’نجات یہوواہ کی طرف سے ہے‘
’نجات یہوواہ کی طرف سے ہے‘
قومی بحران اور بینالاقوامی کشیدگی میں لوگ سلامتی اور تحفظ کے لئے اپنی حکومت پر آس لگاتے ہیں۔ حکومت بھی اپنے طور پر عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کے منصوبے ترتیب دیتی ہے۔ یہ پروگرام حبالوطنی کے احساس کو جتنا زیادہ اُجاگر کرتے ہیں قومپرستی کی تقریبات میں اَور بھی اضافہ اور جوشوخروش پیدا ہو جاتا ہے۔
قومی بحران کے دوران، حبالوطنی کا جذبہ لوگوں میں اکثر اتحادوطاقت کا احساس پیدا کرتے ہوئے تعاون اور قومی فلاح کی روح کو فروغ دیتا ہے۔ تاہم، دی نیو یارک ٹائمز میگزین کا ایک مضمون بیان کرتا ہے، ”حبالوطنی کا جذبہ دیگر جذبات کی طرح اچانک بھڑک سکتا ہے اور اگر ایسا ہو جائے تو یہ خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے۔“ اسکے اظہارات ایسے کاموں میں بدل سکتے ہیں جو ملک کے بعض شہریوں کی قومی اور مذہبی آزادی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ خاص طور پر، سچے مسیحی اپنے اعتقادات پر مصالحت کرنے کے دباؤ میں آتے ہیں۔ وہ اپنے اردگرد کی دُنیا کو متاثر کرنے والے اس ماحول میں کیسا چالچلن برقرار رکھتے ہیں؟ کونسے صحیفائی اصول بصیرت سے کام لینے اور خدا کے حضور راستی برقرار رکھنے میں اُنکی مدد کرتے ہیں؟
”تُو اُنکے آگے سجدہ نہ کرنا“
بعضاوقات جھنڈے کی سلامی حبالوطنی کے جذبات کا ایک عام اظہار بن جاتی ہے۔ تاہم جھنڈے پر بنے ہوئے ستارے اور دیگر علامات اکثر آسمانی اور زمینی چیزوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خدا نے ایسی علامات کو سجدہ کرنے کی بابت اپنا نقطۂنظر واضح کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو حکم دیا: ”تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے۔ تُو اُنکے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ اُنکی عبادت کرنا کیونکہ مَیں [یہوواہ] تیرا خدا غیور خدا ہوں۔“—خروج ۲۰:۴، ۵۔
کیا ملک کی نمائندگی کرنے والے جھنڈے کو سلامی دینا یا اس کے آگے جھکنا یہوواہ خدا کی بِلاشرکتِغیرے عقیدت کے حکم کی خلافورزی ہے؟ درحقیقت، بیابان میں قدیم اسرائیلی ”نشانات“ یا علامات کے گرد اپنے آبائی خاندانوں کے مطابق جمع ہوا کرتے تھے۔ (گنتی ۲:۱، ۲) ایسی علامات کی نمائندگی کرنے والے عبرانی الفاظ پر تبصرہ کرتے ہوئے میککلنٹاک اور سٹرانگ سائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے: ”ان میں سے کوئی بھی لفظ ’معیار‘ کے لئے وہ خیال پیش نہیں کرتا جو ہمارے ذہنوں میں ہے یعنی جھنڈا۔“ اسکے علاوہ، اسرائیلیوں کے معیار مُقدس خیال نہیں کئے جاتے تھے اور نہ ہی ان کے استعمال کے ساتھ کوئی رسومات وابستہ تھیں۔ ان علامات کا عملی مقصد محض جمع ہونے میں لوگوں کی راہنمائی کرنا تھا۔
مسکن اور سلیمان کی ہیکل میں کروبی بنیادی طور پر آسمانی کروبیوں کی عکاسی کرتے تھے۔ (خروج ۲۵:۱۸؛ ۲۶:۱، ۳۱، ۳۳؛ ۱-سلاطین ۶:۲۳، ۲۸، ۲۹؛ عبرانیوں ۹:۲۳، ۲۴) یہ حقیقت ہے کہ لوگ عموماً کروبیوں کی ان علامات کو دیکھ نہیں سکتے تھے اور فرشتوں کی عبادت سے ممانعت ظاہر کرتی ہے کہ ان کی پرستش نہیں کی جانی تھی۔—کلسیوں ۲:۱۸؛ مکاشفہ ۱۹:۱۰؛ ۲۲:۸، ۹۔
