مشرقِوسطیٰ میں روحانی روشنی کا چمکنا
میری کہانی میری زبانی
مشرقِوسطیٰ میں روحانی روشنی کا چمکنا
از نجیب سلیم
پہلی صدی س.ع. میں خدا کے کلام کی روشنی مشرقِوسطیٰ سے چمکتی ہوئی زمین کی انتہا تک پہنچی تھی۔ ۲۰ ویں صدی میں، یہ روشنی دُنیا کے اس خطے میں اُجالا کرنے کیلئے ایک بار پھر چمکی ہے۔ آئیں مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ سب کیسے واقع ہوا۔
مَیں ۱۹۱۳ میں شمالی لبنان میں امیون کے قصبے میں پیدا ہوا۔ یہ دُنیا میں نسبتاً امنوسکون کا آخری سال تھا کیونکہ اگلے سال پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی تھی۔ جب ۱۹۱۸ میں جنگ ختم ہوئی تو مشرقِوسطیٰ کا یہ گوہر یعنی لبنان معاشی اور سیاسی اعتبار سے انتہائی خستہحال تھا۔
جب ۱۹۲۰ میں ڈاک کی سروس نے لبنان میں دوبارہ کام کرنا شروع کِیا تو بیرونِمُلک رہنے والے لبنانی لوگوں سے ڈاک موصول ہونے لگی۔ اُن میں میرے ماموں عبداللہ اور جارج غنطاؤس بھی شامل تھے۔ وہ اپنے والد اور میرے نانا حبیب غنطاؤس کو خطوکتابت کے ذریعے خدا کی بادشاہت کی بابت بتاتے رہتے تھے۔ (متی ۲۴:۱۴) اپنے بیٹے کے خط کی باتیں اپنے قصبے کے لوگوں کو بیان کرنے کی وجہ سے میرے نانا کا مذاق اُڑایا جاتا تھا۔ قصبے کے لوگوں نے افواہ اُڑائی کہ حبیب کے بیٹے اپنے باپ کی حوصلہافزائی کر رہے ہیں کہ وہ اپنی زمین بیچ کر ایک گدھا خرید لے اور منادی شروع کر دے۔
شروع میں روشنی کا پھیلنا
اگلے سال ۱۹۲۱ میں، بروکلن نیو یارک یو.ایس.اے. میں رہنے والا مشل عبد تریپولی، لبنان لوٹ آیا۔ وہ ایک بائبل سٹوڈنٹ بن چکا تھا جیساکہ اُس وقت یہوواہ کے گواہ کہلاتے تھے۔ اگرچہ بھائی عبد کے دوستوں اور رشتہداروں کی اکثریت بائبل پیغام نہیں سننا چاہتی تھی توبھی دو معروف
اشخاص، پروفیسر ابراہیم عطا اور ڈینٹسٹ حنّا شمس نے جوابیعمل دکھایا۔ درحقیقت، ڈاکٹر شمس نے تو اپنا گھر اور کلینک تک مسیحی اجلاسوں کیلئے دے دیا۔مَیں اس وقت چھوٹا لڑکا تھا جب بھائی عبد اور بھائی شمس نے امیون کا دورہ کِیا جہاں مَیں رہتا تھا۔ اُن کی اس ملاقات نے مجھ پر گہرا اثر کِیا اور مَیں نے منادی کے کام میں بھائی عبد کے ہمراہ جانا شروع کر دیا۔ سن ۱۹۶۳ میں بھائی عبد کی وفات تک تقریباً ۴۰ سال تک ہم دونوں خدمتگزاری میں باقاعدہ ساتھی تھے۔
سن ۱۹۲۲ اور ۱۹۲۵ کے درمیان، بائبل سچائی کی روشنی شمالی لبنان کے کئی دیہاتوں میں دُوردراز تک پھیل گئی۔ امیون میں ہماری طرح تقریباً ۲۰ تا ۳۰ اشخاص نجی گھروں میں بائبل پر باتچیت کرنے کیلئے جمع ہوتے تھے۔ پادری ہمارے اجلاسوں میں خلل ڈالنے کیلئے بچوں کو بھیجتے کہ ٹین کا ڈبہ بجا بجا کر شوروغل کریں اس وجہ سے ہم بعضاوقات صنوبر کے درختوں کے جنگل میں جمع ہوا کرتے تھے۔
