عالمگیر الہٰی تعلیم کی ترقی میں میرا حصہ
میری کہانی میری زبانی
عالمگیر الہٰی تعلیم کی ترقی میں میرا حصہ
از رابرٹ نزبت
سوازیلینڈ کے بادشاہ سوبوزا دوم نے اپنے شاہی محل میں میرا اور میرے بھائی جارج کا خیرمقدم کِیا۔ یہ سن ۱۹۳۶ کا واقعہ ہے مگر مجھے آج بھی اپنی اُس وقت کی گفتگو حرفبہحرف یاد ہے۔ طویل عرصہ سے بائبل تعلیم دینے کے عظیم کام کے ساتھ میری وابستگی کی وجہ سے مجھے ایک بادشاہ کیساتھ اتنی دیر تک گفتگو کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اس وقت میری عمر ۹۵ سال ہے لیکن اب بھی مَیں اس کام میں اپنی شرکت کو یاد کرکے بہت خوش ہوتا ہوں جس کی وجہ سے مَیں نے پانچ مختلف برِاعظموں کا سفر کِیا تھا۔
اس کا آغاز ۱۹۲۵ میں ہوا جب چائے کے ایک سیلزمین، ڈوبسن نے ایڈنبرا، سکاٹلینڈ میں ہمارے خاندان کے پاس آنا شروع کِیا۔ اُس وقت مَیں دواسازی کی تربیت لے رہا تھا۔ اگرچہ مَیں نسبتاً نوعمر ہی تھا توبھی مَیں اُن اچانک تبدیلیوں کی بابت پریشان تھا جو ۱۹۱۴-۱۹۱۸ میں ہونے والی عالمی جنگ خاندانوں اور مذہبی زندگیوں میں لے آئی تھی۔ ایک ملاقات پر ڈوبسن ہمارے پاس کتاب دی ڈیوائن پلان آف دی ایجزز چھوڑ گیا۔ اس میں ایک ذہین خالق اور اُسکے قطعی ”منصوبے“ کو نہایت معقول اور اُس خدا کے شایانِشان پیش کِیا گیا تھا جسکی مَیں پرستش کرنا چاہتا تھا۔
مَیں نے اور میری والدہ نے بہت جلد بائبل سٹوڈنٹس (جیسے کہ اُس وقت یہوواہ کے گواہ مشہور تھے) کے اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کر دیا۔ ستمبر ۱۹۲۶ میں، ہم دونوں نے یہوواہ کے لئے اپنی مخصوصیت کے اظہار میں گلاسکو میں منعقد ہونے والے کنونشن پر بپتسمہ لے لیا۔ بپتسمے کے ہر اُمیدوار کو
نہانے کا ایک لمبا گاؤن فراہم کِیا گیا جسے ٹخنوں کے ساتھ باندھنے کیلئے ڈوری لگی ہوئی تھی تاکہ وہ اُوپر نہ اُٹھے۔ اُس وقت ایسے سنجیدہ موقع کیلئے اِسے مناسب لباس خیال کِیا جاتا تھا۔اُن ابتدائی دنوں میں، مختلف معاملات میں ہماری سمجھ کو بہتر بنانے کی ضرورت تھی۔ کلیسیا کے بیشتر ارکان کرسمس مناتے تھے۔ بہت کم میدانی خدمت میں شریک ہوتے تھے۔ بعض بزرگوں کو اتوار کے دن لٹریچر تقسیم کرنے پر اعتراض تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ سبت کے حکم کی خلافورزی ہوگی۔ تاہم ۱۹۲۵ میں، مینارِنگہبانی کے مضامین نے مرقس ۱۳:۱۰ جیسے صحائف پر زیادہ زور دینا شروع کر دیا جس میں لکھا ہے: ”ضرور ہے کہ پہلے سب قوموں میں انجیل کی منادی کی جائے۔“
یہ عالمگیر کام کیسے تکمیل کو پہنچے گا؟ مَیں نے گھرباگھر منادی کی پہلی کوشش میں صاحبِخانہ کو محض یہ بتایا کہ ہم بہت اچھی مذہبی کتابیں بیچ رہے ہیں اور دی ہارپ آف گاڈ کتاب پیش کی جو کہ بائبل کی دس اہم تعلیمات کی وضاحت کرتی اور اُنہیں بربط کے دس تاروں سے تشبِیہ دیتی ہے۔ بعدازاں ہمیں، ”ٹسٹامونی کارڈ“ فراہم کئے گئے جس پر صاحبِخانہ کو پڑھ کر سنانے کیلئے مختصر پیغام درج ہوتا تھا۔ ہم نے ساڑھے چار منٹ کی ریکارڈشُدہ تقاریر بھی استعمال کیں جنہیں فونوگراف پر سنایا جا سکتا تھا۔ پُرانے ماڈل کی مشین کافی وزنی ہوتی تھی جسے اُٹھانا بہت مشکل ہوتا تھا لیکن نئے ماڈلز کافی ہلکے تھے اور بعض کو تو عمودی حالت میں بھی بجایا جا سکتا تھا۔
