مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا سے کبھی بیزار نہ ہوں

یہوواہ خدا سے کبھی بیزار نہ ہوں

‏”‏آدمی کی حماقت اُسے گمراہ کرتی ہے اور اُس کا دل [‏یہوواہ]‏ سے بیزار ہوتا ہے۔‏“‏—‏امثا ۱۹:‏۳‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہمیں اِنسانوں کے مسئلوں کے لئے یہوواہ خدا کو قصوروار کیوں نہیں ٹھہرانا چاہئے؟‏ مثال دیں۔‏

فرض کریں کہ آپ ایک شوہر ہیں اور کئی سالوں سے اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔‏ ایک دن جب آپ گھر آتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کا سارا گھر اُتھل‌پتھل ہو گیا ہے۔‏ سارا فرنیچر ٹوٹاپھوٹا پڑا ہے،‏ برتنوں کے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھرے ہیں اور فرش پر بچھا ہوا قالین بالکل خراب ہو گیا ہے۔‏ آپ کے خوب‌صورت گھر کا ستیاناس ہو گیا ہے۔‏ یہ دیکھ کر کیا آپ یہ کہیں گے کہ ”‏میری بیوی نے یہ سب کچھ کیوں کِیا؟‏“‏ یا پھر کیا آپ یہ کہیں گے کہ ”‏یہ سب کس نے کِیا؟‏“‏ بِلاشُبہ آپ اپنی بیوی کو اِس صورتحال کا قصوروار نہیں ٹھہرائیں گے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کی پیاری بیوی کبھی ایسا احمقانہ کام نہیں کرے گی۔‏

۲ آج اِنسانوں کے گھر یعنی زمین کا بھی ستیاناس کِیا جا رہا ہے۔‏ آلودگی،‏ تشدد اور بدکاری کی وجہ سے زمین پر حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔‏ ہم بائبل سے جانتے ہیں کہ اِن سب مسئلوں کے پیچھے یہوواہ خدا کا ہاتھ نہیں ہے۔‏ اُس نے تو اِس زمین کو اِس لئے بنایا تاکہ یہ ایک خوب‌صورت فردوس بن جائے۔‏ (‏پید ۲:‏۸،‏ ۱۵‏)‏ یہوواہ خدا کی ذات محبت ہے۔‏ (‏۱-‏یوح ۴:‏۸‏)‏ لیکن ہم بائبل سے یہ بھی جانتے ہیں کہ دُنیا کی مشکلات کی اصل جڑ شیطان ہے کیونکہ وہی ”‏دُنیا کا سردار“‏ ہے۔‏—‏یوح ۱۴:‏۳۰؛‏ ۲-‏کر ۴:‏۴‏۔‏

۳.‏ ہم کون‌سی غلط سوچ اپنا سکتے ہیں؟‏

۳ البتہ ہم اپنے سارے مسئلوں کے لئے شیطان کو بھی قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ ہماری کچھ مشکلات ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔‏ ‏(‏استثنا ۳۲:‏۴-‏۶ کو پڑھیں۔‏)‏ ہم شاید اِس حقیقت سے واقف ہیں لیکن ہم عیب‌دار ہیں اور اِس لئے ہم کبھی‌کبھار غلط سوچ اپنا لیتے ہیں۔‏ (‏امثا ۱۴:‏۱۲‏)‏ یہ کون‌سی غلط سوچ ہے؟‏ ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے مسئلوں کے لئے خود کو یا شیطان کو قصوروار ٹھہرانے کی بجائے یہوواہ خدا کو قصوروار ٹھہرائیں۔‏ یہاں تک کہ ہم شاید ”‏[‏یہوواہ]‏ سے بیزار“‏ بھی ہو جائیں۔‏—‏امثا ۱۹:‏۳‏۔‏

۴،‏ ۵.‏ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک مسیحی ”‏[‏یہوواہ]‏ سے بیزار“‏ ہو جائے؟‏

