ہمیں کن خوبیوں کے طالب ہونا چاہئے؟
ہمیں کن خوبیوں کے طالب ہونا چاہئے؟
”راستبازی۔ دینداری۔ ایمان۔ محبت۔ صبر اور حلم کا طالب ہو۔“—۱-تیم ۶:۱۱۔
۱. بہتیرے لوگ کن چیزوں کی طلب میں زندگی صرف کر دیتے ہیں؟
دُنیا میں بہتیرے لوگ کن چیزوں کی طلب میں زندگی صرف کر دیتے ہیں؟ خدا کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ ایسے منصوبے باندھنے میں مصروف ہیں جن کا اصل میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کئی لوگ ’بطالت کے پیرو ہیں‘ اور اُن کا خیال ہے کہ مالودولت ہی خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ (امثا ۲۸:۱۹) دوسرے لوگ ”شرارت کے درپے رہتے ہیں“ اور عیاشی کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ (زبور ۱۱۹:۱۵۰) عام طور پر لوگ اِن باتوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں لیکن اصل میں یہ سب کچھ ”ہوا کی چران ہے۔“—واعظ ۱:۱۴۔
۲. (ا) یہوواہ خدا نے کئی مسیحیوں کو کون سا انعام عطا کِیا ہے؟ (ب) زیادہتر مسیحی کس قسم کی اُمید رکھتے ہیں؟
۲ اِس کے برعکس غور کریں کہ پولس رسول نے کس بات کو اہمیت دی۔ اُس نے کہا: ”[مَیں] نشان کی طرف دوڑا ہوا جاتا ہوں تاکہ اُس انعام کو حاصل کروں جس کے لئے خدا نے مجھے مسیح یسوؔع میں اُوپر بلایا ہے۔“ (فل ۳:۱۴) پولس رسول ممسوح مسیحیوں کے گروہ میں شامل تھا۔ بائبل میں بتایا جاتا ہے کہ اِن ۰۰۰،۱۴۴ کا انعام یہ ہے کہ وہ آسمان پر یسوع مسیح کے ساتھ حکمرانی کریں گے۔ خدا نے اُنہیں کیا ہی شاندار شرف عطا کِیا ہے۔ لیکن زیادہتر مسیحی فردوسی زمین میں ہمیشہ کے لئے تندرست اور توانا رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ جیہاں، یہوواہ خدا اُنہیں وہ سب کچھ دینا چاہتا ہے جو آدم اور حوا نے گنوا دیا تھا۔—مکا ۷:۴، ۹؛ ۲۱:۱-۴۔
۳. ہم خدا کی مہربانی کے لئے شکرگزاری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۳ گنہگار انسان اپنی کوششوں کے ذریعے ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتے۔ (یسع ۶۴:۶) انسانوں کو صرف اِس صورت میں ہمیشہ کی زندگی عنایت کی جائے گی جب وہ یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان لائیں گے۔ ہم خدا کی اِس مہربانی کے لئے شکرگزاری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟ اِس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم اِس حکم پر عمل کریں: ”راستبازی۔ دینداری۔ ایمان۔ محبت۔ صبر اور حلم کا طالب ہو۔“ (۱-تیم ۶:۱۱) آئیں اِن خوبیوں پر غور کریں تاکہ ہم اِن کے طالب ہونے میں ’ترقی کرتے جائیں۔‘—۱-تھس ۴:۱۔
”راستبازی“ کے طالب ہوں
۴. (ا) ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ راستبازی کا طالب ہونا بہت اہم ہے؟ (ب) ایک شخص جو راستبازی کا طالب ہونا چاہتا ہے اُس کو کیا کرنا چاہئے؟
۴ تیمتھیس کے نام اپنے خطوط میں پولس رسول نے ایسی خوبیوں کا ذکر کِیا جنہیں مسیحیوں کو خود میں پیدا کرنا چاہئے۔ اِن خوبیوں کا ذکر کرتے وقت اُس نے ہر بار راستبازی کا ذکر پہلے کِیا۔ اِس کے علاوہ بائبل کی دوسری آیتوں میں بھی ہمیں راستبازی کے طالب ہونے کی حوصلہافزائی دی گئی ہے۔ (صفن ۲:۳) ایسا کرنے کے لئے پہلے تو ایک شخص کو چاہئے کہ وہ ’خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جانے‘ یعنی اُن کے بارے میں علم حاصل کرے۔ (یوح ۱۷:۳) اِس کے علاوہ اُسے ’توبہ کرکے رجوع لانا‘ چاہئے اور خدا کی مرضی بجا لانی چاہئے۔—اعما ۳:۱۹۔
