اپنے صبر پر خدائی عقیدت بڑھاؤ
اپنے صبر پر خدائی عقیدت بڑھاؤ
”اپنے ایمان پر . . . صبر اور صبر پر دینداری [”خدائی عقیدت،“اینڈبلیو] . . . بڑھاؤ۔“ —۲-پطرس ۱:۵، ۶۔
۱، ۲. (ا) ایک بچے کے معاملے میں کس قسم کی نشوونما کی توقع کی جاتی ہے؟ (ب) روحانی نشوونما کسقدر اہم ہے؟
بچے کی نشوونما اہمیت کی حامل ہے لیکن صرف جسمانی نشوونما ہی کافی نہیں۔ ذہنی اور جذباتی نشوونما کی بھی توقع کی جاتی ہے۔ وقت آنے پر بچہ بچگانہ طریقوں کو ترک کرکے ایک بالغ مرد یا عورت بن جائیگا۔ پولس رسول نے اس بات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ”جب مَیں بچہ تھا تو بچوں کی طرح بولتا تھا۔ بچوں کی سی طبیعت تھی۔ بچوں کی سی سمجھ تھی لیکن جب جوان ہوا تو بچپن کی باتیں ترک کر دیں۔“—۱-کرنتھیوں ۱۳:۱۱۔
۲ پولس کے الفاظ روحانی نشوونما کی بابت ایک اہم نکتے پر زور دیتے ہیں۔ مسیحیوں کو روحانی مفہوم میں بطور بچوں سے ترقی کرکے ”سمجھ میں جوان“ بننے کی ضرورت ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۲۰) انہیں ”مسیح کے پورے قد کے اندازہ تک“ پہنچنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ اسطرح وہ ”ہر ایک تعلیم کے جھوکے سے موجوں کی طرح اُچھلتے بہتے نہ“ پھرینگے۔—افسیوں ۴:۱۳، ۱۴۔
۳، ۴. (ا) روحانی طور پر جوان بننے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ (ب) ہمیں کونسی خدائی خوبیاں ظاہر کرنی چاہئیں اور ان کی کیا اہمیت ہے؟
۳ ہم روحانی طور پر جوان کیسے بن سکتے ہیں؟ اگرچہ جسمانی نشوونما خودبخود ہوتی ہے لیکن روحانی نشوونما حقیقی کوشش کا تقاضا کرتی ہے۔ اسکا آغاز خدا کے کلام کا صحیح علم حاصل کرنے اور سیکھی ہوئی باتوں کی مطابقت میں عمل کرنے سے ہوتا ہے۔ (عبرانیوں ۵:۱۴؛ ۲-پطرس ۱:۳) یوں ہم خدائی خوبیاں ظاہر کرنے کے قابل بنتے ہیں۔ جسمانی نشوونما کے مختلف پہلوؤں کی طرح، خدائی خوبیاں بھی اکثر ایک ساتھ فروغ پاتی ہیں۔ پطرس رسول نے لکھا: ”تم اپنی طرف سے کمال کوشش کرکے اپنے ایمان پر نیکی اور نیکی پر معرفت۔ اور معرفت پر پرہیزگاری اور پرہیزگاری پر صبر اور صبر پر دینداری۔ اور دینداری پر برادرانہ اُلفت اور برادرانہ اُلفت پر محبت بڑھاؤ۔“—۲-پطرس ۱:۵-۷۔
۴ پطرس کی بیانکردہ ہر خوبی اہمیت کی حامل ہے اور کسی کو بھی فراموش نہیں کِیا جا سکتا۔ وہ مزید بیان کرتا ہے: ”اگر یہ باتیں تم میں موجود ہوں اور زیادہ بھی ہوتی جائیں تو تم کو ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کے پہچاننے میں بیکار اور بےپھل نہ ہونے دینگی۔“ (۲-پطرس ۱:۸) پس ہمیں صبر کیساتھ ساتھ خدائی عقیدت کو فروغ دینے پر پوری توجہ دینی چاہئے۔
صبر کی ضرورت
۵. ہمیں صبر کی ضرورت کیوں ہے؟
