کیا آپ کو ہمیشہ بائبل کے حکم کی ضرورت پڑتی ہے؟
کیا آپ کو ہمیشہ بائبل کے حکم کی ضرورت پڑتی ہے؟
جب آپ چھوٹے بچے تھے تو آپ کے والدین نے آپ کو بتایا ہوگا کہ کونسے کام اچھے ہیں اور کونسے بُرے ہیں۔ جیسےجیسے آپ عمر میں بڑھتے گئے آپ کو سمجھ میں آتا گیا کہ جوکچھ آپ کے والدین نے آپ کو سکھایا تھا وہ آپ کی بھلائی کے لئے تھا اور شاید آج بھی آپ اُنہی اُصولوں پر عمل کر رہے ہیں۔
ہمارے آسمانی باپ یہوواہ نے ہمیں اپنے کلام بائبل کے ذریعے بہت سے احکام دئیے ہیں۔ مثال کے طور پر بائبل میں ہمیں بُتپرستی، حرامکاری، زناکاری اور چوری سے سختی سے منع کِیا گیا ہے۔ (خروج ۲۰:۱-۱۷؛ اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹) جیسے جیسے ہم یہوواہ خدا اور اُس کے کلام بائبل کے علم میں ’بڑھتے جائیں گے‘ ہمیں یہ احساس ہوتا جائے گا کہ اُس کے احکام سخت نہیں بلکہ ہمارے فائدے کے لئے ہیں۔—افسیوں ۴:۱۵؛ یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸؛ ۵۴:۱۳۔
لیکن ایسے بہت سے حالات ہیں جن کے بارے میں خدا کا کلام بائبل براہِراست حکم وضع نہیں کرتا۔ ایسی صورتحال میں بعض شاید یہ سوچیں کہ مَیں اپنی مرضی کر سکتا ہوں۔ وہ یہ بھی بحث کرتے ہیں کہ اگر خدا ہمیں اس بات سے منع کرنا ضروری سمجھتا تو وہ اپنے کلام بائبل میں اس کے بارے میں حکم دے سکتا تھا۔
ایسی سوچ رکھنے والے لوگ اکثر غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں اور پھر بعد میں پچھتاتے ہیں۔ وہ یہ دیکھنے میں ناکام رہ جاتے ہیں کہ بائبل میں صرف قانون ہی درج نہیں بلکہ اِس میں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ یہوواہ مختلف چیزوں کے بارے میں کیا نظریہ رکھتا ہے۔ بائبل کا مطالعہ کرنے اور مختلف معاملات میں یہوواہ کے نقطۂنظر کو سمجھنے سے ہم بائبل سے تربیتیافتہ ضمیر حاصل کرتے ہوئے یہوواہ کی راہ پر چلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم یہوواہ کے دل کو شاد کرتے اور دانشمندانہ فیصلے کرنے کے نتائج سے مستفید ہوتے ہیں۔—افسیوں ۵:۱۔
بائبل کی عمدہ مثالیں
بائبل میں درج مختلف اشخاص کی مثالوں پر غور کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اُن کے پاس کوئی براہِراست حکم تو نہیں تھا لیکن پھر بھی اُنہوں نے یہوواہ کے نقطۂنظر کو اپنایا۔ اِس سلسلے میں یوسف کی مثال پر غور کریں۔ جب فوطیفار کی بیوی یوسف کو زِنا کرنے پر اُکسا رہی تھی تو خدا کی طرف سے زِناکاری کے بارے میں کوئی واضح حکم موجود نہیں تھا۔ لیکن یوسف یہ جانتا تھا کہ زِناکاری کرنا نہ صرف اُس کے ضمیر کے خلاف ہے بلکہ یہوواہ کی نظر میں بھی ایک بڑا گناہ ہے۔ (پیدایش ۳۹:۹) یہوواہ خدا نے باغِعدن میں آدم اور حوا سے جوکچھ کہا تھا اس سے یوسف یہ نتیجہ اخذ کر سکتا تھا کہ یہوواہ زِناکاری کے خلاف ہے۔—پیدایش ۲:۲۴۔
آئیے ایک اَور مثال پر غور کرتے ہیں۔ اعمال ۱۶:۳ میں ہم پڑھتے ہیں کہ پولس نے تیمتھیس کو اپنے ساتھ مشنری دورے پر لے جانے سے پہلے اُس کا ختنہ کرایا تھا۔ پھر ہم ۴ آیت میں پڑھتے ہیں کہ پولس اور تیمتھیس شہروں میں سے گزرتے ہوئے ”وہ احکام عمل کرنے کے لئے پہنچاتے جاتے تھے جو یروشلیم کے رسولوں اور بزرگوں نے جاری کئے تھے۔“ اُن احکام میں یہ بھی شامل تھا کہ ختنہ کرنا مسیحیوں کے لئے ضروری نہیں ہے۔ (اعمال ۱۵:۵، ۶، ۲۸، ۲۹) پولس نے کیوں تیمتھیس کا ختنہ کرایا؟ ”اُن یہودیوں کے سبب سے جو اُس نواح میں تھے . . . کیونکہ وہ سب جانتے تھے کہ اُس کا باپ یوؔنانی ہے۔“ پولس کسی قسم کی تنقید نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی وہ کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث بننا چاہتا تھا۔ پولس اس بات پر زور دے رہا تھا کہ مسیحی ”خدا کے روبرو ہر ایک آدمی کے دل میں اپنی نیکی بٹھاتے ہیں۔“—۲-کرنتھیوں ۴:۲؛ ۱-کرنتھیوں ۹:۱۹-۲۳۔
