مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

حنوط‌کاری—‏کیا یہ مسیحیوں کیلئے واجب ہے؟‏

حنوط‌کاری—‏کیا یہ مسیحیوں کیلئے واجب ہے؟‏

حنوط‌کاری‏—‏کیا یہ مسیحیوں کیلئے واجب ہے؟‏

وفادار آبائی بزرگ یعقوب نے بسترِمرگ پر اپنی آخری خواہش کا اظہار کِیا:‏ ”‏مجھے میرے باپ دادا کے پاس اُس مغارہ میں جو عفرؔون حتیؔ کے کھیت میں ہے دفن کرنا۔‏ یعنی اُس مغارہ میں جو ملکِ‌کنعاؔن میں ممرے کے سامنے مکفیلہؔ کے کھیت میں ہے۔‏“‏—‏پیدایش ۴۹:‏۲۹-‏۳۱‏۔‏

یوسف نے اُس وقت مصر کے عام رواج سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے باپ کی درخواست کو پورا کِیا۔‏ اُس نے ”‏اُن طبیبوں کو جو اُسکے نوکر تھے اپنے باپ کی لاش میں خوشبو بھرنے کا حکم دیا۔‏“‏ پیدایش ۵۰ باب میں درج بیان کے مطابق طبیبوں نے اپنے دستور کے مطابق لاش کی حنوط‌کاری میں ۴۰ دن لگائے۔‏ یعقوب کی لاش کی حنوط‌کاری کی بدولت اُسکے خاندانی افراد اور مصری معززین حبرون میں اُسکی تدفین کیلئے کم‌رفتار کارواں کی صورت میں تقریباً ۴۰۰ کلومیٹر سفر کرنے کے قابل ہوئے تھے۔‏—‏پیدایش ۵۰:‏۱-‏۱۴‏۔‏

کیا یعقوب کی حنوط‌شُدہ لاش کبھی دریافت ہو سکے گی؟‏ اسکے امکانات بہت کم ہیں۔‏ اسرائیل کی سرزمین بڑی نمی والی تھی جو مختلف اَثریاتی مصنوعات کی دریافت کو محدود کر دیتی ہے۔‏ (‏خروج ۳:‏۸‏)‏ اگرچہ دھات اور پتھر سے بنی قدیم مصنوعات کافی تعداد میں موجود ہیں تاہم کپڑے،‏ چمڑے اور حنوط‌شُدہ لاشوں جیسی نازک چیزیں متغیر موسمی اثرات اور نمی کا مقابلہ نہیں کر پائی ہیں۔‏

حنوط‌کاری کیا ہے؟‏ اس کا مقصد کیا ہے؟‏ کیا یہ عمل مسیحیوں کے لئے واجب ہے؟‏

اس کا آغاز کہاں سے ہوا؟‏

حنوط‌کاری کو انسانی یا حیوانی لاش کو محفوظ کرنے کے عمل کے طور پر بیان کِیا جا سکتا ہے۔‏ مؤرخین اتفاق کرتے ہیں کہ حنوط‌کاری کا آغاز مصر سے ہوا لیکن اسکا رواج قدیم اسوری،‏ فارسی اور سکوتی لوگوں میں بھی تھا۔‏ حنوط‌کاری میں دلچسپی اور تجربے کا عمل غالباً اس وقت شروع ہوا جب ریگستانی مٹی میں دفن قدرتی طور پر محفوظ لاشیں دریافت ہوئیں۔‏ ایسی تدفین نے نمی اور ہوا کو لاش سے دُور رکھتے ہوئے اُسے سڑنے سے محفوظ رکھا ہوگا۔‏ بعض کے خیال میں حنوط‌کاری کی ابتدا مصر اور اُسکے گردونواح میں کثرت سے پائے جانے والی الکلی نیٹرون (‏سوڈیم کاربونیٹ)‏ میں محفوظ‌کردہ لاشوں کی دریافت سے ہوئی تھی۔‏

حنوط‌کار کا مقصد موت کے چند گھنٹوں بعد شروع ہونے والے بیکٹیریائی اثر کے قدرتی عمل کو روکنا ہے جو لاش کے سڑنے کا باعث بنتا ہے۔‏ اگر اس اثر کو روک دیا جائے تو سڑنے کا عمل رُک جاتا ہے یا پھر اسکی رفتار میں کافی حد تک کمی آ جاتی ہے۔‏ اس کے لئے تین چیزیں درکار ہیں:‏ لاش کو حقیقی زندگی کا تاثر دینے والی حالت میں محفوظ کرنا،‏ سڑنے کے عمل کو روکنا اور اسے حشرات کی تباہ‌کاریوں کی مزاحمت کرنے کے قابل بنانا۔‏