۴ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے کہ ہم ”‏[‏یہوواہ]‏ سے بیزار“‏ ہو جائیں؟‏ ظاہری بات ہے کہ ہم کبھی خدا سے جھگڑا تو نہیں کریں گے کیونکہ اِس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‏ (‏یسع ۴۱:‏۱۱‏)‏ ایک شاعر کا کہنا ہے کہ ”‏تمہارے بازو اِتنے لمبے نہیں کہ تُم خدا سے مکابازی کر سکو۔‏“‏ لیکن غور کریں کہ امثال ۱۹:‏۳ میں بتایا گیا ہے کہ ”‏آدمی کی حماقت اُسے گمراہ کرتی ہے اور اُس کا دل [‏یہوواہ]‏ سے بیزار ہوتا ہے۔‏“‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہم دل ہی دل میں خدا سے خفا ہو سکتے ہیں۔‏ یہ بات ہمارے رویے اور ہمارے کاموں پر اثر ڈال سکتی ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ خدا کی خدمت کے لئے ہمارا جوش ٹھنڈا پڑ جائے یہاں تک کہ ہم کلیسیا سے دُور رہنے لگیں۔‏

۵ کچھ مسیحی ”‏[‏یہوواہ]‏ سے بیزار“‏ کیوں ہو جاتے ہیں؟‏ ہم اِس پھندے میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ اِن سوالوں کا تعلق یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی سے ہے اِس لئے اِن پر غور کرنا بہت اہم ہے۔‏

کچھ مسیحی ”‏[‏یہوواہ]‏ سے بیزار“‏ کیوں ہو جاتے ہیں؟‏

۶،‏ ۷.‏ موسیٰ نبی کے زمانے میں بنی‌اِسرائیل،‏ یہوواہ خدا کے بارے میں شکایت کیوں کرنے لگے؟‏

۶ یہوواہ خدا کا ایک وفادار خادم اُس کے بارے میں شکایت کرنے کے پھندے میں کیسے پڑ سکتا ہے؟‏ آئیں،‏ اِس کی پانچ وجوہات پر بات کریں اور پاک کلام سے کچھ ایسے لوگوں کی مثالوں پر غور کریں جو اِس پھندے میں پھنس گئے تھے۔‏—‏۱-‏کر ۱۰:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

شکایتیں کرنے والے لوگوں کی باتیں ہم پر بُرا اثر ڈال سکتی ہیں۔‏ (‏پیراگراف ۷ کو دیکھیں۔‏)‏

۷ شکایتیں کرنے والے لوگ ہم پر بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔‏ ‏(‏استثنا ۱:‏۲۶-‏۲۸ کو پڑھیں۔‏)‏ بنی‌اِسرائیل ابھی ابھی مصر کی غلامی سے آزاد ہوئے تھے۔‏ یہوواہ خدا نے ظالم مصریوں پر دس آفتیں نازل کی تھیں اور فرعون اور اُس کی فوج کو بحرِقلزم میں غرق کر دیا تھا۔‏ (‏خر ۱۲:‏۲۹-‏۳۲،‏ ۵۱؛‏ ۱۴:‏۲۹-‏۳۱؛‏ زبور ۱۳۶:‏۱۵‏)‏ اب بنی‌اِسرائیل اُس ملک میں داخل ہونے والے تھے جس کو خدا نے اُن کو دینے کا وعدہ کِیا تھا۔‏ لیکن اِس اہم موڑ پر بنی‌اِسرائیل کا ایمان کمزور پڑ گیا اور وہ یہوواہ خدا کے بارے میں شکایت کرنے لگے۔‏ اُن کا ایمان کیوں ڈگمگا گیا؟‏ دس جاسوسوں نے آ کر اُس ملک کے بارے میں بُری خبر دی اور اِس وجہ سے بنی‌اِسرائیل ڈر گئے۔‏ (‏گن ۱۴:‏۱-‏۴‏)‏ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہوواہ خدا نے اُن کو ”‏اُس اچھے مُلک“‏ میں جانے نہ دیا۔‏ (‏است ۱:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ کیا ہم بھی شکایتیں کرنے والے لوگوں کی باتوں پر دھیان دیتے ہیں؟‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارا ایمان کمزور پڑ جائے گا اور ہم خود بھی یہوواہ خدا کے بارے میں شکایت کرنے لگیں گے۔‏

۸.‏ یسعیاہ نبی کے زمانے میں یہوداہ کے لوگ اپنی مصیبتوں کے لئے یہوواہ خدا کو قصوروار کیوں ٹھہرانے لگے؟‏

