خداپرستانہ قناعتپسندی نے مجھے سنبھالے رکھا
میری کہانی میری زبانی
خداپرستانہ قناعتپسندی نے مجھے سنبھالے رکھا
از بینجیمن اِکیچوکو اسُویکے
اپنی مسیحی خدمتگزاری شروع کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد مَیں اپنے والدین سے ملنے گیا۔ مجھے دیکھتے ہی میرے والد نے میرا گریبان پکڑ لیا اور ”چورچور“ کا شور مچا دیا۔ پھر اُس نے ایک چھوٹی سی تلوار کے چپٹے حصے سے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ اِس شوروغُل کو سُن کر گاؤں کے دوسرے لوگ ہمارے گھر جمع ہو گئے۔ میرے والد نے مجھے چور کیوں کہا؟ مَیں نے کیا چُرایا تھا؟ ٹھہریں مَیں آپکو بتاتا ہوں۔
مَیں ۱۹۳۰ میں نائیجیریا کے جنوبمشرقی علاقے کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ مَیں اپنے والدین کا پہلا بچہ تھا۔ میرے بعد اُنکے چھ اَور بچے پیدا ہوئے۔ لیکن میری بہنوں میں سے بڑی بہن ۱۳ سال کی عمر میں فوت ہو گئی تھی۔ میرے والدین اینگلیکن چرچ سے تعلق رکھتے تھے۔ میرا والد کسان تھا اور والدہ کا بھی چھوٹا سا کاروبار تھا۔ وہ کوئی ۳۰ کلومیٹر پیدل چل کر تیل خریدنے جاتی تھی۔ پھر اگلے روز صبحسویرے وہ ایک چھوٹے شہر کی طرف چل پڑتی جو ہمارے گاؤں سے ۴۰ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ اُدھر پہنچنے کے بعد وہ تیل بیچا کرتی تھی۔ اِس کاروبار سے زیادہ سے زیادہ منافع کوئی ۱۵ سینٹ [۴ روپے] ہی ہوتا۔ اِن پیسوں سے وہ ہمارے لئے کھانےپینے کا سامان خریدتی اور اُسی روز واپس گھر لوٹ آتی تھی۔ وہ کوئی ۱۵ سال تک ۱۹۵۰ میں اپنی وفات تک ایسا کرتی رہی۔
مَیں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں اینگلیکن چرچ کے ایک سکول سے حاصل کی لیکن مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے مجھے ایک ہوسٹل میں رہنا پڑا جو گاؤں سے تقریباً ۳۵ کلومیٹر دُور تھا۔ چونکہ میرے والدین کے پاس مجھے اَور زیادہ تعلیم دلوانے کیلئے پیسے نہیں تھے، اِسلئے مَیں نے نوکری تلاش کرنا شروع کر دی۔ سب سے پہلے مَیں نے مغربی نائیجیریا میں لاگوس میں ایک ریلوے گارڈ کے گھر میں اور پھر شمالی نائیجیریا کے ایک شہر کاڈونا میں ایک سرکاری ملازم کیلئے کام کِیا۔ اِسکے بعد مَیں نے نائیجیریا کے مغربی وسطی شہر
بینن میں ایک وکیل کیلئے کلرک کے طور پر کام کِیا اور بعدازاں لکڑی کے ایک کارخانے میں مزدوری کی۔ وہاں سے مَیں ۱۹۵۳ میں کیمرون چلا گیا جہاں مَیں اپنے ایک رشتہدار کیساتھ رہنے لگا۔ اُس نے میرے لئے رَبڑ کے باغات میں کام تلاش کِیا۔ اِس کام کیلئے مجھے مہینے میں ۹ ڈالر [۵۱۰ روپے] ملتے تھے۔ مَیں نے ہمیشہ معمولی ملازمت ہی کی تاہم مجھے جوکچھ بھی ملتا مَیں اُس سے مطمئن تھا کیونکہ میرا گزارا ہو رہا تھا۔ایک کنگال شخص نے مجھے روحانی دولت سے مالامال کر دیا
