مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

فریب نہ کھائیں

فریب نہ کھائیں

فریب نہ کھائیں

‏”‏خبردار کوئی شخص تُم کو .‏ .‏ .‏ لاحاصل فریب سے شکار نہ کر لے۔‏“‏—‏کلسیوں ۲:‏۸‏۔‏

۱-‏۳.‏ (‏ا)‏ کونسی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ دھوکافریب روزمرّہ کے معمول میں سرایت کر گیا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں دُنیا میں پائی جانے والی مکاری سے کیوں حیران نہیں ہونا چاہئے؟‏

چند سال پہلے،‏ قانون کے ایک پروفیسر نے بہت سے وکیلوں سے پوچھا:‏ ”‏آپ میں سے کتنے ایسے وکیل ہیں جن سے کبھی کسی مؤکل نے جھوٹ نہیں بولا؟‏“‏ پروفیسر بیان کرتا ہے کہ ”‏ہزاروں وکلا میں سے صرف ایک نے کہا کہ کبھی کسی مؤکل نے اُس سے جھوٹ نہیں بولا۔‏“‏ وہ کیوں؟‏ ”‏اسلئےکہ اُس وکیل نے ابھی وکالت شروع ہی کی تھی اور کسی مؤکل سے اُسکی بات ہی نہیں ہوئی تھی۔‏“‏ اِس واقعہ سے ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے زمانے میں دھوکادہی اور جھوٹ بولنا بہت عام ہے۔‏

۲ آجکل زندگی کے ہر پہلو میں مکاری اور دھوکےبازی عام ہے۔‏ میڈیا ایسی خبروں سے بھرا ہوا ہے جس میں سیاستدان اپنی بُری حرکتوں کو چھپانے کیلئے،‏ تاجر اور وکیل اپنی کمپنیوں کے منافع کیلئے،‏ اشتہار بنانے والی کمپنیاں لوگوں کو جھوٹے سپنے دکھانے کیلئے اور اسکے علاوہ اکثر لوگ بیمہ کرانے والی کمپنیوں سے پیسے وصول کرنے کیلئے جھوٹ بولتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ مذہبی دھوکادہی بھی پائی جاتی ہے۔‏ پادری جان کی غیرفانیت،‏ دوزخ اور تثلیث جیسی جھوٹی تعلیمات دیتے ہیں۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۳،‏ ۴‏۔‏

۳ کیا ہمیں اِس صورتحال سے پریشان ہونا چاہئے؟‏ ہرگز نہیں۔‏ کیونکہ بائبل ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ ”‏اخیر زمانہ میں .‏ .‏ .‏ بُرے اور دھوکاباز آدمی فریب دیتے اور فریب کھاتے ہوئے بگڑتے چلے جائینگے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱،‏ ۱۳‏)‏ مسیحیوں کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دھوکا کھا کر سچی تعلیم سے پھر نہ جائیں۔‏ اِس سلسلے میں دو سوال بہت اہم ہیں:‏ آجکل دھوکافریب اتنا عام کیوں ہے نیز ہم فریب کھانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

آجکل اسقدر دھوکافریب کیوں؟‏

۴.‏ بائبل اِس بات کی وضاحت کیسے کرتی ہے کہ آجکل دھوکادہی اتنی عام کیوں ہے؟‏

۴ بائبل اِس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ دُنیا میں مکاری اتنی عام کیوں ہے۔‏ یوحنا رسول نے لکھا کہ ”‏ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ یہاں ”‏شریر“‏ سے مُراد شیطان اِبلیس ہے۔‏ اُسکے بارے میں یسوع نے کہا:‏ ”‏وہ شروع ہی سے .‏ .‏ .‏ سچائی پر قائم نہیں رہا کیونکہ اُس میں سچائی ہے نہیں۔‏ جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جھوٹا ہے بلکہ جھوٹ کا باپ ہے۔‏“‏ پس اگر یہ دُنیا اپنے سردار شیطان کے رُجحانات،‏ معیاروں اور پُرفریب روشوں کی پیروی کرتی ہے تو اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟‏—‏یوحنا ۸:‏۴۴؛‏ ۱۴:‏۳۰؛‏ افسیوں ۲:‏۱-‏۳‏۔‏

