خلیج بوٹنی میں قید
خلیج بوٹنی میں قید
آسٹریلیا میں جاگو! کا رائٹر
”مجھے تو یہ کتاب راستے میں پڑی ہوئی ملی تھی،“ جواںسال جوب استدعا کرتا ہے۔ چھائیوں سے بھرے چہرے والے اس ۱۹ سالہ لڑکے کو کتاب چوری کرنے کے الزام میں لندن کی ایک سڑک پار کرتے وقت گرفتار کِیا گیا تھا۔ کتاب کی قیمت؟ اَسی سینٹ! اس نوجوان کے دفاعی بیان سے متاثر نہ ہوتے ہوئے، جج نے اُسے سزایافتہ لوگوں کی ایک کالونی میں سات سال قید کی سزا سنا دی۔
دُنیا کے دوسرے حصے میں، کیوبک، کینیڈا کے علاقے میں فرانکوس مورس لیپالیر نامی ایک شخص کو گرفتار کِیا گیا۔ برطانوی حکومت کے خلاف ناکام مسلح بغاوت میں حصہ لینے کی وجہ سے اُسے سزائےموت سنا دی گئی۔ تاہم، عدالت نے اُسے متبادل سزا دینے کا فیصلہ کِیا۔
اِن دو نوجوانوں میں برطانوی قانون کی خلافورزی کرنے کے علاوہ اَور بھی باتیں مشترک تھیں۔ ان دونوں کو آسٹریلیا میں سزایافتہ لوگوں کے ایک علاقے کو جانے والی کشتی پر سوار کرا دیا گیا جسکا نام خلیج بوٹنی ہے۔
ایک سزایافتہ کے طور پر آسٹریلیا میں رہنا کیسا تھا؟ کتنے لوگوں کو وہاں بھیجا گیا تھا؟ تاہم اِن دو نوجوانوں کو اپنے وطن سے اتنا دُور کیوں بھیج دیا گیا تھا؟
آسٹریلیا میں کیوں؟
سن ۱۷۱۸ میں برطانوی حکومت نے اپنی جیلوں میں بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کرنے کیلئے مجرموں کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ کِیا۔ سن ۱۷۷۰ تک وہ ہر سال ایک ہزار کی شرح سے مجرموں کو دوسری جگہوں پر، بالخصوص میریلینڈ اور ورجینیا کی اپنی نئی ریاستوں میں منتقل کر رہے تھے۔ سن ۱۷۸۳ میں شمالی امریکہ میں ہونے والی انقلابی جنگ کے باعث برطانیہ اپنے مجرموں کیلئے مُتعیّن اِن کالونیوں سے محروم ہو گیا۔ تاہم، اس وقت تک وہ ۰۰۰،۵۰ سے زیادہ مجرم وہاں بھیج چکا تھا۔
اس کی متبادل جگہ دُنیا کے دوسرے سرے پر واقع ایک بنجر علاقہ تھا۔ بحریہ کے ایک افسر جیمز کک نے ۱۳ سال پہلے اس کے مشرقی ساحل کی نقشہسازی کرکے اسے برطانیہ میں شامل کر دیا تھا۔ اس تحقیقی سمندری سفر میں جوزف بینکس بھی شامل تھا اور اُس نے یہ تجویز پیش کی کہ یہ علاقہ برطانوی سلطنت کی ناپسندیدہ رعایا کیلئے معقول جگہ ہوگی۔ لہٰذا، مئی ۱۷۸۷ میں ۱۱ چھوٹی کشتیوں پر مشتمل ایک بحری بیڑے نے خلیج بوٹنی کی طرف ۰۰۰،۲۶ کلومیٹر کے سفر کا آغاز کِیا۔ اگلے ۸۰ برس کے دوران، ۱۸۶۸ تک کُل ۸۲۹،۵۸،۱ مجرم آسٹریلیا بھیجے جا چکے تھے۔
ایک غیرمعمولی بحری سفر
سن ۱۸۳۳ میں نوجوان جوب اور اُسکے ۳۰۰ ساتھی بحفاظت پورٹ جیکسن، سڈنی کویو پہنچ گئے۔ اگرچہ یہ کالونی خلیج بوٹنی کے نام سے مشہور تھی توبھی، اصل جگہ جسکا یہ نام ہے جہاں آخرکار آبادکاری ہوئی اس سے چند کلومیٹر جنوب کی طرف ہے۔
بعض کے لئے تو یہ سفر ہی کسی سزا سے کم نہیں تھا۔ فرانکوس لیپالیر کی ڈائری سے ایک اقتباس جہاز پر زندگی کی جھلک پیش کرتا ہے: ”سن ۱۸۴۰ میں بفلو میں سوار ہمارا گزر کیپ آف گڈ ہوپ [جنوبی افریقہ] سے ہوا مگر مستقل اندھیرے، سخت قوانین، کاٹنے والے موذی کیڑوںمکوڑوں، شدید گرمی اور ہمارے لئے مصیبت برپا کرنے والی بھوک نے اس سفر کو انتہائی خوفناک بنا دیا تھا۔“
بڑی عجیب بات ہے کہ اس سب کے باوجود مجرمبردار یہ جہاز اُس وقت کے اعتبار سے سمندری سفر کے دوران صحت اور تحفظ کیلئے نہایت موزوں تھے۔ برطانوی حکومت کی طرف سے دئے گئے محرکات کے باعث سن ۱۷۸۸ سے لیکر ۱۸۶۸ تک اُنکی شرحِاموات ۸.۱ فیصد سے بھی کم تھی۔ اس کے برعکس، سن ۱۷۱۲ سے لیکر ۱۷۷۷ تک غلامبردار جہازوں کے ۳ فیصد سے لیکر ۳۶ فیصد بدقسمت مسافر سفر کے دوران ہی مر گئے۔ حیرانی کی بات ہے کہ اپنی مرضی سے یورپ سے امریکہ نقلمکانی کرنے والوں میں بھی شرحِاموات مجرمبردار جہازوں کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی!
