”تُم اِسطرح دُعا کِیا کرو“
”تُم اِسطرح دُعا کِیا کرو“
کیا آپ اُس دُعا سے واقف ہیں جو یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو سکھائی تھی۔ اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں یسوع نے کہا: ”پس تُم اِسطرح دُعا کِیا کرو۔“ (متی ۶:۹) چونکہ یہ دُعا یسوع نے متعارف کرائی تھی اسلئے اسے یسوع کی اپنے شاگردوں کو سکھائی جانے والی دُعا یعنی دُعائےخداوندی کہا جاتا ہے، اسکے علاوہ یہ ”اَے ہمارے باپ“ کی دُعا کے طور پر بھی مشہور ہے۔—لاطینی، پیٹرناسٹر۔
دُنیابھر میں لاکھوں لوگوں کو یہ دُعا زبانی یاد ہے اور وہ دن میں کئی مرتبہ اسے دہراتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، بہتیرے اس دُعا کو سکولوں اور عوامی تقریبات میں پڑھتے ہیں۔ اس دُعا کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں دی جاتی ہے؟
تیسری صدی کے مذہبی عالم سپرئین نے لکھا: ”جو دُعا ہمیں مسیح نے سکھائی اس سے زیادہ روحانی دُعا اَور کونسی ہو سکتی ہے؟ . . . باپ سے کی جانے والی اس دُعا سے بڑھ کر اَور کونسی دُعا صداقت پر مبنی ہو سکتی ہے جو اُسکے بیٹے نے جوکہ خود حق ہے مانگی تھی؟“—یوحنا ۱۴:۶۔
اپنی دُعاؤں کی کتاب میں رومن کیتھولک چرچ ’اَے ہمارے باپ‘ کی دُعا کو ”بنیادی مسیحی دُعا“ قرار دیتا ہے۔ دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا تسلیم کرتا ہے کہ اس دُعا کو دُنیائےمسیحیت کے تمام فرقوں میں اہم مقام حاصل ہے اور یہ اسے ”مسیحی ایمان کا بنیادی اقرار“ کہتے ہیں۔
تاہم، اس بات کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ دُعائےخداوندی مانگنے والے اوٹاوا سٹیزن بیان کرتا ہے: ”آپکا تعلق خواہ کسی بھی مسیحی فرقے سے کیوں نہ ہو آپ اس دُعا کو بغیر رُکے فرفر سنا سکتے ہیں۔ لیکن شاید اسے آہستہ آہستہ اور سمجھ کیساتھ سنانا آپ کیلئے مشکل ہو۔“
بیشتر لوگ اسے پوری طرح نہیں سمجھتے۔ کینیڈا کا اخبارکیا یہ ضروری ہے کہ ہم خدا سے جو بھی دُعا کریں اُسکا مطلب اچھی طرح سمجھیں؟ یسوع نے اپنے شاگردوں کو دُعا کرنا کیوں سکھایا تھا؟ یسوع کی یہ دُعا آپ کیلئے کیا مطلب رکھتی ہے؟ آئیے ان سوالات کے جواب پر غور کریں۔