مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اِنٹرویو | سٹیفن ٹیلر

اکاؤنٹنگ کے ایک پروفیسر اپنے ایمان کے بارے میں بتاتے ہیں

اکاؤنٹنگ کے ایک پروفیسر اپنے ایمان کے بارے میں بتاتے ہیں

پروفیسر سٹیفن ٹیلر ملک آسٹریلیا کے شہر سڈنی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ وہ سٹاک ایکسچینج مارکیٹ پر تحقیق کرتے ہیں۔‏ وہ خاص طور پر اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ اِن مارکیٹوں میں ہونے والے کاروبار کی اچھی طرح نگرانی کیسے کی جا سکتی ہے۔‏ جاگو!‏ کے ناشرین نے ایک اِنٹرویو کے دوران اُن سے اُن کی تحقیق کے حوالے سے بات‌چیت کی اور پوچھا کہ اِس کا اُن کے ایمان پر کیا اثر ہوا ہے۔‏ آئیں،‏ اِس اِنٹرویو کو پڑھیں۔‏

ہمیں اپنے پس‌منظر کے بارے میں کچھ بتائیں۔‏

میرے ماں باپ باقاعدگی سے چرچ جاتے تھے۔‏ وہ بڑے محنتی اور دیانت‌دار تھے۔‏ وہ چاہتے تھے کہ مَیں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں اِس لیے مَیں نے ایک یونیورسٹی سے کامرس کی تعلیم حاصل کی۔‏ مجھے مختلف موضوعات پر تحقیق کرنا بہت اچھا لگتا تھا اِس لیے مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں ایک تحقیق‌دان بنوں گا۔‏

تو پھر آپ نے کس میدان میں تحقیق کرنا شروع کِیا؟‏

مجھے یہ جاننے کا شوق تھا کہ سٹاک ایکسچینج مارکیٹ کیسے چلتی ہے۔‏ اِس مارکیٹ میں مختلف کمپنیوں کے حصص کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔‏ اِس سے جو پیسہ اِکٹھا ہوتا ہے،‏ کمپنیاں اُسے اپنے کاروبار میں لگاتی ہیں۔‏ مَیں خاص طور پر ایسے عناصر پر غور کرتا ہوں جن کی وجہ سے کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اُتارچڑھاؤ آتا ہے۔‏

کیا آپ کوئی مثال دے سکتے ہیں؟‏

کمپنیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ باقاعدگی سے اپنے منافع کا اِعلان کریں۔‏ سرمایہ‌کار کسی کمپنی کی مالی حالت کا اندازہ اُس کے منافع سے لگاتے ہیں۔‏ لیکن کمپنیاں اپنے منافع کا تعیّن فرق فرق طریقوں سے کرتی ہیں۔‏ ماہرین کہتے ہیں کہ کمپنیاں اکثر اپنے اصلی منافع کو ظاہر نہیں کرتیں جس سے سرمایہ‌کاروں کو اُن کی اصل مالی حالت کا اندازہ نہیں ہوتا۔‏ لہٰذا مَیں اور میرے ساتھی کچھ اہم سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جیسے کہ سرمایہ‌کاروں کو کن معلومات کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ کمپنی کی اصل حالت جان سکیں؟‏ اور سٹاک ایکسچینج مارکیٹ کے نگرانوں کو کاروبار کو صاف ستھرا  رکھنے کے لیے کن معلومات کی ضرورت ہوتی  ہے؟‏

آپ کا مذہبی پس‌منظر کیا ہے؟‏

ہمارا تعلق پریس‌بٹیرین چرچ سے تھا اور مَیں اپنے امی ابو کے ساتھ باقاعدگی سے چرچ جایا کرتا تھا۔‏ لیکن جوانی میں ہی مذہب سے میرا دل اُٹھ گیا۔‏ مَیں بائبل کا احترام کرتا تھا اور خالق پر ایمان بھی رکھتا تھا مگر میرا خیال تھا کہ مذہب اِنسان کے مسئلوں کا حل نہیں ہے۔‏ مجھے لگتا تھا کہ لوگ چرچ میں صرف میل جول کے لیے آتے ہیں۔‏ مَیں یورپ کے کئی بڑے بڑے چرچوں میں گیا اور دیکھا کہ اُن کے پاس کتنی دولت ہے۔‏ مَیں سوچتا تھا کہ جب دُنیا میں اِتنی غربت ہے تو پھر اِن کے پاس اِتنی دولت کہاں سے آئی۔‏ مجھے یہ بات بہت بُری لگی اور مذہب سے میرا یقین اُٹھ گیا۔‏

آپ کی سوچ کیسے بدلی؟‏

میری بیوی جینی‌فر نے یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور اُن کی عبادتوں پر بھی جانے لگی۔‏ مَیں نے سوچا کہ مَیں بھی جا کر دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے لوگ ہیں اور کیا تعلیم دیتے ہیں۔‏ جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ مَیں تو بائبل کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا۔‏ لہٰذا مَیں نے بھی اُن سے درخواست کی کہ وہ مجھے بائبل کی تعلیم دیں۔‏

