مَیں عمربھر اپنے خالق کی حمد کروں گی
میری کہانی میری زبانی
مَیں عمربھر اپنے خالق کی حمد کروں گی
از کونسٹنس بنانتی
ہماری بیٹی دو سال کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ اُسے سخت بخار ہو گیا۔ چھ دنوں کے اندر اندر وہ فوت ہو گئی۔ مجھے بےحد صدمہ ہوا۔ مَیں زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی۔ آخر خدا نے ایسا کیوں ہونے دیا تھا؟ مَیں ایک عجیب سی اُلجھن میں گرفتار تھی۔
میری پیدائش شہر نیو یارک میں، ۸ دسمبر ۱۹۰۸ میں ہوئی تھی۔ میرے والدین ملک اٹلی سے نیو یارک منتقل ہو گئے تھے۔ ہم آٹھ بہنبھائی تھے، پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں۔
ہمارے گھر کے نزدیک یہوواہ کے گواہ عبادت کیلئے جمع ہوا کرتے تھے۔ سن ۱۹۲۷ میں میرے والد نے بھی ان اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد میرے والد نے تبلیغی کام میں حصہ لینا شروع کر دیا اور پھر یہ کام کُلوقتی طور پر انجام دینے لگے۔ انہوں نے یہ کام سن ۱۹۵۳ میں اپنی وفات تک جاری رکھا۔
جب میری والدہ نوجوان تھیں تو وہ ایک راہبہ بننے کی خواہش رکھتی تھیں لیکن اُنکے والدین نے اُنہیں ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔ جب میرے والد نے یہوواہ کے گواہوں کیساتھ خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا شروع کِیا تو مَیں نے ماں کے کہنے میں آ کر اُنکا ساتھ نہیں دیا۔ لیکن مَیں نے غور کِیا کہ میرے والد زیادہ نرممزاج ہو گئے تھے اور گھر کا ماحول بھی زیادہ پرسکون تھا۔ مجھے یہ سب بہت اچھا لگا۔
اس دوران میری ملاقات چارلس سے ہوئی۔ چارلس کا خاندان بھی اٹلی سے تعلق رکھتا تھا۔ کچھ دیر بعد ہماری منگنی ہو گئی۔ پھر
جب میرے والد سن ۱۹۳۱ میں اوہایو میں یہوواہ کے گواہوں کے یادگار کنونشن سے واپس لوٹے تو ہماری شادی ہو گئی۔ ایک سال کے اندر اندر ہماری بیٹی کامیل پیدا ہوئی۔ اُسکے اچانک فوت ہونے پر میرا دل غم سے بھاری رہنے لگا۔ ایک دن چارلس میرے پاس آئے، اُنکی آنکھیں نم تھیں اور وہ مجھ سے کہنے لگے: ”کامیل میری بھی بیٹی تھی، کیا مجھے اُسکے فوت ہونے کا دُکھ نہیں ہے؟ لیکن ہمیں اپنے زندگی کو بھی جاری رکھنا ہے۔ ایک دوسرے کا دُکھ بانٹ کر ہم آنے والے وقت کا سامنا کر سکتے ہیں۔“دل کو چُھو لینے والی سچائی
چارلس نے مجھے اُس تقریر کی بھی یاد دلائی جو میرے والد نے کامیل کے جنازے پر دی تھی۔ اُس تقریر میں میرے والد نے مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے میں بتایا تھا۔ مَیں نے چارلس سے پوچھا: ”کیا آپ ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں؟“
وہ بولے ”ہاں رکھتا ہوں، کیوں نہ ہم پتا لگائیں کہ خدا کے کلام میں اِس موضوع پر اَور کیا کچھ لکھا ہے؟“
