اِنسان سیکھنے کی کتنی گنجائش رکھتا ہے؟
اِنسان سیکھنے کی کتنی گنجائش رکھتا ہے؟
”جتنا ہی ہم اپنی ذہنی قوت کو استعمال کرتے ہیں اتنا ہی اس میں بڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔“—ٹونی بوزان اور ٹیرینس ڈکسن، سائنسدان۔
انسان کا ذہن سیکھنے کی کتنی گنجائش رکھتا ہے؟ سائنسدان اس سوال کے جواب کو دریافت کرتے کرتے دنگ رہ جاتے ہیں۔ مصنف پیٹر رسل اپنی کتاب (دی برین بُک) میں یوں لکھتے ہیں: ”ہم سوچا کرتے تھے کہ انسان کا ذہن صرف ایک حد تک معلومات جذب کر سکتا ہے۔ لیکن تحقیق نے ظاہر کِیا ہے کہ یہ بالکل سچ نہیں۔“
مثال کے طور پر یادداشت ہی کو لیجئے۔ مصنف رسل انسانی یادداشت کے بارے میں یوں کہتے ہیں: ”یہ ایک برتن کی طرح نہیں ہے جسے آپ صرف ایک حد تک بھر سکتے ہیں بلکہ ایک درخت کی مانند ہے جو بڑھتا رہتا ہے۔ جو کچھ بھی آپ یاد کر لیتے ہیں وہ اس درخت کی ایک شاخ کی طرح ہے جس سے مزید ٹہنیاں اُگ سکتی ہیں۔ انسان کی یادداشت کی کوئی حد نہیں
ہوتی۔ آپ جتنی باتیں سیکھینگے اتنا ہی آپ اپنی یادداشت کی گنجائش کو بڑھاتے رہینگے۔“ لہٰذا ہم ایک مرتبہ پھر سے اس سوال کو دُہرائینگے جسکا ذکر ہم نے پچھلے مضمون میں کِیا تھا: ہمارا ذہن سیکھنے کی اتنی گنجائش کیوں رکھتا ہے؟ایسے لوگ جو خدا کے وجود میں یقین نہیں رکھتے بلکہ جو کہتے ہیں کہ ہر چیز خودبخود وجود میں آئی ہے اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔ انکا کہنا ہے کہ مدتوں سے ہر شے کے اعضا اُسکی ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتے آ رہے ہیں۔ لیکن اگر انکا دعویٰ سچ ہے پھر ہمارا ذہن ہماری ضرورت سے کہیں زیادہ گنجائش کیوں رکھتا ہے؟ یہ تو ایک مٹھی بھر ریت لادنے کیلئے ایک بڑے سے ٹرک کو استعمال کرنے کے برابر ہوا۔
خدا کا کلام اس سوال کا جواب فراہم کرتا ہے۔ ہم اس میں پڑھتے ہیں کہ آدم اور حوا سب سے پہلا انسانی جوڑا تھا اور تمام انسان انکی اولاد ہیں۔ خدا نے آدم اور حوا کو اپنی صورت کے مطابق خلق کِیا۔ اسکا مطلب ہے کہ وہ خدا کی خوبیاں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ خدا کے کلام میں ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے خلق کِیا گیا تھا۔ اِس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ تک سیکھتے رہنے کی گنجائش کیساتھ بھی خلق کِیا گیا ہے۔ (پیدایش ۱:۲۷؛ ۲:۱۶، ۱۷) جب آدم اور حوا نے خدا کی نافرمانی کی تو اُنکے کامل بدن میں نقص پیدا ہو گیا۔ انکی اولاد ہونے کی حیثیت سے ہم نے بھی یہ نقص ورثے میں پایا ہے۔ اسکے باوجود ہمارا ذہن اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ تک زندہ رہنے کیلئے ہی بنایا گیا ہے۔—رومیوں ۵:۱۲۔
ابتدا میں خدا کا مقصد تھا کہ زمین پر ایسے لوگ بسیں جو اسکا کہنا مانیں اور ہر لحاظ سے کامل ہوں۔ یہوواہ خدا نے اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے یسوع مسیح کو ہماری خاطر موت چکھنے دی۔ اُسکی جان کی قربانی کی وجہ سے ہم ہمیشہ زندہ رہنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔—متی ۲۰:۲۸؛ یوحنا ۳:۱۶۔
بہترین روحانی خوراک
یہوواہ خدا نے ہمیں اپنا پاک کلام بھی دیا ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶؛ ۲-پطرس ۱:۲۱) ہم خدا کے کلام میں اپنے لئے بہترین روحانی خوراک پاتے ہیں۔ یہ خوراک ہماری ذہنی اور روحانی توانائی کو برقرار رکھنے کیلئے بےحد ضروری ہے۔ (زبور ۱۹:۷-۱۰) یسوع مسیح نے اس سلسلے میں کہا کہ ”آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہیگا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی ہے۔“—متی ۴:۴۔
لہٰذا، چاہے آپ جوان ہوں یا عمررسیدہ آپ ہر روز خدا کی ان ’باتوں‘ کو پڑھنے کیلئے کچھ وقت نکالا کریں۔ جو اشخاص ایسا کرینگے اور پھر ان باتوں پر عمل بھی کرینگے جو وہ خدا کے کلام میں پڑھتے ہیں وہ برکتیں پائینگے۔ ایسے لوگ ہمیشہ تک زندہ رہنے اور ہمیشہ تک سیکھتے بھی رہنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں کیونکہ یہی وہ مقصد ہے جسے خدا نے انسان کیلئے ٹھہرایا تھا۔ یہ کیا ہی شاندار اُمید ہے!—واعظ ۳:۱۱؛ یوحنا ۱۷:۳۔
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
خدا نے انسان کو ہمیشہ تک سیکھتے رہنے کی صلاحیت کیساتھ خلق کِیا
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
ہم خدا کے کلام سے اپنے لئے بہترین روحانی خوراک حاصل کر سکتے ہیں