مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بعض کیسی یادیں چھوڑتے ہیں

بعض کیسی یادیں چھوڑتے ہیں

بعض کیسی یادیں چھوڑتے ہیں

تقریباً تین ہزار سال پہلے،‏ داؤد اسرائیل کے بادشاہ ساؤل کے سامنے سے بھاگ گیا تھا۔‏ داؤد نے خوراک اور پانی کے لئے بھیڑبکریوں کے گلّے کے مالک ایک دولتمند شخص نابال کے پاس اپنے آدمی بھیجے۔‏ دراصل،‏ داؤد اور اُس کے ساتھیوں نے نابال کے گلّوں کی حفاظت کی تھی لہٰذا وہ نابال کی مہمان‌نوازی کے حقدار تھے۔‏ تاہم،‏ نابال نے مہمان‌نوازی دکھانے سے انکار کر دیا۔‏ یہانتک کہ اُس نے داؤد کے آدمیوں کو ذلیل کِیا۔‏ نابال خود کو خطرے میں ڈال رہا تھا کیونکہ وہ داؤد سے ناجائز فائدہ نہیں اُٹھا سکتا تھا۔‏—‏۱-‏سموئیل ۲۵:‏۵،‏ ۸،‏ ۱۰،‏ ۱۱،‏ ۱۴‏۔‏

نابال کا رویہ مشرقِ‌وسطیٰ میں مہمانوں اور اجنبیوں کیلئے مہمان‌نوازی دکھانے کی روایات کے بالکل برعکس تھا۔‏ چنانچہ نابال نے اپنے لئے کیسا نام کمایا؟‏ بائبل ریکارڈ کے مطابق وہ ”‏بڑا بےادب اور بدکار“‏ اور ”‏خبیث آدمی“‏ تھا۔‏ اُس کے نام کا مطلب ”‏بےعقل“‏ یا ”‏احمق“‏ ہے اور وہ بالکل ایسا ہی تھا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۵:‏۳،‏ ۱۷،‏ ۲۵‏)‏ کیا آپ یہ چاہیں گے کہ آپ کو بھی اسی طرح یاد کِیا جائے؟‏ کیا آپ دوسروں کے ساتھ اپنے برتاؤ میں سخت‌گیر اور ضدی ہیں بالخصوص جب کوئی مصیبت میں ہوتا ہے؟‏ یا کیا آپ مہربان،‏ مہمان‌نواز اور پاس‌ولحاظ رکھنے والے ہیں؟‏

ابیجیل—‏ایک دانا عورت

اپنے سخت رویے کی وجہ سے نابال بڑی مشکل میں پھنس گیا۔‏ داؤد اور اُس کے ۴۰۰ آدمیوں نے تلواریں اُٹھا لیں اور نابال کو سبق سکھانے کے لئے چل پڑے۔‏ نابال کی بیوی،‏ ابیجیل کو تمام واقعہ کی خبر ہوئی۔‏ وہ جانتی تھی کہ لڑائی ہو کر رہے گی۔‏ وہ کیا کر سکتی تھی؟‏ وہ فوری طور پر بہت سا کھانے کا سامان لیکر داؤد اور اُس کے آدمیوں کو ملنے کے لئے نکل پڑی۔‏ جب وہ اُن سے ملی تو اُس نے داؤد سے التجا کی کہ وہ بےسبب خون نہ بہائے۔‏ داؤد کا دل نرم پڑ گیا۔‏ اُس نے اُس کی درخواست کو سنا اور رحم ظاہر کِیا۔‏ اِن  واقعات کے کچھ ہی عرصہ بعد،‏ نابال وفات پا گیا۔‏ داؤد نے ابیجیل کی اچھی صفات کو جانتے ہوئے اُس سے شادی کر لی۔‏—‏۱-‏سموئیل ۲۵:‏۱۴-‏۴۲‏۔‏