اُس رات مجھے نیند نہیں آئی۔ اگلی صبح چھ بجے مَیں اپنے والد کے پاس گئی اور اُنہیں بتایا کہ مَیں اور چارلس خدا کے کلام کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے خوش ہو کر مجھے گلے لگا لیا۔ میری والدہ جو ابھی اپنے کمرے میں تھیں، انہوں نے ہماری باتیں سُن لیں۔ وہ کمرے سے باہر آکر مجھ سے پوچھنے لگیں کہ ”کیا ہو رہا ہے؟“ مَیں نے جواب دیا: ”کچھ نہیں، بس مَیں اور چارلس نے فیصلہ کِیا ہے کہ ہم بائبل کا مطالعہ کریں گے۔“
میری والدہ نے کہا: ”میرے خیال میں ہم سب کو ایسا کرنا چاہئے۔“ میرے بہنبھائیوں سمیت ہم گیارہ افراد تھے جنہوں نے خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔
خدا کے کلام کی سچائیاں سیکھ کر مجھے بہت تسلی ملی۔ اب اُلجھن اور غم کی بجائے میرے من میں سکون تھا۔ ایک سال بعد سن ۱۹۳۵ میں، مَیں اور چارلس تبلیغی کام میں حصہ لینے لگے۔ اور فروری سن ۱۹۳۷ میں ہم دونوں نے بپتسمہ لے لیا۔ مَیں نے صرف اپنی بیٹی کو دوبارہ دیکھنے کی اُمید میں بپتسمہ نہیں لیا تھا بلکہ مَیں اپنے خالق سے محبت کرنے لگی تھی اور اُسکی خدمت کرنا چاہتی تھی۔
کُلوقتی خدمت کا آغاز
دوسروں کو خدا کے کلام کی سچائیاں سکھانے سے ہمیں بہت خوشی ملی کیونکہ بہتیرے لوگوں نے سچائی کو قبول کرکے تبلیغی کام میں ہمارا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ (متی ۹:۳۷) سن ۱۹۴۱ میں ہم دونوں نے کُلوقتی طور پر تبلیغ کرنا شروع کر دی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد چارلس نے خاندان کے کاروبار کی ذمہداری میرے بھائی فرینک کے سپرد کر دی۔ اِسطرح ہم منادی میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرنے کے قابل ہو گئے۔ پھر ہمیں ایک خط موصول ہوا جس میں ہمیں اطلاع دی گئی کہ ہمیں سپیشل پائنیروں کے طور پر مقرر کِیا گیا ہے۔ یہ ہمارے لئے بڑی خوشی کا موقع تھا۔ ہمیں پہلے نیو جرسی بھیجا گیا اور پھر بعد میں ہم نیو یارک کی ریاست میں منتقل ہو گئے۔
سن ۱۹۴۶ میں جب ہم یہوواہ کے گواہوں کے ایک کنونشن پر حاضر ہوئے تو ہمیں ایک خاص میٹنگ پر بلایا گیا۔ اُس میٹنگ پر ہماری ملاقات بھائی ناتھن نار اور بھائی ملٹن ہینشل سے ہوئی۔ اُنہوں نے ہمیں مشنری خدمت کے بارے میں بتایا، خاص کرکے ملک اٹلی میں۔ پھر اُنہوں نے کہا کہ ہم آپکو واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ جانے کی دعوت دے رہے ہیں۔
اُن بھائیوں نے آگے کہا: ”سوچ لیں اور پھر ہمیں اپنا جواب بتا دیں۔“ میٹنگ کے بعد مَیں اور چارلس دفتر سے نکلے ہی تھے کہ ہم نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ پھر ہم سیدھے دفتر میں واپس چلے گئے۔ ہم نے کہا: ”ہم نے سوچ لیا ہے، ہم گلئیڈ جانے کو تیار ہیں۔“ دس دن بعد ہم گلئیڈ کی ساتویں کلاس پر حاضر ہوئے۔
