فحشنگاری اسقدر عام کیوں ہے؟
فحشنگاری اسقدر عام کیوں ہے؟
شہوتانگیز مواد کی تاریخ ہزاروں سال پُرانی ہے۔ لیکن اس عرصے کے دوران فحشنگاری صرف دولتمند اور حکمران طبقے تک محدود تھی۔ مگر چھپائی کی وسعت، فوٹوگرافی اور متحرک فلموں کی ایجاد نے اس حالت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ فحشنگاری عام طبقے کی دسترس میں بھی آ گئی ہے۔
ویڈیوکیسٹس ریکارڈر کی ایجاد سے تو اس رُجحان میں بہت تیزی آ گئی ہے۔ سنیما ریلیز اور پُرانی تصویروں کی نسبت، ویڈیوکیسٹس کو سٹور، کاپی اور تقسیم کرنا آسان ہے۔ انکی وجہ سے تنہائی میں بیٹھ کر فلم دیکھنا بھی ممکن ہو گیا ہے۔ حال ہی میں، کیبل سسٹم اور انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافے کی وجہ سے فحشنگاری اَور بھی عام ہو گئی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب لوگ ویڈیو کی دُکان پر جاکر فلم لینے سے ہچکچاتے تھے مگر اب ”کیبل سسٹم اور اپنے ٹیوی پر ڈائریکٹ سروس“ کی سہولت کی بدولت گھر بیٹھے ہر طرح کی فلم دیکھنا ممکن ہو گیا ہے۔ فحشنگاری تک آسان رسائی نے اسکی ”مقبولیت“ میں اضافہ کر دیا ہے۔
فحشنگاری کی مقبولیت
فحشنگاری اسقدر مقبول ہو گئی ہے کہ بہتیرے اسکی بابت تذبذب کا شکار ہیں۔ ایک مصنف کے مطابق، ”تمام طرح کے ڈراموں، رقص، موسیقی اور فنونِلطیفہ کا معاشرے پر اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ فحشنگاری کا ہوا ہے۔“ فحشنگاری کیلئے جدید رُجحانات کی عکاسی اس بات سے ہوتی ہے کہ آجکل کی نامور ہستیاں عصمتفروشوں جیسا لباس پہنتی ہیں، موسیقی اور اشتہاروں میں شہوانی الفاظ اور حرکات کو نمایاں کِیا جاتا ہے۔ ایک مصنف بیان کرتا ہے: ”معاشرہ بِلاحیلوحجت سب کچھ قبول کرتا جا رہا ہے۔ . . . اس سے یہ نظریہ فروغ پاتا ہے کہ سب کچھ چلتا ہے۔“ نتیجتاً، ”لوگوں کی مزاحمت یا حیرانی کی حس ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اُنہیں کسی کی پرواہ نہیں ہے۔“
فحشنگاری کی وجہ
ایک اَور مصنف کے مطابق، بہتیرے لوگ ”فحاشی کے نتائج اور مسائل کو دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔“ بعض فحشنگاری کے حمایتیوں کے بہکاوے میں آ کر دعویٰ کرتے ہیں کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ فحشنگاری کا لوگوں پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ ایک دوسرا مصنف لکھتا ہے کہ ”فحشنگاری بہرحال ایک تخیل ہے لیکن اسکے مخالفین اس بات کو نہیں سمجھتے۔“ لیکن اگر تخیل میں کوئی طاقت یا اثر نہیں توپھر اشتہاربازی کی صنعت کا دارومدار کس چیز پر ہے؟ اگر انکا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تو بڑیبڑی کمپنیاں اشتہاروں اور ویڈیوز پر لاکھوں روپے کیوں خرچ کرتی ہیں؟
حقیقت تو یہ ہے کہ کامیاب اشتہاربازی کی طرح فحشنگاری کا بنیادی مقصد بھی ایسی خواہشات پیدا کرنا ہے جو پہلے موجود نہیں تھیں۔ مصنّفین کا کہنا ہے کہ ”فحشنگاری بھی نفع کمانے کا ذریعہ ہے۔ اس سلسلے میں تجارتی دُنیا پاگل ہو گئی ہے کیونکہ اُسکی نظر میں بالخصوص عورت کا جسم اور انسانی جنسی
تعلقات سمیت ہر چیز بکاؤ ہے۔“ بعض ماہرین کے نزدیک فحشنگاری دراصل ”غذائیت سے عاری مگر لذت کی خاطر متعدد کیمیکلز سے بھرے فاسٹفوڈ کی طرح ہے۔ میڈیا کی طرف سے فراہمکردہ جنس نقلی اور بناوٹی ہے۔ جیسے آجکل غذائیت اور لذت سے عاری کھانا بکتا ہے ویسے ہی فحشنگاری غیرحقیقی جنس کو فروغ دیتی ہے۔“بعض ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ فحشنگاری کی عادت منشیات کی عادت سے بھی بُری ہے۔ جسم سے نشہآور مواد نکال دینے سے نشے کی عادت کا تو علاج کِیا جا سکتا ہے۔ لیکن ”فحشنگاری دماغ میں ہمیشہ کیلئے نقش ہو جاتی ہے۔“ اسی لئے کئی سال بعد بھی لوگ گندی تصویروں کو یاد کر سکتے ہیں۔ اسلئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”یہ ایک ایسا نشہ ہے جسے جسم سے نکالا نہیں جا سکتا۔“ لیکن کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ فحشنگاری کے اثر سے آزاد ہونا ناممکن ہے؟ نیز فحشنگاری سے خاص طور پر کیا نقصان ہوتا ہے؟
[صفحہ ۶ پر بکس]
انٹرنیٹ پر فحشنگاری سے متعلق حقائق
▪ تقریباً ۷۵ فیصد انٹرنیٹ پر فحشنگاری کا مصدر ریاستہائےمتحدہ ہے۔ تقریباً ۱۵ فیصد کا تعلق یورپ سے ہے۔
▪ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۷۰ ملین لوگ ہر ہفتے کمپیوٹر پر فحشنگاری دیکھتے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ۲۰ ملین لوگ کینیڈا اور ریاستہائےمتحدہ میں رہتے ہیں۔
▪ ایک ماہ پر مشتمل حالیہ سروے کے مطابق، یورپ میں کمپیوٹر فحشنگاری سے دل بہلانے میں جرمنی سرِفہرست رہا، اسکے بعد برطانیہ، فرانس، اٹلی اور سپین کا نمبر آتا ہے۔
▪ جرمنی میں کمپیوٹر پر فحشنگاری دیکھنے والے ہر ماہ اوسطاً ۷۰ منٹ صرف کرتے ہیں۔
▪ یورپ میں انٹرنیٹ پر فحشنگاری دیکھنے والوں میں زیادہتر ۵۰ سال سے بڑی عمر والے بالغوں کی ویب سائٹس پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔
▪ ایک ذریعے کے مطابق، ۷۰ فیصد انٹرنیٹ فحشنگاری دن کے دوران دیکھی جاتی ہے۔
▪ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ۰۰۰،۰۰،۱ انٹرنیٹ سائٹس پر بچوں سے متعلق فحشنگاری دکھائی جاتی ہے۔
▪ انٹرنیٹ پر ۸۰ فیصد بچوں کی تجارتی فحشنگاری کا مصدر جاپان ہے۔
[صفحہ ۴ پر تصویر]
فحشنگاری بہت عام ہو گئی ہے