جب مَیں جوان تھا تو خدمتگزاری اور ہر مسیحی اجلاس پر حاضر ہونے کے میرے جوش کی وجہ سے مجھے تیمتھیس کہا جانے لگا۔ سکول کے ڈائریکٹر نے مجھے حکم دیا کہ مَیں ”اُن اجلاسوں“ پر حاضر ہونا بند کر دوں۔ میرے انکار پر مجھے سکول سے نکال دیا گیا۔
بائبل میں متذکرہ علاقوں میں گواہی دینا
سن ۱۹۳۳ میں اپنے بپتسمے کے بعد، مَیں نے پائنیر خدمت شروع کی جیساکہ یہوواہ کے گواہ کُلوقتی خدمت کو کہتے ہیں۔ اس وقت محدود تعداد کے باوجود، ہم نے نہ صرف لبنان کے شمالی حصے کے بیشتر دیہاتوں میں منادی کی بلکہ بیروت اور اس کے مضافات اور لبنان کے جنوب تک پہنچ گئے۔ اِن ابتدائی سالوں میں ہم عموماً یسوع مسیح اور پہلی صدی کے اس کے شاگردوں کی طرح پیدل یا گدھے پر سفر کرتے تھے۔
کئی سال تک ریاستہائےمتحدہ میں رہنے والا ایک لبنانی گواہ یوسف راحل ۱۹۳۶ میں ملاقات کے لئے لبنان واپس آیا۔ وہ اپنے ساتھ ساؤنڈ مشین اور کچھ فونوگراف بھی لے آیا۔ ہم نے اس آلے کو ۱۹۳۱ ماڈل کی فورڈ گاڑی پر رکھ لیا اور بادشاہتی پیغام کو دُوردراز علاقوں تک لیکر جاتے ہوئے سارے لبنان اور شام کا سفر کِیا۔ ایمپلیفائر کی آواز دس کلومیٹر تک سنی جا سکتی تھی۔ لوگ سننے کے لئے اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ گئے کیونکہ اُنکا خیال تھا کہ یہ آوازیں آسمان سے آ رہی ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والے کام چھوڑ کر سننے کے لئے ہمارے قریب آ گئے۔
یوسف راحل کیساتھ میرا آخری سفر ۱۹۳۷ کے موسمِسرما میں الیپو، شام کا تھا۔ ریاستہائےمتحدہ واپس آنے سے پہلے ہم نے فلسطین کا بھی سفر کِیا۔ وہاں ہم نے حیفہ اور یروشلیم کے شہروں اور مُلک کے دیہاتوں کا بھی دورہ کِیا۔ وہاں ہمارا رابطہ ابراہیم شہادی سے ہوا جس کیساتھ خطوکتابت کے ذریعے میری پہلے بھی واقفیت تھی۔ ابراہیم نے بائبل علم میں اس حد تک ترقی کی کہ ہمارے دورے کے دوران اس نے گھرباگھر کی خدمتگزاری میں حصہ لینا شروع کر دیا۔—اعمال ۲۰:۲۰۔
مَیں ایک کٹر کیتھولک، پروفیسر خلیل قبروسی سے بھی ملنے کا مشتاق تھا جو خطوکتابت کے ذریعے یہوواہ کے گواہوں سے مطالعہ کر رہا تھا۔ اُس نے لبنان میں گواہوں کا پتا کیسے حاصل کِیا تھا؟ حیفہ کے ایک اسٹور پر ایک دُکاندار نے یہوواہ کے گواہوں کی مطبوعات میں سے پھاڑے گئے کاغذ میں خلیل کی چیزیں لپیٹ دیں۔ اس کاغذ پر ہمارا پتا لکھا ہوا تھا۔ ہماری ملاقات بہت اچھی رہی اور بعدازاں ۱۹۳۹ میں وہ بپتسمہ لینے کے لئے تریپولی آیا۔
پطرس لاگاکوس اور اس کی بیوی ۱۹۳۷ میں تریپولی آئے۔ چند سالوں کے دوران ہم تینوں نے بادشاہتی پیغام کیساتھ لوگوں کے گھروں میں جاتے ہوئے لبنان اور شام کے بیشتر علاقے کا احاطہ کر لیا تھا۔ سن ۱۹۴۳ میں