اس سکول میں ہم نے جو کچھ سیکھا وہ مَیں کبھی نہیں بھولوں گی۔ مَیں اس بات سے بہت متاثر ہوئی کہ اُستاد ہمیں بڑے پیار اور صبر سے سکھا رہے تھے۔ ہمیں یہ سکھایا گیا کہ ایک غیرملک میں ہمیں کن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے اور ہم اُن سے کیسے نپٹ سکتے ہیں۔ جب ہم جولائی، ۱۹۴۶ میں گلئیڈ سکول سے فارغ ہو گئے تو پہلے ہمیں نیو یارک شہر بھیجا گیا۔ وہاں کافی سارے اطالوی لوگ رہتے تھے اور ہم نے اُن میں تبلیغ کی۔ پھر وہ دن آخر آ ہی گیا۔ پچّیس جون، ۱۹۴۷ میں ہم اٹلی روانہ ہوئے۔
نیا ملک، نیا ماحول
ہم ایک ایسے سمندری جہاز میں روانہ ہوئے جو پہلے فوج کے استعمال میں رہا تھا۔ چودہ دن بعد ہم اٹلی کے شہر جینوا پہنچے۔ دوسری عالمی جنگ کو ختم ہوئے صرف دو سال ہی ہوئے تھے۔ اسلئے اس شہر میں ابھی بھی تباہی مچی ہوئی تھی۔ مثال کے طور پر جنگ کے دوران بم دھماکوں کی وجہ سے ریلوے سٹیشن کی عمارت کی کھڑکیوں میں شیشہ نہیں تھا۔ شہر جینوا سے ہم ایک مال گاڑی میں سفر کرتے ہوئے شہر میلان پہنچے۔ میلان میں یہوواہ کے گواہوں کا برانچ دفتر تھا اور اسی شہر میں مشنریوں کی رِہائشگاہ بھی تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد اٹلی کے حالات بہت کٹھن تھے۔ شہروں کی مرمت کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی لیکن غربت اس حد تک پھیلی ہوئی تھی کہ ایسا کرنا بہت مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد مَیں سخت بیمار ہو گئی۔ ایک ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ آپکا دل بہت کمزور ہو گیا ہے، آپکو واپس امریکہ جانا چاہئے۔ خوشی کی بات ہے کہ مَیں اتنی بیمار نہیں تھی جتنا کہ ڈاکٹر سمجھ رہے تھے کیونکہ اس واقعے کے ۵۸ سال بعد بھی مَیں اٹلی میں خدمت کر رہی ہوں۔
ہمیں اٹلی میں کچھ سال ہو گئے تھے کہ میرے بھائیوں نے ہمارے لئے ایک گاڑی خریدنا چاہی۔ لیکن چارلس نے ان سے درخواست کی کہ وہ ایسا نہ کریں کیونکہ جہاں تک ہم جانتے تھے اُس وقت اٹلی میں بھائیوں میں سے کسی کے پاس گاڑی نہیں تھی۔ ہمارے بہنبھائی غریب تھے اور ہم اُنکو اس بات کا احساس نہیں دلانا چاہتے تھے۔ آخرکار سن ۱۹۶۱ میں ہم نے ایک چھوٹی سے گاڑی لے لی۔
میلان میں ہمارا پہلا کنگڈم ہال ایک تہہخانے میں واقع تھا۔ وہاں تو بیتالخلا تک نہیں تھا اور جب بارش ہوتی تو ہمارے پیروں تلے ندیا بہنے لگتی۔ اجلاسوں کے دوران چھوٹے چھوٹے چوہے کمرے میں بھاگ دوڑ لگاتے۔ کنگڈم ہال میں صرف دو ہی بلب تھے جنکے ذریعے کمرہ روشن ہوتا۔ ان حالات کے باوجود خدا کے کلام میں دلچسپی رکھنے والے لوگ ہمارے اجلاسوں پر حاضر ہوتے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ہمارے ساتھ تبلیغی کام میں بھی حصہ لینے لگتے۔
اٹلی میں خدمت