۵ پطرس اور پولس نے خدائی عقیدت کو صبر کیساتھ منسلک کِیا۔ (۱-تیمتھیس ۶:۱۱) صبر محض مشکلات برداشت کرنے اور ثابتقدم رہنے کا نام نہیں۔ اس میں مشکلات، رکاوٹوں، آزمائشوں یا اذیتوں کا سامنا کرتے وقت اُمید کا دامن چھوڑے بغیر تحمل، دلیری اور مستعدی کا مظاہرہ کرنا شامل ہے۔ ”مسیح یسوؔع میں دینداری کے ساتھ زندگی“ گزارنے کی وجہ سے ہم اذیت کی توقع رکھتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۲) یہوواہ کیلئے اپنی محبت کا ثبوت دینے اور نجات کیلئے درکار خوبیاں پیدا کرنے کے لئے ہمیں صبر کی ضرورت ہے۔ (رومیوں ۵:۳-۵؛ ۲-تیمتھیس ۴:۷، ۸؛ یعقوب ۱:۳، ۴، ۱۲) صبر کے بغیر ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکیں گے۔—رومیوں ۲:۶، ۷؛ عبرانیوں ۱۰:۳۶۔
۶. آخر تک برداشت کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۶ ایک شاندار آغاز کے باوجود ہمارے لئے سب سے ضروری خوبی برداشت ہے۔ یسوع نے بیان کِیا: ”جو آخر تک برداشت کریگا وہ متی ۲۴:۱۳) جیہاں، ہمیں اپنی موجودہ زندگی کے آخر تک یا اس شریر نظاماُلعمل کے آخر تک برداشت کرنا ہے۔ دونوں صورتوں میں ہمیں خدا کیلئے راستی برقرار رکھنی ہے۔ تاہم، ہم خدائی عقیدت کے بغیر محض صبر کے ذریعے یہوواہ کو خوش اور ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتے۔ لیکن خدائی عقیدت کیا ہے؟
نجات پائیگا۔“ (خدائی عقیدت کا مطلب
۷. خدائی عقیدتکیا ہے اور یہ ہمیں کیا کرنے کی تحریک دیتی ہے؟
۷ خدائی عقیدت یہوواہ خدا کی حاکمیت کی وفادارانہ اطاعت میں ذاتی طور پر اسکی تعظیم، پرستش اور خدمت کا نام ہے۔ یہوواہ کے لئے خدائی عقیدت کو عمل میں لانے کیلئے ہمیں اُسکے اور اُسکی راہوں کے صحیح علم کی ضرورت ہے۔ ہمارے اندر خدا کو ذاتی اور قریبی طور پر جاننے کا اشتیاق ہونا چاہئے۔ اس سے ہمیں اپنے دل میں اُس کیلئے گہری محبت پیدا کرنے کی تحریک ملیگی جو ہمارے کاموں اور طرزِزندگی سے ظاہر ہوگی۔ ہمیں ممکنہ طور پر یہوواہ کی مانند بننے—اُسکی راہوں کی نقل کرنے اور اُسکی خوبیوں اور شخصیت کو ظاہر کرنے کے خواہاں ہونا چاہئے۔ (افسیوں ۵:۱) واقعی، خدائی عقیدت ہمیں اپنے تمام کاموں میں خدا کی خوشی کے طالب ہونے کی تحریک دیتی ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۰:۳۱۔
۸. خدائی عقیدت اور بِلاشرکتِغیرے عقیدت کا آپس میں کیا تعلق ہے؟
۸ حقیقی خدائی عقیدت ظاہر کرنے کیلئے ہمیں یہوواہ کے سوا کسی اَور کو اپنے دل میں جگہ دئے بغیر صرف اُسی کی پرستش کرنی چاہئے۔ ہمارے خالق کے طور پر وہ ہماری بِلاشرکتِغیرے عقیدت کا مستحق ہے۔ (استثنا ۴:۲۴؛ یسعیاہ ۴۲:۸) اسکے باوجود، یہوواہ ہم پر دباؤ نہیں ڈالتا کہ ہم اُسکی پرستش کریں۔ اُسے ہماری رضاکارانہ عبادت منظور ہے۔ خدا کی بابت صحیح علم پر مبنی محبت ہمیں اپنی زندگی کو پاکصاف کرنے، اُس کیلئے دلوجان سے مخصوص ہونے اور اسکی مطابقت میں زندگی بسر کرنے کی تحریک دیتی ہے۔
خدا کیساتھ رشتہ اُستوار کریں
۹، ۱۰. ہم خدا کیساتھ ایک قریبی رشتہ کیسے اُستور اور قائم رکھ سکتے ہیں؟
