ابھی تو مَیں نے آدھی ہی کتاب پڑھی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ مَیں گواہ بننے والا ہوں۔“ وہ وہاں سے چلی گئی اور مَیں نے اُس رات ساری کتاب پڑھ لی۔
جب بھائی گارڈنر مجھے مطالعہ کرانے کے لیے آئے تو مَیں نے اُن سے پوچھا: ”ہم کیا پڑھیں گے؟“ اُنہوں نے کہا: ”وہ کتاب جو مَیں نے آپ کو دی تھی۔“ مَیں نے کہا: ”لیکن وہ تو مَیں نے پڑھ لی ہے۔“ بھائی گارڈنر نے بڑے پیار سے کہا: ”کوئی بات نہیں ہم پہلے باب پر غور کریں گے۔“ مطالعے کے دوران مَیں نے بہت سی ایسی باتیں سیکھیں جو مَیں خود کتاب پڑھتے وقت سمجھ نہیں پایا تھا۔ اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ ”اپنی بائبل میں سے آیتیں دیکھو۔“ آخرکار مَیں سچے خدا یہوواہ کے بارے میں سیکھنے لگا۔ بھائی گارڈنر جنہیں مَیں پیار سے جم کہتا تھا، اُنہوں نے اُس صبح میرے ساتھ اُس کتاب کے تین ابواب پر بات کی۔ پھر ہر جمعرات کو
ہم تین ابواب کا مطالعہ کرنے لگے۔ مجھے اِس مطالعے سے بڑا مزہ آ رہا تھا۔ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ مجھے ایک ممسوح بھائی مطالعہ کرا رہے تھے اور جو بھائی رسل کو بھی جانتے تھے۔کچھ ہی ہفتوں بعد مجھے مُنادی کا کام کرنے کی اِجازت مل گئی۔ بھائی جم نے بہت ساری مشکلوں میں میرا ساتھ دیا۔ مثلاً، مجھے گھر گھر مُنادی کرنا بہت مشکل لگتا تھا لیکن اُنہوں نے اِس کام میں بھی میری بڑی مدد کی۔ (اعما 20:20) اُن کے ساتھ کام کر کر کے مَیں مُنادی سے بہت لطف اُٹھانے لگا۔ آج بھی مَیں مُنادی کے کام کو سب سے بڑا اعزاز سمجھتا ہوں۔ واقعی ”خدا کے ساتھ کام کرنے“ سے بڑی خوشی ملتی ہے!—1-کر 3:9۔
میری پہلی محبت—یہوواہ خدا
آئیں، اب مَیں آپ کو اپنی پہلی محبت کے بارے میں بتاتا ہوں۔ وہ کوئی اَور نہیں بلکہ یہوواہ خدا ہے۔ (مکا 2:4) یہوواہ سے محبت نے مجھے جنگ کی تلخ یادوں اور دوسری مشکلوں سے نپٹنے کے قابل بنایا ہے۔—یسع 65:17۔
یہوواہ سے محبت نے مجھے جنگ کی تلخ یادوں اور دوسری مشکلوں سے نپٹنے کے قابل بنایا ہے۔
1971ء کے موسمِبہار میں کچھ ایسا ہوا جس سے یہوواہ کے لیے میری محبت بہت بڑھ گئی۔ دراصل مَیں اپنے ماں باپ کے دیے ہوئے فلیٹ میں رہ رہا تھا۔ مجھے اِس فلیٹ سے نکلنا پڑا کیونکہ میرا سوتیلا باپ یہ نہیں چاہتا تھا کہ اِس میں کوئی یہوواہ کا گواہ رہے۔ اُس وقت میرے پاس اِتنے پیسے بھی نہیں تھے۔ ہسپتال سے مجھے ہر دو ہفتے بعد تنخواہ ملتی تھی۔ اور مَیں بہت سے پیسے ایسے کپڑے خریدنے میں خرچ کر چُکا تھا جو مُنادی کے کام کے لیے مناسب ہوں۔ مَیں نے کچھ پیسے بچا کر رکھے ہوئے تھے مگر وہ ایک بنک میں تھے جو میرے گھر سے سینکڑوں میل دُور ریاست مشیگن میں تھا۔ دراصل مَیں اِسی ریاست میں پلا بڑھا ہوں۔ لہٰذا پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ دن کے لیے اپنی گاڑی کو ہی اپنا آشیانہ بنانا پڑا۔ مَیں داڑھی بنانے اور نہانے کے لیے پٹرول پمپوں کے بیتالخلا میں جایا کرتا تھا۔
