اعتراف روحانی شفا کا باعث بنتا ہے
اعتراف روحانی شفا کا باعث بنتا ہے
”جب مَیں خاموش رہا تو دنبھر کے کراہنے سے میری ہڈیاں گھل گئیں۔ کیونکہ تیرا ہاتھ رات دن مجھ پر بھاری تھا میری تراوت گرمیوں کی خشکی سے بدل گئی۔“ (زبور ۳۲:۳، ۴) یہ دلسوز الفاظ قدیم اسرائیل کے بادشاہ داؤد کے دُکھ کی عکاسی کرتے ہیں جس کا تجربہ اُس نے ایک سنگین گناہ کا اعتراف کرنے کی بجائے اُس پر پردہ ڈالنے کی وجہ سے کِیا تھا۔
داؤد بڑا ہی قابل شخص تھا۔ وہ ایک بہادر سپاہی، ماہر مدّبر، شاعر اور موسیقار تھا۔ تاہم، وہ اپنی صلاحیتوں کی بجائے خدا پر توکل کرتا تھا۔ (۱-سموئیل ۱۷:۴۵، ۴۶) اُسے ”خدا کے ساتھ کامل“ رہنے والا شخص کہا گیا تھا۔ (۱-سلاطین ۱۱:۴) تاہم اُس سے سرزد ہونے والا ایک گناہ بالخصوص قابلِسزا تھا جسکا اشارہ اُس نے زبور ۳۲ میں دیا ہوگا۔ اس گناہ کا سبب بننے والے حالات کا جائزہ لینے سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ہم پوشیدہ خطرات کی شناخت کرکے ان سے بچنے کے علاوہ خدا کیساتھ اپنا رشتہ اُستوار کرنے کیلئے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کی ضرورت کی بابت بھی بصیرت حاصل کرینگے۔
ایک وفادار بادشاہ گناہ میں پڑ جاتا ہے
اسرائیلی قوم عمونیوں کیخلاف جنگ میں مصروف تھی لیکن داؤد یروشلیم میں تھا۔ ایک شام اپنے محل کی چھت پر چہلقدمی کرتے ہوئے اُس نے پڑوس میں ایک خوبصورت عورت کو غسل کرتے دیکھا۔ ضبطِنفس سے کام لینے کی بجائے وہ جذبات میں بہہ کر اُسے حاصل کرنے کی خواہش کرنے لگا۔ جب اُسے معلوم ہوا کہ وہ اُسکی فوج کے ایک سپاہی اوریاہ کی بیوی بتسبع ہے تو داؤد نے اُسے بلوا کر اُس کیساتھ زنا کِیا۔ وقت آنے پر بتسبع نے داؤد کو اپنے حاملہ ہونے کی خبر دی۔—۲-سموئیل ۱۱:۱-۵۔
داؤد مشکل میں پڑ گیا۔ اگر لوگوں کو اُن کے گناہ کا پتہ چل گیا تو اُن دونوں کو سزائےموت ہو جائے گی۔ (احبار ۲۰:۱۰) لہٰذا اُس نے ایک ترکیب سوچی۔ اُس نے بتسبع کے شوہر، اوریاہ کو میدانِجنگ سے واپس بلوایا۔ جنگ کی بابت اوریاہ سے پوری تفصیلات دریافت کرنے کے بعد، داؤد نے اُسے اپنے گھر جانے کی ہدایت کی۔ داؤد چاہتا تھا کہ اس سے یہ ظاہر ہو کہ اوریاہ ہی بتسبع کے بچے کا باپ ہے۔—۲-سموئیل ۱۱:۶-۹۔
تاہم، جب داؤد کو معلوم ہوتا ہے کہ اوریاہ اپنی بیوی سے نہیں ملا تو وہ جھنجھلا اُٹھتا ہے۔ اوریاہ نے بیان کِیا کہ جب باقی فوج جنگ میں مشکلات برداشت کر رہی ہے تو وہ گھر جانے کی بابت سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسرائیلی سپاہی جنگ کے دوران، اپنی بیویوں کیساتھ بھی جنسی تعلقات سے گریز کرتے تھے۔ انہیں رسمی طور پر پاک رہنا پڑتا تھا۔ (۱-سموئیل ۲۱:۵) اسکے بعد داؤد نے اوریاہ کو کھانے پر دعوت دی اور اُسے شراب پلا کر مدہوش کر دیا لیکن وہ پھر بھی اپنے گھر اپنی بیوی کے پاس نہ گیا۔ اوریاہ کی وفاداری نے داؤد کو اُسکے سنگین گناہ کیلئے مجرم ٹھہرایا۔—۲-سموئیل ۱۱:۱۰-۱۳۔