ابیجیل نے اپنے لئے کیسا نام کمایا؟‏ وہ ”‏بڑی سمجھدار“‏ یعنی ذہین عورت تھی جیساکہ اصل عبرانی متن بیان کرتا ہے۔‏ وہ واقعی باشعور خاتون تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اُسے کب اور کونسا قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔‏ اُس نے اپنے احمق شوہر اور خاندان کو مصیبت سے بچانے کے لئے وفاداری سے کام لیا۔‏ انجام‌کار اُس نے وفات پائی مگر وہ ایک دانا عورت کی غیرمعمولی شہرت رکھتی ہے۔‏—‏۱-‏سموئیل ۲۵:‏۳‏۔‏

پطرس نے کیسا ریکارڈ چھوڑا؟‏

آئیے پہلی صدی کے زمانے کے یسوع کے ۱۲ رسولوں پر غور کریں۔‏ بِلاشُبہ اِن میں سے ایک جوشیلا اور جلدباز پطرس یا کیفا تھا جو پہلے گلیل میں ایک ماہی‌گیر تھا۔‏ وہ واقعی بڑا پُرجوش شخص تھا جو اپنے احساسات ظاہر کرنے سے گھبراتا نہیں تھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک موقع پر یسوع نے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوئے۔‏ جب پطرس کے پاؤں دھونے کی باری آئی تو غور کریں کہ اُس کا ردِعمل کیسا تھا؟‏

پطرس نے یسوع سے کہا:‏ ”‏اَے خداوند!‏ کیا تُو میرے پاؤں دھوتا ہے؟‏ یسوؔع نے جواب میں اُس سے کہا کہ جو مَیں کرتا ہوں تُو اب نہیں جانتا مگر بعد میں سمجھے گا۔‏“‏ پطرس نے جواب دیا:‏ ”‏تُو میرے پاؤں ابد تک کبھی دھونے نہ پائے گا۔‏“‏ پطرس کے تاکیدی مگر فوری ردِعمل پر غور کریں۔‏ یسوع نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏

یسوع نے جواب دیا،‏ ”‏اگر مَیں تجھے نہ دھوؤں تو تُو میرے ساتھ شریک نہیں۔‏ شمعوؔن پطرس نے اُس سے کہا اَے خداوند!‏ صرف میرے پاؤں ہی نہیں بلکہ ہاتھ اور سر بھی دھو دے۔‏“‏ اب پطرس بالکل انتہا کر دیتا ہے!‏ مگر آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پطرس میں کوئی مکر یا فریب نہیں تھا۔‏—‏یوحنا ۱۳:‏۶-‏۹‏۔‏

پطرس اپنی انسانی کمزوریوں کیلئے بھی مشہور ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جو لوگ اُس پر یسوع ناصری کا ساتھی ہونے کا الزام لگا رہے تھے اُن کے سامنے اُس نے تین بار مسیح کا انکار کِیا۔‏ جب پطرس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ زاروقطار رویا۔‏ وہ اپنی ندامت اور پشیمانی کا اظہار کرنے سے خوفزدہ نہیں تھا۔‏ یہ بات بھی قابلِ‌غور ہے کہ اناجیل‌نویسوں نے پطرس کے واقعہ کو تحریر کِیا اور بہت اغلب ہے کہ یہ معلومات اُنہیں پطرس کے ذریعے ہی ملی ہوں!‏ وہ اتنا فروتن تھا کہ اُس نے اپنی غلطیاں تسلیم کر لیں۔‏ کیا آپ میں بھی یہ خوبی ہے؟‏—‏متی ۲۶:‏۶۹-‏۷۵؛‏ مرقس ۱۴:‏۶۶-‏۷۲؛‏ لوقا ۲۲:‏۵۴-‏۶۲؛‏ یوحنا ۱۸:‏۱۵-‏۱۸،‏ ۲۵-‏۲۷‏۔‏