میرے ساتھ سلوانس اوکیمری نامی ایک یہوواہ کا گواہ کام کرتا تھا۔ جب ہم گھاس کاٹتے یا پودوں کو کھاد ڈال رہے ہوتے تھے تو سلوانس میرے ساتھ بائبل کے بارے میں بات کرنے کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھاتا۔ مَیں اُسکی بات تو سنتا تھا لیکن کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کرتا تھا۔ تاہم جب میرے رشتہدار کو پتہ چلا کہ مَیں یہوواہ کے گواہوں سے باتچیت کر رہا ہوں تو اُس نے یہ کہتے ہوئے مجھے آگاہ کِیا: ”بنیمین اوکمیری سے دُور ہی رہو تو اچھا ہے۔ وہ یہوواہ کو ماننے والا ہے اور نہایت غریب ہے۔ جو بھی اُس سے دوستی کریگا وہ اُسکی طرح کنگال ہو جائیگا۔“
مَیں جس کمپنی کے لئے مزدوری کر رہا تھا اُنکی سختی برداشت نہ کرتے ہوئے مَیں ۱۹۵۴ میں واپس گھر لوٹ آیا۔ اُس زمانے میں اینگلیکن چرچ کے اخلاقی معیار کافی بلند تھے۔ اسلئے مجھے بچپن ہی سے بداخلاقی سے نفرت تھی۔ لیکن جب مَیں نے باقاعدگی سے اینگلیکن چرچ جانے والے لوگوں کی حرکتوں کو دیکھا تو مجھے کوفت ہونے لگی۔ وہ بائبل کے اخلاقی معیاروں پر چلنے کا دعویٰ تو کرتے تھے لیکن اُنکا طرزِزندگی اسکی نفی کرتا تھا۔ (متی ۱۵:۸) اِس بات پر اکثر میری اپنے والد سے بحث ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے ہمارے رشتے میں تناؤ آ گیا تھا۔ آخرکار مَیں نے ایک رات گھر چھوڑ دیا۔
مَیں ایک چھوٹے سے شہر میں منتقل ہو گیا جہاں ایک ریلوے سٹیشن تھا۔ وہاں مَیں نے دوبارہ یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کِیا۔ پرسکلہ اِسیاوچا جسے مَیں اپنے گاؤں سے جانتا تھا اُس نے مجھے یہ دو کتابچے دئے: ”بادشاہی کی خوشخبری“ اور ”ہرمجدون کے بعد خدا کی نئی دُنیا“۔ * یہ سوچتے ہوئے کہ مَیں سچائی تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں مَیں نے اِن کتابچوں کو فوراً پڑھ لیا۔ اینگلیکن چرچ میں ہم بائبل کا مطالعہ کرنے کی بجائے انسانی تعلیمات اور رسومات پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ لیکن یہوواہ کے گواہوں کے اِن کتابچوں میں بائبل کے بیشمار حوالے درج تھے۔
اِس بات کو ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ مَیں نے بھائی اور بہن اِسیاوچا سے پوچھا کہ آپ کب اپنے چرچ جاتے ہیں؟ جب مَیں پہلی بار یہوواہ کے گواہوں کے ایک اجلاس پر حاضر ہوا تو مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ اُس ہفتے جس مینارِنگہبانی رسالے کا مطالعہ ہو رہا تھا اُسکا عنوان حزقیایل کی نبوّتی کتاب سے لیا گیا تھا اور ’جُوج کے ماجُوج‘ کے بارے میں تھا۔ (حزقیایل ۳۸:۱، ۲) اِس میں بہت سی ایسی اصطلاحیں تھیں جن سے مَیں واقف نہیں تھا۔ لیکن بہن بھائی اتنے پُرمحبت طریقے سے مجھے ملے کہ مَیں نے اگلے اتوار دوبارہ جانے کا ارادہ کر لیا۔ اگلے اتوار اجلاس کے دوران مَیں نے مُنادی کے بارے میں سنا۔ لہٰذا مَیں نے پرسکلہ سے پوچھا کہ آپ کب مُنادی کرنے کیلئے جاتے ہیں؟ اگلے اتوار مَیں اُنکے ساتھ مُنادی کرنے کیلئے گیا۔ میرے پاس کوئی بیگ اور بائبل لٹریچر تو نہیں تھا بس ہاتھ میں ایک چھوٹی سی بائبل تھی۔ پھر بھی مَیں ایک بادشاہتی مُناد بن گیا اور اُس مہینے کے آخر پر مَیں نے پہلی بار منادی کے کام میں صرف کئے گئے گھنٹوں کی رپورٹ دی!