سن ۱۹۲۵ سے ۱۹۳۰ تک ہم نے ہر ممکنہ طریقے سے گواہی دینے کا کام کِیا۔ اسکے بعد، ۱۹۴۰ کے دہے کے اوائل ہی میں، تمام کلیسیاؤں میں مسیحی خدمتی سکول کا آغاز ہوا۔ ہمیں سکھایا گیا کہ کیسے ہم ذاتی طور پر صاحبِخانہ کو بادشاہتی پیغام سنا سکتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ دلچسپی رکھنے والے اشخاص کیساتھ گھریلو بائبل مطالعہ کرانا کتنا ضروری ہے۔ باالفاظِدیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ بائبل تعلیم دینے کے عالمگیر کام کی محض ابتدا تھی۔
بھائی رتھرفورڈ کی طرف سے حوصلہافزائی
تعلیمی کام میں بڑھچڑھ کر حصہ لینے کی میری خواہش ۱۹۳۱ میں کُلوقتی پائنیر خدمت میں اندراج کرانے کا باعث بنی۔ لندن میں ایک کنونشن کے فوراً بعد مجھے یہ کام شروع کرنا تھا۔ تاہم، ایک دن دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران بھائی رتھرفورڈ نے جو اُس وقت اس کام کی نگرانی پر مامور تھے مجھ سے بات کرنے کی اجازت چاہی۔ اُس کے ذہن میں کسی پائنیر کو افریقہ بھیجنے کا منصوبہ تھا۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا، ”کیا آپ جانے کے لئے تیار ہیں؟“ اگرچہ مجھے قدرے حیرانی ہوئی توبھی مَیں نے بڑی دلیری سے کہا: ”جیہاں، مَیں ضرور جاؤں گا۔“
اُن دنوں میں ہمارا خاص مقصد زیادہ سے زیادہ بائبل لٹریچر تقسیم کرنا تھا جس کا مطلب ہے کہ ہم نے متواتر ایک سے دوسری جگہ سفر کرتے رہنا تھا۔ میری غیرشادیشُدہ رہنے کے لئے حوصلہافزائی کی گئی کیونکہ اُس وقت نگہبانی کا کام کرنے والے ذمہدار بھائیوں کی اکثریت ایسی ہی تھی۔ میرے علاقے کا آغاز افریقہ کے جنوبی کنارے یعنی کیپ ٹاؤن سے ہوا اور یہ برِاعظم کے مشرقی کنارے کے ساتھ چلتا رہا جس میں بحرِہند کے ساحلی علاقے بھی شامل تھے۔ مغربی سرحد مجھے کلہاری ریگستان کی گرم ریت کے پار اور دریائےنیل کے ماخذ وکٹوریا جھیل تک لے گئی۔ ایک ساتھی کے ساتھ مجھے ہر سال چھ مہینے اس بڑے علاقے میں پھیلے ہوئے افریقی ممالک میں سے کسی ایک میں رہنا تھا۔
روحانی خزانے کے دو سو ڈبے
جب مَیں کیپ ٹاؤن پہنچا تو مجھے مشرقی افریقہ کیلئے بھیجے گئے لٹریچر کے ۲۰۰ ڈبے دکھائے گئے۔ لٹریچر چار یورپی اور چار ایشیائی زبانوں میں شائع کِیا گیا تھا مگر اِن میں سے کوئی بھی افریقی زبان نہیں تھی۔ جب مَیں نے پوچھا کہ یہ سارا لٹریچر میرے پہنچنے سے پہلے کیوں بھیجا گیا ہے تو مجھے جواب ملا کہ یہ دراصل دو پائنیر، فرینک اور گرے سمتھ کیلئے تھا جو منادی کرنے کے لئے حال ہی میں کینیا گئے ہیں۔ جب وہ دونوں کینیا پہنچے تو اُنہیں ملیریا ہو گیا اور فرینک اس سے وفات پا گیا۔
اگرچہ یہ خبر پریشانکُن تھی توبھی مَیں نے لغزش نہ کھائی۔ مَیں اور ڈیوڈ نارمن اپنی پہلی تفویض کے لئے جہاز کے ذریعے کیپ ٹاؤن سے کوئی ۰۰۰،۳ میل دُور تنزانیہ روانہ ہو گئے۔ کینیا ممباسا میں ایک ٹریول ایجنٹ نے ہمارے لٹریچر کی رسد کو اپنے پاس رکھا اور جس جگہ سے بھی ہم درخواست
