مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ابلیس کا مقابلہ کریں تو وہ بھاگ جائے گا

ابلیس کا مقابلہ کریں تو وہ بھاگ جائے گا

ابلیس کا مقابلہ کریں تو وہ بھاگ جائے گا

‏”‏خدا کے تابع ہو جاؤ اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تُم سے بھاگ جائے گا۔‏“‏—‏یعقوب ۴:‏۷‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ یسعیاہ نبی نے جو مثل دی تھی اُس سے ہم شیطان کے بارے میں کیا جان جاتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

شیطان نہایت مغرور ہے۔‏ خدا کے نبی یسعیاہ نے ایک مثل میں شیطان کے غرور کی طرف اشارہ کِیا۔‏ یہ مثل شاہِ‌بابل کے بارے میں تھی۔‏ بابل کو دُنیا کی سب سے طاقتور حکومت بننے میں ابھی سو سے زیادہ سال گزرنے تھے لیکن اس مثل میں یہودی،‏ ”‏شاہِ‌بابلؔ“‏ کے بارے میں کہتے ہیں:‏ ”‏تُو تو اپنے دل میں کہتا تھا مَیں آسمان پر چڑھ جاؤں گا۔‏ مَیں اپنے تخت کو خدا کے ستاروں سے بھی اُونچا کروں گا۔‏ .‏ .‏ .‏ مَیں خدا تعالیٰ کی مانند ہوں گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۱۴:‏۳،‏ ۴،‏ ۱۲-‏۱۵؛‏ گنتی ۲۴:‏۱۷‏)‏ ’‏اِس جہان کا خدا‘‏ یعنی شیطان،‏ ”‏شاہِ‌بابلؔ“‏ کی طرح مغرور ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴‏)‏ لیکن جسطرح خدا نے بابل کے بادشاہوں کے غرور کو توڑ دیا تھا اسی طرح شیطان کے غرور کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔‏

۲ لیکن جب تک یہ واقعہ پیش نہیں آتا ہمیں ان سوالات پر غور کرنا چاہئے:‏ کیا ہمیں شیطان سے ڈرنا چاہئے؟‏ شیطان لوگوں کو مسیحیوں پر اذیت ڈھانے پر کیوں اُکساتا ہے؟‏ ہم شیطان کے داؤ سے بچنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟‏

کیا ہمیں شیطان سے ڈرنا چاہئے؟‏

۳،‏ ۴.‏ سچے مسیحی شیطان سے کیوں نہیں ڈرتے ہیں؟‏

۳ ممسوح مسیحی،‏ یسوع کی اس پیشینگوئی سے ہمت باندھتے ہیں:‏ ”‏جو دُکھ تجھے سہنے ہوں گے اُن سے خوف نہ کر۔‏ دیکھو ابلیس تُم میں سے بعض کو قید میں ڈالنے کو ہے تاکہ تمہاری آزمایش ہو اور دس دن تک مصیبت اُٹھاؤ گے۔‏ جان دینے تک بھی وفادار رہ تو مَیں تجھے زندگی کا تاج دوں گا۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲:‏۱۰‏)‏ چاہے وہ آسمان پر یا پھر زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں،‏ سچے مسیحی شیطان سے نہیں ڈرتے۔‏ اسکی وجہ یہ ہے کہ اُنکے دل میں خدا کا خوف بسا ہے اور وہ خدا کے ”‏بازوؤں کے سایہ میں پناہ لیتے ہیں۔‏“‏—‏زبور ۳۴:‏۹؛‏ ۳۶:‏۷‏۔‏

۴ پہلی صدی کے مسیحیوں کو بہت اذیت پہنچائی گئی،‏ پھربھی وہ مرتے دم تک خدا کے وفادار رہے۔‏ وہ شیطان سے نہیں ڈرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہوواہ اپنے وفادار خادموں کو کبھی نہیں چھوڑیگا۔‏ اسی طرح آج بھی ممسوح مسیحی اور زمینی اُمید رکھنے والے مسیحی خدا کے وفادار رہنے کا عزم رکھتے ہیں۔‏ البتہ پولس رسول نے کہا تھا کہ شیطان کو موت پر قدرت حاصل ہے یعنی کہ وہ انسان کو موت کے گھاٹ اُتار سکتا ہے۔‏ تو کیا ہمیں اس وجہ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے؟‏