۵. خدا کے سامنے راستباز ٹھہرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۵ راستبازی کے طالب ہونے والے کروڑوں لوگوں نے خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کی ہے اور بپتسمہ لے لیا ہے۔ اگر آپ اِن میں سے ایک ہیں تو آپ کی زندگی سے ظاہر ہونا چاہئے کہ آپ راستبازی کے طالب ہیں۔ راستبازی کے طالب ہونے کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ اہم فیصلے کرتے وقت بائبل کی مدد سے ”نیکوبد میں امتیاز“ کریں۔ (عبرانیوں ۵:۱۴ کو پڑھیں۔) مثال کے طور پر اگر آپ کنوارے ہیں اور شادی کرنے کی عمر کے ہیں تو کیا آپ نے ٹھان لی ہے کہ آپ ایک ایسے شخص سے شادی نہیں کریں گے جس نے یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ نہیں لیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو آپ واقعی راستبازی کے طالب ہیں۔—۱-کر ۷:۳۹۔
۶. صحیح معنوں میں راستبازی کے طالب ہونے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۶ راستباز ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی بڑائی کرنے کی نیت سے ہم ”حد سے زیادہ نیکوکار“ بنیں۔ (واعظ ۷:۱۶) یسوع مسیح نے اِس بات سے خبردار کِیا کہ ہم دکھاوے کے لئے راستباز نہ بنیں۔ (متی ۶:۱) صحیح معنوں میں راستبازی کے طالب ہونے میں یہ شامل ہے کہ ہم اپنی سوچ اور اپنے رویے کو درست کریں اور غلط خواہشات کو اپنے دل سے نکال دیں۔ اگر ہم ایسا کرتے رہیں گے تو سنگین گناہ میں پڑنے کا کم ہی امکان ہوگا۔ (امثال ۴:۲۳ کو پڑھیں؛ یعقوب ۱:۱۴، ۱۵ پر غور کریں۔) اِس کے علاوہ یہوواہ خدا ہمیں اپنی برکات سے نوازے گا اور دوسری خوبیوں کو پیدا کرنے میں بھی ہماری مدد کرے گا۔
”دینداری“ کے طالب ہوں
۷. یونانی زبان میں لفظ ”دینداری“ میں کیا کچھ شامل ہے؟
۷ بائبل کی ایک لغت کے مطابق جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”دینداری“ کِیا گیا ہے ”اُس میں خدا کا خوف رکھنے کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔“ اس کے علاوہ اِس میں خدا کی بندگی کرنا اور اُس کے وفادار رہنا بھی شامل ہے۔ اسرائیلی اکثر ایسی دینداری ظاہر کرنے میں ناکام رہے۔ وہ بہتیرے موقعوں پر خدا کے نافرمان ثابت ہوئے۔ مثال کے طور پر وہ اُس وقت کے بعد بھی خدا کی نافرمانی کرتے رہے جب اُس نے اُن کو مصریوں کی غلامی سے رِہائی دلائی۔
۸. (ا) آدم کے گناہ کی وجہ سے کون سا سوال اُٹھا؟ (ب) یہوواہ خدا نے ”بھید“ کو کیسے آشکارا کِیا؟
۸ آدم کے گناہ کرنے کے ہزاروں سال بعد تک کوئی بھی انسان مکمل طور پر ”دینداری“ ظاہر نہیں کر سکا۔ تب یہ سوال اُٹھا کہ کیا کوئی انسان مکمل طور پر ”دینداری“ ظاہر کر سکتا ہے؟ ہزاروں سال تک یہ بات ایک ”بھید“ رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ خدا نے اِس ”بھید“ کو آشکارا کِیا۔ اُس نے اپنے بیٹے کی زندگی کو مریم کے رَحم میں منتقل کِیا اور اِس طرح یسوع نے ایک انسان کے طور پر جنم لیا۔ یسوع نے زمین پر اپنی زندگی کے دوران اور ایک نہایت ہی تکلیفدہ موت سہتے وقت بھی مکمل طور پر یہ ظاہر کِیا کہ خدا کی بندگی کرنے اور اُس کے وفادار رہنے میں کیا کچھ شامل ہے۔ اُس کی دُعاؤں میں خدا کا خوف اور احترام نمایاں تھا۔ (متی ۱۱:۲۵؛ یوح ۱۲:۲۷، ۲۸) پس یہوواہ خدا کے الہام سے پولس رسول نے لکھا کہ یسوع ہی نے مکمل طور پر ”دینداری“ ظاہر کی۔—۱-تیمتھیس ۳:۱۶ کو پڑھیں۔