میرے ساتھ کوئی بائبل مطالعہ تو نہیں کرتا تھا مگر جب بھی مَیں بھائی اور بہن اِسیاوچا کے گھر جاتا تو وہاں مَیں بائبل کے بارے میں جوکچھ سنتا اور جو مطبوعات حاصل کرتا اُس سے میری بہت حوصلہافزائی ہوتی۔ مَیں نے دسمبر ۱۱، ۱۹۵۴ میں آبا میں منعقد ہونے والے ایک ڈسٹرکٹ کنونشن پر بپتسمہ لے لیا۔ اُس وقت مَیں اپنے جس رشتہدار کے پاس ٹھہرا ہوا اور کام سیکھ رہا تھا اُس نے مجھے کھانا دینا اور کام سکھانا بند کر دیا اور میرے کسی کام کی کوئی اُجرت بھی نہ دی۔ لیکن مَیں اُس سے ناراض نہ تھا۔ مَیں تو خدا کیساتھ رشتہ
رکھنے کیلئے بہت شکرگزار تھا۔ یہ سب کچھ میرے لئے تسلی اور اطمینان کا باعث تھا۔ مقامی گواہوں نے میری بہت مدد کی۔ بھائی اور بہن اِسیاوچا نے مجھے کھانا دیا جبکہ دوسروں نے مجھے پیسے اُدھار دئے تاکہ مَیں کوئی چھوٹا سا کاروبار شروع کر سکوں۔ مَیں نے ۱۹۵۵ کے وسط میں ایک پُرانی سائیکل خرید لی اور مارچ ۱۹۵۶ میں کُلوقتی مُناد کے طور پر خدمت شروع کر دی۔ اسکے تھوڑے عرصے بعد ہی مَیں نے اپنے تمام قرض ادا کر دئے۔ کاروبار سے مجھے جو منافع ہو رہا تھا وہ بہت کم تھا۔ بہرحال مَیں اپنا گزارا کر سکتا تھا۔ جوکچھ یہوواہ میرے لئے مہیا کر رہا تھا وہی میرے لئے کافی تھا۔اپنے بہن بھائیوں کو ”چرانا“
جوں ہی مَیں نے ذاتی گھر لے لیا اور میرا کاروبار اچھا چلنے لگا تو میری پہلی خواہش اپنے بہن بھائیوں کو بائبل کی سچائیوں سے واقف کرانا تھی۔ میرا والد یہوواہ کے گواہوں کو پسند نہیں کرتا تھا اِسلئے اُنہیں میرا گواہ بننا بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔ مَیں ایسی صورتحال میں اپنے بہن بھائیوں کی بائبل سچائی سیکھنے میں کسطرح مدد کر سکتا تھا؟ مَیں نے والد صاحب سے اپنے چھوٹے بھائی ارنسٹ کا خرچہ اُٹھانے کی اجازت مانگی تو اُنہوں نے ارنسٹ کو میرے پاس رہنے کی اجازت دے دی۔ جلد ہی اُس نے سچائی کو اپنا لیا اور ۱۹۵۶ میں بپتسمہ لے لیا۔ اِس سے میرے والد کی مخالفت اَور بھی بڑھ گئی۔ اسکے باوجود، میری ایک شادیشُدہ بہن بھی اپنے شوہر سمیت سچائی میں آ گئی۔ پھر مَیں نے اپنے والد سے پوچھا کہ کیا میری دوسری بہن فلیشیا اپنی سکول کی چھٹیوں میں میرے گھر آ کر رہ سکتی ہے پہلے تو وہ نہ مانے لیکن آخرکار اُنہوں نے اجازت دے ہی دی۔ فلیشیا نے بھی جلد ہی یہوواہ کی گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔
سن ۱۹۵۹ میں جب مَیں اپنی تیسری بہن برنس کو لینے کیلئے گیا کہ وہ آکر ارنسٹ کیساتھ رہے تو اُس وقت میرے والد نے مجھ پر الزام لگایا کہ مَیں نے اُسکے بچوں کو چرا لیا ہے۔ میرے والد یہ بات نہ سمجھ سکے کہ میرے بہن بھائیوں نے خود یہوواہ کی خدمت کرنے فیصلہ کِیا تھا۔ والد صاحب نے قسم کھا لی کہ وہ برنس کو کبھی میرے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دیگا۔ لیکن یہوواہ کا ہاتھ چھوٹا نہیں تھا اگلے ہی سال برنس نے اپنی سکول کی چھٹیاں ارنسٹ کیساتھ میرے گھر میں گزاریں۔ اپنی بہنوں کی طرح برنس نے بھی سچائی سیکھی اور بپتسمہ لے لیا۔