۵.‏ شیطان نے ہمیں گمراہ کرنے کی اپنی کوششوں کو کیسے زیادہ تیز کر دیا ہے اور خاص طور پر کون اُسکا نشانہ ہیں؟‏

۵ اِس آخری زمانے میں شیطان نے ہمیں گمراہ کرنے کی اپنی کوششوں کو اَور بھی تیز کر دیا ہے۔‏ اُسے زمین پر گِرا دیا گیا ہے۔‏ وہ جانتا ہے کہ اُسکا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے لہٰذا وہ ”‏بڑے قہر“‏ میں ہے۔‏ شیطان زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اِسلئے وہ ”‏سارے جہان کو گمراہ“‏ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹،‏ ۱۲‏)‏ شیطان صرف کبھی‌کبھار لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ وہ لگاتار اِسی کوشش میں رہتا ہے۔‏ * وہ بےایمانوں کی عقلوں کو اندھا کرنے اور اُنکو خدا سے دُور رکھنے کیلئے تمام پُرفریب طریقے استعمال کرتا ہے جس میں مکاری اور دغابازی بھی شامل ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴‏)‏ شیطان خاص طور پر اُن لوگوں کو پھاڑ کھانے کی کوشش کر رہا ہے جو ”‏روح اور سچائی“‏ سے خدا کی پرستش کر رہے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۴:‏۲۴؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ یہ کبھی مت بھولیں کہ شیطان نے دعویٰ کِیا ہے کہ ’‏مَیں ہر شخص کو گمراہ کر سکتا ہوں۔‏‘‏ (‏ایوب ۱:‏۹-‏۱۲‏)‏ آئیے شیطان کے چند دھوکا دینے کے ”‏منصوبوں“‏ پر غور کریں اور یہ کہ ہم کیسے ان سے بچ سکتے ہیں۔‏—‏افسیوں ۶:‏۱۱‏۔‏

برگشتہ اشخاص کے فریب سے بچیں

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ برگشتہ اشخاص کس بات کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ صحائف کیسے نمایاں کرتے ہیں کہ برگشتہ اشخاص واقعی کیا چاہتے ہیں؟‏

۶ عرصۂ‌دراز سے شیطان نے خدا کے خادموں کو ورغلانے کیلئے برگشتہ اشخاص کو استعمال کِیا ہے۔‏ (‏متی ۱۳:‏۳۶-‏۳۹‏)‏ ایسے برگشتہ اشخاص شاید یہوواہ خدا کی پرستش کرنے اور بائبل پر یقین رکھنے کا دعویٰ تو کریں لیکن وہ اُسکی دیدنی تنظیم کو نظرانداز کرتے ہیں۔‏ بعض برگشتہ اشخاص تو ’‏بڑے بابلؔ‘‏ یعنی جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت کی تعلیمات کو دوبارہ سے اَپنا لیتے ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۱۷:‏۵؛‏ ۲-‏پطرس ۲:‏۱۹-‏۲۲‏)‏ خدا کے الہام کے تحت بائبل لکھنے والوں نے برگشتہ اشخاص کے محرکات اور طریقۂ‌کار کو بےنقاب کرنے کیلئے بڑے سخت الفاظ استعمال کئے تھے۔‏

۷ برگشتہ اشخاص کا مقصد کیا ہے؟‏ ان میں سے بیشتر نہ صرف خود اُس ایمان کو ترک کرتے ہیں جسے وہ کبھی سچا سمجھتے تھے بلکہ وہ اکثر دوسروں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ اپنے لئے نئے شاگرد تلاش کرنے کی بجائے وہ یسوع کے ”‏شاگردوں کو اپنی طرف کھینچ“‏ لینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۹،‏ ۳۰‏)‏ ایسے جھوٹے اُستادوں کے بارے میں پولس رسول نے یہ آگاہی دی:‏ ”‏خبردار کوئی شخص تُم کو .‏ .‏ .‏ شکار نہ کر لے۔‏“‏ (‏کلسیوں ۲:‏۸‏)‏ کیا اس سے یہ پتا نہیں چلتا کہ برگشتہ اشخاص کیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟‏ ایک ایسے شخص کی طرح جو کسی خاندان کے فرد کو اغوا کر لیتا ہے برگشتہ اشخاص بھی کلیسیا کے ارکان کو گلّے میں سے اُٹھا لے جانا چاہتے ہیں۔‏