اِس عرصے کے دوران ایک دن مَیں مُنادی کے گروپ میں شامل ہونے کے لیے کنگڈم ہال گیا۔ مَیں کام کے بعد سیدھا وہیں گیا اِس لیے مَیں کچھ گھنٹے پہلے ہی وہاں پہنچ گیا۔ مَیں کنگڈم ہال کے پیچھے جا کر ایسی جگہ بیٹھ گیا جہاں کوئی مجھے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے ویتنام کی جنگ کے منظر آنے لگے، وہ گہرے اور بدبودار زخم، وہ خون کے لوتھڑے، اُف! میرے ذہن میں تڑپتے ہوئے فوجی آ رہے تھے جو مجھ سے کہہ رہے تھے: ”مَیں بچ جاؤں گا نا؟ ہے نا، ہے نا؟“ مجھے پتہ ہوتا تھا کہ وہ مرنے والے ہیں مگر مَیں اُنہیں تسلی دینے کی پوری کوشش کرتا اور اپنے چہرے سے بھی سچ ظاہر ہونے نہیں دیتا تھا۔ مَیں اِن پُرانی یادوں کے سیلاب کی رو میں اِتنا بہہ گیا کہ میری آنکھیں نم ہونے لگیں۔
مَیں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ یہوواہ کے لیے میری پہلی سی محبت میں ذرا بھی کمی نہ آئے، خاص طور پر اُس وقت جب مجھے مشکلات کا سامنا ہو۔
مَیں زاروقطار روتے ہوئے یہوواہ خدا سے دُعا کرنے لگا۔ (زبور 56:8) مَیں اُس وقت کے بارے میں سوچ رہا تھا جب یہوواہ خدا مُردوں کو زندہ کرے گا۔ پھر اچانک میرے ذہن میں آیا کہ اُس وقت یہوواہ خدا اُن تمام یادوں کو مٹا دے گا جو مجھے اِتنی تکلیف پہنچاتی ہیں۔ وہ اُن جوان فوجیوں کو بھی زندہ کرے گا جو جنگ میں ہلاک ہوئے ہیں اور اُنہیں خدا کے بارے میں سیکھنے کا موقع ملے گا۔ (اعما 24:15) یہ سوچ کر میرا دل خدا کی محبت سے بھر گیا اور اِس کا میری ذات پر بہت گہرا اثر ہوا۔ وہ دن آج بھی میرے لیے بڑا خاص ہے اور اِسے مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔ تب سے آج تک مَیں نے پوری کوشش کی ہے کہ یہوواہ کے لیے میری پہلی سی محبت میں ذرا بھی کمی نہ آئے، خاص طور پر اُس وقت جب مجھے مشکلات کا سامنا ہو۔
یہوواہ نے ہمیشہ مجھے سنبھالا
جنگ میں تو لوگ بُرے کام کرتے ہی ہیں اور مَیں نے بھی کیے۔ لیکن دو صحیفوں پر غور کرنے سے مجھے بہت تسلی ملی۔ یہ صحیفے مجھے بڑے پسند ہیں۔ پہلا ہے مکاشفہ 12:10، 11 جس میں لکھا ہے کہ شیطان پر فتح صرف ہمارے گواہی کے کام کے ذریعے نہیں بلکہ برّہ کے خون کے ذریعے بھی پائی جاتی ہے۔ دوسرا صحیفہ گلتیوں 2:20 ہے۔ اِس آیت کی بِنا پر مَیں جانتا ہوں کہ یسوع مسیح نے ”میرے لئے“ اپنی جان دی۔ یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کی قربانی کے وسیلے میرے گُناہ معاف کیے ہیں۔ اِسی بِنا پر اب میرا ضمیر بالکل صاف ہے اور مجھے دوسروں کو یہ گواہی دینے کی ترغیب ملتی ہے کہ وہ بھی ہمارے مہربان خدا یہوواہ کے بارے میں سیکھیں۔—عبر 9:14۔