۸ زندگی کی مشکلات ہمیں بےحوصلہ کر سکتی ہیں۔‏ ‏(‏یسعیاہ ۸:‏۲۱،‏ ۲۲ کو پڑھیں۔‏)‏ یسعیاہ نبی کے زمانے میں یہوداہ کی قوم بڑی مصیبتوں کا سامنا کر رہی تھی۔‏ اُن کے اِردگِرد کی قومیں اُن کی دُشمن تھیں اور ملک میں روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔‏ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ لوگ خدا سے مُنہ موڑ چکے تھے۔‏ (‏عامو ۸:‏۱۱‏)‏ اِس مشکل گھڑی میں خدا سے مدد مانگنے کی بجائے وہ ”‏اپنے بادشاہ اور اپنے خدا پر لعنت“‏ کرنے لگے۔‏ اُنہوں نے اپنی مشکلات کے لئے یہوواہ خدا کو قصوروار ٹھہرایا۔‏ جب ہمیں کسی مصیبت یا مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو کیا ہم بھی اپنے دل میں یہ کہتے ہیں:‏ ”‏یہوواہ میری مدد کیوں نہیں کرتا؟‏“‏

۹.‏ حزقی‌ایل نبی کے زمانے میں بنی‌اِسرائیل یہوواہ خدا پر اِلزام کیوں لگانے لگے؟‏

۹ ہمارے پاس پوری معلومات نہیں ہوتی۔‏ حزقی‌ایل نبی کے زمانے میں بنی‌اِسرائیل نہیں سمجھتے تھے کہ یہوواہ خدا نے کچھ فیصلے کیوں کئے ہیں کیونکہ اِس کے بارے میں اُن کے پاس تمام معلومات نہیں تھیں۔‏ اُن کو لگا کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی روِش راست نہیں۔‏“‏ (‏حز ۱۸:‏۲۹‏)‏ دراصل وہ یہوواہ خدا کے منصف بن بیٹھے تھے اور یہ فیصلہ کر رہے تھے کہ خدا کے کام صحیح ہیں یا غلط۔‏ لیکن وہ صورتحال کو پوری طرح نہیں سمجھتے تھے۔‏ جب ہم بائبل پڑھتے ہیں تو کبھی‌کبھار ہم بھی یہ نہیں سمجھتے کہ یہوواہ خدا نے فلاں کام کیوں کِیا۔‏ یا جب ہم پر کوئی مشکل آتی ہے تو ہم شاید یہ نہیں سمجھتے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔‏ ایسی صورت میں کیا ہم دل ہی دل میں کہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمارے ساتھ ناانصافی کر رہا ہے اور اُس کی ”‏روِش راست نہیں“‏؟‏—‏ایو ۳۵:‏۲‏۔‏

۱۰.‏ ہم اپنی غلطیوں کے سلسلے میں آدم جیسا رویہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۰ ہم اپنے گُناہوں اور غلطیوں کے لئے خدا کو قصوروار ٹھہراتے ہیں۔‏ پہلے اِنسان آدم نے بھی اپنے گُناہ کے لئے خدا کو قصوروار ٹھہرایا۔‏ (‏پید ۳:‏۱۲‏)‏ اُنہوں نے جان‌بُوجھ کر گُناہ کِیا حالانکہ اُنہیں اچھی طرح پتہ تھا کہ اِس کا انجام کِیا ہوگا۔‏ مگر پھر بھی اُنہوں نے خدا کو قصوروار ٹھہرایا۔‏ دراصل اُنہوں نے کہا کہ خدا نے اُنہیں اچھی بیوی نہیں دی۔‏ اِنسانی تاریخ میں بہت سے لوگوں نے آدم کی طرح اپنی غلطیوں کے لئے یہوواہ خدا کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔‏ لہٰذا ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے:‏ ”‏کیا مَیں اپنی غلطیوں کی وجہ سے اِتنا مایوس ہو جاتا ہوں کہ مجھے یہوواہ خدا کے حکم بہت سخت لگتے ہیں؟‏“‏

۱۱.‏ ہم یوناہ نبی سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۱ ہم بس اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔‏ جب یہوواہ خدا نے شہر نینوہ کے لوگوں کو سزا دینے کا فیصلہ ترک کر دیا تو یوناہ نبی خدا سے ناراض ہو گئے۔‏ (‏یوناہ ۴:‏۱-‏۳‏)‏ شاید اُن کو یہ فکر تھی کہ ”‏میری بات سچ ثابت نہیں ہوئی،‏ اب لوگ میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟‏“‏ اُن کو اپنی عزت بےعزتی کی اِتنی فکر تھی کہ اُن کے دل میں نینوہ کے لوگوں کے لئے رحم کا کوئی گوشہ نہیں تھا۔‏ کیا ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے؟‏ شاید ہم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں اور یہوواہ خدا سے ناراض ہو جاتے ہیں کہ اُس نے ابھی تک اِس دُنیا کو ختم نہیں کِیا۔‏ یا پھر ہو سکتا ہے کہ ہم کئی سال سے لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ خاتمہ نزدیک ہے۔‏ جب لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ ”‏دُنیا ابھی تک ختم نہیں ہوئی“‏ تو کیا ہم یہوواہ خدا سے بیزار ہو جاتے ہیں؟‏—‏۲-‏پطر ۳:‏۳،‏ ۴،‏ ۹‏۔‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ سے بیزار“‏ ہونے کے پھندے سے بچیں