ایک مرتبہ ہم نے ایک آدمی کیساتھ گفتگو کرنے کے بعد اُسے ایک کتابچہ دیا۔ ہم وہاں سے جا ہی رہے تھے جب اُسکی بیوی سنتینا، ہاتھوں میں سودا لئے گھر واپس آئی۔ وہ جھنجھلا کر ہم سے کہنے لگی کہ ”میری آٹھ بیٹیاں ہیں جنکی مجھے دیکھبھال کرنی ہوتی ہے۔ فضول باتوں کیلئے میرے پاس وقت نہیں۔“ جب مَیں سنتینا سے دوبارہ ملاقات کرنے کیلئے گئی تو اُسکا شوہر گھر پر نہیں تھا اور وہ خود سویٹر بُن رہی تھی۔ اُس نے کہا: ”میرے پاس وقت نہیں ہے اور ویسے بھی مجھے پڑھنا نہیں آتا۔“
دل میں یہوواہ سے دُعا کرنے کے بعد مَیں نے سنتینا سے پوچھا: ”کیا آپ میرے شوہر کیلئے ایک سویٹر بُن سکتی ہیں؟ اس کام کیلئے مَیں آپکو پیسے دوں گی۔“ دو ہفتے بعد سویٹر تیار تھا اور سنتینا نے بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ سنتینا نے پڑھنا سیکھ لیا اور اپنے شوہر کی مخالفت کے باوجود اُس نے ترقی کرکے بپتسمہ لے لیا۔ سنتینا کی پانچ بیٹیاں بھی یہوواہ کی گواہ بن گئیں۔ سنتینا نے بہت سے لوگوں کو خدا کے کلام کی سچائیاں سیکھنے میں مدد دی۔
سن ۱۹۵۱ میں ہمارے سمیت دو اَور مشنریوں کو شہر برسکیا بھیجا گیا۔ اُس شہر میں کوئی یہوواہ کے گواہ نہیں تھے۔ رہنے کیلئے ہمیں ایک ایسا اپارٹمنٹ ملا تھا جس میں پہلے سے ہی ضروریات کا سازوسامان تھا۔ لیکن صرف دو مہینے بعد مالک مکان نے ہمیں اپارٹمنٹ خالی کرنے کو کہا اور وہ بھی چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر۔ چونکہ اُس شہر میں اَور کوئی یہوواہ کا گواہ نہ تھا اسلئے ہمیں تقریباً دو مہینوں تک ایک ہوٹل میں رہنا پڑا۔
کھانےپینے کیلئے ہمارے پاس زیادہ نہیں تھا۔ ناشتہ کرتے وقت ہم کافی پیتے اور ڈبلروٹی کھاتے۔ دوپہر کے کھانے کیلئے ہم پھل، پنیر اور سُوکھی روٹی کھاتے اور شام کے وقت بھی ہم پھل، پنیر اور سوکھی روٹی پر ہی گزارا کرتے۔ اسکے باوجود ہم خوش تھے کیونکہ یہوواہ خدا ہمیں برکتوں سے نواز رہا تھا۔ مثال کے طور پر ہمیں ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ مل گیا۔ اسکے علاوہ سن ۱۹۵۲ میں یسوع مسیح کی موت کی یادگار منانے کیلئے ہمارے ساتھ ۳۵ لوگ جمع ہوئے۔
دھمکیاں
اُس زمانے میں پادری طبقے نے لوگوں کو اپنی مٹھی میں جکڑ کر رکھا تھا۔ مثال کے طور پر جب ہم برسکیا میں تبلیغ کر رہے تھے تو پادری کچھ لڑکوں کو ہم پر پتھر برسانے پر اُکسا رہے تھے۔ لیکن ہم نے ہمت نہ ہاری اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ۱۶ لوگوں نے خدا کی خدمت کرنا شروع کر دی۔ اِن ۱۶ لوگوں میں ایک ایسا لڑکا بھی شامل تھا جو پہلے ہم پر پتھر برسانا چاہتا تھا۔ اب وہ برسکیا کی ایک کلیسیا میں بزرگ کے طور پر خدمت کر رہا ہے۔ سن ۱۹۵۵ میں جب ہم برسکیا کو چھوڑ کر جا رہے تھے تو وہاں ۴۰ افراد تبلیغ میں حصہ لے رہے تھے۔