اُس پیتل کے سانپ پر بھی غور کریں جو موسیٰ نبی نے بیابان میں اسرائیلیوں کے عارضی قیام کے دوران بنایا تھا۔ یہ شکل یا مورت نبوّتی اہمیت رکھنے والی ایک علامت تھی۔ (گنتی ۲۱:۴-۹؛ یوحنا ۳:۱۴، ۱۵) اس کی تعظیم نہیں کی جاتی تھی یا یہ پرستش کیلئے استعمال نہیں ہوتی تھی۔ تاہم، موسیٰ کے زمانہ کے صدیوں بعد، اسرائیلی نامناسب طور پر اس علامت کے آگے بخور جلاتے ہوئے اسکی پرستش کرنے لگے۔ پس، یہودیہ کے بادشاہ حزقیاہ نے اسے چکناچُور کر دیا۔—۲-سلاطین ۱۸:۱-۴۔
کیا قومی پرچم محض کسی کارآمد مقصد کو سرانجام دینے والی علامات ہیں؟ یہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں؟ مصنف جے. پول ولیمز نے بیان کِیا، ”قومپرستی میں ایمان کا بنیادی نشان اور پرستش کی مرکزی علامت پرچم ہے۔“ انسائیکلوپیڈیا امریکانا بیان کرتا ہے: ”کراس کی طرح پرچم بھی مُقدس ہے۔“ جھنڈا ملک کی علامت ہے۔ لہٰذا اسے سجدہ کرنا یا سلامی دینا ملک کی تعظیم کی ایک مذہبی رسم ہے۔ ایسا عمل ملک کو مخلصی کا ذمہدار ٹھہراتا ہے اور بُتپرستی کی بابت بائبل کے بیان سے مطابقت نہیں رکھتا۔
صحائف واضح طور پر بیان کرتے ہیں: ”نجات [یہوواہ] کی طرف سے ہے۔“ (زبور ۳:۸) انسانی تنظیموں یا اُنکی علامات کو نجات کا ذریعہ قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ پولس رسول نے ساتھی مسیحیوں کو نصیحت کی: ”اَے میرے پیارو! بُتپرستی سے بھاگو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۴) ابتدائی مسیحی ملک کی پرستش کی رسومات میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ کتاب دوز اباؤٹ ٹو ڈائی (موت کیلئے مقرر لوگ) میں ڈینئل پی. مےنکس نے بیان کِیا: ”مسیحی . . . [رومی] بادشاہ کی شان میں قربانی پیش کرنے سے انکار کرتے تھے—جو آجکل جھنڈے کو سلامی دینے سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔“ آجکل سچے مسیحیوں کی بابت بھی یہ بات سچ ہے۔ یہوواہ کیلئے بِلاشرکتِغیرے عقیدت ظاہر کرنے کیلئے وہ کسی بھی ملک کے پرچم کو سلامی دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ حکومتوں اور اُنکے حکمرانوں کیلئے احترام برقرار رکھتے ہوئے خدا کو اوّل درجہ دیتے ہیں۔ بیشک، وہ ملک میں ”اعلےٰ حکومتوں“ کے تابع رہنے کی ذمہداری کو تسلیم کرتے ہیں۔ (رومیوں ۱۳:۱-۷) تاہم، قومی ترانے جیسے حبالوطنی کے گیت گانے کی بابت صحیفائی نقطۂنظر کیا ہے؟
قومی ترانے کیا ہیں؟
”قومی ترانے حبالوطنی کے احساس کے اظہارات ہیں جن میں اکثر الہٰی راہنمائی اور لوگوں یا حکمرانوں کیلئے تحفظ کی التجا شامل ہوتی ہے،“ دی انسائیکلوپیڈیا امریکانا بیان کرتا ہے۔ قومی ترانہ درحقیقت ملک کیلئے ایک حمدیہ گیت یا دُعا ہے۔ اس میں بالعموم ملک کی مادی خوشحالی اور دوامیت کی درخواست شامل ہوتی ہے۔ کیا سچے مسیحیوں کو ایسے دُعائیہ جذبات میں شامل ہونا چاہئے؟
یرمیاہ نبی خدا کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کے زمانہ میں رہتا تھا۔ تاہم، یہوواہ نے اُسے حکم دیا: ”تُو اِن لوگوں کے لئے دُعا نہ کر اور انکے واسطے آواز بلند نہ کر اور مجھ سے مِنت اور شفاعت نہ کر کیونکہ مَیں تیری نہ سنونگا۔“ (یرمیاہ ۷:۱۶؛ ۱۱:۱۴؛ ۱۴:۱۱) یرمیاہ کو یہ حکم کیوں دیا گیا تھا؟ اسلئےکہ اُنکے معاشرے میں چوری، خون، زناکاری، جھوٹی قسم کھانا اور بُتپرستی عام تھی۔—یرمیاہ ۷:۹۔
اس سلسلے میں یسوع مسیح نے یہ بیان کرکے ایک مثال قائم کی: ”مَیں دُنیا کے لئے درخواست نہیں کرتا بلکہ اُنکے لئے جنہیں تُو نے مجھے دیا ہے۔“ (یوحنا ۱۷:۹) صحائف بیان کرتے ہیں کہ ”ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے“ اور ”مٹتی جاتی“ ہے۔ (۱-یوحنا ۲:۱۷؛ ۵:۱۹) پس سچے مسیحی ایسے نظام کی خوشحالی اور دوامیت کیلئے خلوصدلی سے دُعا کیسے کر سکتے ہیں؟