کرتے وہ وہاں سپلائی بھیج دیتا تھا۔ شروع شروع میں ہم نے کاروباری علاقوں یعنی ہر شہر کی دُکانوں اور دفاتر میں گواہی دی۔ ہمارے لٹریچر میں ۹ کتابوں اور ۱۱ کتابچوں کا ایک سیٹ شامل ہوتا تھا جو کہ اپنے رنگ کی مناسبت سے قوسِقزح کے سیٹ کے طور پر مشہور ہو گیا۔اسکے بعد ہم نے زینزیبار کے جزیرے پر جانے کا فیصلہ کِیا جو کہ مشرقی ساحل کی طرف کوئی ۳۰ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ صدیوں سے زینزیبار غلاموں کی تجارت کا مرکز تھا مگر یہ لونگ کیلئے بھی مشہور تھا کیونکہ ہم ہر جگہ اسکی خوشبو سونگھ سکتے تھے۔ اپنے لئے راستہ تلاش کرنا قدرے مشکل تھا کیونکہ یہ قصبہ کسی منصوبے کے بغیر تعمیر کِیا گیا تھا۔ گلیاں عجیبوغریب تھیں لہٰذا ہمارے لئے راستہ یاد رکھنا یا سمت کا تعیّن کرنا خاصا مشکل تھا۔ ہمارا ہوٹل کافی آرامدہ تھا مگر اس کے چوبی دروازے اور موٹی موٹی دیواروں کی وجہ سے یہ ہوٹل کی بجائے جیلخانہ لگتا تھا۔ تاہم ہمیں وہاں اچھے نتائج حاصل ہوئے اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ عرب، ہندوستانی اور دیگر لوگ خوشی سے لٹریچر قبول کرتے تھے۔
ریلگاڑیاں، کشتیاں اور کاریں
اُن دنوں مشرقی افریقہ میں سفر کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ مثال کے طور پر ممباسا سے واپس کینیا کے پہاڑی علاقے گزرتے وقت ہماری گاڑی پر ٹڈیدَل نے حملہ کر دیا۔ لاکھوں ٹڈیاں زمین اور گاڑی کی پٹڑی پر آ گئیں جس سے وہ پھسلنی ہو گئی اور گاڑی کے پہیوں کا چلنا مشکل ہو گیا۔ واحد حل انجن سے گرم پانی لیکر پٹڑیوں کو دھونا تھا۔ اس طرح گاڑی آہستہ آہستہ چلتی رہی تاوقتیکہ ٹڈیوں کا غول وہاں سے گزر نہ گیا۔ پس ہم نے اُس وقت سکون کا سانس لیا جب گاڑی اُونچائی پر چڑھنے لگی اور ہم قدرے سرد ہوا محسوس کرنے لگے!
اگرچہ ساحلی قصبوں کے لئے ریلگاڑی اور کشتیاں دستیاب تھیں مگر دیہی علاقوں میں کار کے ذریعے بآسانی پہنچا جا سکتا تھا۔ مگر جب میرا چھوٹا بھائی جارج میرے ساتھ شامل ہو گیا تو مَیں بہت خوش تھا کیونکہ اب ہمارے لئے ایک بڑا ٹرک خریدنا ممکن تھا جس میں پلنگ، باورچیخانہ، سٹور بنایا اور جالیدار کھڑکیاں لگائی جا سکتی تھیں۔ ہم نے چھت پر لاؤڈسپیکر بھی نصب کر لئے تھے۔ پس مکمل طور پر تیار ہو کر ہم دن کے دوران گھرباگھر منادی کر سکتے اور شام کے وقت بازار میں دی جانے والی تقاریر کے لئے مدعو کر سکتے تھے۔ ایک عام ریکارڈنگ جو اکثر سنائی جاتی تھی اُس کا عنوان تھا ”کیا دوزخ میں آگ ہے؟“ ہم نے اپنے ”موبائل گھر“ میں جنوبی افریقہ سے کینیا کا بھی سفر کِیا اور ہم خوش تھے کہ اس وقت ہمارے پاس مختلف افریقی زبانوں میں کتابچے دستیاب تھے جنہیں مقامی لوگوں نے بخوشی قبول کِیا تھا۔
اس سفر کے دوران ہمارے لئے سب سے خوشگوار بات یہ تھی کہ ہم افریقہ کے بیشمار حیوانات کو دیکھ سکتے تھے۔ اپنی حفاظت کے پیشِنظر ہم اندھیرا ہو جانے کے بعد وین سے باہر نہیں نکلتے تھے مگر یہوواہ کی اسقدر زیادہ مختلف مخلوقات کو اُن کے فطری ماحول میں دیکھنا واقعی ایمانافزا تھا۔
مخالفت کا آغاز