۹. ہم دینداری کے طالب کیسے ہو سکتے ہیں؟
۹ چونکہ ہم نے آدم سے گناہ کو ورثے میں پایا ہے اِس لئے ہم مکمل طور پر دینداری ظاہر نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم اِس خوبی کے طالب ضرور ہو سکتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے ہمیں یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنا چاہئے۔ (۱-پطر ۲:۲۱) اِس طرح ہم اُن ریاکاروں کی طرح نہیں ہوں گے جو ’دینداری کی وضع تو رکھتے ہیں مگر اُس کے اثر کو قبول نہیں کرتے۔‘ (۲-تیم ۳:۵) دینداری کا ہمارے بناؤسنگھار پر بھی اثر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر چاہے شادی ہو یا تفریح ہمیں ہر موقعے پر ایسے کپڑے پہننے چاہئیں جن سے ہماری ”خدا پرستی“ ظاہر ہو۔ (۱-تیم ۲:۹، ۱۰) جیہاں، دینداری کے طالب ہونے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم روزمرّہ معاملوں میں بھی خدا کے معیاروں کے مطابق چلیں۔
”ایمان“ کے طالب ہوں
۱۰. اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۰ رومیوں ۱۰:۱۷ کو پڑھیں۔ اپنے ایمان کو مضبوط بنانے اور اِس پر قائم رہنے کے لئے ایک مسیحی کو خدا کے کلام کی سچائیوں پر غوروخوض کرتے رہنا چاہئے۔ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ نے ہماری مدد کرنے کے لئے عمدہ کتابیں فراہم کی ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) اِن میں کتاب عظیمترین انسان جو کبھی ہو گزرا بھی شامل ہے۔ اِس کتاب کے ذریعے ہم یسوع مسیح کو بہتر طور پر جان پائیں گے اور اُس کی مثال پر عمل کر سکیں گے۔ نوکر جماعت ہمارے لئے اجلاسوں، اسمبلیوں اور کنونشنوں کا بھی انتظام کرتی ہے جن پر ”مسیح کے کلام“ پر غور کِیا جاتا ہے۔ اِن اجلاسوں سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے کیا آپ اِن پر بتائی گئی باتوں پر ’دل لگا کر غور کر رہے ہیں‘؟—عبر ۲:۱۔
۱۱. دُعا کرنے اور خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے ہمارا ایمان مضبوط کیوں ہوتا ہے؟
۱۱ ہم اپنے ایمان کو دُعا کے ذریعے بھی مضبوط بنا سکتے ہیں۔ یسوع کے شاگردوں نے ایک بار اُس کی مِنت کی کہ ”ہمارے ایمان کو بڑھا۔“ (لو ) ہم بھی خدا سے یہی مِنت کر سکتے ہیں۔ ہمیں خاص طور پر خدا کی پاک روح کے لئے درخواست کرنی چاہئے کیونکہ ایمان ’روح کے پھل‘ کا ایک پہلو ہے۔ ( ۱۷:۵گل ۵:۲۲) اِس کے علاوہ ہمارا ایمان خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے بھی مضبوط بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر منادی کے کام میں بڑھچڑھ کر حصہ لینے سے ہماری خوشی بڑھ جائے گی۔ پھر جب ہم اُن برکات پر غور کریں گے جو ہمیں ”بادشاہی اور [خدا] کی راستبازی کی تلاش“ کرنے سے حاصل ہوتی ہیں تو ہمارا ایمان اَور بھی مضبوط ہو جائے گا۔—متی ۶:۳۳۔
”محبت“ کے طالب ہوں