قدیم مصری بنیادی طور پر مذہبی وجوہات کی بِنا پر اپنے مُردوں کو حنوط کِیا کرتے تھے۔‏ اُن کا بعدازموت زندگی کا تصور طبیعی دُنیا کے ساتھ رابطہ رکھنے کی خواہش سے منسوب تھا۔‏ اُن کے خیال میں اُن کے جسم ابدیت تک استعمال ہونے تھے اور اُنہیں زندگی کے ذریعے بحال کِیا جانا تھا۔‏ اگرچہ حنوط‌کاری بہت عام تھی توبھی آج تک کوئی مصری تحریر اس کی وضاحت نہیں کرتی کہ یہ کیسے کِیا جاتا تھا۔‏ اس سلسلے میں پانچویں صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں یونانی مؤرخ ہیرودوتس کا ریکارڈ بہترین ہے۔‏ تاہم یہ بیان کِیا گیا ہے کہ ہیرودوتس کی فراہم‌کردہ ہدایات پر عمل کرتے ہوئے متوقع نتائج حاصل نہیں ہوئے۔‏

کیا یہ مسیحیوں کیلئے واجب ہے؟‏

یعقوب کی لاش کو ان لوگوں نے حنوط کِیا جنکے مذہبی اعتقادات اُس سے مختلف تھے۔‏ تاہم جب یوسف نے اپنے باپ کی لاش طبیبوں کو دی تو اُس نے مصر میں رائج حنوط‌کاری کیساتھ وابستہ دُعاؤں اور رسومات کے لئے درخواست نہیں کی تھی۔‏ یعقوب اور یوسف دونوں ایماندار اشخاص تھے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۲۱،‏ ۲۲‏)‏ اگرچہ یہ تو واضح ہے کہ یہوواہ نے انہیں یعقوب کی لاش محفوظ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا توبھی صحائف میں اس عمل کی تردید بھی نہیں کی گئی۔‏ یعقوب کی حنوط‌کاری اسرائیلی قوم یا مسیحی کلیسیا کے لئے ایک نمونہ نہیں تھی۔‏ درحقیقت خدا کے کلام میں اس عمل کی بابت کوئی خاص ہدایات موجود نہیں ہیں۔‏ مصر میں یوسف کی حنوط‌کاری کے بعد صحائف میں اس عمل سے متعلق کوئی بیان موجود نہیں ہے۔‏—‏پیدایش ۵۰:‏۲۶‏۔‏

فلسطین میں دریافت‌شُدہ خستہ‌حال انسانی ڈھانچوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مُردوں کو حنوط‌کاری کے ذریعے طویل مدت تک محفوظ رکھنا عبرانی دستور نہیں تھا۔‏ مثال کے طور پر لعزر کی لاش کو حنوط نہیں کِیا گیا تھا۔‏ اگرچہ اُسے کفن پہنایا گیا تاہم قبر سے پتھر ہٹاتے وقت وہاں موجود لوگوں نے فکرمندی ظاہر کی تھی۔‏ چونکہ لعزر کی موت کو چار دن ہو چکے تھے لہٰذا اُسکی بہن کو یقین تھا کہ اگر قبر کھولی گئی تو اُس سے بدبُو آئیگی۔‏—‏یوحنا ۱۱:‏۳۸-‏۴۴‏۔‏

کیا یسوع مسیح کو حنوط کِیا گیا تھا؟‏ اناجیل کے بیانات اس نظریے کی تائید نہیں کرتے۔‏ اُس وقت،‏ یہودی دستور کے مطابق لاش کی تدفین سے پہلے اُس پر مصالحے اور خوشبودار تیل لگایا جاتا تھا۔‏ مثال کے طور پر نیکدیمسؔ یسوع کی لاش کی تجہیزوتدفین کیلئے کثیر مقدار میں مصالح لایا تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۹:‏۳۸-‏۴۲‏)‏ اتنا زیادہ مصالح کیوں لایا گیا تھا؟‏ یقیناً یسوع کیلئے دلی محبت اور احترام نے اُسے اس فراخدلانہ عمل کی تحریک دی ہوگی۔‏ ہمیں اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہئے کہ ایسے مصالح‌جات کے استعمال کا مقصد لاش کو محفوظ رکھنا تھا۔‏