۵.‏ عبرانیوں ۲:‏۱۴،‏ ۱۵ پر غور کرنے سے ہم کیا جان جاتے ہیں؟‏

۵ پولس رسول نے لکھا کہ یسوع ”‏خون اور گوشت میں شریک“‏ ہوا یعنی اُس نے انسان کا روپ اختیار کِیا۔‏ اِسکی وجہ یہ تھی کہ وہ ”‏موت کے وسیلہ سے اُسکو جِسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے۔‏ اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے انہیں چھڑا لے۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۲:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ شیطان نے یہوداہ اسکریوتی،‏ یہودی راہنماؤں اور رومی حکمرانوں کو یسوع کو قتل کرنے پر اُکسایا تھا۔‏ (‏لوقا ۲۲:‏۳؛‏ یوحنا ۱۳:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ اس لحاظ سے شیطان کو ”‏موت پر قدرت حاصل تھی۔‏“‏ لیکن یسوع نے اپنی جان قربان کرکے انسان کو شیطان کے قبضے سے رِہا کر دیا اور ہمیں ہمیشہ کی زندگی پانے کا موقع فراہم کِیا۔‏—‏یوحنا ۳:‏۱۶‏۔‏

۶،‏ ۷.‏ شیطان کو کس حد تک موت پر قدرت حاصل ہے؟‏

۶ شیطان کو کس حد تک موت پر قدرت حاصل ہے؟‏ شروع سے ہی شیطان نے جھوٹ پھیلا کر انسانوں کو موت کی طرف دھکیلا ہے۔‏ شیطان کے فریب میں آ کر آدم نے گُناہ کِیا اور اسطرح گُناہ اور موت آدم کی اولاد میں پھیل گئی۔‏ (‏رومیوں ۵:‏۱۲‏)‏ اسکے علاوہ جو لوگ شیطان کی پیروی کرتے ہیں وہ خدا کے خادموں کو اکثر اذیت پہنچاتے اور اُن میں سے بعض کو مار بھی ڈالتے ہیں۔‏ یسوع مسیح کے دُشمنوں نے اُسکے ساتھ ایسا ہی سلوک کِیا تھا۔‏

۷ اسکا مطلب یہ نہیں کہ شیطان جسے بھی چاہے قتل کروا سکتا ہے۔‏ یہوواہ خدا اپنے خادموں کی حفاظت کرتا ہے۔‏ وہ کبھی اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ شیطان اُسکے تمام خادموں کا نام‌ونشان مٹا دے۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۸‏)‏ البتہ یہوواہ خدا اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ شیطان اُسکے خادموں کو اذیت پہنچائے اور اُن میں سے بعض کو قتل بھی کروائے۔‏ لیکن خدا نے اپنے کلام میں وعدہ کِیا ہے کہ جس شخص کا نام ’‏اُسکے یادگار کے دفتر میں لکھا‘‏ ہوگا خدا اُسے موت سے جی اُٹھائے گا۔‏ شیطان،‏ خدا کے اس وعدے کو پورا ہونے سے نہیں روک سکتا۔‏—‏ملاکی ۳:‏۱۶؛‏ یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹؛‏ اعمال ۲۴:‏۱۵‏۔‏

شیطان ہمیں اذیت کیوں پہنچاتا ہے؟‏

۸.‏ شیطان،‏ خدا کے وفادار خادموں کو اذیت پہنچا کر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟‏

۸ شیطان،‏ خدا کے وفادار خادموں کو اذیت پہنچا کر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم خدا کی راہ سے بھٹک جائیں۔‏ ہمیں یہوواہ خدا کی دوستی نصیب ہوئی ہے لیکن شیطان ہمیں خدا سے دُور کرنا چاہتا ہے۔‏ یہ اُسکی کوئی نئی چال نہیں ہے۔‏ باغِ‌عدن میں یہوواہ خدا نے کہا تھا کہ ”‏عورت“‏ اور ”‏سانپ“‏ کے درمیان دُشمنی ہوگی اور یہ دُشمنی اُنکی ’‏نسلوں‘‏ میں بھی جاری رہے گی۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ خدا کے کلام میں شیطان کو ”‏پُرانا سانپ“‏ کہا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اُسکا تھوڑا سا ہی وقت باقی ہے جسکی وجہ سے وہ بڑے غصے میں ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹،‏ ۱۲‏)‏ چونکہ ”‏عورت“‏ اور ”‏سانپ“‏ کی نسلوں کے درمیان دُشمنی ہے اس لئے خدا کے خادم جانتے ہیں کہ اُنہیں اذیت پہنچائی جائے گی۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۲‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ شیطان نے کونسے دعوے کھڑے کئے ہیں اور ہم اپنے چال‌چلن سے اُسکو جھوٹا کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟‏

۹ شیطان نے دعویٰ کِیا ہے کہ خدا حکمرانی کرنے کا حق نہیں رکھتا۔‏ اُس نے یہ بھی دعویٰ کِیا ہے کہ انسان اپنے پروردگار کا وفادار نہیں رہے گا۔‏ یہ بات ایوب کی کتاب سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ شیطان نے ایوب کو اذیت پہنچائی تھی اور اُسکی بیوی اور اُسکے تین ”‏نکمّے تسلی دینے والے“‏ دوستوں کے ذریعے ایوب کو ورغلانے کی کوشش بھی کی تھی۔‏ اُس نے ایسا کیوں کِیا تھا؟‏ شیطان چاہتا تھا کہ ایوب خدا سے پھر جائے۔‏ لیکن ایوب اپنی راستی پر قائم رہا۔‏ اسطرح اُس نے شیطان کے دعوے کو جھوٹا ثابت کِیا۔‏ (‏ایوب ۱:‏۸–‏۲:‏۹؛‏ ۱۶:‏۲؛‏ ۲۷:‏۵؛‏ ۳۱:‏۶‏)‏ آج بھی شیطان اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے کی کوشش میں خدا کے خادموں کو اذیت پہنچاتا ہے۔‏

۱۰ ان دعوؤں کے بارے میں جاننے سے ہم مضبوط ہو کر یہوواہ کے وفادار رہنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔‏ (‏استثنا ۳۱:‏۶‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہی کائنات پر حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے۔‏ اور وہ ہی ہمیں وفادار رہنے میں مدد دیتا ہے۔‏ اپنی راستی پر قائم رہنے سے ہم یہوواہ خدا کے دل کو شاد کرتے ہیں۔‏ ہماری وفاداری کی بِنا پر وہ شیطان کے دعوؤں کا جواب دے سکتا ہے۔‏—‏امثال ۲۷:‏۱۱‏۔‏

‏’‏ہمیں شریر سے بچا‘‏

۱۱.‏ جب ہم دُعا کرتے ہیں کہ ”‏ہمیں آزمائش میں نہ لا“‏ تو دراصل ہم کیا مانگتے ہیں؟‏

۱۱ خدا کے وفادار رہنے کیلئے ہمیں دُعا کا سہارا چاہئے۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو یوں دُعا کرنا سکھایا:‏ ”‏ہمیں آزمایش میں نہ لا بلکہ بُرائی سے بچا۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۱۳‏)‏ یہوواہ خدا ہمیں نہیں آزماتا۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۳‏)‏ البتہ کبھی‌کبھار یہوواہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے ایک کام کِیا ہے حالانکہ اُس نے ایسا محض ہونے دیا۔‏ (‏روت ۱:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ جب ہم دُعا کرتے ہیں کہ ”‏ہمیں آزمائش میں نہ لا“‏ تو دراصل ہم آزمائش کا مقابلہ کرنے کیلئے یہوواہ خدا کی مدد مانگتے ہیں۔‏ اور اُسکے کلام میں وعدہ کِیا گیا ہے کہ ”‏خدا سچا ہے۔‏ وہ تُم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دے گا بلکہ آزمایش کیساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دے گا تاکہ تُم برداشت کر سکو۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۳‏۔‏