پولس اور تیمتھیس ایسی باتوں کو ضرور ملحوظِخاطر رکھتے تھے۔ رومیوں ۱۴:۱۵، ۲۰، ۲۱ اور ۱-کرنتھیوں ۸:۹-۱۳؛ ۱۰:۲۳-۳۳ جیسے اقتباسات کو پڑھیں اور دیکھیں کہ وہ دوسروں کی روحانی فلاح میں کتنی دلچسپی رکھتا تھا بالخصوص اُن کی جو کسی بھی ایسی بات سے ٹھوکر کھا سکتے تھے جو یہوواہ کے احکام کے خلاف بھی نہیں تھی۔ پولس نے تیمتھیس کے بارے میں لکھا: ”کوئی ایسا ہمخیال میرے پاس نہیں جو صافدلی سے تمہارے لئے فکرمند ہو۔ سب اپنی اپنی باتوں کی فکر میں ہیں نہ کہ یسوؔع مسیح کی۔ لیکن تم اُس کی پختگی سے واقف ہو کہ جیسے بیٹا باپ کی خدمت کرتا ہے ویسے ہی اُس نے میرے ساتھ خوشخبری پھیلانے میں خدمت کی۔“ (فلپیوں ۲:۲۰-۲۲) ان دو خادموں نے ہمارے لئے کیا ہی عمدہ مثال قائم کی ہے۔ جبکہ اُن کے پاس ایسا کرنے کے لئے بائبل میں سے کوئی براہِراست حکم موجود نہیں تھا پھر بھی اُنہوں نے یہوواہ اور یسوع کی محبت کی نقل کرتے ہوئے دوسروں کی روحانیت کا خیال رکھا۔
آئیے یسوع کی مثال پر غور کرتے ہیں جو ہمارے لئے ایک خاص نمونہ ہے۔ اپنے پہاڑی وعظ میں یسوع نے بیان کِیا کہ ایک ایسا شخص جو ان اصولوں کو سمجھ لیتا ہے جو خدا کے قوانین میں پائے جاتے ہیں وہ اِن کی تابعداری کرے گا۔ (متی ۵:۲۱، ۲۲، ۲۷، ۲۸) یسوع، پولس، تیمتھیس اور یوسف میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ اِس صورتحال کے لئے خدا کے کلام میں کوئی حکم درج نہیں ہے اس لئے مَیں جو جی میں آئے کر سکتا ہوں۔ خدا کی سوچ اپناتے ہوئے ان لوگوں نے خدا سے اور اپنے پڑوسی سے محبت کے اُصول کے مطابق زندگی گزاری۔—متی ۲۲:۳۶-۴۰۔
آجکل مسیحیوں کی بابت کیا ہے؟
یہ بات تو دُرست ہے کہ ہمیں بائبل کو کبھی بھی ایک قانونی دستاویز کے طور پر خیال نہیں کرنا چاہئے جس میں ہر ایک بات بڑی تفصیل سے لکھی گئی ہو۔ ہم یہوواہ کی سوچ کو اپناتے ہوئے اُس وقت بھی اُس کا دل خوش کریں گے جب کسی معاملے میں براہِراست قانون وضع نہیں کِیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی بجائے کہ ہمیں بتایا جائے کہ خدا ہم سے کیا چاہتا ہے ’ہمیں خود سمجھنا چاہئے کہ یہوواہ کی مرضی کیا ہے۔‘ (افسیوں ۵:۱۷؛ رومیوں ۱۲:۲) یہ بات یہوواہ کو کیوں خوش کرے گی؟ اس سے ظاہر ہوگا کہ ہم اپنی مرضی کو نہیں بلکہ یہوواہ کی مرضی کو اہمیت دیتے ہیں۔ اِس سے یہ بھی ظاہر ہوگا کہ ہم اُس کی محبت کی بہت قدر کرتے ہیں اور ہم بھی اُس کی طرح محبت دکھانا چاہتے ہیں۔ (امثال ۲۳:۱۵؛ ۲۷:۱۱) اگر ہم بائبل کے اصولوں پر عمل کریں گے تو ہم روحانی اور جسمانی طور پر مضبوط ہوتے جائیں گے۔
آئیے دیکھیں کہ ہم ان اصولوں کو اپنی ذاتی زندگی میں کس طرح عائد کر سکتے ہیں۔
تفریح کا انتخاب کرنا
ایک ایسے نوجوان کی مثال پر غور کریں جو ایک گانوں والی کیسٹ خریدنا چاہتا ہے۔ اُس نے ایک گانا سنا جو اُسے بہت پسند آیا۔ لیکن جب