جب مَیں پیچھے مڑ کر اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مَیں یہ دیکھ سکتا ہوں کہ یہوواہ نے ہمیشہ میری ضرورتوں کو پورا کِیا۔ مثال کے طور پر جب بھائی جم کو پتہ چلا کہ مَیں اپنی گاڑی میں رہ رہا ہوں تو اُنہوں نے مجھے ایک بہن کے بارے میں بتایا جس کے پاس ایک کمرہ کرائے کے لیے خالی تھا۔ مجھے یقین ہے کہ یہوواہ خدا نے بھائی جم اور اُس بہن کے ذریعے مجھے رہنے کے لیے ایک اچھی جگہ دی۔ یہوواہ واقعی بڑا مہربان ہے! وہ ہمیشہ اپنے بندوں کو سنبھالتا ہے۔
جوش پر سمجھداری کی لگام
مئی 1971ء میں مجھے کسی کام کے سلسلے میں مشیگن جانا پڑا۔ ریاست فلوریڈا سے روانہ ہونے سے پہلے مَیں نے اپنی گاڑی کی ڈکی کتابوں، رسالوں اور پرچوں سے بھر لی۔ پھر مَیں مشیگن کی طرف چل پڑا۔ لیکن آدھے راستے میں ہی میری ساری کتابیں اور رسالے وغیرہ ختم ہو گئے۔ مَیں نے ہر طرح کی جگہ پر بڑی دلیری سے لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنائی۔ مَیں نے جیلوں میں گواہی دی، یہاں تک کہ راستے میں بنے ہوئے بیتالخلاؤں میں بیٹھے آدمیوں کو بھی پرچے دیے۔ جو سچائی کے بیج مَیں نے تب بوئے تھے، شاید اُن میں سے کچھ پھل لائے ہوں۔—1-کر 3:6، 7۔
سچ بتاؤں تو جب مَیں نیا نیا سچائی میں آیا تھا تو مَیں گواہی دینے کے سلسلے میں اِتنی سمجھداری سے کام نہیں لیتا تھا، خاص طور پر اپنے گھر والوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے تو بالکل نہیں۔ چونکہ میرے دل میں یہوواہ کی محبت جوش مارتی رہتی تھی اِس لیے مَیں اُس کے بارے میں اپنے گھر والوں سے بھی بڑی سیدھی بات کرتا تھا۔ مجھے اپنے بھائیوں سے بڑا پیار ہے جن کا نام جان اور ران ہے۔ مَیں اُنہیں بھی زبردستی گواہی دیتا تھا۔ البتہ مَیں نے بعد میں اپنے اِس رویے کے لیے اُن سے معافی مانگی۔ لیکن میری آج بھی یہ دُعا ہے کہ وہ سچائی میں آ جائیں۔ اِس سارے عرصے کل 4:6۔
کے دوران یہوواہ خدا مجھے تربیت دیتا رہا ہے اور اب مَیں مُنادی کرنے اور تعلیم دینے کے سلسلے میں سمجھداری سے کام لینا سیکھ گیا ہوں۔—بیوی بچوں سے پیار
بےشک مَیں یہوواہ خدا سے بہت محبت کرتا ہوں لیکن کچھ اَور لوگ بھی ہیں جن سے مجھے بڑا پیار ہے۔ مَیں اپنی بیوی سُوزن سے بہت پیار کرتا ہوں۔ مَیں ایک ایسا جیون ساتھی چاہتا تھا جو مُنادی کا کام کرنے میں میرا پورا ساتھ دے۔ سُوزن واقعی ایک پُختہ مسیحی ہیں۔ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب مَیں شادی سے پہلے اُن کے گھر گیا تھا۔ سُوزن سامنے والے برآمدے میں بیٹھی تھیں۔ وہ اپنی بائبل کھولے مینارِنگہبانی رسالہ پڑھ رہی تھیں۔ حالانکہ وہ مطالعے کا مضمون نہیں پڑھ رہی تھیں مگر پھر بھی اُس مضمون میں دی گئی آیتوں کو بائبل میں دیکھ رہی تھیں۔ اِس بات نے مجھے بہت متاثر کِیا۔ مَیں نے دل میں سوچا: ”یہ تو واقعی بہت پُختہ مسیحی ہے۔“ ہم نے دسمبر 1971ء میں شادی کر لی۔ مَیں اُن کا بڑا شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے ہمیشہ میرا ساتھ نبھایا ہے۔ وہ مجھ سے تو پیار کرتی ہی ہیں مگر مجھ سے بھی زیادہ وہ یہوواہ سے پیار کرتی ہیں۔ اور مجھے اُن کی یہ بات بڑی پسند ہے۔