بھائی لاگاکوس کی وفات تک، گواہ روحانی روشنی کو لبنان، شام اور فلسطین کے دوراُفتادہ شہروں اور دیہاتوں تک پہنچا چکے تھے۔ بعضاوقات، ہم تقریباً ۳۰ لوگ کار یا بس کے ذریعے دُوراُفتادہ علاقوں تک پہنچنے کی خاطر اپنے سفر کا آغاز صبح تین بجے کِیا کرتے تھے۔سن ۱۹۴۰ میں ابراہیم عطا نے مینارِنگہبانی کا عربی میں ترجمہ کرنا شروع کِیا۔ اس کے بعد، مَیں رسالے کی ہاتھ سے لکھی ہوئی چار کاپیاں بنا کر فلسطین، شام اور مصر میں گواہوں کو بھیجا کرتا تھا۔ ان دنوں دوسری عالمی جنگ کے دوران، ہمارے کام کی بہت زیادہ مخالفت ہوتی تھی لیکن ہم نے مشرقِوسطیٰ میں بائبل سچائی سے محبت رکھنے والوں سے برابر رابطہ رکھا۔ مَیں نے ذاتی طور پر شہروں اور نواحی دیہاتوں کے نقشہجات بنائے اور ہم نے خوشخبری کیساتھ اُن تک پہنچنے کا تہیہ کر لیا۔
جب ۱۹۴۴ میں دوسری عالمی جنگ ابھی زوروں پر تھی تو مَیں نے ایک پائنیر ساتھی مشل عبد کی بیٹی اِیولن سے شادی کر لی۔ ہمارے ہاں ایک بیٹی اور دو بیٹے ہوئے۔
مشنریوں کیساتھ کام کرنا
دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد، گلئیڈ سکول سے فارغالتحصیل ہونے والے پہلے مشنری لبنان پہنچے۔ اس کے نتیجے میں لبنان میں پہلی کلیسیا قائم ہوئی اور مجھے کمپنی سرونٹ مقرر کِیا گیا۔ اس کے بعد، ۱۹۴۷ میں ناتھن ایچ. نار اور اسکے سیکرٹری ملٹن جی. ہینشل نے لبنان کا دورہ کِیا اور بھائیوں کو کافی حوصلہافزائی دی۔ مشنریوں نے یہاں آ کر خدمتگزاری میں منظم ہونے اور کلیسیائی اجلاس منعقد کرانے میں ہماری بہت زیادہ مدد کی۔
شام کے ایک الگتھلگ علاقے کا دورہ کرتے ہوئے ہمیں ایک مقامی بشپ کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہوا۔ اس نے ہم پر صیہونی مطبوعات کی تقسیم کا الزام لگایا۔ ستمظریفی تو یہ تھی کہ ۱۹۴۸ سے پہلے پادری ہم پر اکثر ”کمیونسٹ“ ہونے کا لیبل لگاتے تھے۔ اس مرتبہ ہمیں گرفتار کرکے دو گھنٹے تک تفتیش کی گئی جس کے دوران ہمیں عمدہ گواہی دینے کا موقع ملا۔
آخرکار، اس مقدمے کے جج نے کہا: ”اگرچہ مَیں اس داڑھی والے [بشپ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک تشبِیہ] پر لعنت بھیجتا ہوں جس نے آپ کے خلاف الزام لگائے ہیں تاہم مجھے اُسکا مشکور
ہونا پڑیگا کیونکہ اِسکی وجہ سے مجھے آپ سے ملنے اور آپ کی تعلیمات کی بابت جاننے کا موقع ملا ہے۔“ اس کے بعد اس نے اس تمام تکلیف کیلئے ہم سے معذرت کی۔دس سال بعد، بس کے ذریعے بیروت جاتے ہوئے، مَیں نے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک زرعی انجینیئر سے باتچیت شروع کر دی۔ ہمارے عقائد کی بابت سننے کے چند منٹ بعد اس نے کہا کہ وہ اسی طرح کی گفتگو شام میں رہنے والے اپنے ایک دوست سے سن چکا ہے۔ یہ دوست کون تھا؟ یہ وہی جج تھا جس نے دس سال پہلے ہمارے مقدمے کی سماعت کی تھی!