مسیح کا انکار کرنے کے کچھ ہی ہفتوں بعد،‏ پطرس نے رُوح‌اُلقدس سے تحریک پا کر پنتِکُست پر جمع یہودیوں کو دلیری کیساتھ منادی کی۔‏ یہ اس امر کا یقینی ثبوت تھا کہ قیامت‌یافتہ یسوع واقعی پطرس پر بھروسا کرتا تھا۔‏—‏اعمال ۲:‏۱۴-‏۲۱‏۔‏

ایک دوسرے موقع پر پطرس ایک مختلف پھندے میں پھنس گیا۔‏ پولس رسول نے بیان کِیا کہ چند یہودی بھائیوں کے انطاکیہ پہنچنے سے پہلے پطرس غیرقوم ایمانداروں کے ساتھ آزادی کے ساتھ میل‌جول رکھتا تھا۔‏ مگر یروشلیم سے آنے والے ”‏مختونوں سے ڈر کر“‏ وہ اُن سے باز رہا اور کنارہ کِیا۔‏ پولس نے پطرس کے دوہرے معیاروں کو بےنقاب کِیا۔‏—‏گلتیوں ۲:‏۱۱-‏۱۴‏۔‏

تاہم،‏ جب ایک نازک لمحے پر یسوع کے بیشتر شاگرد اُسے چھوڑ کر جانے کو تیار تھے تو کون دلیری کے ساتھ بول اُٹھا تھا؟‏ یہ اُس وقت کی بات ہے جب یسوع نے اپنا گوشت کھانے اور خون پینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ایک نئی بات آشکارا کی تھی۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏جب تک تم ابنِ‌آدم کا گوشت نہ کھاؤ اور اُس کا خون نہ پیو تم میں زندگی نہیں۔‏“‏ یسوع کے بیشتر یہودی شاگردوں نے ٹھوکر کھائی اور آپس میں جھگڑنے لگے:‏ ”‏یہ کلام ناگوار ہے۔‏ اسے کون سُن سکتا ہے؟‏“‏ اس کے بعد کیا واقع ہوا؟‏ ”‏اس پر اُس کے شاگردوں میں سے بہتیرے اُلٹے پھر گئے اور اِس کے بعد اُس کے ساتھ نہ رہے۔‏“‏—‏یوحنا ۶:‏۵۰-‏۶۶‏۔‏

اس خاص موقع پر،‏ یسوع نے پیچھے مڑ کر ۱۲ رسولوں کی طرف دیکھا اور جذباتی سا سوال کِیا:‏ ”‏کیا تم بھی چلا جانا چاہتے ہو؟‏“‏ پطرس نے جواب دیا:‏ ”‏اَے خداوند!‏ ہم کس کے پاس جائیں؟‏ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔‏ اور ہم ایمان لائے اور جان گئے ہیں کہ خدا کا قدوس تُو ہی ہے۔‏“‏—‏یوحنا ۶:‏۶۷-‏۶۹‏۔‏

پطرس نے کس قِسم کی شہرت کمائی تھی؟‏ اس سرگزشت کو پڑھنے والا ہر شخص اُس کی دیانتداری اور صاف‌گوئی،‏ وفاداری اور اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے کی اُس کی رضامندی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔‏ اُس نے اپنے لئے کیا ہی شاندار نام کمایا!‏