۸.‏ برگشتہ اشخاص اپنا مقصد پورا کرنے کیلئے کونسے طریقے آزماتے ہیں؟‏

۸ برگشتہ اشخاص اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے کونسے طریقے آزماتے ہیں؟‏ وہ اکثر انتشارِخیال پیدا کرتے،‏ آدھا سچ بولتے یا پھر صریحاً جھوٹ بولتے ہیں۔‏ یسوع کو معلوم تھا کہ ’‏ہر طرح کی بُری باتیں کہنے‘‏ والے لوگ اُسکے شاگردوں کو نشانہ بنائینگے۔‏ (‏متی ۵:‏۱۱‏)‏ ایسے بدطینت مخالفین دوسروں کو دھوکا دینے کیلئے جھوٹ بولینگے۔‏ پطرس رسول نے ایسے برگشتہ اشخاص کے بارے میں آگاہ کِیا جو ”‏باتیں بنا کر“‏ اور ”‏دغابازیوں“‏ کے ذریعے اپنے فائدے کیلئے ’‏صحیفوں کو بگاڑینگے۔‏‘‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۳،‏ ۱۳؛‏ ۳:‏۱۶‏؛‏ کیتھولک ورشن‏)‏ افسوس کی بات ہے کہ برگشتہ لوگ ’‏بعض کا ایمان بگاڑنے‘‏ میں کامیاب رہے ہیں۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۸‏۔‏

۹،‏ ۱۰.‏ (‏ا)‏ ہم برگشتہ اشخاص کے فریب سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگر خدا کے مقصد کی بابت ہماری سمجھ میں تبدیلی لائی جاتی ہے تو ہم کیوں پریشان نہیں ہوتے؟‏

۹ ہم برگشتہ اشخاص کے فریب سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ خدا کے کلام کی نصیحت پر عمل کرنے سے ہم ایسا کر سکتے ہیں جو بیان کرتا ہے کہ ”‏جو لوگ اُس تعلیم کے برخلاف جو تُم نے پائی پھوٹ پڑنے اور ٹھوکر کھانے کا باعث ہیں اُنکو تاڑ لیا کرو اور اُن سے کنارہ کِیا کرو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۶:‏۱۷‏)‏ ایسے لوگوں کیساتھ بات‌چیت کرنے،‏ اِنکی تحریریں پڑھنے اور انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ نہ رکھنے سے ہم اُن سے ”‏کنارہ“‏ کر سکتے ہیں۔‏ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟‏ ایک وجہ تو یہ ہے کہ خدا کے کلام میں ہمیں ایسا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے نیز ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ ہمیشہ ہماری بہتری چاہتا ہے۔‏—‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷،‏ ۱۸‏۔‏

۱۰ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اس تنظیم کی بہت قدر کرتے ہیں جسکے ذریعے ہم نے بائبل کی سچائیاں سیکھی ہیں اور جس نے ہمیں بڑے بابل سے نکلنے میں مدد دی ہے۔‏ اسکے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خدا کے مقصد کے بارے میں ہماری سمجھ مکمل نہیں ہے۔‏ گزشتہ سالوں کے دوران ہماری سمجھ میں کافی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔‏ لیکن وفادار مسیحی دلجمعی کیساتھ ایسی تمام تبدیلیوں کیلئے یہوواہ پر آس رکھتے ہیں۔‏ (‏امثال ۴:‏۱۸‏)‏ اس اثنا میں ہم اس تنظیم کو نہیں چھوڑینگے جسے خدا خوشی سے استعمال کر رہا ہے اور جس پر اُس کی برکت بالکل واضح نظر آتی ہے۔‏—‏اعمال ۶:‏۷؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۶‏۔‏

خودفریبی سے بچیں

۱۱.‏ ناکامل اشخاص اکثر خود کو دھوکا دینے کا میلان کیوں رکھتے ہیں؟‏

۱۱ ناکامل انسانوں کے اندر خودفریبی کا میلان پایا جاتا ہے جسے شیطان ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے۔‏ یرمیاہ ۱۷:‏۹ میں لکھا ہے کہ ”‏دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ‌باز اور لاعلاج ہے۔‏ اُسکو کون دریافت کر سکتا ہے؟‏“‏ اسی سلسلے میں یعقوب نے لکھا کہ ”‏ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھینچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۴‏)‏ دل میں بُری خواہشات پیدا ہو سکتی ہیں اور دل ہمیں یہ یقین دلاتے ہوئے کہ یہ دلکش اور بےضرر ہیں اِن خواہشوں کو پورا کرنے پر اُکساتا ہے۔‏ ایسا نظریہ دراصل دھوکا ہے کیونکہ گناہ کرنا دراصل موت پر منتج ہوتا ہے۔‏—‏رومیوں ۸:‏۶‏۔‏