۹ خدا کیلئے اپنی مخصوصیت کے اظہار میں بپتسمہ لینے کے بعد بھی ہمیں اُس کیساتھ زیادہ قریبی رشتہ اُستوار کرنے کی ضرورت ہے۔ پس ایسا کرنے کی ہماری خواہش اور یہوواہ کی وفادارانہ خدمت ہمیں اُسکے کلام کا مطالعہ جاری رکھنے اور اُس پر غوروخوض کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔ خدا کی روح کو اپنے دلودماغ پر اثر کرنے کی اجازت دینے سے یہوواہ کیلئے ہماری محبت اَور بھی گہری ہو جاتی ہے۔ اُس کیساتھ ہمارا رشتہ ہماری زندگی کا محور بن جاتا ہے۔ ہم یہوواہ کو اپنا بہترین دوست خیال کرتے ہیں اور ہمیشہ اُسکی خوشی چاہتے ہیں۔ (۱-یوحنا ۵:۳) خدا کیساتھ ہمارا خوشگوار رشتہ ہماری خوشی کو دوبالا کرتا ہے اور ہم بوقتِضرورت اُسکی مشفقانہ تربیت اور اصلاح کیلئے شکرگزار ہوتے ہیں۔—استثنا ۸:۵۔
۱۰ اگر ہم یہوواہ کے ساتھ اپنے بیشقیمت رشتے کو مضبوط کرنے کی مستعد کوشش نہ کریں تو یہ کمزور پڑ سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو خدا اسکا ذمہدار نہیں کیونکہ ”وہ ہم میں سے کسی سے دُور نہیں۔“ (اعمال ۱۷:۲۷) ہم کسقدر خوش ہیں کہ یہوواہ ہمارے لئے خود کو ناقابلِرسائی نہیں بناتا! (۱-یوحنا ۵:۱۴، ۱۵) واقعی، ہمیں یہوواہ کیساتھ ایک قریبی ذاتی رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تاہم، خدائی عقیدت کو فروغ دینے اور اس میں قائم رہنے کیلئے تمام ضروری فراہمیوں کے ذریعے وہ اپنی قربت حاصل کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ (یعقوب ۴:۸) ہم ان تمام مشفقانہ فراہمیوں سے کیسے بھرپور استفادہ کر سکتے ہیں؟
روحانی طور پر مضبوط رہیں
۱۱. ہماری خدائی عقیدت کے چند اظہارات کیا ہیں؟
۱۱ خدا کے لئے ہماری دلی محبت ہمیں اپنی خدائی عقیدت کی گہرائی ظاہر کرنے کی تحریک دیتی ہے جو پولس کی نصیحت کی مطابقت میں ہے: ”اپنے آپ کو خدا کے سامنے مقبول اور ایسے کام کرنے والے کی طرح پیش کرنے کی کوشش کر جس کو شرمندہ ہونا نہ پڑے اور جو حق کے کلام کو درستی سے کام میں لاتا ہو۔“ (۲-تیمتھیس ۲:۱۵) ایسا کرنا باقاعدہ بائبل مطالعے، اجلاس پر حاضری اور میدانی خدمتگزاری میں شرکت کا ایک اچھا معمول برقرار رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم ”بِلاناغہ دُعا“ کرنے سے بھی یہوواہ کی قربت میں رہ سکتے ہیں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۷) یہ ہماری خدائی عقیدت کے پُرمعنی اظہارات ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز کرنا روحانی بیماری کا سبب بنتا ہے اور ہمیں شیطان کے منصوبوں کا نشانہ بنا سکتا ہے۔—۱-پطرس ۵:۸۔
۱۲. ہم کامیابی کیساتھ آزمائشوں سے کیسے نپٹ سکتے ہیں؟
۱۲ روحانی طور پر مضبوط اور سرگرم رہنے سے ہم اپنی راہ میں آنے والی بیشتر آزمائشوں کا سامنا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ آزمائشیں صبرآزما ذرائع سے آ سکتی ہیں۔ خاندان کے قریبی افراد، رشتہدار یا پڑوسیوں کی بےحسی، مخالفت اور اذیت کو برداشت کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں جائےملازمت یا سکول میں مسیحی اُصولوں پر مصالحت کرنے کے پُرفریب دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ہمیں حوصلہشکنی، بیماری اور افسردگی جسمانی طور پر کمزور کر سکتی ہے اور ہمارے لئے ایمان کی آزمائشوں کا سامنا کرنا مشکل بنا سکتی ہے۔ تاہم، اگر ہم ’[یہوواہ] کے اُس دن کے آنے کے منتظر اور مشتاق رہتے ہوئے پاک چالچلن اور خدائی عقیدت میں قائم رہتے‘ ہیں تو ہم کامیابی سے آزمائشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ (۲-پطرس ۳:۱۱، ۱۲) نیز خدا کی برکت کے یقین کیساتھ ایسا کرتے ہوئے ہم اپنی خوشی برقرار رکھ سکتے ہیں۔—امثال ۱۰:۲۲۔