’راز کو جاننا‘
مَیں نے ستمبر ۱۹۵۷ میں سپیشل پائنیر کے طور پر خدمت شروع کر دی جسکا مطلب تھا کہ مَیں ہر مہینے ۱۵۰ گھنٹے مُنادی میں صرف کرتا تھا۔ مَیں اپنے ساتھی سنڈے اِروگبیلاچی کیساتھ ایٹچے کے وسیع صوبے میں خدمت کر رہا تھا۔ وہاں جس سرکٹ اسمبلی پر ہم سب سے پہلی بار حاضر ہوئے اُس پر ہمارے گروپ کے ۱۳ افراد نے بپتسمہ لیا۔ ہم اِس بات سے بہت خوش ہیں کہ آج اِس علاقے میں ۲۰ کلیسیائیں ہیں!
سن ۱۹۵۸ میں میری ملاقات کرسٹیانا ازوایکے سے ہوئی۔ وہ شہر آبا کی مغربی کلیسیا میں کُلوقتی مُناد کے طور پر خدمت کر رہی تھی۔ وہ اِس خدمت میں بڑی گرمجوشی کیساتھ حصہ لے رہی تھی اور اُسکی یہی بات مجھے بہت اچھی لگی۔ اسلئے اُسی سال دسمبر کے مہینے میں ہم نے شادی کر لی۔ سن ۱۹۵۹ میں مجھے سفری نگہبان بنا دیا گیا اور مَیں بھائیوں کی حوصلہافزائی کرنے کیلئے کلیسیاؤں کا دورہ کرنے لگا۔ اُس وقت سے لے کر ۱۹۷۲ تک مَیں نے اپنی بیوی کیساتھ نائیجیریا کے مشرقی اور مغربی وسطی علاقے میں یہوواہ کے خادموں کی تقریباً تمام کلیسیاؤں کا دورہ کِیا ہے۔
اُس وقت کلیسیائیں کافی دُوردُور ہوتی تھیں اور ہماری سواری اکثر سائیکل ہی ہوتی تھی۔ جب ہم بڑے بڑے شہروں میں کلیسیاؤں کا دورہ کرتے تو بھائی ہمیں ٹیکسی میں بٹھا کر اگلی کلیسیا تک پہنچا دیتے تھے۔ اکثر ہمیں ایسے کمروں میں رہنا پڑتا جنکے فرش کچی مٹی کے بنے ہوتے تھے اور کوئی چھت بھی نہ ہوتی تھی۔ ہم تاڑ کی لکڑی کے پلنگوں پر سوتے تھے۔ کبھیکبھار اِن پلنگوں پر گھاسپھوس کے گدے بچھے ہوتے تھے اور کبھیکبھار پلنگ پر کچھ بھی نہیں بچھا ہوتا تھا اور ہم لکڑی کے پلنگ پر ہی رات گزارتے تھے۔ کھانے کی مقدار اور معیاری نہ ہونے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ ہم ماضی میں کم چیزوں کیساتھ گزارا کرنے کے عادی تھے۔ جوکچھ ہمیں کھانے کو دیا جاتا ہم خوشی سے کھاتے اور بھائی ہمارے اِس رویے کی بہت قدر کرتے تھے۔ اُن دنوں میں کئی شہروں میں بجلی نہیں تھی اِسلئے ہم ہمیشہ ایک لالٹین ساتھ رکھتے تھے۔ تاہم، مشکل حالات کے باوجود ہم نے کلیسیاؤں کیساتھ بہت خوشگوار وقت گزارا۔
اُس عرصے کے دوران ہم نے پولس رسول کی اِس نصیحت کی اہمیت کو سمجھا: ”پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اسی پر قناعت کریں۔“ (۱-تیمتھیس ۶:۸) مشکلات کا سامنا کرنے سے پولس نے ایک راز جان لیا جس نے اُسے ہر حال میں مطمئن رہنے میں مدد دی۔ وہ کیا تھا؟ پولس وضاحت کرتا ہے: ”مَیں پست ہونا بھی جانتا ہوں اور بڑھنا بھی جانتا ہوں۔ ہر ایک بات اور سب حالتوں میں مَیں نے سیر ہونا اور بھوکا رہنا اور بڑھنا گھٹنا سیکھا ہے۔“ ہم نے بھی یہی راز جان لیا تھا۔ پولس نے یہ بھی کہا کہ ”جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔“ (فلپیوں ۴:۱۲، ۱۳) ہمارے سلسلے میں بھی یہ بات سچ ثابت ہوئی! ہمیں اطمینان کیساتھ ساتھ مسیحی کاموں میں بھرپور حصہ لینے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ یہ تمام یہوواہ کی برکات تھیں!