داؤد اپنے ہی گناہ کے جال میں بُری طرح پھنس رہا تھا۔ اُسے مایوسی کے عالم میں صرف ایک ہی راستہ نظر آیا۔ اُس نے فوجی جرنیل، یوآب کیلئے ایک خط کیساتھ اوریاہ کو واپس میدانِجنگ بھیجا۔ اس مختصر سے خط کا مقصد واضح تھا: ”اؔوریاہ کو گھمسان میں سب سے آگے رکھنا اور تم اُسکے پاس سے ہٹ جانا تاکہ وہ مارا جائے اور جان بحق ہو۔“ ایک طاقتور بادشاہ نے محض ایک خط کے ذریعے بظاہر اپنی غلطی پر پردہ ڈال کر اوریاہ کو اُسکی موت تک پہنچایا تھا۔—۲-سموئیل ۱۱:۱۴-۱۷۔
یرمیاہ ۱۷:۹؛ ۲-سموئیل ۱۱:۲۵۔
جیسے ہی اس کے شوہر کے سوگ کے دن پورے ہوئے، داؤد نے بتسبع سے شادی کر لی۔ کچھ دن گزرنے کے بعد انکا بچہ پیدا ہوا۔ اس پورے عرصے کے دوران داؤد اپنے گناہوں کی بابت خاموش رہا۔ شاید وہ اپنےآپ ہی میں اپنے کاموں کی توجیہ کر رہا تھا۔ کیا اوریاہ جنگ میں دوسروں کی طرح عزت کی موت نہیں مرا تھا؟ اسکے علاوہ، کیا اُس نے اپنی بیوی کے پاس جانے سے انکار کرکے بادشاہ کی نافرمانی نہیں کی تھی؟ ’حیلہباز دل‘ ہر قسم کے دلائل سے گناہ کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔—گناہ کا باعث بننے والی غلطیاں
راستبازی کا طالب، داؤد زناکاری اور قتل کی حد تک کیسے گِر سکتا تھا؟ اُسکے گناہ کا بیج بظاہر کافی عرصہ پہلے ہی بویا جا چکا تھا۔ ہم سوچ سکتے ہیں کہ داؤد یہوواہ کے مخالفین کے خلاف جنگ میں اپنے آدمیوں کی مدد کیلئے ان کیساتھ کیوں نہیں گیا تھا۔ اسکے برعکس، داؤد اپنے محل میں آرام کر رہا تھا جہاں اُسے جنگ کی ذرا بھی فکر نہیں تھی جسکی وجہ سے وہ ایک وفادار سپاہی کی بیوی کیلئے غلط خواہش کو اپنے دل سے نکال نہ سکا۔ آجکل، سچے مسیحیوں کیلئے اپنی کلیسیاؤں کی روحانی کارگزاریوں اور منادی کے کام میں باقاعدگی اور سرگرمی سے حصہ لینا باعثِتحفظ ہے۔—۱-تیمتھیس ۶:۱۲۔
اسرائیلی بادشاہ کو شریعت کی ایک نقل بنا کر اُسے روزانہ پڑھنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ بائبل اس کی وجہ فراہم کرتی ہے: ”تاکہ وہ [یہوواہ] اپنے خدا کا خوف ماننا اور اُس شریعت اور آئین کی سب باتوں پر عمل کرنا سیکھے۔ جس سے اُسکے دل میں غرور نہ ہو کہ وہ اپنے بھائیوں کو حقیر جانے اور ان احکام سے نہ تو دہنے نہ بائیں مڑے۔“ (استثنا ۱۷:۱۸-۲۰) ممکن ہے کہ داؤد ان سنگین گناہوں میں پڑنے کے وقت اس ہدایت پر عمل نہیں کر رہا تھا۔ خدا کے کلام کا باقاعدہ مطالعہ اور اُس پر غوروخوض یقیناً اِن بُرے ایّام میں ہمیں غلط کاموں سے محفوظ رکھیگا۔—امثال ۲:۱۰-۱۲۔
علاوہازیں، دس احکام میں سے آخری حکم بالکل واضح تھا: ”تُو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا۔“ (خروج ۲۰:۱۷) اس وقت تک داؤد کے پاس کئی بیویاں اور حرمیں تھیں۔ (۲-سموئیل ۳:۲-۵) لیکن اس کے باوجود وہ کسی دوسری خوبصورت عورت کی خواہش کرنے سے بچ نہ پایا۔ یہ سرگزشت ہمیں یسوع کے یہ سنجیدہ الفاظ یاد دِلاتی ہے: ”جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُسکے ساتھ زنا کر چکا۔“ (متی ۵:۲۸) ایسی غیرمناسب خواہشات کو جگہ دینے کی بجائے ہمیں اپنے دلودماغ میں سے انہیں فوراً نکال دینا چاہئے۔