۱۳. خدائی عقیدت کو مسلسل عمل میں لانے کیلئے ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
۱۳ اگرچہ شیطان خدائی عقیدت کو عمل میں لانے والوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے توبھی ہمیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیوں؟ اسلئےکہ ”[یہوواہ] دینداروں کو آزمایش سے نکال لینا . . . جانتا ہے۔“ (۲-پطرس ۲:۹) آزمائشوں کو برداشت کرنے اور ایسی مخلصی کا تجربہ کرنے کے لئے ہمیں ”بیدینی اور دُنیوی خواہشوں کا انکار کرکے اس موجودہ جہان میں پرہیزگاری اور راستبازی اور [خدائی عقیدت] کے ساتھ زندگی“ گزارنے کی ضرورت ہے۔ (ططس ۲:۱۲) مسیحیوں کے طور پر، ہمیں دُنیوی خواہشات اور کاموں سے تعلق رکھنے والی ہر طرح کی کمزوری سے محتاط رہنا چاہئے جو ہماری خدائی عقیدت کو متاثر اور تباہ کر سکتی ہے۔ آئیے ان میں سے چند خطرات پر غور کریں۔
خدائی عقیدت کیلئے نقصاندہ خطرات سے خبردار رہیں
۱۴. اگر مادہپرستی کا پھندا ہمیں ترغیب دے تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہئے؟
۱۴ مادہپرستی بہتیروں کے لئے ایک پھندا ہے۔ ہم ’خدائی عقیدت کو [مالی] نفع کا ذریعہ سمجھتے‘ ہوئے خود کو بھی دھوکا دے سکتے ہیں۔ یوں ہم ساتھی ایمانداروں کے بھروسے کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی حد تک جا سکتے ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۶:۵) ہم غلط طور پر یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اگر ہم اسے لوٹا نہ سکیں توبھی ایک خوشحال مسیحی سے قرض لینے میں کوئی بُرائی نہیں۔ (زبور ۳۷:۲۱) لیکن مادی حاصلات کی بجائے ”اب کی اور آیندہ کی زندگی کا وعدہ“ خدائی عقیدت کیلئے ہے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۸) چونکہ ’ہم دُنیا میں نہ کچھ لائے اور نہ کچھ اس میں سے لے جا سکتے ہیں‘ لہٰذا ہمیں ”خدائی عقیدت قناعت کے ساتھ“ ظاہر کرنے اور ”ہمارے پاس کھانے پہننے کو [جو] ہے . . . اُسی پر قناعت“ کرنے کیلئے پُرعزم رہنا چاہئے۔—۱-تیمتھیس ۶:۶-۱۱۔
۱۵. جب ہماری خدائی عقیدت عیشوعشرت کی جستجو سے مغلوب ہونے کے خطرے میں ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
۱۵ عیشوعشرت کی جستجو ہماری خدائی عقیدت پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ کیا ہمیں اس سلسلے میں فوری تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے؟ بیشک، جسمانی ریاضت اور سیروتفریح کے کچھ فوائد ہیں۔ تاہم، ہمیشہ کی زندگی کے مقابلے میں ان فوائد کی اہمیت کچھ بھی نہیں۔ (۱-یوحنا ۲:۲۵) آجکل ہمیں ایسے بہتیرے لوگوں سے دُور رہنا چاہئے جو ’خدا کی نسبت عیشوعشرت کو دوست رکھتے ہیں۔ وہ خدائی عقیدت کی وضع تو رکھتے ہیں مگر اس کے اثر کو قبول نہیں کرتے۔‘ (۲-تیمتھیس ۳:۴، ۵) خدائی عقیدت کو اہم خیال کرنے والے لوگ ’آیندہ کے لئے اپنے واسطے ایک اچھی بنیاد قائم کرتے ہیں تاکہ حقیقی زندگی پر قبضہ کریں۔‘—۱-تیمتھیس ۶:۱۹۔