لوگوں نے یسوع کی بابت کیا یاد رکھا؟‏

یسوع کی زمینی خدمتگزاری محض ساڑھے تین سال تھی۔‏ تاہم،‏ اس کے پیروکاروں نے اُسے کیسے یاد رکھا؟‏ گناہ سے پاک اور کامل انسان ہونے کی وجہ سے کیا وہ مغرور اور دوسروں سے دُور رہتا تھا؟‏ یہ جانتے ہوئے کہ وہ خدا کا بیٹا ہے کیا وہ دوسروں پر رعب ڈالتا تھا؟‏ کیا وہ فرمانبرداری کروانے کے لئے اپنے پیروکاروں پر دباؤ ڈالتا یا اُنہیں ڈراتا دھمکاتا تھا؟‏ کیا وہ خود کو اتنا سنجیدہ بناتا تھا کہ گویا اُس میں مزاح کی حس نہیں؟‏ کیا وہ اتنا مصروف رہتا تھا کہ اُس کے پاس ناتواں اور بیمار لوگوں اور بچوں کے لئے وقت ہی نہیں تھا؟‏ کیا وہ عورتوں اور دوسری اقوام کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا جیساکہ اُس زمانے کے مرد کرتے تھے؟‏ ریکارڈ ہمیں کیا بتاتا ہے؟‏

یسوع لوگوں میں دلچسپی رکھتا تھا۔‏ اُس کی خدمتگزاری کا مطالعہ آشکارا کرتا ہے کہ بیشمار مواقع پر اُس نے اپاہج اور بیمار لوگوں کو شفا دی۔‏ اُس نے خود کو حاجتمندوں کی مدد کے لئے پیش کِیا۔‏ اُس نے بچوں میں دلچسپی دکھائی اور اپنے شاگردوں کو ہدایت کی:‏ ”‏بچوں کو میرے پاس آنے دو۔‏ اُن کو منع نہ کرو۔‏“‏ اس کے بعد یسوع نے ”‏اُنہیں اپنی گود میں لیا اور اُن پر ہاتھ رکھ کر اُن کو برکت دی۔‏“‏ کیا آپ بچوں کے لئے وقت نکالتے ہیں یا آپ اتنے مصروف رہتے ہیں کہ اُن کی موجودگی کو ہی نظرانداز کر دیتے ہیں؟‏—‏مرقس ۱۰:‏۱۳-‏۱۶؛‏ متی ۱۹:‏۱۳-‏۱۵‏۔‏

جب یسوع زمین پر تھا تو یہودی ایسے مذہبی قوانین اور ضابطوں کے بوجھ میں دبے ہوئے تھے جن کا تقاضا شریعت بھی نہیں کرتی تھی۔‏ اُن کے مذہبی پیشوا لوگوں پر بھاری بوجھ ڈال رہے تھے جبکہ وہ خود اُن کو اُنگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے تھے۔‏ (‏متی ۲۳:‏۴؛‏ لوقا ۱۱:‏۴۶‏)‏ پس یسوع کتنا مختلف تھا!‏ اُس نے فرمایا:‏ ”‏اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔‏ مَیں تم کو آرام دُونگا۔‏“‏—‏متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰‏۔‏

یسوع سے ملکر لوگ تازگی محسوس کرتے تھے۔‏ اُس نے کبھی اپنے شاگردوں کا حوصلہ پست نہیں کِیا تھا۔‏ بلکہ اُس نے اُن کے دل کی بات جاننے کے لئے اُن سے سوالات پوچھے۔‏ (‏مرقس ۸:‏۲۷-‏۲۹‏)‏ مسیحی نگہبان  بھی خود سے یہ پوچھ کر اچھا کرتے ہیں:‏ ’‏کیا مَیں ساتھی ایمانداروں پر ایسا تاثر چھوڑتا ہوں؟‏ کیا دوسرے بزرگ مجھ سے بِلاہچکچاہٹ بات کر  سکتے  ہیں؟‏‘‏ جب نگہبان قابلِ‌رسائی،‏ دوسروں کی بات سننے والے اور لچکدار ہوتے ہیں تو یہ کسقدر تازگی‌بخش ہوتا ہے!‏ نامعقولیت،‏ صاف‌گوئی  اور آزادانہ مباحثوں کی راہ میں حائل ہوتی  ہے۔‏