سن ۱۹۵۰ کے دہے میں، مَیں نے عراق میں گواہوں سے ملاقات کی اور اُن کیساتھ گھرباگھر گواہی دینے میں شرکت کی۔ مَیں نے اُردن اور مغربی کنارے کے بھی کئی دورے کئے ہیں۔ سن ۱۹۵۱ میں، بیتلحم جانے والے چار گواہوں کے گروپ میں مَیں بھی شامل تھا۔ ہم نے وہاں خداوند کے عشائیے کی تقریب منائی۔ اس دن تقریب پر موجود تمام لوگ صبحسویرے بس پر بیٹھ کر دریائےیردن گئے تھے جہاں یہوواہ کیلئے اپنی مخصوصیت کے اظہار میں ۲۲ اشخاص نے بپتسمہ لیا تھا۔ جب بھی ہمیں اس علاقے میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تو ہم کہتے: ”ہم آپ کو بتانے آئے ہیں کہ آپ کے اسی ملک کے لڑکوں میں سے ایک ساری زمین کا بادشاہ بنیگا! آپ پریشان کیوں ہیں؟ آپ کو تو خوش ہونا چاہئے!“
مشکلات کے باوجود منادی کرنا
مشرقِوسطیٰ میں لوگ عموماً مہربان، فروتن اور مہماننواز ہیں۔ بہتیرے خدا کی بادشاہت کے پیغام کو دلچسپی سے سنتے ہیں۔ واقعی یہ جاننے سے بڑھکر تازگیبخش بات اَور کوئی نہیں کہ عنقریب بائبل کا یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا: ”خدا آپ [اپنے لوگوں] کے ساتھ رہیگا اور اُنکا خدا ہوگا۔ اور وہ اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔“—مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
مَیں نے دیکھا ہے کہ ہمارے کام کی مخالفت کرنے والے بیشتر لوگ
ہمارے کام اور پیغام کو نہیں سمجھتے۔ دُنیائےمسیحیت کے پادریوں نے ہماری بابت غلط باتیں پھیلانے کی بہت کوشش کی ہے! تاہم، لبنان میں ۱۹۷۵ میں شروع ہونے والی اور ۱۵ سال تک جاری رہنے والی خانہجنگی کے دوران گواہوں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کِیا ہے۔ایک مرتبہ مَیں ایک ایسے خاندان کو بائبل مطالعہ کرا رہا تھا جو چرچ جانے میں بڑا سرگرم رہ چکا تھا۔ بائبل سچائیاں سیکھنے میں اُنکی شاندار ترقی نے پادریوں کو مشتعل کر دیا۔ نتیجتاً، ایک رات ایک مذہبی گروہ نے اپنے ممبران کو اُبھارا کہ اس خاندان کی دُکان پر حملہ کرے اور انہوں نے ۰۰۰،۱۰ یو.ایس. ڈالر کی مالیت کی چیزوں کو جلا دیا۔ اُسی رات وہ مجھے زبردستی اُٹھا کر لے گئے۔ تاہم، مَیں انکے لیڈر کیساتھ استدلال کرنے کے قابل ہوا اور واضح کِیا کہ اگر وہ واقعی مسیحی ہیں تو انہیں وحشیانہ طرزِعمل نہیں دکھانا چاہئے۔ اس پر اُس نے کار روکنے کا حکم دیا اور مجھے باہر نکل جانے کیلئے کہا۔
ایک اَور موقع پر، مجھے چار باغی فوجیوں نے اغوا کر لیا۔ بہتیری دھمکیوں کے بعد مجھے گولی مار دینے کا حکم دینے والے اُنکے لیڈر نے اچانک اپنا ارادہ بدل لیا اور مجھے چھوڑ دیا۔ ان میں سے دو آدمی اس وقت قتل اور رہزنی کی وجہ سے قیدخانہ میں ہیں دیگر دو کو سزائےموت دی جا چکی ہے۔