بطور خاندان کلیسیاؤں کا دورہ کرنا
سن ۱۹۵۹ کے آخر میں ہمارا پہلا بیٹا جوئیل اور ۱۹۶۲ میں دوسرا بیٹا سموئیل پیدا ہوا۔ مَیں نے سفری نگہبان کے طور پر اپنی خدمت جاری رکھی اور کلیسیاؤں کا دورہ کرتے وقت کرسٹیانا اور ہمارے دونوں لڑکے بھی ہمارے ساتھ ہوتے تھے۔ پھر ۱۹۶۷ میں نائیجیریا میں خانہجنگی شروع ہو گئی۔ ہوائی جہازوں کی لگاتار بمباری کی وجہ سے سکول بند ہو گئے۔ میری بیوی کرسٹیانا شادی سے پہلے سکول میں پڑھاتی تھی اسلئے جنگ کے دوران اُس نے دونوں بچوں کو گھر میں ہی پڑھانا شروع کر دیا۔ سموئیل نے چھ سال کی عمر میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا۔ جب جنگ کے بعد وہ سکول جانے لگا تو وہ اپنے ہمعمر بچوں سے دو جماعتیں آگے تھا۔
اُس وقت ہمیں یہ احساس نہیں تھا کہ سفری نگہبان کی خدمات انجام دیتے ہوئے بچوں کی پرورش کرنا کتنا مشکل ہے۔ لیکن جب ہمیں ۱۹۷۲ میں سپیشل پائنیر کے طور پر مقرر کِیا گیا تو یہ ہمارے لئے بہت فائدہمند ثابت ہوا۔ اسطرح ہم ایک ہی جگہ رہ کر اپنے خاندان کی روحانی ترقی پر دھیان دے سکتے تھے۔ شروع ہی سے ہم نے اپنے بیٹوں کو ہر حالت میں مطمئن رہنے کی اہمیت سکھائی۔ سموئیل نے ۱۹۷۳ میں بپتسمہ لیا۔ اُسی سال ہمارے بڑے بیٹے جوئیل نے کُلوقتی مُناد کے طور پر اپنی خدمت کا آغاز کِیا۔ ہمارے دونوں بیٹوں نے مسیحی عورتوں سے شادی کی اور آج وہ اپنے اپنے خاندان کو سچائی کی راہ پر چلا رہے ہیں۔
خانہجنگی کے مایوسکُن اثرات
جب ملک میں خانہجنگی شروع ہوئی تو مَیں اپنے خاندان سمیت اونتشا کی ایک کلیسیا کا دورہ کر رہا تھا۔ اُس وقت ہم نے اِس حقیقت کو اور زیادہ جان لیا کہ مالودولت کو جمع کرنا اور اِس پر بھروسا کرنا کتنا فضول ہے۔ مَیں نے لوگوں کو جان بچانے کیلئے اپنی قیمتی چیزیں سڑکوں پر پھینکتے اور بھاگتے ہوئے دیکھا۔
جب جنگ کی شدت میں اضافہ ہوا تو سب مردوں کو فوج میں بھرتی ہونے پر مجبور کِیا جانے لگا۔ بہت سے بھائیوں کو انکار کرنے کی وجہ سے اذیت پہنچائی گئی۔ ہم آزادی سے گھوم پھر نہیں سکتے تھے۔ ملک میں غذا کی کمی کی وجہ سے سخت ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ جنگ کے دوران ایک پاؤنڈ کساوا کی قیمت سات سینٹ سے ۱۴ ڈالر [تقریباً ۵۰ پیسے سے ۸۰۰ روپے] تھی جوکہ نائیجیریا کے لوگوں کی بنیادی خوراک ہے۔ ایک پیالی نمک کی قیمت ۸ ڈالر سے ۴۲ ڈالر [تقریباً ۴۵۰ روپے سے ۴۰۰،۲ روپے] تک بڑھ گئی تھی۔ دودھ، مکھن اور چینی کا نامونشان تک نہیں تھا۔ زندہ رہنے کیلئے ہم کچا پپیتا پیس کر اُسے تھوڑے سے کساوا میں ملا کر کھاتے تھے۔ اسکے علاوہ ہم جھینگر، کساوا کے چھلکے، گھاس اور ہر قسم کے پتے بھی کھا لیتے تھے۔ گوشت بہت مہنگا ہو گیا تھا اسلئے مَیں اپنے بچوں کے کھانے کیلئے چھپکلیاں پکڑتا تھا۔ تاہم، اِن کٹھن حالات میں بھی یہوواہ نے ہمیشہ ہماری ضروریات کو پورا کِیا۔
