روحانی اقدار کس طرف بڑھ رہی ہیں؟
روحانی اقدار کس طرف بڑھ رہی ہیں؟
”شادی سے پہلے مشورت حاصل کرنے کیلئے پندرہ جوڑے شام کی [کیتھولک] عبادت میں حاضر ہوتے ہیں۔ وہاں پر موجود ۳۰ اشخاص میں سے صرف ۳ ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔“ لا کرواس، فرنچ کیتھولک ڈیلی۔
مذہبی اقدار بحران کا شکار ہیں۔ جولائی ۱۲، ۱۹۹۹ کے نیوزویک کے انٹرنیشنل ایڈیشن کے سرِورق پر سوال تھا: ”کیا خدا مر گیا ہے؟“ رسالے کا جواب تھا کہ مغربی یورپ کے لئے یقیناً ایسا ہی ہے۔ اُسی سال اکتوبر میں روم میں منعقد ہونے والے کیتھولک چرچ کے اجتماع پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے فرنچ اخبار لی مونڈ نے بیان کِیا: ”چرچ پہلے کی نسبت اب لوگوں کو اپنا پیغام سنانا مشکل پا رہا ہے جنہیں اس سے ’چڑ‘ سی ہو گئی ہے۔ . . . اٹلی میں، کیتھولک مذہب اب یکسانیت کا حامل نہیں ہے۔ . . . جرمنی میں، اسقاط کی بابت مشوروں کے مراکز پر بحث پوپ اور لوگوں کے مابین وسیع خلا پیدا کر رہی ہے جو اب مباحثوں کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ بعض مشاہدین نے پہلے ہی اخلاقیت اور رحم کی بِنا پر قتل کی بابت نیدرلینڈز کے بےباک مؤقف کو غیرمسیحی قرار دے دیا ہے۔“
دوسری جگہوں پر بھی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔ سن ۱۹۹۹ میں، کنٹربری کے آرچبشپ، جارج کارے نے چرچ آف انگلینڈ کو خبردار کِیا تھا کہ ”چرچ کی معدومیت میں اب صرف ایک نسل کا فاصلہ رہ گیا ہے۔“ ایک مضمون بعنوان ”مسیحی یورپ کا خاتمہ“ میں فرنچ اخبار لی فیگارو نے کہا: ”ایسا ہر جگہ ہو رہا ہے۔ . . . لوگ آہستہ آہستہ اخلاقیت اور عقائد کی بابت سوال اُٹھا رہے ہیں۔“
بہت کم مذہبی شمولیت
یورپ کے چرچز میں حاضری دنبدن کم ہو رہی ہے۔ فرنچ کیتھولک کا ۱۰ فیصد ہر اتوار کو عبادت پر جاتا ہے جبکہ پرشیاین کیتھولک کا صرف ۳ سے ۴ فیصد باقاعدہ
چرچ جاتا ہے۔ اسی طرح برطانیہ، جرمنی اور سکینڈینیوین ممالک میں بھی حاضری کم ہوتی جا رہی ہے۔مذہبی اہلکاروں کے لئے تشویش کی بات یہ ہے کہ مذہبی راہنما بننے والے اُمیدواروں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ ایک صدی سے کم عرصے کے دوران، فرانس میں پادریوں کی تعداد ڈرامائی طور پر کم ہو کر ۰۰۰،۱۰ لوگوں پیچھے ۱۴ پادریوں سے ۰۰۰،۱۰ لوگوں پیچھے ایک پادری رہ گئی ہے۔ یورپ میں پادریوں کی اوسط عمر بڑھ رہی ہے اور آئرلینڈ اور بیلجیئم جیسے ممالک میں کم ہو رہی ہے۔ اس کیساتھ ہی ساتھ، مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد بھی کم ہو رہی ہے جس سے کیتھولک چرچ کی اپنی ساخت قائم رکھنے کی اہلیت مشکوک ہوتی جا رہی ہے۔
مذہب پر اعتماد گئی گذری بات لگتی ہے۔ سن ۱۹۵۲ میں، ۵۰ فیصد اور ۱۹۸۱ میں ۱۵ فیصد کی نسبت اب صرف ۶ فیصد فرانسیسی لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ”سچائی صرف ایک ہی مذہب میں ہو سکتی ہے۔“ مذہبی بےحسی بڑھتی جا رہی ہے۔ مذہب سے لاتعلقی کا اظہار کرنے والے لوگوں کا تناسب ۱۹۸۰ میں ۲۶ فیصد سے بڑھ کر ۲۰۰۰ میں ۴۲ فیصد ہو گیا (فرنچ ویلیوز—ڈیویلپمنٹ فرام ۱۹۸۰ سے ۲۰۰۰)۔