اسکے بعد ہم شہر لیوورنو کو منتقل ہو گئے جہاں ہم نے اپنی خدمت جاری رکھی۔ یہاں کی کلیسیا میں کم ہی بھائی تھے۔ اِسکا مطلب تھا کہ کلیسیا میں بہنوں کو ایسی ذمہداریاں سونپی جاتیں جو عام طور پر بھائیوں کو دی جاتی ہیں۔ ہم یہاں تین سال رہے اور پھر شہر جینوا چلے گئے جہاں ۱۱ سال پہلے ہم سمندری جہاز سے اُترے تھے۔ اب وہاں ایک کنگڈم ہال تھا اور اُسی عمارت میں ایک اپارٹمنٹ تھا جس میں ہم رہتے تھے۔
جینوا پہنچتے ہی مَیں نے ایک عورت کیساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ اُسکا شوہر ایک مکاباز رہ چکا تھا اور اُس وقت وہ مکابازوں کے ایک جمخانے کا مینیجر تھا۔ عورت نے ترقی کی اور وہ یہوواہ کی ایک گواہ بن گئی۔ لیکن اُسکا شوہر بہت عرصہ تک اُسکی مخالفت کرتا رہا۔ پھر وہ اپنی بیوی کیساتھ کنگڈم ہال آنے لگا۔ اندر آنے کی بجائے وہ باہر ہی بیٹھ کر سنتا۔ بعد میں جب ہم جینوا سے جا چکے تھے، ہمیں پتا چلا کہ اس بہن کے شوہر نے خود ہی خدا کے کلام سے مزید سیکھنے کی درخواست کی تھی۔ آخرکار اُس نے بپتسمہ لے لیا اور اپنی وفات تک وہ کلیسیا کے ایک بزرگ کے طور پر خدمت انجام دیتا رہا۔
مَیں نے ایک ایسی عورت سے بھی خدا کے کلام کا مطالعہ کِیا جسکا منگیتر ایک پولیس افسر تھا۔ پہلے تو پولیس افسر نے بھی خدا کے کلام سے سیکھنے میں دلچسپی لی لیکن شادی کے بعد اُسکا رویہ بدل گیا۔ اُس نے اپنی بیوی کی سخت مخالفت کی جسکی وجہ سے اُس نے بائبل کا مطالعہ کرنا بند کر دیا۔ بعد میں
جب بیوی نے پھر سے خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا تو اُسکے شوہر نے دھمکی دی کہ اگر اُس نے ہمیں مطالعہ کرتے ہوئے دیکھ لیا تو وہ ہمیں گولی سے اُڑا دے گا۔ اسکے باوجود اُسکی بیوی نے خوب ترقی کی اور آخرکار اُس نے بپتسمہ لے لیا۔ کئی سال بعد جب مَیں جینوا میں ایک اسمبلی پر حاضر ہوئی تو کسی نے پیچھے سے آ کر میری آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے۔ پھر اُس شخص نے پوچھا: ”آپ بتائیں کہ مَیں کون ہوں؟“ جب اُس نے میری آنکھوں سے ہاتھ ہٹائے تو مَیں نے دیکھا کہ یہ تو وہی پولیس افسر ہے۔ مجھے گلے لگا کر اُس نے بتایا کہ ”مَیں نے آج ہی بپتسمہ لیا ہے۔“ یہ سُن کر میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہنے لگے۔سن ۱۹۶۴ سے لے کر سن ۱۹۷۲ تک چارلس مختلف کلیسیاؤں کی حوصلہافزائی کرنے کیلئے اُنکا دورہ کرتے اور مَیں اُنکے ساتھ جاتی۔ ہم نے شمالی اٹلی کے تقریباً ہر علاقے کا دورہ کِیا۔ پھر ہم نے شہر فلورنس کے نزدیک ایک علاقے میں اور بعد میں شہر ورچیلی میں پائنیر کے طور پر خدمت کی۔ وہاں سن ۱۹۷۷ میں صرف ایک ہی کلیسیا تھی لیکن سن ۱۹۹۹ میں جب ہم اُس شہر کو چھوڑ کر جا رہے تھے تو وہاں ۳ کلیسیائیں تھیں۔ اُسی سال مَیں ۹۱ سال کی ہوئی اور ہم روم کے مشنری گھر میں منتقل ہو گئے۔ یہ چھوٹی سی عمارت بہت خوبصورت اور پُرسکون ہے۔