۱۲.‏ ہمیں کیوں دُعا مانگنی چاہئے کہ خدا ہمیں ”‏شریر“‏ سے بچائے رکھے؟‏

۱۲ یسوع نے اپنی دُعا میں یہ بھی کہا کہ ”‏ہمیں .‏ .‏ .‏ بُرائی سے بچا۔‏“‏ بائبل کے دیگر ترجموں میں اس آیت کا ترجمہ یوں کِیا گیا ہے:‏ ”‏ہمیں شریر سے بچا۔‏“‏ اسکی وجہ یہ ہے کہ جس لفظ کا ترجمہ اُردو میں ”‏بچا“‏ سے کِیا گیا ہے یونانی زبان میں یہ لفظ کسی شخص سے بچائے جانے کا مطلب رکھتا ہے۔‏ ہم کس سے بچنے کی دُعا مانگتے ہیں؟‏ متی کی انجیل میں اسکی نشاندہی ”‏آزمانے والے“‏ یعنی شیطان سے کی گئی ہے۔‏ (‏متی ۴:‏۳،‏ ۱۱‏)‏ شیطان ہی ہمیں خدا کی نافرمانی کرنے پر اُکساتا ہے۔‏ اسلئے ہمیں خدا سے درخواست کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں ”‏شریر“‏ یعنی شیطان سے بچائے رکھے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۵‏)‏ یوں دُعا کرنے سے ہم شیطان کے داؤ سے بچنے کیلئے خدا کی مدد اور راہنمائی کی درخواست کرتے ہیں۔‏

شیطان کے فریب میں مت پڑیں

۱۳،‏ ۱۴.‏ کرنتھس کے مسیحیوں کو اُس تائب آدمی سے اپنا رویہ کیوں بدلنا پڑا؟‏

۱۳ پولس رسول کرنتھس کے مسیحیوں کو دوسروں کو معاف کرنے کی اہمیت سکھانا چاہتا تھا۔‏ اُس نے لکھا کہ ”‏جِسے تُم کچھ معاف کرتے ہو اسے مَیں بھی معاف کرتا ہوں کیونکہ جو کچھ مَیں نے معاف کِیا اگر کِیا تو مسیح کا قائم مقام ہو کر تمہاری خاطر معاف کِیا۔‏ تاکہ شیطان کا ہم پر داؤ نہ چلے کیونکہ ہم اسکے حیلوں سے ناواقف نہیں۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ واقعی شیطان ہمیں پھنسانے کیلئے ہم پر طرح طرح کے داؤ چلاتا ہے۔‏ آئیں ہم پولس رسول کے الفاظ کے پس‌منظر پر غور کرتے ہیں۔‏

۱۴ کچھ عرصہ پہلے پولس رسول نے کرنتھس کے مسیحیوں کو اپنی ایک غلطی کا احساس دلایا تھا کیونکہ اُنہوں نے ایک ایسے آدمی کو کلیسیا سے خارج نہیں کِیا تھا جو کھلم‌کُھلا حرامکاری کر رہا تھا۔‏ اور حرامکاری بھی ایسی ”‏جو غیرقوموں میں بھی نہیں ہوتی۔‏“‏ شیطان کلیسیا کی اس بدنامی پر بہت خوش ہوا ہوگا۔‏ پولس کے کہنے پر اس بدکار آدمی کو کلیسیا سے نکال دیا گیا تھا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱-‏۵،‏ ۱۱-‏۱۳‏)‏ لیکن اب اس آدمی نے توبہ کرکے اپنی بُری روش ترک کر دی تھی۔‏ اگر کرنتھس کے مسیحی اس شخص کو معاف کرکے اسے کلیسیا میں بھائی کا درجہ نہ دیتے تو وہ شیطان کے ایک اَور فریب میں پڑ جاتے۔‏ وہ شیطان کی طرح بےرحم اور سنگ‌دل بن جاتے۔‏ یہوواہ خدا رحیم ہے۔‏ اگر وہ آدمی اس سلوک کی وجہ سے ”‏غم کی کثرت سے تباہ“‏ ہو کر سچی عبادت کو چھوڑ دیتا تو یہوواہ خدا کلیسیا کے بزرگوں کو ایک حد تک اسکا ذمہ‌دار ٹھہراتا۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۷؛‏ یعقوب ۲:‏۱۳؛‏ ۳:‏۱‏)‏ ہمیں شیطان کی طرح ظالم اور بےرحم نہیں ہونا چاہئے۔‏