جنگ کی وجہ سے روحانی خوراک کی کمی غذا کی کمی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی۔ زیادہتر بھائی خانہجنگی والے علاقوں سے جنگلات یا دوسرے
گاؤں میں بھاگ گئے اور بھاگتے وقت وہ اپنی زیادہتر بائبل مطبوعات پیچھے چھوڑ گئے۔ اسکے علاوہ حکومت کی فوجوں نے بیافرا کے علاقے پر ناکہبندی کر دی تھی جسکی وجہ سے بائبل مطبوعات وہاں تک نہیں پہنچائی جا سکتی تھیں۔ اُس علاقے کی زیادہتر کلیسیاؤں نے اجلاس منعقد کرنے کی کوشش کی لیکن برانچ دفتر کی طرف سے اُنہیں کوئی ہدایات موصول نہ ہونے کی وجہ سے بھائی روحانی طور پر کمزور پڑ گئے۔روحانی قحط سے نپٹنا
سفری نگہبانوں نے اس کٹھن وقت میں ہر کلیسیا کا دورہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ بہت سے بھائی شہر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اِسلئے میری یہ کوشش تھی کہ مَیں اُنکو تلاش کروں۔ ایک بار تو مَیں اپنے بیوی بچوں کو ایک محفوظ جگہ چھوڑ کر ۶ ہفتوں کیلئے پراگندہ ہوئے بھائیوں کی تلاش میں مختلف گاؤں اور جنگلوں کا دورہ کرتا رہا۔
ایک کلیسیا کا دورہ کرتے وقت مجھے پتہ چلا کہ پاس ہی ایک ضلع میں بہت سے بھائی چھپے ہوئے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ اِن بھائیوں کو اطلاع دی جائے کہ وہ قریب ہی ایک گاؤں کے کاجو کے باغ میں مجھ سے ملیں۔ مَیں ایک عمررسیدہ بھائی کیساتھ سائیکل پر کوئی ۱۵ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اِس باغ تک پہنچا جہاں تقریباً ۲۰۰ بہن بھائی اپنے بچوں سمیت ہمارے منتظر تھے۔ ایک اَور مرتبہ مَیں نے ایک پائنیر بہن کی مدد سے تقریباً ۱۰۰ بہنبھائیوں کو تلاش کر لیا جنہوں نے ایک جنگل میں پناہ لے رکھی تھی۔
لارنس اُگووُاےبُو ایک بہادر بھائی تھا۔ وہ شہر اوویری میں رہتا تھا جہاں جنگ کے دوران خوب لڑائی ہوئی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ پاس ہی ایک علاقے میں بہت سے بھائی چھپے ہوئے ہیں۔ لیکن اِس علاقے پر فوجیوں نے قبضہ کِیا ہوا تھا اور اِسلئے وہاں جانا خطرناک تھا۔ لارنس اور مَیں ایک رات گھپاندھیرے میں اپنی سائیکلوں پر اُس علاقے میں پہنچ گئے۔ وہاں ہم ایک بھائی کے گھر میں تقریباً ۱۲۰ بھائیوں سے ملے۔ اِسکے علاوہ ہم نے جابجا چھپے ہوئے بھائیوں سے ملاقات کی۔
ایک ایسا بھائی ایزک نواگووُ بھی تھا جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر بھائیوں کو تلاش کرنے میں میری مدد کی۔ وہ مجھے ایک چھوٹی سی کشتی میں دریا کے پار ایک ایسے علاقے میں لے گیا جہاں ہم ۱۵۰ گواہوں سے ملنے کے قابل ہوئے۔ مجھے دیکھ کر ایک بھائی نے کہا: ”یہ میری زندگی کا بہترین دن ہے۔ مَیں نے سوچا تھا کہ مَیں پھر کبھی کسی سفری نگہبان سے نہ مل سکوں گا۔ اب چاہے مجھے اِس جنگ میں مار بھی ڈالا جائے تو مَیں مطمئن ہوں۔“