۱۲،‏ ۱۳.‏ اگر ہمارے دل میں خدا کے کاموں کے بارے میں کچھ اِعتراض پیدا ہوتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۲ اگر ہمارے دل میں خدا کے کاموں کے بارے میں کچھ اِعتراض پیدا ہوتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏ یاد رکھیں کہ خدا سے ناراض ہونا دانش‌مندی کی بات نہیں۔‏ بائبل کے ایک اَور ترجمے کے مطابق امثال ۱۹:‏۳ میں بتایا گیا ہے کہ ”‏اِنسان کی اپنی حماقت اُس کی زندگی تباہ کر دیتی ہے،‏ اور اُس کا دل [‏یہوواہ]‏ سے بیزار ہو جاتا ہے۔‏“‏ ‏(‏نیو اُردو بائبل ورشن)‏ لہٰذا آئیں،‏ پانچ ایسی باتوں پر غور کریں جن پر عمل کرنے سے ہم خدا سے بیزار ہونے کے پھندے سے بچ سکتے ہیں۔‏

۱۳ یہوواہ خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط بنائیں۔‏ جب تک ہم یہوواہ خدا کی قربت میں رہیں گے،‏ ہم اُس سے بیزار نہیں ہوں گے۔‏ ‏(‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶ کو پڑھیں۔‏)‏ ہمیں خدا پر پورا بھروسا رکھنے کی ضرورت ہے۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں اپنی نظر میں دانش‌مند بننے یا صرف اپنے بارے میں ہی سوچنے سے گریز کرنا چاہئے۔‏ (‏امثا ۳:‏۷؛‏ واعظ ۷:‏۱۶‏)‏ یوں ہم کسی مصیبت یا مشکل کے لئے یہوواہ خدا کو قصوروار ٹھہرانے سے بچیں گے۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہم شکایتیں کرنے والے لوگوں کی باتوں کی وجہ سے خدا سے دُور نہ ہو جائیں؟‏

۱۴ شکایتیں کرنے والے لوگوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔‏ موسیٰ کے زمانے میں بنی‌اِسرائیل نے خدا کے بہت سے معجزے دیکھے تھے اِس لئے وہ یقین رکھ سکتے تھے کہ خدا اُنہیں ملک کنعان میں بھی ضرور پہنچائے گا۔‏ (‏زبور ۷۸:‏۴۳-‏۵۳‏)‏ لیکن جب دس جاسوسوں نے اُس ملک کے بارے میں بُری خبر دی تو بنی‌اِسرائیل نے خدا کے ”‏ہاتھ کو یاد نہ رکھا۔‏“‏ (‏زبور ۷۸:‏۴۲‏)‏ اگر ہم خدا کے شان‌دار کاموں پر غور کرتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں کہ اُس نے اب تک ہمارے لئے کیا کچھ کِیا ہے تو اُس کے ساتھ ہماری دوستی مضبوط ہوگی۔‏ اِس کے نتیجے میں ہم دوسروں کی کسی بات کی وجہ سے اپنے اور یہوواہ خدا کے درمیان کوئی دُوری نہیں آنے دیں گے۔‏—‏زبور ۷۷:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

۱۵ اگر ہم خود ہی اپنے بہن‌بھائیوں کے خلاف باتیں کرنے لگتے ہیں تو ہم خدا سے دُور ہو سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏یوح ۴:‏۲۰‏)‏ جب بنی‌اِسرائیل نے ہارون کو سردار کاہن مقرر کرنے پر اِعتراض کِیا تو یہوواہ کی نظر میں یہ اُس کے خلاف شکایت کرنے کے برابر تھا۔‏ (‏گن ۱۷:‏۱۰‏)‏ اِسی طرح اگر ہم اُن بھائیوں کے بارے میں شکایتیں کرتے ہیں جنہیں یہوواہ خدا نے اپنے لوگوں کی رہنمائی کرنے کی ذمےداری سونپی ہے تو ہم یہوواہ خدا کے خلاف شکایت کرتے ہیں۔‏—‏عبر ۱۳:‏۷،‏ ۱۷‏۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ جب ہم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟‏

۱۶ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا ہم پر مصیبتیں نہیں لاتا۔‏ یسعیاہ نبی کے زمانے میں بنی‌اِسرائیل خدا سے مُنہ موڑ چکے تھے لیکن پھر بھی یہوواہ خدا اُن کی مدد کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ اُس کی طرف لوٹ آئیں۔‏ (‏یسع ۱:‏۱۶-‏۱۹‏)‏ چاہے ہم پر جیسی بھی مشکل آئے،‏ ہمیں یہ جان کر تسلی ملتی ہے کہ یہوواہ خدا کو ہماری فکر ہے اور وہ ہماری مدد کرنا چاہتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطر ۵:‏۷‏)‏ دراصل اُس نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ ہمیں مصیبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت دے گا۔‏—‏۱-‏کر ۱۰:‏۱۳‏۔‏

۱۷ اگر خدا کے وفادار بندے ایوب کی طرح ہمارے ساتھ بھی کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا اِس کا ذمےدار نہیں ہے۔‏ وہ تو صداقت کو پسند کرتا ہے اور ناانصافی سے نفرت کرتا ہے۔‏ (‏زبور ۳۳:‏۵‏)‏ ہمیں ایوب کے دوست اِلیہو کی طرح اِس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ”‏یہ ہرگز ہو نہیں سکتا کہ خدا شرارت کا کام کرے اور قادرِمطلق بدی کرے۔‏“‏ (‏ایو ۳۴:‏۱۰‏)‏ ہم پر مصیبتیں لانے کی بجائے یہوواہ خدا ہمیں ”‏ہر اچھی بخشش اور ہر کامل اِنعام“‏ سے نوازتا ہے۔‏—‏یعقو ۱:‏۱۳،‏ ۱۷‏۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ ہمیں یہوواہ خدا پر پورا بھروسا کیوں رکھنا چاہئے؟‏ مثال دیں۔‏

۱۸ یہوواہ خدا پر بھروسا رکھیں۔‏ یہوواہ خدا بےعیب ہے اور اُس کے خیال ہمارے خیالوں سے بلند ہیں۔‏ (‏یسع ۵۵:‏۸،‏ ۹‏)‏ لہٰذا ہمیں عاجزی سے یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم ہر بات کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے۔‏ (‏روم ۹:‏۲۰‏)‏ بہت سے ایسے معاملات ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہمارے پاس تمام معلومات نہیں ہوتیں۔‏ بِلاشُبہ ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ امثال ۱۸:‏۱۷ میں لکھی یہ بات بالکل سچ ہے:‏ ”‏جو پہلے اپنا دعویٰ بیان کرتا ہے راست معلوم ہوتا ہے پر دوسرا آ کر اُس کی حقیقت ظاہر کرتا ہے۔‏“‏

۱۹ فرض کریں کہ آپ کا ایک قریبی دوست کوئی کام کرتا ہے اور آپ سمجھ نہیں پاتے کہ اُس نے ایسا کیوں کِیا۔‏ ایسی صورت میں کیا آپ فوراً اُس پر اِلزام لگائیں گے کہ اُس کا یہ کام غلط ہے؟‏ یا کیا آپ یہ سوچیں گے کہ اُس نے جو کچھ کِیا،‏ اُس کی کوئی نہ کوئی جائز وجہ ہوگی جس سے آپ واقف نہیں؟‏ اگر ہم اپنے دوست پر اِتنا بھروسا رکھتے ہیں جو ایک عیب‌دار اِنسان ہے تو پھر ہمیں اپنے آسمانی باپ پر کتنا زیادہ بھروسا رکھنا چاہئے جس کے خیال ہمارے خیالوں سے کہیں زیادہ بلند ہیں۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ یہ کیوں اہم ہے کہ ہم مسئلے کی اصل وجہ کو پہچانیں؟‏