خدا کے سب ہتھیار باندھ لیں

۱۵.‏ مسیحی کس کا مقابلہ کرتے ہیں اور وہ اس میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟‏

۱۵ شیطان سے بچنے کے لئے ہمیں شرارت کی روحانی فوجوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔‏ ایسا کرنے میں کامیاب ہونے کیلئے ہمیں ”‏خدا کے سب ہتھیار“‏ باندھنے چاہئیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۱-‏۱۸‏)‏ ان ہتھیاروں میں ”‏راستبازی کا بکتر“‏ بھی شامل ہے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۴‏)‏ چونکہ بادشاہ ساؤل نے خدا کی نافرمانی کی اس لئے خدا نے اپنی پاک روح اُس سے ہٹا لی۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ اس کے برعکس اگر ہم اپنی راستی پر قائم رہیں گے اور یہوواہ کے سب ہتھیار باندھے رکھیں گے تو وہ ہمیں اپنی پاک روح بخشے گا۔‏ وہ ہمیں شیطان اور اُس کی روحانی فوجوں سے بھی محفوظ رکھے گا۔‏—‏امثال ۱۸:‏۱۰‏۔‏

۱۶.‏ شیطان کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں مزید کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۶ شیطان کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں باقاعدگی سے خدا کے کلام پر غور بھی کرنا چاہئے۔‏ ایسا کرنے میں ’‏دیانتدار داروغہ‘‏ کی کتابیں اور رسالے ہمارے لئے فائدہ‌مند ثابت ہوں گے۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۴۲‏)‏ اسطرح ہمارا دھیان روحانی باتوں پر رہے گا۔‏ اس سلسلے میں پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏غرض اَے بھائیو!‏ جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دلکش ہیں غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں اُن پر غور کِیا کرو۔‏“‏—‏فلپیوں ۴:‏۸‏۔‏

۱۷.‏ یہوواہ خدا ہمیں خوشخبری کی منادی کرنے کیلئے کیسے تیار کرتا ہے؟‏

۱۷ یہوواہ کی مدد سے ہم ”‏پاؤں میں صلح کی خوشخبری کی تیاری کے جوتے پہن“‏ سکتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۵‏)‏ جب ہم مسیحی اجلاسوں پر اپنے ایمان کا اقرار کرتے ہیں تو خوشخبری کی منادی کرنا ہمارے لئے زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔‏ دوسروں کو خدا کے کلام کی سچائیوں کے بارے میں سکھانے اور اُنہیں شیطان کی گِرفت سے بچانے سے ہم خود بھی خوشی محسوس کرتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۸:‏۳۲‏)‏ بعض لوگوں کے ذہن میں جھوٹی مذہبی تعلیم ”‏قلعوں“‏ کی طرح مضبوط ہے۔‏ انکو ”‏ڈھا دینے“‏ کیلئے ہمیں ”‏روح کی تلوار جو خدا کا کلام ہے“‏ استعمال میں لانی ہوگی۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۷؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۴،‏ ۵‏)‏ بائبل کے استعمال میں مہارت حاصل کرنے سے ہم شیطان کے پھندوں میں پڑنے سے بچے رہیں گے۔‏

۱۸.‏ ہم ”‏ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ“‏ میں کیسے کامیاب رہ سکتے ہیں؟‏

۱۸ پولس رسول نے یہ بھی کہا تھا کہ ”‏خداوند میں اور اسکی قدرت کے زور میں مضبوط بنو۔‏ خدا کے سب ہتھیار باندھ لو تاکہ تُم ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہ سکو۔‏“‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏قائم رہنے“‏ سے کِیا گیا ہے یہ اُس سپاہی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو میدانِ‌جنگ میں ڈٹ کر دُشمن کا مقابلہ کرتا ہے۔‏ شیطان ہمیں پھنسانے کیلئے طرح طرح کے منصوبے استعمال میں لاتا ہے۔‏ وہ مسیحیوں کے اتحاد کو ختم کرنا چاہتا ہے،‏ اُنکی تعلیم میں جھوٹ ملانا چاہتا ہے اور اُنکو خدا کی راہ سے ہٹانا چاہتا ہے۔‏ لیکن ہم ڈٹ کر شیطان کی روحانی فوجوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔‏ مسیحی آج تک اس مقابلے میں فتح‌مند رہے ہیں اور مستقبل میں بھی فتح‌مند رہیں گے۔‏ *