ہم جنگلی جانوروں سے تو پہلے ہی محتاط تھے مگر مختلف حکومتی اہلکاروں اور چند غضبناک مذہبی پیشواؤں کا سامنا کرنے کے مقابلہ میں یہ کچھ بھی نہیں تھا جنہوں نے کھلمکھلا ہمارے بادشاہتی منادی کے کام کی مخالفت شروع کر دی تھی۔ ایک بڑا مسئلہ جس سے ہمیں نپٹنا پڑا وہ ایک جنونی شخص تھا جو خود کو موانا لیسا کہتا تھا جس کا مطلب ہے، ”خدا کا بیٹا“ اور اُس کا گروپ کٹاوالا کے طور پر مشہور تھا جس کا مطلب بدقسمتی سے ”واچٹاور“ تھا۔ ہمارے وہاں پہنچنے سے کچھ عرصہ پہلے، اس شخص نے بپتسمہ دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے بیشمار افریقیوں کو پانی میں ڈبو دیا تھا۔ انجامکار اُسے گرفتار کرکے پھانسی دے دی گئی۔ بعدازاں مجھے پھانسی دینے والے شخص سے گفتگو کرنے کا موقع ملا اور مَیں نے اُسے بتایا کہ اس شخص کا ہماری واچ ٹاور سوسائٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
بالخصوص مالی اعتبار سے ہمیں بہت سے یورپیوں کے ساتھ بھی مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ وہ ہمارے تعلیمی کام سے خوش نہیں تھے۔ ایک گودام کے مینیجر نے شکایت کی: ”اگر سفیدفام لوگوں نے اس مُلک میں رہنا ہے تو افریقیوں کو یہ معلوم نہیں ہونا چاہئے کہ اُن کی سستی مزدوری سے کیسے ناجائز فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے۔“ اسی وجہ سے، گولڈمائننگ کمپنی کے چیف نے مجھے بِلاوجہ اپنے دفتر سے نکل جانے کا حکم دیا۔ پھر اُس نے گلی میں بھی دُور تک میرا پیچھا کِیا۔
بِلاشُبہ ایسے مذہبی اور تجارتی مخالفین سے متاثر ہو کر، روڈیشیا (زمبابوے) کی حکومت نے بھی ہمیں مُلک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ ہم نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اور ہم اس شرط پر وہاں رہنے کی اجازت لینے میں کامیاب ہو گئے کہ ہم افریقیوں کو منادی نہیں کریں گے۔ ایک افسر نے اس کی یہ وجہ بتائی کہ ہمارا لٹریچر ”افریقی ذہن کے لئے مناسب“ نہیں ہے۔ تاہم، دیگر ممالک میں افریقیوں میں ہمارا تعلیمی کام بِلاروکٹوک جاری رہا۔ اِن ممالک میں سے ایک سوازیلینڈ تھا۔
سوازیلینڈ میں شاہانہ خیرمقدم
سوازیلینڈ، جنوبی افریقہ کا ایک خودمختار مُلک ہے جس کا رقبہ ۷۰۴،۶ مربع میل ہے۔ اس سرگزشت کے آغاز میں متذکرہ خوشگفتار بادشاہ سوبوزا دوم سے ہماری ملاقات یہیں ہوئی تھی۔ وہ انگریزی زبان میں اچھی مہارت رکھتا تھا جو اُس نے برٹش یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران سیکھی تھی۔ عام لباس میں اُس نے ہمارا پُرجوش خیرمقدم کِیا۔
اُس کیساتھ ہماری گفتگو کا محور زمینی فردوس تھا جس میں خدا خلوصدل لوگوں کو زندگی دینا چاہتا ہے۔ اس مضمون میں خاطرخواہ دلچسپی نہ رکھنے کے باوجود اُس نے واضح کِیا کہ وہ اس سے متعلق ایک دوسرے معاملے کی بابت فکرمند ہے۔ بادشاہ غریب اور غیرتعلیمیافتہ لوگوں کے معیارِزندگی کو بہتر بنانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ دُنیائےمسیحیت کے بیشتر مشنریوں کی سرگرمیوں کو پسند نہیں کرتا تھا جو تعلیم کی بجائے چرچ کے ممبر بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ تاہم، بادشاہ ہمارے کئی پائنیرز کی سرگرمیوں سے واقف تھا اور اُس نے