مَیں اِس بات سے بہت متاثر ہوا کہ یہوواہ کے گواہ بائبل پر گہرائی سے تحقیق کرتے ہیں۔‏ وہ مختلف موضوعات کے بارے میں معلومات اِکٹھی کرتے ہیں،‏ اِن کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں۔‏ مَیں بھی تو یونیورسٹی میں اِسی طرح سے تحقیق کرتا ہوں۔‏ میری بیوی 1999ء میں یہوواہ کی گواہ بن گئی اور اِس کے کچھ سال بعد مَیں بھی یہوواہ کا گواہ بن گیا۔‏

آپ نے اپنے کام کے دوران جو علم حاصل کِیا ہے،‏ کیا اُس سے بائبل پر آپ کا ایمان مضبوط ہوا ہے؟‏

جی بالکل۔‏ خدا نے بنی‌اِسرائیل کو جو شریعت دی تھی،‏ اُس میں ایسے معاشی مسائل کا حل موجود ہے جن کی وجہ سے ماہرین آج بھی اُلجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔‏ خدا نے بنی‌اِسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی فصل کا کچھ حصہ غریبوں کے لیے چھوڑ دیا کریں۔‏ یہ بندوبست دراصل ٹیکس اور اِنشورنس جیسا تھا۔‏ خدا نے اُن سے یہ بھی کہا تھا کہ جب وہ کسی کو قرض دیں تو سُود نہ لیں۔‏ یہ اِنتظام ضرورت‌مندوں کو آسان قرضے دینے جیسا تھا۔‏ لیکن آج‌کل بہت سے ملکوں میں ایسی سہولت موجود نہیں ہے۔‏ شریعت میں یہ اِنتظام بھی تھا کہ ہر 50 سال کے بعد جائیداد اُس کے اصلی مالک کو لوٹا دی جائے۔‏ جائیداد کے حقوق کو محفوظ رکھنے کا اِنتظام تو آج بھی ہے مگر بہت سے لوگ اِس سے فائدہ حاصل نہیں کر پاتے۔‏ (‏احبار 19:‏9،‏ 10؛‏ 25:‏10،‏ 35-‏37؛‏ استثنا 24:‏19-‏21‏)‏ شریعت کے ایسے اِنتظامات سے لوگوں کو تین فائدے ہوئے:‏ (‏1)‏ مالی مشکلات میں لوگوں کو مدد ملتی تھی،‏ (‏2)‏ لوگ غربت کے چنگل سے نکل آتے تھے اور (‏3)‏ امیر اور غریب کا فرق کم سے کم رہتا تھا۔‏ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ شریعت میں یہ باتیں 3000 سال پہلے لکھی گئیں جب دُنیا کے عالموں نے معاشی اصول رائج بھی نہیں کیے تھے۔‏

بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں دیانت‌دار،‏ بھروسامند،‏ رحم‌دل اور فراخ‌دل ہونا چاہیے۔‏ (‏استثنا 15:‏7-‏11؛‏ 25:‏15؛‏ زبور 15‏)‏ جس معاشرے میں ایسے لوگ ہوں وہاں معاشی تحفظ کو فروغ ملتا ہے۔‏ حالیہ مالی بحران کے بعد ماہرین نے سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کرنے والوں کو یہ ترغیب دینا شروع کر دیا ہے کہ وہ لین‌دین کے دوران دیانت‌داری کو فروغ دیں۔‏ لیکن میرے خیال سے کاروباری ماہرین دیانت‌داری کو فروغ دینے کے لیے جو بھی معیار بنائیں،‏ وہ بائبل کے معیاروں سے بہتر نہیں ہو سکتے۔‏

آپ کے ایمان نے آپ کی ذات پر کیا اثر ڈالا ہے؟‏

بائبل کی تعلیم حاصل کرنے میں مَیں نے جو وقت صرف کِیا ہے،‏ وہ میری زندگی کی سب سے بڑی سرمایہ‌کاری ہے۔‏

جینی‌فر مجھ سے کہتی ہے کہ اب میری سوچ میں قدرے لچک آ گئی ہے۔‏ پہلے مَیں سوچتا تھا کہ میرے کسی بھی کام میں کوئی نقص نہیں ہونا چاہیے۔‏ مَیں یہ سمجھتا تھا کہ ہر بات کے صرف دو ہی پہلو ہو سکتے ہیں،‏ صحیح یا غلط۔‏ اِسی لیے مَیں ایک اچھا اکاؤنٹنٹ بنا کیونکہ اکاؤنٹنگ میں بھی کوئی بات یا تو صحیح ہوتی ہے یا غلط۔‏ لیکن بائبل کے اصولوں پر غور کرنے سے میری سوچ میں لچک پیدا ہو گئی ہے۔‏ اب مَیں پہلے سے زیادہ خوش ہوں اور میرے گھر والے بھی خوش ہیں۔‏ جب ہم دوسروں کو یہ بتاتے ہیں کہ بائبل کی تعلیم پر چلنا بہت فائدہ‌مند ہے تو ہمیں بہت اِطمینان ملتا ہے۔‏ بائبل کی تعلیم حاصل کرنے میں مَیں نے جو وقت صرف کِیا ہے،‏ وہ میری زندگی کی سب سے بڑی سرمایہ‌کاری ہے۔‏