دُکھ بھرے لمحات
چارلس کی صحت ہمیشہ بہت اچھی رہی تھی لیکن مارچ، سن ۲۰۰۲ میں وہ اچانک بیمار ہو گئے۔ اُنکی صحت بہت خراب ہو گئی اور مئی میں وہ وفات پا گئے۔ ہم نے ۷۱ سال اکٹھے گزارے تھے جنکے دوران ہم خوشی اور غم کے ساتھی رہے تھے۔ اُنکی موت میرے لئے سخت صدمے کا باعث تھی۔
چارلس کی تصویر اکثر میرے ذہن میں آتی ہے۔ کبھی مَیں اُنکو اُنکے پسندیدہ سوٹ اور ٹوپی پہنے یاد کرتی ہوں یا پھر اُنکے مسکرانے اور ہنسنے کا انداز مجھے یاد آتا ہے۔ یہوواہ خدا کی مدد اور بہنبھائیوں کے پیار نے مجھے اس دُکھ بھرے وقت میں سنبھالے رکھا ہے۔ مَیں اُس وقت کا بےچینی سے انتظار کر رہی ہوں جب مَیں چارلس کو پھر سے دیکھوں گی۔
خدمت کو جاری رکھنا
میری زندگی کی سب سے شاندار بات یہ ہے کہ مجھے اپنے خالق کی خدمت کرنے کا شرف ملا۔ اتنے سالوں کے دوران مَیں نے ’آزما کر دیکھا کہ یہوواہ کیسا مہربان ہے۔‘ (زبور ۳۴:۸) مَیں نے اپنی زندگی میں یہوواہ کی محبت محسوس کی ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ مَیں نے اپنی بیٹی کھو دی تھی لیکن یہوواہ نے مجھے ایسے روحانی بیٹے بیٹیوں سے نوازا ہے جو اٹلی کے بہتیرے علاقوں میں اُسکی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ میرے ان روحانی بیٹوں اور بیٹیوں نے نہ صرف میرے دل کو خوش کِیا ہے بلکہ یہوواہ خدا کے دل کو بھی شاد کِیا ہے۔
دوسروں کو اپنے خالق کے بارے میں سکھانے کا کام مجھے بہت عزیز ہے۔ اب میری صحت اتنی اچھی نہیں رہتی اور مجھے افسوس ہے کہ مَیں خدا کی خدمت میں اُتنا نہیں کر سکتی جتنا کہ مَیں کرنا چاہتی ہوں۔ لیکن مَیں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہوواہ خدا کو معلوم ہے کہ مَیں اُسکی خدمت میں کیا کر سکتی ہوں اور وہ میری ان کوششوں کی قدر کرتا ہے۔ (مرقس ۱۲:۴۲) مَیں چاہتی ہوں کہ زبور ۱۴۶:۲ کے یہ الفاظ مجھ پر بھی لاگو ہوں: ”مَیں عمربھر [یہوواہ] کی حمد کروں گا۔ جب تک میرا وجود ہے مَیں اپنے خدا کی مدحسرائی کروں گا۔“ *
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 41 اِس مضمون کے تیار ہونے کے دوران، بہن بنانتی جولائی ۱۶، ۲۰۰۵ میں وفات پا گئیں۔ اُس وقت وہ ۹۶ سال کی تھیں۔
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
کامیل
[صفحہ ۱۴ پر تصویر]
سن ۱۹۳۱ میں ہماری شادی پر
[صفحہ ۱۴ پر تصویر]
ماں نے پہلے بائبل میں دلچسپی نہیں لی، بعد میں اُنہوں نے کہا کہ ہم سب کو اسکا مطالعہ کرنا چاہئے
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
سن ۱۹۴۶ میں گلئیڈ گریجویشن کے دن پر بھائی نار کیساتھ
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
چارلس کیساتھ