مجھے بھی جبراً فوج میں بھرتی کئے جانے کا خطرہ لاحق تھا۔ لیکن یہوواہ نے باربار میری مدد کی۔ ایک دوپہر مَیں ۲۵۰ بھائیوں سے مل کر گھر واپس جا رہا تھا کہ راستے پر فوجیوں نے پہرہ بٹھایا ہوا تھا۔ اُنہوں نے مجھے روک لیا اور مجھ سے پوچھگچھ کرنے لگے۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا: ”تُم فوج میں بھرتی کیوں نہیں ہوئے؟“ مَیں نے جواب میں کہا: ”مَیں ایک مشنری ہوں۔ مَیں خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرتا ہوں۔“ مَیں جان گیا کہ وہ مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ اِسلئے مَیں نے دل ہی دل میں دُعا کی اور پھر اُنکے کپتان سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: ”مہربانی سے مجھے جانے دیجئے۔“ تعجب کی بات ہے کہ کپتان نے پوچھا: ”کیا تُم کہہ رہے ہو کہ ہم تمہیں جانے دیں؟“ مَیں نے کہا: ”جی، مجھے جانے دیجئے۔“ اُس نے کہا: ”تُم جا سکتے ہو۔“ اِس پر باقی تمام سپاہی بھی خاموش ہو گئے۔—زبور ۶۵:۱، ۲۔
قناعتپسندی مزید برکات لاتی ہے
سن ۱۹۷۰ میں ملک میں خانہجنگی ختم ہو جانے کے بعد بھی مَیں سفری نگہبان کے فرائض انجام دیتا رہا۔ کلیسیاؤں کو پھر سے منظم کرنے میں مدد دینا ایک شرف
تھا۔ اسکے بعد مَیں نے اور کرسٹیانا نے ۱۹۷۶ تک سپیشل پائنیر کے طور پر خدمت کی۔ اِس سال مجھے دوبارہ سے سفری نگہبان مقرر کِیا گیا۔ لیکن ابھی آدھا سال بھی نہیں گزرا تھا کہ مجھے ڈسٹرکٹ اوورسیئر بنا دیا گیا۔ پھر ۷ سال بعد مجھے اور میری بیوی کو نائیجیریا کے برانچ دفتر میں آ کر خدمت کرنے کی دعوت دی گئی اور ہم آج بھی یہیں ہیں۔ ہمیں ہمیشہ بہت خوشی ہوتی ہے جب ہم ایسے بھائیوں سے ملتے ہیں جن سے ہم خانہجنگی کے دوران اور دوسرے مواقع پر بھی ملے تھے اور جو آج تک وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔اِس تمام عرصے کے دوران کرسٹیانا نے وفاداری سے میرا ساتھ دیا ہے۔ وہ ۱۹۷۸ سے لگاتار بیمار ہے لیکن اِسکے باوجود بھی اُس نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ چاہتی ہے کہ مَیں اپنی خدمت کو جاری رکھ سکوں اور اِسی لئے مَیں آج بھی بیتایل میں یہوواہ کی خدمت کر سکتا ہوں۔ ہم دونوں نے زبورنویس کی اِس بات کی سچائی جان لی ہے: ”[یہوواہ] اُسے بیماری کے بستر پر سنبھالیگا۔“—زبور ۴۱:۳۔