اِس نوجوان نے کیسٹ پر دئے گئے گانوں کے بول پڑھے تو وہ بہت پریشان ہو گیا۔ کیونکہ وہ گانے اخلاق سے گِرے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اُس نوجوان کو معلوم ہوا کہ اِس گلوکار کے گانوں میں غصے کی لہر پائی جاتی ہے۔ یہوواہ سے محبت رکھنے والے نوجوان کے طور پر وہ یہوواہ کی سوچ اور احساسات میں دلچسپی رکھتا ہے۔ لیکن یہ نوجوان کیسے سمجھ سکتا ہے کہ اس سلسلے میں یہوواہ کی مرضی کیا ہے؟گلتیوں کے نام اپنے خط میں پولس نے جسم کے کاموں اور روح کے پھلوں کی فہرست بیان کی۔ آپ شاید جانتے ہیں کہ روح کے پھل میں کیا کیا شامل ہے: محبت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی، ایمانداری، حلم، پرہیزگاری۔ لیکن جسم کے کاموں میں کیا کچھ شامل ہے؟ پولس نے لکھا: ”اب جسم کے کام تو ظاہر ہیں یعنی حرامکاری، ناپاکی، شہوتپرستی، بُتپرستی، جادوگری، عداوتیں، جھگڑے، حسد، غصہ، تفرقے، جدائیاں، بدعتیں، بغض، نشہبازی، ناچرنگ اور اَور اِن کی مانند۔ اِن کی بابت تمہیں پہلے سے کہے دیتا ہوں جیسا کہ پیشتر جتا چکا ہوں کہ ایسے کام کرنے والے خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہوں گے۔“—گلتیوں ۵:۱۹-۲۳۔
پولس کے الفاظ ”ان کی مانند“ پر غور کریں۔ یہاں پولس جسم کے کاموں کے بارے میں مکمل فہرست فراہم نہیں کر رہا تھا۔ اس سے ایک شخص یہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتا کہ ”مَیں ہر وہ کام کر سکتا ہوں جس کا پولس نے اس حوالے میں ذکر نہیں کِیا۔“ ایک پڑھنے والے کو یہ اندازہ لگا لینا چاہئے کہ بہت سے بُرے کام پولس کی اِس فہرست میں شامل تو نہیں ہیں لیکن ”ان کی مانند“ ہیں۔ لوگ جو توبہ کئے بغیر ایسے بُرے کاموں میں مصروف رہتے ہیں وہ خدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہوں گے۔
ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کونسی چیز یہوواہ کو ناراض کر سکتی ہے۔ کیا یہ بہت مشکل ہے؟ فرض کریں کہ ڈاکٹر آپ سے قلفی، مٹھائی اور اِن کی مانند دوسری چیزوں سے پرہیز کرنے کو کہے تو کیا آپ کے لئے یہ جاننا مشکل ہوگا کہ آیا اس میں فرنی بھی شامل ہے یا نہیں؟ اب ذرا دوبارہ روح کے پھل اور جسم کے کاموں پر غور کریں۔ پہلے بیان کی گئی کیسٹ کی مثال کس میں شامل ہے؟ یقینی طور پر اس کا روح کے پھل محبت، نیکی، پرہیزگاری یا دوسری خوبیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک سمجھدار شخص جان جائے گا کہ یہ کیسٹ خدا کے نقطۂنظر سے درست نہیں۔ یہی اصول فلموں، ویبسائٹ، ٹیوی پروگرام، ویڈیو گیمز، کتابوں، رسالوں وغیرہ پر بھی عائد ہوتا ہے۔
مناسب لباس اور بناؤسنگھار
بائبل لباس اور بناؤسنگھار کے سلسلے میں بھی اصول پیش کرتی ہے۔ یہ اصول ہر مسیحی کو مناسب اور جاذبِنظر ذاتی وضعقطع اپنانے کے قابل بناتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی ایک مسیحی اپنی مرضی نہیں بلکہ جو خدا کی نظر میں مناسب ہے اُس کے مطابق انتخاب کرے گا۔ ہم نے پہلے ہی دیکھ لیا ہے کہ یہوواہ ہر معاملے میں ہمارے لئے قانون وضع نہیں کرتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُسے اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کہ اُس کے لوگ کیا کرتے ہیں۔ لباس اور فیشن ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ اس لئے خدا نے ہمیں ایک واضح اصول دیا ہے جس پر ہر وقت اور ہر علاقے میں عمل کِیا جا سکتا ہے۔