۲۰ مسئلے کی اصل وجہ کو پہچانیں۔‏ ہمیں یہ ماننا چاہئے کہ ہماری کچھ مشکلات کے ذمےدار ہم خود ہی ہیں۔‏ (‏گل ۶:‏۷‏)‏ اِن مشکلات کے لئے یہوواہ خدا کو قصوروار ٹھہرانا صحیح نہیں۔‏ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ ایک شخص کے پاس ایک تیز رفتار گاڑی ہے۔‏ لیکن وہ ایک خطرناک موڑ کاٹتے وقت رفتار کی حد توڑ دیتا ہے اور اِس وجہ سے اُس کا حادثہ ہو جاتا ہے۔‏ کیا اِس حادثے کے لئے گاڑی بنانے والی کمپنی کو ذمےدار ٹھہرانا چاہئے؟‏ جی‌نہیں۔‏ اِسی طرح یہوواہ خدا نے ہمیں اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی آزادی دی ہے۔‏ لیکن اُس نے کچھ اصول بھی فراہم کئے ہیں جن پر عمل کرکے ہم اچھے فیصلے کر سکتے ہیں۔‏ لیکن اگر ہم اپنی اِس آزادی کا غلط اِستعمال کرتے ہیں اور مشکل میں پڑ جاتے ہیں تو اِس کے لئے ہمیں یہوواہ خدا کو قصوروار نہیں ٹھہرانا چاہئے۔‏

۲۱ ظاہری بات ہے کہ ہماری ساری مشکلات ہماری غلطیوں کی وجہ سے پیدا نہیں ہوتیں۔‏ کچھ تو محض ’‏وقت اور حادثے‘‏ کا نتیجہ ہوتی ہیں۔‏ (‏واعظ ۹:‏۱۱‏)‏ لیکن ہمیں اِس حقیقت کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ بُرائی کی اصل جڑ شیطان ہے۔‏ (‏۱-‏یوح ۵:‏۱۹؛‏ مکا ۱۲:‏۹‏)‏ ہمارا دُشمن شیطان ہے،‏ یہوواہ خدا نہیں۔‏—‏۱-‏پطر ۵:‏۸‏۔‏

یہوواہ خدا کی قربت میں رہیں

یشوع اور کالب نے یہوواہ خدا پر بھروسا رکھا اور اُس نے اُنہیں اِس کا صلہ بھی دیا۔‏ (‏پیراگراف ۲۲ کو دیکھیں۔‏)‏

۲۲،‏ ۲۳.‏ اگر ہم اپنی مشکلوں کی وجہ سے بےحوصلہ ہو جائیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

۲۲ جب آپ پر کوئی مصیبت آئے تو یشوع اور کالب کی مثال پر غور کریں۔‏ دس جاسوسوں کی بُری خبر کے باوجود خدا کے اِن دو وفادار بندوں نے ملک کنعان کے بارے میں اچھی خبر دی۔‏ (‏گن ۱۴:‏۶-‏۹‏)‏ یوں اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ خدا پر پورا ایمان رکھتے ہیں۔‏ اِس کے باوجود وہ ۴۰ سال تک باقی اِسرائیلیوں کے ساتھ بیابان میں پھرتے رہے۔‏ کیا یشوع اور کالب نے یہوواہ خدا کے بارے میں کوئی شکایت کی؟‏ کیا اُنہوں نے یہ کہا کہ اُن کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے؟‏ جی‌نہیں۔‏ اُنہوں نے یہوواہ خدا پر بھروسا رکھا اور اُس نے اُنہیں اِس کا صلہ بھی دیا۔‏ یہوواہ خدا کے بارے میں شکایت کرنے والے سارے اِسرائیلی بیابان میں مر مٹے مگر یشوع اور کالب اُس ملک میں داخل ہوئے جس کو خدا نے اُن کو دینے کا وعدہ کِیا تھا۔‏ (‏گن ۱۴:‏۳۰‏)‏ اگر ہم بھی خدا کی مرضی پر چلتے رہیں گے تو وہ ہمیں اِس کا صلہ ضرور دے گا۔‏—‏گل ۶:‏۹؛‏ عبر ۶:‏۱۰‏۔‏

۲۳ اگر آپ اپنی مشکلوں یا پھر اپنی یا دوسروں کی کمزوریوں کی وجہ سے بےحوصلہ ہو جاتے ہیں تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟‏ یہوواہ خدا کی شان‌دار صفات پر غور کریں،‏ اُس روشن مستقبل کا تصور کریں جس کا وعدہ یہوواہ خدا نے کِیا ہے۔‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏اگر مجھے یہوواہ خدا کی قربت حاصل نہ ہوتی تو میری زندگی کیسی ہوتی؟‏“‏ کبھی بھی یہوواہ خدا سے دُور نہ جائیں اور کسی بھی وجہ سے اُس سے بیزار نہ ہوں۔‏