یہوواہ نے ہمیں دو بیٹے دیے جن کا نام ہم نے جیسی اور پال رکھا۔ یہوواہ خدا نے اُن کے بچپن سے ہی اُن کی رہنمائی کی ہے۔ (1-سمو 3:19) اُنہوں نے خدا کی خدمت کو اپنایا جس سے ہمارا سر فخر سے اُونچا ہو گیا۔ چونکہ اُنہوں نے بھی یہوواہ کے لیے اپنی پہلی محبت کو کم نہیں ہونے دیا اِس لیے وہ آج تک اُس کی خدمت کر رہے ہیں۔ اُن دونوں کو کُلوقتی خدمت کرتے ہوئے 20 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ میرے بیٹوں نے بھی دو ایسی عورتوں سے شادی کی جو یہوواہ خدا کو پورے دلوجان سے محبت کرتی ہیں۔ مجھے اپنی بہوؤں، سٹیفنی اور راکیل پر ناز ہے اور مَیں اُنہیں اپنی بیٹیاں مانتا ہوں۔—افس 6:6۔
مَیں نے بپتسمہ لینے کے بعد تقریباً 16 سال تک ریاست رہوڈ آئیلینڈ میں خدمت کی۔ وہاں بہت سے بہن بھائیوں کے ساتھ میری گہری دوستی ہو گئی۔ وہاں تجربہکار بزرگوں کے ساتھ گزارا ہوا وقت مجھے آج بھی نہیں بھولا۔ اِس کے علاوہ مَیں اُن سفری نگہبانوں کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے میرے لیے بہت اچھی مثال قائم کی۔ ایسے بھائیوں کے ساتھ خدمت کرنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی جنہوں نے یہوواہ کے لیے اپنی پہلی سی محبت کو قائم رکھا ہے۔ 1987ء میں ہم ریاست نارتھ کیرولائنا منتقل ہو گئے جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت تھی۔ وہاں بھی بہت سے بہن بھائی ہمارے بڑے اچھے دوست بن گئے۔ *
اگست 2002ء میں مجھے اور سُوزن کو پیٹرسن، امریکہ کے بیتایل میں خدمت کرنے کے لیے بلایا گیا۔ مجھے خدمتی شعبے میں کام دیا گیا اور سُوزن کو لانڈری میں۔ سُوزن کو وہاں کام کرنے میں بہت مزہ آیا۔ پھر اگست 2005ء میں مجھے گورننگ باڈی کے رُکن کے طور پر خدمت کرنے کا اعزاز ملا۔ لیکن مَیں خود کو اِس کے لائق نہیں سمجھتا تھا۔ سُوزن بھی جانتی تھیں کہ اِس اعزاز کے ساتھ بہت بھاری ذمےداری بھی آئے گی اور ہمیں بہت زیادہ ہوائی سفر بھی کرنا پڑے گا۔ سُوزن کو تو ہوائی جہاز میں سفر کرنا بالکل پسند نہیں لیکن اب ہم اکثر ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں۔ گورننگ باڈی کے دوسرے ارکان کی بیویوں نے سُوزن کی بہت حوصلہافزائی کی ہے۔ اور اِس ذمےداری کو نبھانے میں سُوزن نے ہمیشہ میرا پورا ساتھ دیا ہے۔ مَیں اُن کے ساتھ کی بڑی قدر کرتا ہوں۔
میرے دفتر میں بہت سی ایسی تصویریں لگی ہیں جو مجھے بیتے ہوئے خوشگوار لمحوں کی یاد دِلاتی ہیں۔ اِنہیں دیکھ کر مجھے یاد رہتا ہے کہ مَیں نے کتنی اچھی زندگی گزاری ہے۔ یہوواہ نے مجھے ابھی بھی بہت سی شاندار برکتیں دی ہیں کیونکہ مَیں نے اُس کے لیے اپنے پہلی سی محبت کو کبھی کم نہیں ہونے دیا۔
^ پیراگراف 31 آپ بھائی مورِس کی کُلوقتی خدمت کے بارے میں مینارِنگہبانی 1 اپریل 2006ء، صفحہ 13 پر تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں۔