جب مَیں اِس عرصے کے بارے میں سوچتا ہوں جسے مَیں نے یہوواہ کی خدمت کرنے میں گزارا ہے تو مَیں اُسکی تمام شاندار برکات کیلئے اُسکا بہت شکرگزار ہوں۔ مَیں یہوواہ کی فراہمیوں کیلئے شکرگزار اور مطمئن رہتا تھا۔ اِس وجہ سے مجھے زندگی میں بہت سی خوشیاں ملی ہیں۔ جس میں اپنے بہن بھائیوں، بچوں اور اُنکے خاندانوں کو یہوواہ خدا کی خدمت کرتے دیکھنے کی خوشی شامل ہے۔ یہوواہ نے مجھے ایک بامقصد زندگی عطا کی ہے جسے مَیں بھرپور طریقے سے گزار رہا ہوں۔ اُس نے میری ہر خواہش پوری کی ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 10 یہوواہ کے گواہوں کے شائعکردہ۔ لیکن اب دستیاب نہیں۔
[صفحہ ۲۷ پر بکس]
ایک بروقت انتظام نے برادری کو قائم رکھا
سن ۱۹۶۵ کے بعد نائیجیریا کے مختلف قبائل کے درمیان دشمنی کی وجہ سے ہنگاموں، دنگافساد، جُرم اور تشدد کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اِس وجہ سے یہوواہ کے گواہ بڑے دباؤ کا شکار ہو گئے کیونکہ وہ اس جھگڑے میں غیرجانبدار رہنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اُن میں سے ۲۰ کو قتل کِیا گیا اور زیادہتر کا سارا مالواسباب لوٹ لیا گیا۔
مئی ۳۰، ۱۹۶۷ میں نائیجیریا کے مغربی صوبوں نے اپنے آپ کو ملک سے جُدا کرکے اپنا الگ ملک بنا لیا جسکا نام ریپبلک آف بیافرا رکھا گیا۔ اِس کارروائی پر حکومت کی فوجوں نے نائیجیریا کے مغربی علاقوں پر سختی سے ناکہبندی کر دی۔ نتیجتاً خونین خانہجنگی شروع ہو گئی۔
بیافرا میں یہوواہ کے گواہوں کی غیرجانبداری نے اُنہیں اذیت کا نشانہ بنایا۔ اخباروں میں گواہوں کے خلاف مضامین شائع ہوتے رہے جنکی وجہ سے عوام اُن سے نفرت کرنے لگی۔ اِس صورتحال کے باوجود یہوواہ خدا نے اپنے خادموں کو روحانی خوراک فراہم کی۔ وہ کیسے؟
سن ۱۹۶۸ کے شروع ہی میں، نائیجیریا کے ایک سرکاری ملازم کا تبادلہ یورپ ہو گیا اور ایک دوسرے سرکاری ملازم کی پوسٹنگ بیافرا کے واحد ہوائی اڈے پر ہو گئی۔ یہ دونوں یہوواہ کے گواہ تھے۔ انکی تبدیلی بہت اہم تھی کیونکہ جنگ کے دوران بیافرا اور باقی دُنیا کے درمیان صرف اسی ہوائی اڈے کے ذریعے رابطہ ممکن تھا۔ ان دو گواہوں نے بیافرا کے بھائیوں کیلئے روحانی خوراک فراہم کرنے کا خطرناک کام اپنے ذمے لے لیا۔ اُنہوں نے ہمارے مصیبتزدہ بھائیوں کیلئے امدادی سامان پہنچانے میں بھی مدد کی۔ وہ اِسے جنگ کے اختتام تک یعنی ۱۹۷۰ تک جاری رکھ سکے۔ اِن بھائیوں میں سے ایک نے اِس انتظام کے بارے میں کہا: ”یہ ایک ایسا بندوبست تھا جو انسان کے اختیار میں نہیں تھا۔“
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
سن ۱۹۵۶ میں
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
سن ۱۹۶۵ میں، اپنے بیٹوں جوئیل اور سموئیل کیساتھ
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
آجکل کرسٹیانا اور مَیں نائیجیریا کے برانچ دفتر میں خدمت کرتے ہیں
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
خاندان کے طور پر یہوواہ کی خدمت کرنا کتنی بڑی نعمت ہے!