گواہی دینے کے دوسرے مواقع
مجھے اکثر ہوائی جہاز کے ذریعے ایک مُلک سے دوسرے مُلک جانے کا موقع ملا ہے۔ ایک مرتبہ بیروت سے ریاستہائےمتحدہ کی پرواز کے دوران مَیں امورِخارجہ کے سابق وزیر چارلس ملک کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے بائبل سے پڑھی جانے والی ہر آیت کے لئے قدردانی ظاہر کرتے ہوئے بڑے دھیان سے میری بات سنی۔ آخر میں اُس نے کہا کہ وہ تریپولی میں اُس سکول میں تعلیم حاصل کر چکا ہے جہاں اس کا اُستاد ابراہیم عطا تھا۔ یہ وہی ابراہیم عطا تھا جسے میرے سُسر نے بائبل سچائی سے رُوشناس کرایا تھا! مسٹر ملک نے کہا کہ ابراہیم نے اُسے بائبل کا احترام کرنا سکھایا ہے۔
ایک اَور سفر کے دوران، مَیں اقوامِمتحدہ کے لئے فلسطینی نمائندے کے ساتھ بیٹھا تھا۔ مجھے خدا کی بادشاہی کی خوشخبری سنانے کا موقع ملا۔ اس نے بالآخر مجھے نیو یارک میں اپنے چھوٹے بھائی کے خاندان سے متعارف کرایا اور مَیں اکثراوقات اُن سے وہاں ملا ہوں۔ میرا وہاں ایک رشتہدار بھی ہے جو نیو یارک میں اقوامِمتحدہ کی عمارت میں کام کرتا تھا۔ ایک روز تین گھنٹے تک مَیں اس کے دفتر میں رہا اور اس دوران مَیں اُسے خدا کی بادشاہت کے متعلق گواہی دینے کے قابل ہوا۔
اِس وقت میری عمر ۸۸ سال ہے اور مَیں ابھی تک سرگرمی کے ساتھ کلیسیائی ذمہداریاں پوری کرتا ہوں۔ میری بیوی اِیولن ابھی تک میرے ساتھ ملکر یہوواہ کی خدمت کر رہی ہے۔ ہماری بیٹی کی شادی یہوواہ کے گواہوں کے ایک سفری نگہبان سے ہوئی ہے جو اس وقت بیروت کی کلیسیا میں ایک بزرگ کے طور پر خدمت انجام دے رہا ہے۔ اُنکی بیٹی بھی گواہ ہے۔ ہمارا سب سے چھوٹا بیٹا اور اس کی بیوی بھی گواہ ہیں اور اُن کی بیٹی بھی سچائی میں ہے۔ جہاں تک ہمارے سب سے بڑے بیٹے کا تعلق ہے تو مسیحی ایمان اس کے دل میں جاگزین کِیا گیا تھا لہٰذا مجھے اُمید ہے کہ وقت آنے پر وہ اسے ضرور قبول کرے گا۔
سن ۱۹۳۳ میں مجھے مشرقِوسطیٰ میں سب سے پہلا پائنیر مقرر کِیا گیا تھا۔ گزشتہ ۶۸ سالوں میں پائنیر کے طور پر یہوواہ کی خدمت کرنے سے بڑھکر مَیں کچھ اَور نہیں کر سکتا تھا۔ میرا عزم ہے کہ مَیں اُس کی روحانی روشنی میں چلتا رہوں۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
۱۹۳۵ میں نجیب
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
۱۹۴۰ لبنانی پہاڑوں میں ساؤنڈ کار کیساتھ میری تصویر
[صفحہ ۲۵ پر تصویریں]
اُوپر بائیں سے دائیں: نجیب، اِیولن، انکی بیٹی، بھائی عبد اور نجیب کا سب سے بڑا بیٹا، ۱۹۵۲
نیچے (پہلی قطار): بھائی شمس، نار، عبد اور ہینشل، تریپولی میں نجیب کے گھر، ۱۹۵۲
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
نجیب اور اس کی بیوی، اِیولن