کیا ایک مسیحی حنوط‌کاری پر اعتراض کر سکتا ہے؟‏ اس سلسلے میں حقیقت‌پسندانہ نظریہ یہی ہے کہ حنوط‌کاری ناگزیر حالات کو محض کچھ عرصے کیلئے ملتوی کرتی ہے۔‏ ہم خاک ہیں اور مرنے کے بعد خاک میں لوٹ جاتے ہیں۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۹‏)‏ تاہم موت سے لیکر تجہیزوتدفین تک کتنا وقت لگتا ہے؟‏ اگر دُور سے آنے والے خاندانی افراد اور دوست‌احباب لاش کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کریں تو بِلاشُبہ لاش کو کچھ وقت کیلئے حنوط کرنا پڑتا ہے۔‏

لہٰذا،‏ اگر مقامی تقاضوں یا خاندانی افراد کی خواہش پر لاش کو حنوط کِیا جاتا ہے تو یہ صحیفائی طور پر تشویش کی بات نہیں ہے۔‏ مُردے ”‏کچھ بھی نہیں جانتے۔‏“‏ (‏واعظ ۹:‏۵‏)‏ اگر وہ خدا کی یاد میں ہیں تو وہ اُسکی موعودہ نئی دُنیا میں زندگی حاصل کرینگے۔‏—‏ایوب ۱۴:‏۱۳-‏۱۵؛‏ اعمال ۲۴:‏۱۵؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر بکس/‏تصویر]‏

ماضی اور حال میں حنوط‌کاری

قدیم مصر میں،‏ ایک شخص کی لاش کو اُسکے خاندان کی حیثیت کے مطابق حنوط کِیا جاتا تھا۔‏ ایک خوشحال خاندان ممکنہ طور پر مندرجہ ذیل طریقۂ‌کار کا انتخاب کرتا تھا:‏

ایک دھاتی آلے کے ذریعے نتھنوں سے دماغ کو نکالا جاتا تھا۔‏ اسکے بعد،‏ کھوپڑی کیلئے مناسب ادویات استعمال کی جاتی تھیں۔‏ اسکے بعد دل اور گردوں کے علاوہ تمام اندرونی اعضا نکالے جاتے تھے۔‏ مُردے کے پیٹ تک رسائی حاصل کرنے کیلئے لاش میں شگاف کِیا جاتا تھا لیکن مصری اسے گُناہ خیال کرتے تھے۔‏ لہٰذا مصری حنوط‌کار اس مسئلے سے نپٹنے کیلئے کاٹ‌پیٹ کرنے والے شخص کو شگاف بنانے کا کام سونپتے تھے۔‏ وہ یہ کام انجام دینے کے فوراً بعد وہاں سے بھاگ جایا کرتا تھا اسلئےکہ اس نام‌نہاد جرم کی سزا میں لعنتیں دی جاتی تھیں اور مجرم کو سنگسار کِیا جاتا تھا۔‏

پیٹ کے جوف کو خالی کرنے کے بعد اسے اچھی طرح صاف کِیا جاتا تھا۔‏ مؤرخ ہیرودوتس نے لکھا:‏ ”‏وہ جوف کو پسے ہوئے اصلی مُر،‏ املتاس اور لُبان کے علاوہ دیگر مصالحوں سے بھر کر شگاف کو سلائی کرکے بند کر دیتے تھے۔‏“‏

اسکے بعد،‏ پانی خشک کرنے کیلئے مُردے کو ۷۰ دن نیٹرون میں بھگویا جاتا تھا۔‏ بعدازاں،‏ مُردے کو نہلا کر بڑی عمدگی سے سوتی کپڑے میں لپیٹا جاتا تھا۔‏ کپڑے کو چپکانے کیلئے اُس پر لال یا گوند کی تہ لگائی جاتی تھی اور حنوط‌شُدہ لاش کو انسانی جسم کی شکل میں بنے ہوئے لکڑی کے خوب آراستہ تابوت میں رکھا جاتا تھا۔‏

آجکل بہت کم وقت میں حنوط‌کاری کی جا سکتی ہے۔‏ اس عمل میں اکثر نسوں کے علاوہ پیٹ اور سینے کے جوف میں مناسب مقدار میں حنوط‌کاری کا محلول ڈالا جاتا ہے۔‏ سالوں کے دوران،‏ کئی محلول تیار اور استعمال کئے گئے ہیں۔‏ تاہم قیمت اور تحفظ کے لحاظ سے حنوط‌کاری کیلئے فارمل ڈی ہائیڈ کا محلول زیادہ استعمال ہوتا ہے۔‏

‏[‏تصویر]‏

بادشاہ توت‌عنخ‌آمون کا سونے کا تابوت