بیشک، تمام قومی ترانوں میں خدا سے مناجات شامل نہیں ہوتیں۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے ”حاکموں کیلئے دُعاؤں سے لیکر قومی اہمیت کی حامل جنگوں یا انقلابات کے حوالوں اور . . . حبالوطنی کے احساس کے اظہارات تک، قومی ترانوں میں مختلف جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔“ تاہم کیا خدا کو خوش کرنے کے خواہاں لوگ واقعی قومی جنگوں اور انقلابات پر فخر کر سکتے ہیں؟ سچے پرستاروں کی بابت یسعیاہ نے پیشینگوئی کی: ”وہ اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھالوں کو ہنسوئے بنا ڈالینگے۔“ (یسعیاہ ۲:۴) پولس رسول نے لکھا، ”ہم اگرچہ جسم میں زندگی گذارتے ہیں مگر جسم کے طور پر لڑتے نہیں۔ اسلئےکہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں۔“—۲-کرنتھیوں ۱۰:۳، ۴۔
قومی ترانے اکثر قومی تکبّر یا برتری کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس نقطۂنظر کی بنیاد صحیفائی نہیں۔ پولس رسول نے اریوپگس پر اپنی باتچیت میں بیان کِیا: ”[یہوواہ] نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام رویِزمین پر رہنے کے لئے پیدا کی۔“ (اعمال ۱۷:۲۶) ”خدا کسی کا طرفدار نہیں،“ پطرس رسول نے بیان کِیا، ”بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُسکو پسند آتا ہے۔“—اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵۔
بہتیرے لوگ بائبل کی سمجھ حاصل کرنے کے بعد ذاتی فیصلے کی بنیاد پر جھنڈے کی سلامی میں حصہ لینے اور قومی ترانے گانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ تاہم ان معاملات کا براہِراست سامنا کرتے وقت وہ کونسا مؤقف اختیار کر سکتے ہیں؟
احترام کیساتھ اجتناب کریں
قدیم بابل کے بادشاہ نبوکدنضر نے اپنی سلطنت کے اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوشش میں دُورا کے میدان میں سونے کی ایک بہت بڑی مورت نصب کرائی۔ اسکے بعد اُس نے ایک افتتاحی تقریب کا بندوبست کِیا جس میں اُس نے ناظموں، حاکموں، سرداروں اور قاضیوں اور دیگر اعلیٰ افسران کو مدعو کِیا۔ موسیقی کی آواز سنائی دینے پر تمام مندوبین کو اس مورت کے سامنے جھک کر سجدہ کرنا تھا۔ جن لوگوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا گیا تھا اُن میں تین عبرانی نوجوان—سدرک، میسک اور عبدنجو بھی شامل تھے۔ اُنہوں نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ اس مذہبی رسم میں شریک نہیں؟ جب موسیقی شروع ہوئی اور حاضرین نے مورت کو جھک کر سجدہ کِیا تو یہ تینوں عبرانی کھڑے رہے۔—دانیایل ۳:۱-۱۲۔
آجکل، ہاتھ بالکل سیدھے رکھ کر یا اسے ماتھے یا دل پر رکھ کر پرچم کو سلامی دی جاتی ہے۔ بعضاوقات کوئی خاص انداز اپنایا جا سکتا ہے۔ بعض ممالک کے سکولوں میں بچوں سے گھٹنوں کے بل جھک کر پرچم کو چومنے کی توقع کی جاتی ہے۔ جب دوسرے پرچم کو سلام کرتے ہیں تو سچے مسیحی خاموشی سے کھڑے رہنے سے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بااحترام مشاہدین ہیں۔
اگر جھنڈے کی رسم اس طرح منائی جاتی ہے کہ محض کھڑے رہنا ہی شمولیت کا اظہار ہے تو پھر کیا ہو؟ مثال کے طور پر، فرض کریں کہ