۱۲.‏ ہم خودفریبی کے پھندے میں کیسے پھنس سکتے ہیں؟‏

۱۲ خودفریبی ہمیں بڑی آسانی سے پھنسا سکتی ہے۔‏ حیلہ‌باز دل ہماری شخصیت کی کسی سنگین خامی کو کم کرکے پیش کرتے ہوئے سنگین گُناہ کے سلسلے میں حیلےبہانے بنا سکتا ہے۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۵:‏۱۳-‏۱۵،‏ ۲۰،‏ ۲۱‏)‏ ہمارا دھوکےباز دل قابلِ‌اعتراض چال‌چلن کے سلسلے میں بھی جواز تلاش کر سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر ذرا تفریح کے معاملے کو ہی لے لیجئے۔‏ یہ بات درست ہے کہ بعض قسم کی تفریح خوشگوار اور صحتمند ہو سکتی ہے۔‏ لیکن یہ دُنیا فلموں اور ٹیلی‌وژن پروگراموں اور انٹرنیٹ پر بڑی حد تک بداخلاقی اور فحاشی دکھاتی ہے۔‏ ہم آسانی سے خود کو یقین دلا سکتے ہیں کہ ایسی چیزوں کو دیکھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔‏ کئی تو یہ صفائی پیش کرتے ہیں کہ ”‏میرا ضمیر مجھے پریشان نہیں کر رہا تو پھر اس میں کیا خرابی ہے۔‏“‏ لیکن ایسے لوگ ’‏اپنے آپکو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں۔‏‘‏—‏یعقوب ۱:‏۲۲‏۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ (‏ا)‏ کونسی بائبل مثال سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ ہمیشہ ضمیر پر بھروسا نہیں کِیا جا سکتا؟‏ (‏ب)‏ ہم خودفریبی سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۱۳ ہم خودفریبی سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ سب سے پہلے تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسانی ضمیر پر ہمیشہ بھروسا نہیں کِیا جا سکتا۔‏ پولس رسول کی مثال پر غور کیجئے۔‏ مسیحی بننے سے پہلے اُس نے یسوع کے پیروکاروں کو بہت اذیت پہنچائی۔‏ (‏اعمال ۹:‏۱،‏ ۲‏)‏ ہو سکتا ہے کہ ایسا کرتے وقت اُسکے ضمیر نے اُسے کچھ نہ کہا ہو۔‏ ایسی صورت میں اُسکا ضمیر اُسے واضح طور پر دھوکا دے رہا تھا۔‏ پولس خود کہتا ہے کہ ”‏مَیں نے بےایمانی کی حالت میں نادانی سے یہ کام کئے تھے۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۳‏)‏ اِسلئے ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ جب ہمارا ضمیر خاموش ہوتا ہے تو اسکا یہ مطلب ہے کہ ہمارے کام صحیح ہیں۔‏ صرف خدا کے کلام سے تربیت‌یافتہ ضمیر پر ہی بھروسا کِیا جا سکتا ہے۔‏