اخلاقی اقدار میں تنزلی
اقدار میں بحران اخلاقیت کے سلسلے میں بھی واضح ہے۔ جیسےکہ شروع میں بیان کِیا گیا ہے، چرچ جانے والے بیشتر لوگ چرچ کے اخلاقی ضابطوں کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے کہ مذہبی پیشواؤں کو اخلاقی معیار قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔ جب نجی زندگیوں میں پوپ کی ہدایات پر عمل کرنے کی بات آتی ہے تو انسانی حقوق کی بابت اُسکے مؤقف کی تائید کرنے والے ہجوم اس سے انکار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مانعحمل کی بابت اُسکے مؤقف کو بہت سے کیتھولک جوڑے بھی نظرانداز کرتے ہیں۔
یہ میلان معاشرے میں ہر طرح کے مذہبی اور غیرمذہبی لوگوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ایسے کام قابلِقبول ہیں جن کی پاک صحائف واضح طور پر مذمت کرتے ہیں۔ بیس سال پہلے، ۴۵ فیصد فرنچ شہری ہمجنسپسندی کے لئے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔ آجکل، ۸۰ فیصد اسے قابلِقبول سمجھتے ہیں۔ اگرچہ اکثریت ازدواجی وفاداری کی حمایت کرتی ہے توبھی، صرف ۳۶ فیصد ازدواجی رشتے کے باہر تعلقات کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔—رومیوں ۱:۲۶، ۲۷؛ ۱-کرنتھیوں ۶:۹، ۱۰؛ عبرانیوں ۱۳:۴۔
مذہبی آلودگی
مغربی معاشرے میں ذاتی پسند پر مبنی مذہب فروغ پا رہا ہے جس میں ہر شخص اپنی مرضی سے عقائد کا انتخاب کر سکتا ہے۔ بعض اعتقادات کو قبول اور دیگر کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔ بعض خود کو مسیحی بھی کہتے ہیں اور تناسخ کے عقیدے کو بھی مانتے ہیں اور دیگر مختلف مذہبی مسلکوں کی بیکوقت پیروی کرتے ہیں۔ (واعظ ۹:۵، ۱۰؛ حزقیایل ۱۸:۴، ۲۰؛ متی ۷:۲۱؛ افسیوں ۴:۵، ۶) کتاب لعس والیورز ڈس فرانکاس نے واضح طور پر بیان کِیا کہ آجکل بیشتر معتقدین چرچ کے وضعکردہ راستوں سے بھٹک رہے ہیں۔
تاہم، شخصی مذہب کی طرف بڑھتا ہوا یہ رُجحان خطرے سے خالی نہیں ہے۔ مذہبی مؤرخ اور انسٹیٹیوٹ ڈی فرانس کا رُکن جین ڈیلومیو یقین رکھتا ہے کہ کسی بھی شخص کیلئے بغیر کسی منظم نظام کے آزادانہ طور پر ذاتی مذہب کو تشکیل دینا ناممکن ہے۔ ”ایمان کا بغیر کسی ٹھوس بنیاد کے قائم رہنا ممکن نہیں۔“ پُختہ روحانی اقدار اور مذہبی طریقۂکار کا ہمآہنگ ہونا بہت ضروری ہے۔ تبدیلیوں کا شکار معاشرے میں ایسی ہمآہنگی کہاں مل سکتی ہے؟
بائبل ہمیں بارہا یاددہانی کراتی ہے کہ صرف خدا ہی چالچلن اور اخلاقیت کے قابلِقبول ضوابط قائم کر سکتا ہے اگرچہ وہ انسانوں کو اِن کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کیلئے مجبور نہیں کرتا۔ پوری دُنیا میں لاکھوں لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب جسے عرصۂدراز سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے آج بھی قابلِعمل ہے اور ’اُنکے قدموں کیلئے چراغ اور اُنکی راہ کیلئے روشنی ہے۔‘ (زبور ۱۱۹:۱۰۵) وہ اس نتیجے پر کیسے پہنچے ہیں؟ اس پر اگلے مضمون میں بات کی جائیگی۔