پورے سکول کی نمائندگی کرنے کیلئے ایک طالبعلم کو باہر بانس پر لہراتے ہوئے پرچم کو سلامی دینے کیلئے منتخب کِیا جاتا ہے جبکہ دوسرے طالبعلموں سے کلاسروم ہی میں باادب کھڑے رہنے کی توقع کی جاتی ہے۔ اس موقع پر کھڑے رہنے کا عمل باہر لہراتے ہوئے پرچم کو سلامی دینے والے طالبعلم کو ایک ذاتی نمائندہ کے طور پر قبول کرنے کا اشارہ دیتا ہے۔ لہٰذا کھڑے رہنے کا مطلب اس تقریب میں شامل ہونا ہے۔ اگر ایسا ہے تو بااحترام مشاہدین خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں۔ تاہم، اگر کلاس رسم شروع ہونے سے پہلے ہی کھڑی ہے تو پھر کِیا ہو؟ اس صورت میں اگر ہم کھڑے رہیں تو یہ عمل شمولیت ظاہر نہیں کرتا۔فرض کریں کہ ایک شخص سے کسی مظاہرے، کلاسروم یا کسی اَور جگہ جھنڈے کو سلام کرنے کی بجائے محض اُسے اُٹھانے کی درخواست کی جاتی ہے تاکہ دوسرے اسے سلامی دے سکیں۔ یہ صحائف کے حکم ’بُتپرستی سے بھاگنے‘ کی بجائے اس رسم میں درحقیقت مرکزی کردار ادا کرنے کا مطلب رکھتا ہے۔ حبالوطنی کے جلسے میں حصہ لینے کی بابت بھی یہ بات سچ ہے۔ ایسا کرنے کا مطلب اُس چیز کی حمایت کرنا ہے جس کے لئے جلسہ احترام ظاہر کرتا ہے اسلئےکہ سچے مسیحی اس پر شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
جب قومی ترانہ بجایا جاتا ہے تو عموماً ایک شخص محض کھڑا رہنے سے یہ ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ اس گیت میں ظاہرکردہ جذبات کی قدر کرتا ہے۔ ایسے مواقع پر مسیحی بیٹھے رہتے ہیں۔ تاہم، اگر قومی ترانہ بجنے سے پہلے ہی وہ کھڑے ہیں تو ضروری نہیں کہ اُس وقت وہ بیٹھ جائیں۔ اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اُنہوں نے ترانے کیلئے خاص طور پر کھڑے رہنے کا انتخاب کِیا ہے۔ اسکے برعکس، اگر ایک گروپ سے کھڑے رہنے اور ترانہ پڑھنے کی توقع کی جاتی ہے تو پھر ترانہ پڑھنے کی بجائے احترام ظاہر کرنے کیلئے کھڑے رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس گیت میں ظاہرکردہ جذبات سے اتفاق کرتے ہیں۔
’نیت نیک رکھو‘
انسانوں کی بنائی گئی پرستش کی علامات کے غیرمؤثر ہونے کی بابت بیان کرنے کے بعد زبورنویس نے کہا: ”اُنکے بنانے والے اُن ہی کی مانند ہو جائینگے۔ بلکہ وہ سب جو اُن پر بھروسا رکھتے ہیں۔“ (زبور ۱۱۵:۴-۸) پس واضح طور پر، یہوواہ کے پرستاروں کیلئے ایسی کوئی بھی ملازمت ناقابلِقبول ہے جو قومی پرچم کے علاوہ دیگر پرستش کی علامات بنانے سے براہِراست تعلق رکھتی ہے۔ (۱-یوح ۵:۲۱) بصورتِدیگر جب جائےملازمت پر مسیحی احترام کیساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ سوائے یہوواہ کے وہ جھنڈے اور اُس چیز کی پرستش نہیں کرتے جسکی وہ نمائندگی کرتا ہے تو انہیں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر، ایک تاجر اپنے ملازم سے کسی عمارت پر لہرانے والے پرچم کو اُونچا کرنے یا اسے اُتارنے کیلئے کہہ سکتا ہے۔ ایسا کرنے یا نہ کرنے کا انحصار حالات کی بابت ایک شخص کے ذاتی نقطۂنظر پر ہے۔ اگر پرچم بلند کرنا یا اُسے اُتارنا ایک خاص تقریب کا حصہ ہے جس میں لوگ باادب کھڑے ہوتے یا اسے سلامی دیتے ہیں توپھر یہ عمل اس رسم میں شرکت کے برابر ہے۔