۱۴ اگر ہم نے خودفریبی سے بچنا ہے تو ہمیں چند مفید تجاویز کو ذہن میں رکھنا چاہئے:‏ دُعا کرکے اپنا جائزہ لیں۔‏ ‏(‏زبور ۲۶:‏۲؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۵‏)‏ اپنا دیانتدارانہ جائزہ آپکو یہ سمجھنے میں مدد دیگا کہ آیا آپکو اپنی سوچ یا اپنے طور طریقوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔‏ دوسروں کے مشوروں پر دھیان دیں۔‏ ‏(‏یعقوب ۱:‏۱۹‏)‏ صرف اپنا جائزہ لینا کافی نہیں اس سلسلے میں ہمیں پُختہ مسیحیوں سے بھی مشورہ کرنا چاہئے۔‏ اگر ہم خود کو ایسے فیصلے یا کام کرتے پاتے ہیں جو تجربہ‌کار ایمانداروں کے نزدیک قابلِ‌اعتراص ہیں تو ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ ’‏کیا یہ ممکن ہے کہ میرے ضمیر کی ٹھیک طرح سے تربیت نہیں ہوئی یا پھر کیا میرا دل مجھے دھوکا دے رہا ہے؟‏‘‏ باقاعدگی سے بائبل اور بائبل پر مبنی مطبوعات کا مطالعہ کریں۔‏ ‏(‏زبور ۱:‏۲‏)‏ ایسا کرنا آپکو اپنی سوچ،‏ رُجحانات اور جذبات کو خدا کے اصولوں کے مطابق ڈھالنے میں مدد دیگا۔‏

شیطان کے جھوٹے دعوؤں سے بچیں

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ شیطان ہمیں دھوکا دینے کی کوشش میں کونسے جھوٹے دعوئے کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم شیطان کے جھوٹے دعوؤں سے کسطرح بچ سکتے ہیں؟‏

۱۵ شیطان ہمیں دھوکا دینے کیلئے بہت سے مختلف جھوٹ استعمال کرتا ہے۔‏ وہ ہمیں یقین دلانا چاہتا ہے کہ مال‌ودولت ہی حقیقی خوشی اور اطمینان بخشتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔‏ (‏واعظ ۵:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ شیطان ہمیں یہ بھی باور کرانا چاہتا ہے کہ یہ شریر دُنیا ہمیشہ تک قائم رہیگی حالانکہ حالات سے صاف ظاہر ہے کہ ہم اس دُنیا کے ”‏اخیر زمانہ“‏ میں رہ رہے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ شیطان اس نظریے کو بھی فروغ دیتا ہے کہ بُرا چال‌چلن غلط نہیں اگرچہ عیاش لوگوں کا انجام اکثر بُرا ہی ہوتا ہے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۷‏)‏ ہم شیطان کے ایسے جھوٹے دعوؤں سے کسطرح بچ سکتے ہیں؟‏

۱۶ بائبل مثالوں سے سیکھیں۔‏ بائبل میں ایسے لوگوں کی انتباہی مثالیں موجود ہیں جو شیطان کے جھوٹ کے فریب میں آ گئے تھے۔‏ وہ مادی چیزوں سے محبت کرنے لگے،‏ یہ بھول گئے تھے کہ وہ کس دَور میں رہ رہے ہیں اور بعض نے بداخلاقی شروع کر دی اور اِن سب کا انجام بُرا ہی ہوا۔‏ (‏متی ۱۹:‏۱۶-‏۲۲؛‏ ۲۴:‏۳۶-‏۴۲؛‏ لوقا ۱۶:‏۱۴؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۸-‏۱۱‏)‏ جدید زمانے کی مثالوں سے سیکھیں۔‏ افسوس کی بات ہے کہ کبھی‌کبھار بعض مسیحی یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں اور اِس سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ خدا کی خدمت کرنے سے ہم کچھ کھو رہے ہیں۔‏ اِسلئے وہ عیش‌پرستانہ زندگی گزارنے کیلئے سچائی کو چھوڑ دیتے ہیں۔‏ لیکن ایسے لوگ ’‏پھسلنی جگہ‘‏ پر کھڑے ہیں کیونکہ جلد یا بدیر اُنہیں اپنے خراب چال‌چلن کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑیگا۔‏ (‏زبور ۷۳:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ دانشمندی اسی میں ہے کہ ہم دوسروں کی غلطیوں سے سیکھیں۔‏—‏امثال ۲۲:‏۳‏۔‏

۱۷.‏ شیطان نے اِس جھوٹ کو کیوں فروغ دیا کہ یہوواہ نہ تو ہم سے محبت کرتا ہے اور نہ ہی ہماری قدر کرتا ہے؟‏