یسوع نے خدا کا بیٹا ہونے کے باوجود کبھی اپنی طاقت یا اختیار کا ناجائز استعمال نہیں کِیا تھا۔‏ بلکہ اُس نے اپنے سامعین کے ساتھ استدلال کِیا۔‏ ایک ایسی ہی صورتحال اُس وقت سامنے آئی جب فریسیوں نے پُرفریب سوال سے اُسے پھنسانا چاہا:‏ ”‏قیصرؔ کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں؟‏“‏ یسوع نے اُنہیں ایک سکہ لانے کے لئے کہا اور پھر اُن سے سوال کِیا:‏ ”‏یہ صورت اور نام کس کا ہے؟‏“‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏قیصرؔ کا۔‏“‏ اِس پر اُس نے اُن سے کہا:‏ ”‏پس جو قیصرؔ کا ہے قیصرؔ کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔‏“‏ (‏متی ۲۲:‏۱۵-‏۲۱‏)‏ سادہ سی منطق ہی کافی تھی۔‏

کیا یسوع مزاح کی حس رکھتا تھا؟‏ بعض قاری شاید اس عبارت کو پڑھ کر قدرے مسکرا دیتے ہوں جہاں یسوع یہ کہتا ہے کہ اُونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا دولتمند کے خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے سے آسان ہے۔‏ (‏متی ۱۹:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ اُونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکلنے کا خیال ہی مبالغہ‌آرائی ہے۔‏ اسی طرح کی ایک اَور مثال بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھنا اور اپنی آنکھ کے شہتیر کو نہ دیکھنا ہے۔‏ (‏لوقا ۶:‏۴۱،‏ ۴۲‏)‏ یسوع ایک سخت‌گیر فوجی افسر نہیں تھا۔‏ وہ پُرتپاک اور دوستانہ طبیعت کا مالک تھا۔‏ آجکل بھی پریشانی کی حالت میں تھوڑا بہت ہنسی مذاق پریشانی کے دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔‏

یسوع کا عورتوں پر رحم کرنا

یسوع کے پاس آنے والی عورتیں کیسا محسوس کرتی تھیں؟‏ یقیناً بہت سی خواتین بھی اُس کی شاگرد تھیں جن میں اُس کی اپنی ماں،‏ مریم بھی شامل تھی۔‏ (‏لوقا ۸:‏۱-‏۳؛‏ ۲۳:‏۵۵،‏ ۵۶؛‏ ۲۴:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ عورتیں یسوع تک رسائی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی تھیں کیونکہ ایک مرتبہ ایک عورت جو ’‏گنہگار کے طور پر مشہور تھی‘‏ اُس نے اپنے آنسوؤں سے یسوع کے پاؤں دھوئے اور اُن پر عطر ڈالا۔‏ (‏لوقا ۷:‏۳۷،‏ ۳۸‏)‏ ایک دوسری عورت جو کئی سالوں سے جریانِ‌خون میں مبتلا تھی اُس نے شفا پانے کے لئے آگے بڑھ کر اُس کی پوشاک کو چھوأ۔‏ یسوع نے اُس کے ایمان کی تعریف کی۔‏ (‏متی ۹:‏۲۰-‏۲۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ عورتوں نے بھی یسوع کو قابلِ‌رسائی پایا۔‏

ایک دوسرے موقع پر،‏ یسوع نے ایک کنوئیں پر ایک سامری عورت سے کلام کِیا۔‏ وہ اتنی حیران ہوئی کہ اُس نے کہا:‏ ”‏تُو یہودی ہوکر مجھ سامری عورت سے پانی کیوں مانگتا ہے؟‏“‏ کیونکہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے تھے۔‏ یسوع نے اُسے ’‏ہمیشہ کی زندگی بخشنے والے  پانی‘‏ کی بابت شاندار سبق سکھایا۔‏ وہ خواتین کے ساتھ بہت اچھی طرح بات کرتا تھا۔‏ اُس نے اسے چیلنج‌خیز نہیں پایا تھا۔‏—‏یوحنا ۴:‏۷-‏۱۵‏۔‏