ابلیس کا مقابلہ کریں تو وہ بھاگ جائے گا

۱۹.‏ شیطان کا مقابلہ کرنے میں اَور کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۹ واقعی،‏ مسیحیوں کو شیطان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہر حال میں اُسکا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‏ یعقوب نے لکھا:‏ ”‏خدا کے تابع ہو جاؤ اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تُم سے بھاگ جائے گا۔‏“‏ (‏یعقوب ۴:‏۷‏)‏ شیطان اور اُسکی روحانی فوجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے یہ لازمی ہے کہ ہم ہر قسم کے جادوٹونے سے دُور رہیں اور ان لوگوں سے بھی کنارہ کریں جو جادوٹونا کرتے ہیں۔‏ پاک صحائف میں ہم پڑھتے ہیں کہ خدا کے خادموں کو جادوگری،‏ فال‌گیری اور علمِ‌نجوم میں دلچسپی تک نہیں لینی چاہئے۔‏ اگر ہمارا ایمان مضبوط ہے اور ہم دل‌وجان سے خدا کی خدمت کرتے ہیں تو کوئی بھی ہم پر جادو نہیں چلا سکے گا۔‏—‏گنتی ۲۳:‏۲۳؛‏ استثنا ۱۸:‏۱۰-‏۱۲؛‏ یسعیاہ ۴۷:‏۱۲-‏۱۵؛‏ اعمال ۱۹:‏۱۸-‏۲۰‏۔‏

۲۰.‏ شیطان کس صورتحال میں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا؟‏

۲۰ خدا کے کلام پر عمل کرنے سے ہم ڈٹ کر ”‏ابلیس کا مقابلہ“‏ کر سکتے ہیں۔‏ شیطان اِس دُنیا کا خدا ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴‏)‏ اُسکی دُنیا میں غرور،‏ خودغرضی،‏ بداخلاقی،‏ ظلم اور لالچ عام ہیں۔‏ ہمیں خود میں ایسی خامیاں نہیں پیدا کرنی چاہئیں۔‏ جب شیطان نے یسوع کو آزمایا تو یسوع نے اُسکا مقابلہ کرنے کیلئے پاک صحائف کا سہارا لیا تھا۔‏ اس پر شیطان اُس سے بھاگ گیا۔‏ (‏متی ۴:‏۴،‏ ۷،‏ ۱۰،‏ ۱۱‏)‏ اگر ہم یہوواہ خدا کے تابع رہیں گے اور اُس سے مدد کی التجا کریں گے تو شیطان ہم سے بھی ”‏بھاگ جائے گا۔‏“‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۸‏)‏ ہمیں یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کا تحفظ حاصل ہے۔‏ اسلئے کوئی بھی،‏ یہاں تک کہ شیطان بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‏—‏زبور ۹۱:‏۹-‏۱۱‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 18 خدا کے ہتھیاروں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کیلئے ستمبر ۱۵،‏ ۲۰۰۴ کے مینارِنگہبانی صفحہ ۱۵-‏۲۰ کو دیکھیں۔‏

آپ کیا جواب دیں گے؟‏

‏• کیا ہمیں شیطان سے ڈرنے کی ضرورت ہے؟‏

‏• شیطان مسیحیوں کو کیوں اذیت پہنچاتا ہے؟‏

‏• ہمیں خدا سے کیوں دُعا مانگنی چاہئے کہ ”‏ہمیں ’‏شریر‘‏ سے بچا“‏؟‏

‏• شیطان کا مقابلہ کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

پہلے صدی کے مسیحی اذیت کے باوجود مرتے دم تک خدا کے وفادار رہے

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

جب خدا مُردوں کو جی اُٹھائے گا تو شیطان اُسے ایسا کرنے سے نہیں روک پائے گا

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

کیا آپ دُعا کرتے ہیں کہ خدا آپکو ”‏شریر“‏ سے بچائے رکھے؟‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

کیا آپ نے ”‏خدا کے سب ہتھیار“‏ باندھ رکھے ہیں؟‏