۱۷ شیطان ایک اَور جھوٹ کو بھی بڑی کامیابی سے کام میں لایا ہے—‏شیطان کا وہ جھوٹ یہ ہے کہ یہوواہ نہ تو ہم سے محبت کرتا ہے اور نہ ہی ہماری قدر کرتا ہے۔‏ شیطان ہزاروں سال سے ناکامل انسانوں کی روش سے واقف ہے۔‏ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ بیدلی ہمیں بےحوصلہ کر سکتی ہے۔‏ (‏امثال ۲۴:‏۱۰‏)‏ اِسلئے وہ یہ جھوٹ پھیلاتا ہے کہ خدا کی نظر میں ہماری کوئی اہمیت نہیں۔‏ اگر ہم ’‏گرائے جاتے ہیں‘‏ اور اِس بات پر یقین کرنے لگتے ہیں کہ یہوواہ ہماری پرواہ نہیں کرتا تو ہم آسانی سے ہمت ہار سکتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۹‏)‏ سب سے بڑا دھوکےباز شیطان یہی چاہتا ہے!‏ ہم شیطان کے اس جھوٹ پر یقین کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۱۸.‏ بائبل ہمیں کسطرح سے یہوواہ کی محبت کا یقین دلاتی ہے؟‏

۱۸ بائبل کے ایسے حوالہ‌جات پر غور کریں جو ہمارے لئے یہوواہ کی محبت کو بیان کرتے ہیں۔‏ خدا کے کلام میں دل کو چُھو لینے والی ایسی بہت سی تمثیلیں پائی جاتی ہیں جن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ انفرادی طور پر ہماری پرواہ کرتا اور ہم سے محبت رکھتا ہے۔‏ وہ ہمارے آنسوؤں کو اپنے ”‏مشکیزہ“‏ میں رکھ لیتا ہے۔‏ اسکا مطلب ہے کہ وہ ہمارے اُن آنسوؤں کو دیکھتا اور یاد رکھتا ہے جو ہم اُسکے وفادار رہنے کیلئے بہاتے ہیں۔‏ (‏زبور ۵۶:‏۸‏)‏ جب ہم ’‏شکستہ دل‘‏ ہوتے ہیں تو خدا ہمارے نزدیک ہوتا ہے۔‏ (‏زبور ۳۴:‏۱۸‏)‏ وہ ہماری بابت سب کچھ جانتا ہے یہانتک کہ ہمارے ”‏سر کے بال بھی سب گنے ہوئے ہیں۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۲۹-‏۳۱‏)‏ سب سے بڑھ کر خدا نے ہماری خاطر ”‏اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا۔‏“‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶؛‏ گلتیوں ۲:‏۲۰‏)‏ بعض‌اوقات آپ شاید یہ یقین کرنا مشکل پائیں کہ اِن صحائف کا اطلاق آپ پر بھی ہوتا ہے۔‏ تاہم،‏ ہمیں ہر حال میں یہوواہ کی بات پر یقین کرنا چاہئے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم اِس بات کا یقین رکھیں کہ وہ ہم میں سے ہر ایک سے انفرادی اور مجموعی طور پر محبت رکھتا ہے۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ (‏ا)‏ اِس شیطانی جھوٹ کو پہچاننا اور ترک کرنا کیوں اتنا اہم ہے کہ یہوواہ ہم سے محبت نہیں کرتا؟‏ (‏ب)‏ ایک سفری نگہبان نے کسطرح دل‌برداشتہ بہن بھائیوں کی مدد کی ہے؟‏

۱۹ شیطانی جھوٹ کو پہچانیں اور ردّ کریں۔‏ اگر آپکو پتہ چل جائے کہ ایک شخص آپ سے جھوٹ بول رہا ہے تو آپ اُس سے دھوکا نہیں کھائینگے۔‏ شیطان ہمیں یقین دلانا چاہتا ہے کہ یہوواہ ہم سے محبت نہیں کرتا۔‏ لیکن جب آپکو معلوم ہے کہ یہ بات جھوٹی ہے تو آپ اِس سے دھوکا نہیں کھائینگے۔‏ ایک مسیحی بہن نے جب مینارِنگہبانی کے ایک رسالے میں شیطان کے پھندوں کے بارے میں پڑھا تو اُس نے کہا:‏ ”‏مجھے معلوم نہ تھا کہ شیطان مجھے دل‌برداشتہ کرنے کیلئے میرے جذبات کو استعمال کرتا ہے۔‏ لیکن اب مَیں اِس بات کو جانتی ہوں اور اپنے جذبات سے نپٹنے کی ضرور کوشش کرونگی۔‏“‏

