ایک ناآشنا خدا پر ایمان رکھنا
ایک ناآشنا خدا پر ایمان رکھنا
جرمنی میں تین میں سے دو اشخاص خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ تاہم جب ایک ہزار سے زیادہ لوگوں سے کہا گیا کہ جس خدا پر وہ ایمان رکھتے ہیں اُسکی بابت بیان کریں تو تقریباً تمام لوگوں کے جوابات مختلف تھے۔ ”خدا کی بابت جرمن لوگوں کے انفرادی نظریات اتنے ہی مختلف ہیں جتنے کہ یہاں کے لوگ،“ نیوزمیگزین فوکس رسالہ رپورٹ دیتا ہے۔ اگر خدا پر ایمان رکھنا قابلِتعریف امر ہے تو کیا ایک ناآشنا خدا پر ایمان رکھنا قابلِافسوس امر نہیں ہے؟
خدا کی ذات کی بابت ایسی بےیقینی جرمنی کی سرحدوں کے پار یورپ کے دیگر علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ آسٹریا، برطانیہ اور نیدرلینڈز میں کئے جانے والے ایک سروے نے اس عام نظریے کو آشکارا کِیا کہ خدا ”ایک بڑی طاقت یا ناقابلِبیان بھید ہے۔“ بالخصوص نوجوانوں کے نزدیک، حتیٰکہ جو اُس پر ایمان رکھتے ہیں، اُن کے نزدیک بھی خدا ایک بھید ہے۔
کیا آپ ذاتی طور پر خدا کو جانتے ہیں؟
ایک شخص کو جاننے اور اُسے ذاتی طور پر جاننے میں بہت فرق ہے۔ کسی شخص کو جاننے—ایک ناقابِلرسائی حاکم، ایک مشہور کھلاڑی، کسی فلمی ستارے—کا مطلب محض اُسکے وجود کو تسلیم کرنا ہے۔ تاہم، کسی شخص کو ذاتی طور پر جاننا اس سے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں اُسکے کردار، چالچلن، احساسات، پسند، ناپسند اور مستقبل کیلئے اُسکے منصوبوں سے واقف ہونا شامل ہے۔ کسی کو ذاتی طور پر جاننا اُس کیساتھ ایک قریبی رشتہ اُستوار کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
لاکھوں اشخاص اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خدا کی بابت ایک مبہم نظریہ رکھنا—یا محض اُسکے وجود کو تسلیم کرنا—کافی نہیں ہے۔ وہ خدا کو قریب سے جاننے کیلئے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ کیا اُنکی کاوشیں کارگر ثابت ہوئی ہیں؟ شمالی جرمنی میں رہنے اور خدا پر عام ایمان رکھنے والے پال نے اُسے ذاتی طور پر جاننے کی مزید کوشش کرنے کا فیصلہ کِیا۔ پال بیان کرتا ہے: ”خدا کو اچھی طرح جاننے کیلئے وقت اور کوشش درکار ہے لیکن اسکا اَجر اس سے کہیں زیادہ ہے۔ خالق کیساتھ قریبی رشتہ روزمرّہ زندگی کو قدرے بہتر بنا دیتا ہے۔“
کیا خدا کو بہت قریب سے جاننے کیلئے درکار وقت اور کوشش کارآمد ثابت ہوتی ہے؟ براہِمہربانی اگلا مضمون پڑھیں۔
[صفحہ ۳ پر تصویر کی عبارت]
ایک شخص کو جاننے اور اُسے ذاتی طور پر جاننے میں بہت فرق ہے