۱۲، ۱۳. (ا) یسوع مسیح نے کیا حکم دیا تھا؟ (ب) ہم دوسروں کے لئے یسوع جیسی محبت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۲ پہلا تیمتھیس ۵:۱، ۲ کو پڑھیں۔ اِس صحیفے میں پولس رسول نے مسیحیوں کو بتایا کہ اُنہیں ایک دوسرے کے لئے محبت کیسے ظاہر کرنی چاہئے۔ دینداری ظاہر کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم یسوع مسیح کے اِس حکم پر عمل کریں: ”ایک دوسرے سے محبت رکھو جیسے مَیں نے تُم سے محبت رکھی۔“ (یوح ۱۳:۳۴) یوحنا رسول نے کہا: ”جس کسی کے پاس دُنیا کا مال ہو اور وہ اپنے بھائی کو محتاج دیکھ کر رحم کرنے میں دریغ کرے تو اُس میں خدا کی محبت کیونکر قائم رہ سکتی ہے؟“ (۱-یوح ۳:۱۷) کیا آپ کو ایسے موقعے یاد ہیں جب آپ نے کسی کے لئے ایسی محبت ظاہر کی تھی؟
۱۳ اگر ہم دوسروں کے قصور کو حساب میں رکھنے کی بجائے اُن کو معاف کریں گے تو ہم اُن کے لئے محبت ظاہر کریں گے۔ (۱-یوحنا ۴:۲۰ کو پڑھیں۔) ہم اِس نصیحت پر عمل کرنا چاہتے ہیں: ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے [یہوواہ] نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تُم بھی کرو۔“ (کل ۳:۱۳) کیا آپ کی کلیسیا میں ایسا کوئی شخص ہے جس کے معاملے میں آپ اِس نصیحت پر عمل کر سکتے ہیں؟ کیا آپ اُس کا قصور معاف کر دیں گے؟
”صبر“ کے طالب ہوں
۱۴. فلدلفیہ کی کلیسیا سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۴ ہماری منزل ہمیشہ کی زندگی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ منزل ہمیں دُور لگے یا اِسے پانا اتنا آسان نہ ہو جتنا کہ ہم نے سوچا تھا۔ لہٰذا ہمیں صبر کرنے کی ضرورت ہے۔ یسوع مسیح نے فلدلفیہ کی کلیسیا سے کہا: ’چُونکہ تُو نے میرے صبر کے کلام پر عمل کِیا ہے اِس لئے مَیں بھی آزمایش کے وقت تیری حفاظت کروں گا۔‘ (مکا ۳:۱۰) جیہاں، یسوع نے سکھایا تھا کہ ہمیں خود میں صبر پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اِس طرح ہم مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت بھی خدا کی خدمت کو جاری رکھ سکیں گے۔ فلدلفیہ کی کلیسیا کے بھائیوں نے آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت صبر سے کام لیا۔ پس یسوع نے اُن کو یقین دلایا کہ وہ آنے والی آزمائشوں میں اُن کی مدد کرے گا۔—لو ۱۶:۱۰۔
۱۵. صبر اور برداشت کرنے کے بارے میں یسوع نے کیا کہا؟
۱۵ یسوع جانتا تھا کہ اُس کے شاگردوں کے رشتہدار اور دوسرے لوگ بھی اُن سے نفرت کریں گے۔ اِس لئے یسوع نے اپنے شاگردوں کی حوصلہافزائی کرتے ہوئے دو مرتبہ کہا: ”جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا۔“ (متی ۱۰:۲۲؛ ۲۴:۱۳) یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ اُنہیں مشکلات کو برداشت کرنے کی قوت کہاں سے ملے گی۔ ایک تمثیل میں یسوع نے ایسے لوگوں کا موازنہ چٹان سے کِیا جو ”[خدا کے] کلام کو خوشی سے قبول کر لیتے ہیں“ لیکن جب اُنہیں آزمائش کا سامنا ہوتا ہے تو وہ خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر یسوع نے اپنے وفادار شاگردوں کا موازنہ اچھی زمین سے کِیا کیونکہ وہ خدا کے کلام کو ”دل میں سنبھالے“ رکھتے ہیں اور اِس وجہ سے ”صبر سے پھل لاتے ہیں۔“—لو ۸:۱۳، ۱۵۔
۱۶. ہم صبر کرنے کی قوت کہاں سے پاتے ہیں؟
۱۶ کیا آپ نے غور کِیا کہ ہمیں صبر کرنے کی قوت کہاں سے ملتی ہے؟ ہمیں خدا کے کلام کو اپنے ”دل میں سنبھالے“ رکھنا چاہئے۔ چونکہ آجکل بائبل بہتیری زبانوں میں دستیاب ہے اِس لئے ایسا کرنا آسان ہو گیا ہے۔ ہر دن خدا کے کلام کو پڑھنے اور اِس پر غوروخوض کرنے سے ہمیں ”صبر سے پھل“ لانے کی قوت ملتی رہے گی۔—زبور ۱:۱، ۲۔