ہمارے بائبل کے تعلیمی کام کے سلسلے میں ہماری تعریف بھی کی بالخصوص اسلئےکہ ہم بِلامعاوضہ یا دیگر مراعات کی توقع کے بغیر یہ کام کرنے کے لئے تیار تھے۔بائبل تعلیم کے کام میں ترقی
سن ۱۹۴۳ میں مشنریوں کی ٹریننگ کے لئے واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ قائم کِیا گیا۔ صرف بائبل لٹریچر پیش کرنے پر توجہ دینے کی بجائے دلچسپی ظاہر کرنے والوں سے دوبارہ ملنے پر زور دیا گیا۔ سن ۱۹۵۰ میں مجھے اور جارج کو گلئیڈ کی ۱۶ ویں کلاس میں حاضر ہونے کی دعوت دی گئی۔ یہیں پہلی بار میری ملاقات ایک اطالوی بہن جین ہائڈ سے ہوئی جسے ہماری گریجویشن کے بعد جاپان میں مشنری کام کی تفویض دی گئی۔ ابھی تک کنوارے رہنے پر بہت زور دیا جاتا تھا، لہٰذا ہماری دوستی آگے نہ بڑھ سکی۔
ہماری گلئیڈ ٹریننگ کے بعد، مجھے اور جارج کو بحرِہند کے ایک جزیرے ماریشس میں مشنری تفویض حاصل ہوئی۔ ہم نے لوگوں کے ساتھ دوستی کی، اُن کی زبان سیکھی اور اُن کے ساتھ بائبل مطالعے کئے۔ بعدازاں، میرے چھوٹے بھائی ولیم اور اُس کی بیوی میورل نے بھی گلئیڈ سے گریجویشن کر لی۔ اُنہیں میرے سابقہ منادی کے علاقے کینیا بھیج دیا گیا۔
آٹھ سال بہت جلد گزر گئے اور پھر ۱۹۵۸ میں نیو یارک میں ایک انٹرنیشنل کنونشن پر میری ملاقات ایک بار پھر جین ہائڈ سے ہوئی۔ ہم میں دوبارہ سے دوستی ہو گئی اور پھر ہماری منگنی ہو گئی۔ میری مشنری تفویض ماریشس سے جاپان ہو گئی اور وہاں ۱۹۵۹ میں ہماری شادی ہو گئی۔ لہٰذا ہم نے ہیروشیما میں مشنری خدمت کے ایک خوشگوار دَور کا آغاز کِیا جہاں اُس وقت ایک چھوٹی سی کلیسیا تھی۔ آج اُس شہر میں ۳۶ کلیسیائیں ہیں۔
جاپان کو الوداع کہنا
سال گزرنے کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل نے ہم دونوں کے لئے مشنری خدمت کو زیادہ مشکل بنا دیا اور بالآخر ہم دونوں کے لئے جاپان کو خیرباد کہنا اور جین کے مُلک آسٹریلیا میں قیامپذیر ہونا ناگزیر ہو گیا۔ جس دن ہم نے ہیروشیما کو چھوڑا اُس دن ہم بہت اُداس تھے۔ ریلوے سٹیشن کے پلیٹفارم پر ہم نے اپنے سب دوستوں کو سائیونارا یعنی الوداع کہا۔
اب ہم آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور اپنی محدود صلاحیتوں کے ساتھ نیو ساؤتھ ویلز کی ریاست میں آرمیڈل کلیسیا میں یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔ تقریباً آٹھ عشروں تک اتنے زیادہ لوگوں تک مسیحی سچائی پہنچانا کس قدر خوشی کا باعث ہوا ہے! مَیں نے بائبل کے تعلیمی پروگرام میں شاندار ترقی کا تجربہ کِیا ہے اور بیشمار روحانی تقریبات کا چشمدید گواہ رہا ہوں۔ اس کا سہرا کسی انسان یا جماعت کے سر نہیں۔ درحقیقت، زبورنویس کے مطابق ’یہ یہوواہ کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔‘—زبور ۱۱۸:۲۳۔
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
میرا بھائی جارج ہماری ہاؤس کار کیساتھ
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
مَیں وکٹوریا جھیل پر
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
سن ۱۹۳۸ میں سوازیلینڈ میں ایک پبلک تقریر پر حاضر ہونے والے ہائی سکول کے طالبعلم
[صفحہ ۳۰ پر تصویریں]
جین کیساتھ ۱۹۵۹ میں اپنی شادی کے دن اور آج