یہ اصول ہمیں ۱-تیمتھیس ۲:۹، ۱۰ میں ملتا ہے: ”اسی طرح عورتیں حیادار لباس سے شرم اور پرہیزگاری کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں نہ کہ بال گوندھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی پوشاک سے۔ بلکہ نیک کاموں سے جیسا خداپرستی کا اقرار کرنے والی عورتوں کو مناسب ہے۔“ مسیحی مردوں اور عورتوں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اُن کے علاقے میں لوگ ’خداپرست‘ لوگوں کو کونسے لباس میں دیکھنے کی توقع کرتے ہیں۔ ہر ایک مسیحی کو یہ سوچنا چاہئے کہ جب وہ خدا کے کلام کا پیغام لے کر لوگوں کے گھروں تک جاتا ہے تو اُس کے لباس اور بناؤسنگھار کا لوگوں پر کیسا اثر پڑے گا۔ (۲-کرنتھیوں ۶:۳) ایک اچھا مسیحی اپنی مرضی کو مدِنظر نہیں رکھے گا بلکہ وہ کسی کے لئے ٹھوکر کھانے کا باعث نہیں بنے گا۔—متی ۱۸:۶؛ فلپیوں ۱:۱۰۔
جب ایک مسیحی کا لباس یا بناؤسنگھار کسی کے لئے ٹھوکر کا باعث بنتا ہے تو وہ ایسے کپڑے پہننے یا بناؤسنگھار کرنے سے پرہیز کرے گا۔ پولس ۱-کرنتھیوں ۱۱:۱) پھر پولس نے یسوع کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا کہ ”مسیح نے بھی اپنی خوشی نہیں کی۔“ پولس نے تمام مسیحیوں کو ہدایت دیتے ہوئے کہا: ”غرض ہم زورآوروں کو چاہئے کہ ناتواں کی کمزوریوں کی رعایت کریں نہ کہ اپنی خوشی کریں۔ ہم میں ہر شخص اپنے پڑوسی کو اُس کی بہتری کے واسطے خوش کرے تاکہ اُس کی ترقی ہو۔“—رومیوں ۱۵:۱-۳۔
کی نقل کرتے ہوئے وہ دوسروں کی روحانیت کا خیال رکھے گا۔ پولس نے کہا: ”تم میری مانند بنو جیسا مَیں مسیح کی مانند بنتا ہوں۔“ (اپنی سمجھ کو تیز کریں
جب ہمارے پاس کوئی واضح قانون نہ ہو تو ہمیں اپنی سمجھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم اس سمجھ کو کس طرح تیز کر سکتے ہیں؟ ہم خدا کے کلام کو روزانہ پڑھنے، اُس کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے اور جو کچھ ہم پڑھتے ہیں اُس پر غور کرنے سے اپنی سمجھ کو تیز کر سکتے ہیں۔ آپ ایسی سمجھ جلد حاصل نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر جس طرح ایک بچے کی جسمانی نشوونما آہستہ آہستہ ہوتی ہے اُسی طرح آپ بھی روحانی طور پر آہستہ آہستہ بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں صبر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم فوری بہتری نہیں دیکھتے تو ہمیں بےچین نہیں ہونا چاہئے۔ وقت کا گزرنا ہماری سوچنے کی قوت کو خودبخود تیز نہیں کرے گا بلکہ ہمیں خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا اور اسے اپنی زندگی میں عائد کرنا ہوگا۔—عبرانیوں ۵:۱۴۔
خدا کے قوانینکی پابندی کرنے سے ہم اُس کے لئے فرمانبرداری ظاہر کرتے ہیں لیکن خدا کے اصولوں کو اپنی زندگی میں عائد کرنے سے ہم اپنی روحانی ترقی کو جانچ سکتے اور اُسے خوش کر سکتے ہیں۔ جتنی زیادہ ہم روحانی طور پر ترقی کرتے ہیں اُتنا ہی زیادہ ہم خدا اور اُس کے بیٹے کی خوبیوں کی نقل کریں گے۔ اس کے علاوہ ہم خدا کی سوچ کے مطابق فیصلے کرنے لگیں گے۔ اپنے آسمانی باپ یہوواہ کو خوش کرنے سے ہمیں بھی خوشی حاصل ہوگی۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویریں]
لباس کے سٹائل ہر جگہ مختلف ہوتے ہیں لیکن بائبل اصولوں کو ہمارے انتخابات کے سلسلے میں راہنمائی کرنی چاہئے