اس کے برعکس، اگر پرچم بلند کرنے یا اسے اُتارنے کیساتھ کوئی تقریب وابستہ نہیں توپھر ایسے کام زیرِاستعمال جگہ تیار کرنے، دروازوں کے تالے بند کرنے اور کھولنے اور کھڑکیاں کھولنے اور بند کرنے جیسی عام کارگزاریوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں، پرچم محض ملک کی علامت ہے اور اُسے بلند کرنا یا اُتارنا حسبِمعمول کاموں کی طرح بائبل سے تربیتیافتہ ضمیر پر مبنی ذاتی فیصلے سے تعلق رکھنے والا معاملہ ہے۔ (گلتیوں ۶:۵) ایک شخص کا ضمیر اُسے اپنے منتظم سے یہ کہنے کی تحریک دے سکتا ہے کہ وہ پرچم بلند کرنے یا اسے اُتارنے کیلئے کسی دوسرے ملازم سے درخواست کرے۔ کوئی دوسرا مسیحی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اگر اس سے کوئی رسم جڑی ہوئی نہیں تو اُسکا ضمیر اُسے پرچم کو چڑھانے یا اُتارنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو، سچے پرستاروں کو خدا کے حضور ’نیک نیت برقرار رکھنی‘ چاہئے۔—۱-پطرس ۳:۱۶۔
فائر سٹیشنوں، بلدیاتی دفاتر اور سکولوں جیسی عوامی جگہوں پر کام کرنا صحیفائی طور پر قابلِاعتراض نہیں ہے۔ ڈاک کے ٹکٹ، گاڑیوں کی لائسنس پلیٹ یا حکومت کی طرف سے تیارکردہ دیگر مصنوعات پر جھنڈے کی تصویر ہو سکتی ہے۔ جب لوگ ایسی مصنوعات استعمال کرتے ہیں تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ پرستش کی رسومات میں شرکت کر رہے ہیں۔ یہاں پر جھنڈے یا اُسکی تصویر کی موجودگی کی بجائے یہ بات اہم ہے کہ ایک شخص اسے کیسا خیال کرتا ہے۔
پرچم اکثر کھڑکیوں، دروازوں، گاڑیوں، ڈیسکوں یا دیگر چیزوں پر نمایاں کئے جاتے ہیں۔ ایسے کپڑے بھی خریدے جاتے ہیں جن پر جھنڈے نقش ہوتے ہیں۔ بعض ممالک میں ایسا لباس پہننا غیرقانونی ہے۔ اگر یہ عمل قانون کی خلافورزی نہ ہو توبھی یہ دُنیا کی بابت ایک شخص کے نقطۂنظر کی بابت کیا ظاہر کریگا؟ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کی بابت کہا: ”جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔“ (یوحنا ۱۷:۱۶) ساتھی ایمانداروں پر ایسے کام کے اثر کو فراموش نہیں کِیا جا سکتا۔ کیا یہ بعض لوگوں کے ضمیر کو نقصان پہنچا سکتا ہے؟ کیا ایمان میں قائم رہنے کی بابت اُنکا عزم کمزور پڑ سکتا ہے؟ پولس نے مسیحیوں کو نصیحت کی: ”عمدہ عمدہ باتوں کو پسند کر سکو اور . . . صاف دل رہو اور ٹھوکر نہ کھاؤ۔“—فلپیوں ۱:۱۰۔
”سب کے ساتھ نرمی“ سے پیش آؤ
اِن ’بُرے دنوں‘ میں بگڑتے ہوئے دُنیاوی حالات کے پیشِنظر حبالوطنی کے احساسات غالباً شدید ہوتے جائینگے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱) دُعا ہے کہ خدا سے محبت رکھنے والے لوگ اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ مخلصی صرف یہوواہ کی طرف سے ہے۔ وہی بِلاشرکتِغیرے عقیدت کا مستحق ہے۔ جب یسوع کے شاگردوں کو ایسا کام کرنے کیلئے کہا گیا جو یہوواہ کی مرضی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا تو اُنہوں نے جواب دیا: ”ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔“—اعمال ۵:۲۹۔
پولس رسول نے لکھا، ”مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کے ساتھ نرمی کرے۔“ (۲-تیمتھیس ۲:۲۴) پس مسیحی بائبل سے تربیتیافتہ اپنے ضمیر کی مدد سے جھنڈے کی سلامی اور قومی ترانہ پڑھنے کی بابت ذاتی فیصلہ کرتے وقت پُرامن، بااحترام اور بُردبار ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
پُرعزم مگر بااحترام، تین عبرانی خدا کو خوش کرنے کا انتخاب کرتے ہیں
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
جبالوطنی کی تقریب کے دوران ایک مسیحی کو کیا کرنا چاہئے؟