۱۶. کونسی گنہگارانہ خواہشات کی وجہ سے بعض اشخاص خدا کے راست تقاضوں کو پورا نہیں کر پاتے اور ہم ان پر کیسے غالب آ سکتے ہیں؟
۱۶ شرابنوشی اور منشیات کا غلط استعمال، بداخلاقی اور گنہگارانہ خصائل ہماری خدائی عقیدت کو تباہ کر سکتے ہیں۔ ایسی چیزیں ہمیں خدا کے راست معیاروں کی پیروی کرنے سے روک سکتی ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۹، ۱۰؛ ۲-کرنتھیوں ۷:۱) پولس کو بھی اپنے گنہگارانہ جسم کی مسلسل کشمکش کی برداشت کرنی پڑی تھی۔ (رومیوں ۷:۲۱-۲۵) غلط خواہشات پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اقدام اُٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اخلاقی طور پر پاکصاف رہنے کیلئے پُرعزم ہونا چاہئے۔ پولس ہمیں بتاتا ہے: ”اپنے اُن اعضا کو مُردہ کرو جو زمین پر ہیں یعنی حرامکاری اور ناپاکی اور شہوت اور بُری خواہش اور لالچ کو جو بُتپرستی کے برابر ہے۔“ (کلسیوں ۳:۵) ایسی گنہگارانہ خصلتوں کے پیشِنظر اپنے اعضا کو مُردہ کرنا ان پر قابو پانے اور انہیں رد کرنے کیلئے پُرعزم ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ خدا سے مدد کیلئے مخلصانہ دُعا اس بدکار نظاماُلعمل میں ہمیں غلط خواہشات کو ترک کرنے اور راستی اور خدائی عقیدت کے طالب ہونے کے قابل بنائیگی۔
۱۷. ہمیں اصلاح کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟
۱۷ مایوسی ہمارے صبر کو کمزور اور ہماری خدائی عقیدت پر نقصاندہ اثر ڈال سکتی ہے۔ یہوواہ کے بیشتر خادموں نے مایوسی کا تجربہ کِیا ہے۔ (گنتی ۱۱:۱۱-۱۵؛ عزرا ۴:۴؛ یوناہ ۴:۳) مایوسی بالخصوص اُس وقت ہم پر تباہکُن اثر ڈال سکتی ہے جب ہم یہ محسوس کرتے ہوئے ناراض ہو جاتے ہیں کہ ہماری توہین، سخت تنبیہ یا اصلاح کی گئی ہے۔ تاہم اصلاح اور تربیت خدا کی محبت اور مشفقانہ فکرمندی کا ثبوت ہے۔ (عبرانیوں ۱۲:۵-۷، ۱۰، ۱۱) ہمیں اصلاح کو محض سزا خیال کرنے کی بجائے راستی میں تربیت کرنے کا ذریعہ خیال کرنا چاہئے۔ اگر ہم فروتن ہیں تو یہ جان کر مشورت کی قدر کرتے ہوئے اسے قبول کرینگے کہ ”تربیت کی ملامت حیات کی راہ ہے۔“ (امثال ۶:۲۳) یہ ہمیں خدائی عقیدت کے طالب ہونے میں عمدہ روحانی ترقی کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔
۱۸. ذاتی اختلافات نپٹاتے وقت ہماری ذمہداری کیا ہوتی ہے؟