۲۰ ذرا جنوبی امریکہ کے ایک سفری نگہبان کی بات پر غور کریں۔‏ جب وہ گلّہ‌بانی کی ملاقاتیں کرتا ہے تو وہ اکثر دل‌برداشتہ بہن بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کیلئے اُن سے پوچھتا ہے کہ ’‏کیا آپ تثلیث میں ایمان رکھتے ہیں؟‏‘‏ دل‌برداشتہ شخص کہتا ہے ’‏بالکل نہیں!‏‘‏ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ ایک شیطانی جھوٹ ہے۔‏ پھر سفری نگہبان اُس سے پوچھتا ہے کہ ’‏کیا آپ دوزخ پر یقین رکھتے ہیں؟‏‘‏ اُسے دوبارہ یہی جواب ملتا ہے کہ ’‏ہرگز نہیں!‏‘‏ پھر سفری نگہبان اُس شخص کو بتاتا ہے کہ شیطان نے ایک اَور جھوٹ پھیلایا ہے لیکن اسے اکثر جھوٹ کے طور پر پہچانا نہیں جاتا۔‏ اسکے بعد وہ اُنکی توجہ ڈرا کلوز ٹو جیہوواہ * بُک کے صفحہ ۲۴۹،‏ پیراگراف ۲۱ کی طرف دلاتا ہے جہاں شیطان کے اِس جھوٹ کو بےپردہ کِیا گیا ہے کہ یہوواہ ہم میں سے ہر ایک سے محبت نہیں کرتا۔‏ سفری نگہبان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ کئی دل‌برداشتہ بہن بھائیوں کی مدد کرنے میں کامیاب رہا ہے تاکہ وہ شیطان کے اس جھوٹ کو پہچان سکیں اور اسے ردّ کریں۔‏

خود کو فریب سے بچائیں

۲۱،‏ ۲۲.‏ ہم شیطان کے پُرفریب طریقوں سے ناواقف کیوں نہیں،‏ نیز ہمارا عزمِ‌مُصمم کیا ہونا چاہئے؟‏

۲۱ اِن آخری ایّام میں ہم اِس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ شیطان ہمیں خدا سے دُور کرنے کیلئے ہم پر جھوٹ اور فریب کی بوچھاڑ کریگا۔‏ ہم یہوواہ کے شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ اُس نے شیطان کے اُن طریقوں کو ظاہر کِیا ہے جن سے وہ ہمیں دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے۔‏ بائبل اور بائبل پر مبنی ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کی شائع‌کردہ مطبوعات واضح طور پر شیطان کے طور طریقوں کو بےنقاب کرتی ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵‏)‏ جی‌ہاں خطرے سے باخبر ہونا آپکو اس کیلئے پہلے سے تیار رہنے میں مدد دیگا۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۱‏۔‏

۲۲ پس ہمیں برگشتہ اشخاص کی باتوں سے کنارہ کرنا چاہئے۔‏ ہمیں خودفریبی کے پھندے سے بچنا چاہئے اور شیطان کے ہر قسم کے جھوٹ کو پہچاننا اور ترک کرنا چاہئے۔‏ ایسا کرنے سے ہم ”‏سچائی کے خدا“‏ یہوواہ سے اپنا رشتہ جوڑے رکھینگے جسے فریب سے نفرت ہے۔‏—‏زبور ۳۱:‏۵؛‏ امثال ۳:‏۳۲‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 ایک کتاب کے مطابق مکاشفہ ۱۲:‏۹ میں جملہ ”‏گمراہ کر دیتا ہے“‏ سے مُراد ”‏ایک ایسا فعل ہے جو کسی کی عادت بن چکا ہے۔‏“‏

^ پیراگراف 20 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• آجکل دُنیا میں اسقدر فریب کیوں ہے؟‏

‏• ہم برگشتہ اشخاص کے فریب سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

‏• ہم خودفریبی کے پھندے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

‏• ہم شیطان کے جھوٹے دعوؤں سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

تفریح کے معاملے میں خود کو دھوکا نہ دیں

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

خودفریبی سے بچنے کیلئے دُعا کرکے اپنا جائزہ لیں،‏ دوسروں کے مشوروں پر غور کریں اور باقاعدگی سے خدا کے کلام کا مطالعہ کریں