توبہ اور رحم
بائبل میں داؤد کے گناہ کا واضح بیان یقیناً کسی شخص کی جنسی خواہشات کی تسکین کیلئے درج نہیں کِیا گیا۔ یہ ریکارڈ ہمیں یہوواہ کی ایک نمایاں خوبی یعنی اُسکے رحم کے پُرزور اور تحریکانگیز اظہار کا مشاہدہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔—خروج ۳۴:۶، ۷۔
بتسبع سے بیٹے کی پیدائش کے بعد، یہوواہ نے ناتن نبی کو داؤد کے سامنے بھیجا۔ یہ دراصل رحم کا اظہار تھا۔ اگر نبی داؤد کے پاس نہ جاتا تو وہ خاموش رہتا اور گناہ کی روش پر چلنے سے سختدل ہو جاتا۔ (عبرانیوں ۳:۱۳) خوشی کی بات ہے کہ داؤد نے خدا کے رحم کیلئے جوابیعمل دکھایا۔ ناتن کے فہیم مگر واضح الفاظ نے داؤد کے ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا اور اُس نے فروتنی کیساتھ اقرار کر لیا کہ اُس نے خدا کے خلاف گناہ کِیا ہے۔ درحقیقت زبور ۵۱ بتسبع کے ساتھ داؤد کے گناہ پر توجہ مبذول کراتا ہے جو اُس نے اپنے اس سنگین گناہ سے توبہ اور اعتراف کے بعد قلمبند کِیا تھا۔ دُعا ہے کہ سنگین گناہ کرنے کی صورت میں ہم کبھی بھی اپنے دل کو سخت نہ ہونے دیں۔—۲-سموئیل ۱۲:۱-۱۳۔
داؤد کو معاف کر دیا گیا تھا مگر وہ تنبیہ یا اس گناہ کے نتائج سے بری نہیں ہو سکا تھا۔ (امثال ۶:۲۷) صورتحال اس سے فرق کیسے ہو سکتی تھی؟ اگر خدا اس گناہ کو نظرانداز کر دیتا تو اُسکے معیار غیرمعتبر ثابت ہوتے۔ وہ بھی سردار کاہن عیلی کی طرح کمزور نظر آتا جسکی نرم اور غیرمؤثر تنبیہ نے اسکے بدکار بیٹوں کو اپنے بُرے کام جاری رکھنے کی وجہ فراہم کی۔ (۱-سموئیل ۲:۲۲-۲۵) تاہم یہوواہ تائب گنہگار کو اپنی شفقت سے محروم نہیں کرتا۔ تازہ، راحتبخش پانی کی طرح اُسکا رحم خطاکار کو اپنے گناہ کے نتائج برداشت کرنے کیلئے مدد فراہم کرتا ہے۔ الہٰی معافی کا پُرتپاک احساس اور ساتھی پرستاروں کیساتھ تقویتبخش رفاقت روحانی شفا کا باعث بنتے ہیں۔ جیہاں، مسیح کے فدیے کی بنیاد پر تائب شخص ”[خدا] کے . . . فضل کی دولت“ کا تجربہ کر سکتا ہے۔—افسیوں ۱:۷۔
’پاک دل‘ اور ’نئی روح‘
اپنے گناہ کا اعتراف کرنے کے بعد، داؤد نے اپنے اندر نااہلی کے منفی احساسات پیدا نہیں ہونے دئے تھے۔ اپنے اعتراف کی بابت مزامیر میں قلمبند اُس کے اظہارات گناہ کے بوجھ سے خلاصی کے احساس اور وفاداری سے خدا کی خدمت کرنے کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر زبور ۳۲ کا جائزہ لیں۔ پہلی آیت میں ہم پڑھتے ہیں: ”مبارک ہے وہ جس کی خطا بخشی گئی اور جس کا گناہ ڈھانکا گیا۔“ گناہ کی سنگینی سے قطعنظر، اگر ایک شخص خلوصدلی سے توبہ کرے تو نتیجہ پُرمسرت ہو سکتا ہے۔ اس خلوصدلی کو ظاہر کرنے کا ایک طریقہ داؤد کی طرح اپنے کاموں کے لئے مکمل ذمہداری قبول کرنا ہے۔ (۲-سموئیل ۱۲:۱۳) اُس نے یہوواہ کے حضور اپنے کاموں کی توجیہ کرنے یا دوسروں کو انکا ذمہدار ٹھہرانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ۵ آیت بیان کرتی ہے: ”مَیں نے تیرے حضور اپنے گناہ کو مان لیا اور اپنی بدکاری کو نہ چھپایا۔ مَیں نے کہا مَیں [یہوواہ] کے حضور اپنی خطاؤں کا اقرار کروں گا اور تُو نے میرے گناہ کی بدی کو معاف کِیا۔“ حقیقی اعتراف گناہ کے بوجھ سے نجات بخشتا ہے اور یوں ایک شخص کا ضمیر اُس کے سابقہ بُرے کاموں کی وجہ سے اُسے پریشان نہیں کرتا۔
یہوواہ سے معافی کے لئے التماس کرنے کے بعد، داؤد نے درخواست کی: ”اَے خدا! میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں ازسرِنو مستقیم روح ڈال۔“ (زبور ۵۱:۱۰) ’پاک دل‘ اور ’نئی روح‘ کی درخواست ظاہر کرتی ہے کہ داؤد نہ صرف اپنی گنہگارانہ روش سے واقف تھا بلکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اُسے اپنے دل کو پاک کرنے اور ایک نئی زندگی شروع کرنے کیلئے خدا کی مدد کی ضرورت ہے۔ خودرحمی کا شکار ہونے کی بجائے وہ خدا کی خدمت جاری رکھنے کیلئے پُرعزم تھا۔ اُس نے دُعا کی: ”اَے [یہوواہ]! میرے ہونٹوں کو کھول دے تو میرے مُنہ سے تیری ستایش نکلے گی۔“—زبور ۵۱:۱۵۔
داؤد کی حقیقی توبہ اور خدمت کرنے کی پُرعزم کوشش کے لئے یہوواہ کا جوابیعمل کیا تھا؟ اُس نے داؤد کو یہ تقویتبخش یقیندہانی کرائی: ”مَیں تجھے تعلیم دوں گا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہوگا تجھے بتاوں گا۔ مَیں تجھے صلاح دوں گا۔ میری نظر تجھ پر ہوگی۔“ (زبور ۳۲:۸) یہ اظہار تائب گنہگار کے احساسات اور ضروریات کے لئے یہوواہ کی ذاتی دلچسپی کا ثبوت ہے۔ یہوواہ نے داؤد کو معاملات کی گہری سمجھ کے لئے اضافی بصیرت عطا کی۔ مستقبل میں آزمائش کا سامنا کرنے کی صورت میں اُس کی بصیرت اُسے اپنے اعمال کے نتائج اور دوسروں پر اُس کے اثرات پر غور کرنے کی صلاحیت عطا کرکے اُسے حکمت سے کام لینے کے قابل بنا سکتی تھی۔
داؤد کی زندگی کا یہ واقعہ سنگین گناہ میں پڑنے والے سب لوگوں کے لئے حوصلہافزائی کا باعث ہے۔ ہم اپنے گناہ کا اعتراف اور دلی توبہ کرنے سے یہوواہ خدا کے ساتھ اپنے نہایت قیمتی رشتے کو بحال کر سکتے ہیں۔ اگر ہمیں وقتی تکلیف اور شرمندگی برداشت کرنی بھی پڑے تو یہ گناہ کا اعتراف نہ کرنے سے تجربے میں آنے والی اذیت یا باغیانہ روش اختیار کرکے سختدل بن جانے کے تباہکُن نتائج سے کہیں زیادہ بہتر ہوگی۔ (زبور ۳۲:۹) اس کی بجائے ہم ایک پُرمحبت اور رحیم خدا کی تازگیبخش معافی کا تجربہ کر سکتے ہیں جو ”رحمتوں کا باپ اور ہر طرح کی تسلی کا خدا ہے۔“—۲-کرنتھیوں ۱:۳۔
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
داؤد نے اوریاہ کو موت کے مُنہ میں بھیج کر اپنے گناہ کے اثرات سے بچنا چاہا