”حلم“ اور صلح کے طالب ہوں
۱۷. (ا) ”حلم کا طالب“ ہونا اہم کیوں ہے؟ (ب) یسوع نے حلم کیسے ظاہر کِیا؟
۱۷ جب کوئی ہم پر کسی ایسی بات کا الزام لگاتا ہے جو ہم نے نہیں کی تو ہمیں بہت بُرا لگتا ہے۔ انسانی فطرت یہی ہے کہ ہم غصہ میں آ کر کہیں کہ ”مَیں نے ایسا ہرگز نہیں کِیا۔“ لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم ’حلم کے طالب‘ ہوتے ہوئے نرم جواب دیں؟ (امثال ۱۵:۱ کو پڑھیں۔) الزام لگانے والے کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے لئے بڑے ضبط کی ضرورت ہوتی ہے۔ یسوع مسیح نے اِس سلسلے میں بہترین مثال قائم کی۔ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے: ”نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپرد کرتا تھا۔“ (۱-پطر ۲:۲۳) یہ سچ ہے کہ ہم یسوع کی کامل مثال پر پورا نہیں اُتر سکتے لیکن ہمیں حلم ظاہر کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔
۱۸. (ا) حلم سے کام لینے سے کون سے اچھے نتائج نکلتے ہیں؟ (ب) ہمیں کون سی دوسری خوبی کا طالب ہونا چاہئے؟
۱۸ ہمیں چاہئے کہ ہم یسوع کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اپنی اُمید کی وجہ دریافت کرنے والے لوگوں کو ’جواب دینے کے لئے ہر وقت مستعد رہیں مگر حلم اور خوف کے ساتھ۔‘ (۱-پطر ۳:۱۵) اگر ہم حلیم ہیں تو ہم نہ تو منادی میں دوسروں کے ساتھ بحثوتکرار کریں گے اور نہ ہی کلیسیا کے بہنبھائیوں کے ساتھ۔ (۲-تیم ۲:۲۴، ۲۵) اِس کے علاوہ حلیم ہونے سے ہم یہ بھی ظاہر کریں گے کہ ہم صلحپسند ہیں۔ پولس رسول نے تیمتھیس کے نام اپنے دوسرے خط میں لکھا: ”صلح کا طالب ہو۔“ (۲-تیم ۲:۲۲؛ برائےمہربانی ۱-تیمتھیس ۶:۱۱ پر غور کریں۔) جیہاں، بائبل کی دوسری آیتوں میں بھی ہمیں ”صلح کا طالب“ ہونے کے لئے کہا گیا ہے۔—زبور ۳۴:۱۴؛ عبر ۱۲:۱۴۔
۱۹. اِن سات خوبیوں پر غور کرنے کے بعد آپ نے کیا کرنے کی ٹھان لی ہے؟
۱۹ اِس مضمون میں ہم نے سات خوبیوں پر غور کِیا ہے اور ہماری حوصلہافزائی کی گئی ہے کہ ہم اِن کے طالب ہوں۔ یہ خوبیاں راستبازی، دینداری، ایمان، محبت، صبر، حلم اور صلح ہیں۔ یہ کتنی شاندار بات ہے کہ کلیسیا میں بہنبھائی اِن خوبیوں کو ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم اِن خوبیوں کے طالب ہوں گے تو ہم یہوواہ خدا کی سوچ کو اپنا رہے ہوں گے اور اُس کی بڑائی بھی کر رہے ہوں گے۔
اِن سوالوں پر غور کریں
• راستبازی اور دینداری کے طالب ہونے میں کیا کچھ شامل ہے؟
• اپنے ایمان کو مضبوط بنانے کے لئے اور صبر پیدا کرنے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
• محبت ظاہر کرنے سے دوسروں کے ساتھ ہمارے برتاؤ پر کیسا اثر پڑے گا؟
• ہمیں حلم اور صلح کا طالب کیوں ہونا چاہئے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
یسوع مسیح نے خبردار کِیا کہ دکھاوے کے لئے راستبازی نہ کرو
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
اپنے ایمان کو مضبوط بنانے کے لئے ہمیں خدا کے کلام پر غوروخوض کرنا چاہئے
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
ہمیں محبت اور حلم کا طالب ہونا چاہئے