۱۸ غلطفہمیاں اور ذاتی اختلافات ہماری خدائی عقیدت کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ یہ پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں یا بعض لوگوں کو اپنے روحانی بہنبھائیوں سے الگ ہو جانے کا غیردانشمندانہ قدم اُٹھانے کی تحریک دے سکتے ہیں۔ (امثال ۱۸:۱) تاہم، یہ یاد رکھنا مفید ہے کہ اپنے دل میں دوسروں کیلئے کینہ یا حسد رکھنا یہوواہ کیساتھ ہمارے رشتے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ (احبار ۱۹:۱۸) درحقیقت، ”جو اپنے بھائی سے جِسے اُس نے دیکھا ہے محبت نہیں رکھتا وہ خدا سے بھی جِسے اُس نے نہیں دیکھا محبت نہیں رکھ سکتا۔“ (۱-یوحنا ۴:۲۰) یسوع نے اپنے پہاڑی وعظ میں ذاتی اختلافات کو حل کرنے کیلئے فوری اقدام اُٹھانے پر زور دیا تھا۔ اس نے اپنے سامعین کو بتایا: ”پس اگر تُو قربانگاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے۔ تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔ تب آکر اپنی نذر گذران۔“ (متی ۵:۲۳، ۲۴) معافی مانگ لینے سے نامہربانہ باتوں یا کاموں سے پہنچنے والے نقصان کی تلافی ہو جاتی ہے۔ اگر ہم یہ قبول کرتے ہوئے معافی مانگ لیتے ہیں کہ معاملات کو نپٹانے کا ہمارا طریقہ غلط تھا تو مسئلہ حل اور پُرامن تعلقات بحال ہو سکتے ہیں۔ یسوع نے مسائل سے نپٹنے کیلئے اَور بھی مشورت دی۔ (متی ۱۸:۱۵-۱۷) مسائل کو حل کرنے کی ہماری کوششوں کی کامیابی پر ہم کسقدر خوش ہوتے ہیں!—رومیوں ۱۲:۱۸؛ افسیوں ۴:۲۶، ۲۷۔
یسوع کے نمونے کی پیروی کریں
۱۹. یسوع کے نمونے کی نقل کرنا اسقدر ضروری کیوں ہے؟
۱۹ ہمیں مشکلات کا یقیناً سامنا ہوگا لیکن ضروری نہیں کہ یہ ہمیشہ کی زندگی کی دوڑ میں ہمارے لئے رکاوٹ پیدا کریں۔ یاد رکھیں کہ یہوواہ آزمائش میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ جب ہم ’ہر ایک بوجھ کو دُور کرکے اُس دوڑ میں صبر سے دوڑتے ہیں جو ہمیں درپیش ہے‘ تو ہمیں ”ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوؔع کو تکتے“ رہنا چاہئے۔ (عبرانیوں ۱۲:۱-۳) یسوع کے نمونے کا قریبی جائزہ اور اپنے اقوالوافعال میں اُس کی نقل کرنے کی کوشش خدائی عقیدت کو فروغ دینے اور اسے بھرپور طریقے سے ظاہر کرنے میں ہماری مدد کرے گی۔
۲۰. صبر اور خدائی عقیدت کے طالب ہونا کونسی برکات پر منتج ہوتا ہے؟
۲۰ برداشت اور خدائی عقیدت باہم ملکر ہماری نجات کو یقینی بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ ان بیشقیمت خوبیوں کو ظاہر کرنے سے ہم وفاداری سے خدا کیلئے اپنی پاک خدمت جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہم برداشت کرنے اور خدائی عقیدت ظاہر کرنے کی وجہ سے آزمائش میں بھی یہوواہ کے رحم اور برکت کا تجربہ کرنے سے خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔ (یعقوب ۵:۱۱) علاوہازیں، یسوع خود ہمیں یقین دلاتا ہے: ”اپنے صبر سے تم اپنی جانیں بچائے رکھو گے۔“—لوقا ۲۱:۱۹۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• برداشت کیوں ضروری ہے؟
• خدائی عقیدت کیا ہے اور اسے کیسے ظاہر کِیا جاتا ہے؟
• ہم خدا کیساتھ ایک قریبی رشتہ کیسے اُستوار اور قائم رکھ سکتے ہیں؟
• ہماری خدائی عقیدت کیلئے بعض خطرات کونسے ہیں اور ہم ان سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۲ پر تصویریں]
خدائی عقیدت مختلف طریقوں سے ظاہر کی جاتی ہے
[صفحہ ۱۴ پر تصویریں]
اپنی خدائی عقیدت کیلئے نقصاندہ خطرات سے خبردار رہیں