یسوع کو اُس کی بیشمار اچھی خوبیوں کی وجہ سے یاد رکھا گیا ہے جس میں اُس کا خودایثارانہ جذبہ شامل ہے۔‏ وہ خدائی محبت کا شاہکار تھا۔‏ یسوع اپنے تمام پیروکاروں کے لئے معیار قائم کرتا ہے۔‏ آپ اُس کے نمونے کی کس حد تک پیروی کرتے ہیں؟‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۴-‏۸‏؛‏ ۱-‏پطرس  ۲:‏۲۱۔‏

زمانۂ‌جدید کے مسیحی کیسی یادیں چھوڑتے ہیں؟‏

زمانۂ‌جدید میں ہزاروں وفادار مسیحی بڑھاپے یا جوانی میں وفات پا چکے ہیں۔‏ مگر اُنہوں نے اپنے پیچھے اچھا نام چھوڑا ہے۔‏ بعض کرسٹل کی طرح جس نے بڑھاپے میں وفات پائی اپنے تپاک اور ملنساری کی وجہ سے یاد رہتے ہیں۔‏ دیگر ڈرک کی طرح،‏ جس نے ۴۰ سال کی عمر میں وفات پائی اپنی خوش‌اخلاقی اور مدد کرنے کے رویے کی وجہ سے یاد رہتے ہیں۔‏

اس کے بعد سپین کے جوسی کو لے لیجئے۔‏ پیچھے ۱۹۶۰ کے دہے میں،‏ جب اس کے مُلک میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی تھی،‏ جوسی نے شادی کر لی اور اُس کی تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔‏ بارسیلونا میں اس کی مستقل ملازمت تھی۔‏ مگر اُس وقت جنوبی سپین میں پُختہ مسیحی بزرگوں کی ضرورت تھی۔‏ جوسی نے اپنی ملازمت چھوڑ دی اور اپنے خاندان سمیت ملاگا منتقل ہو گیا۔‏ اُنہیں بیروزگاری سمیت کٹھن معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‏

تاہم،‏ جوسی خدمتگزاری میں اپنے وفادارانہ اور قابلِ‌بھروسا ہونے اور اپنی بیوی کارمیلا کی مدد سے اپنی تینوں بیٹیوں کی اچھی تربیت کرنے کے لئے مشہور تھا۔‏ جب کسی کو بھی اپنے علاقے میں مسیحی کنونشن وغیرہ منظم کرنے پڑتے تھے تو جوسی ہمیشہ مدد کے لئے تیار رہتا تھا۔‏ افسوس کی بات ہے کہ ۵۰ کے دہے میں وہ ایک جان‌لیوا بیماری میں مبتلا ہو گیا۔‏ تاہم،‏ وہ ایک قابلِ‌اعتماد،‏ محنتی بزرگ اور شفیق باپ اور شوہر کے طور پر مشہور تھا۔‏

آپ کو کیسے یاد رکھا جائے گا؟‏ اگر آپ کل مر گئے ہوتے تو آج لوگ آپ کی بابت کیا کہہ رہے ہوتے؟‏ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم سب کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی تحریک دے سکتا ہے۔‏

نیک‌نامی کمانے کے لئے ہم سب کو کیا کرنا چاہئے؟‏ ہم ہمیشہ دوسروں کے ساتھ روح کے پھل یعنی محبت،‏ تحمل،‏ مہربانی،‏ حلم اور پرہیزگاری ظاہر کرنے میں بہتری پیدا کر سکتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ یاد رکھیں ”‏نیک‌نامی بیش‌بہا عطر سے بہتر ہے اور مرنے کا دن پیدا ہونے کے دن سے۔‏“‏—‏واعظ ۷:‏۱؛‏ متی ۷:‏۱۲‏۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

ابیجیل اپنی دُوراندیشی کیلئے مشہور ہے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

پطرس اپنی جلدبازی مگر دیانتدارانہ شخصیت کیلئے مشہور ہے

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

یسوع نے بچوں کیلئے وقت نکالا