فرق فرق عمریں
بچنے والوں کی اس بڑی شرح کی ایک وجہ مجرموں کی نوعمری تھی۔ فرانکوس تیس کے دہے میں تھا جو مجرموں میں نسبتاً بڑی عمر والا تھا۔ اکثریت کی عمر ۱۶ سے ۲۵ سال کے درمیان تھی جن میں سے بعض ۱۱ برس کے بھی تھے۔ مجرم مردوں اور مجرم عورتوں میں ۶ اور ۱ کی شرح تھی یعنی مرد، عورتوں کی نسبت زیادہ تھے۔
وہاں بھیجے جانے والے لوگوں کی بڑی تعداد کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ نصف سے زیادہ انگریز تھے، ایک تہائی آئرلینڈ سے اور چند ہزار مجرم سکاٹلینڈ سے تھے۔ فرانکوس جیسے بعض لوگ برطانوی سلطنت کے دُورافتادہ علاقوں سے آئے تھے جو آج کینیڈا، انڈیا، ملائشیا، سریلنکا اور چھوٹے سے جزیرے مالٹا کے نام سے مشہور ہیں۔
جبراً یہاں لائے جانے والے یہ لوگ اثرآفرین صلاحیتوں اور مہارتوں کے مالک تھے۔ اِن میں قصاب، بوئیلر بنانے والے، تانبے کو مختلف شکلوں میں ڈھالنے والے، بڑھئی، خانسامے، ٹوپیساز، درزی اور جولاہے شامل تھے۔ دراصل، سرکاری ریکارڈ میں ایک ہزار مختلف پیشوں کا ذکر کِیا گیا ہے جو کہ برطانیہ کی افرادی قوت کی عکاسی کرتا ہے۔
برطانوی مجرم پیچھے رہ جانے والے مزدور طبقہ سے زیادہ تعلیمیافتہ تھے۔ نیو ساؤتھ ویلز پہنچنے والے ایک تہائی لوگ لکھنےپڑھنے کے قابل تھے۔ اس کے مقابلے میں، پیچھے برطانیہ میں موجود لوگوں میں سے صرف نصف سے کچھ ہی زیادہ لوگ شادی کے رجسٹر پر دستخط کرنے کے قابل تھے۔
اغوا، قتل اور بغاوت آپکو خلیج بوٹنی پہنچا سکتے تھے مگر وہاں بھیجے جانے کیلئے یہ سب کام ضروری نہیں تھے۔ اتوار کے دن کوئی کھیلتماشا کرنا، رُومال چوری کرنا یا پاک صحائف پر بحث کرنا بھی اس جنوبی نصف کرۂارض پر بھیج دئے جانے کا باعث بن سکتا تھا۔
نئی سرزمین میں زندگی
آسٹریلیا میں ابتدائی سزایافتہ زندگی میں شدید مارپیٹ، پےدرپے ظلم اور غیرانسانی سلوک بہت عام تھا۔ بیشتر کے ساتھ ایسا ہی ہوتا تھا مگر دیگر کیلئے صورتحال اُنکے اپنے ملک کی نسبت بہتر تھی۔
ایک ایسا نظام قائم ہو گیا تھا جس کے تحت مجرموں کو نوآبادکاروں اور افسران کیلئے کام کرنے کی تفویض دی جاتی تھی یا پھر خود اپنے لئے کام کرنا پڑنا تھا۔ لہٰذا، سزا کے دوران زنجیروں میں رہ کر کام کرنے کی بجائے وہ اپنے پیشے کے مطابق کام کر سکتے تھے یا پھر کوئی نیا کام سیکھ سکتے تھے۔ مثال کے طور پر، جوب کو ایک امیر مگر مہربان زمیندار کیلئے کام کرنے پر مامور کِیا گیا اور اُس نے سڈنی کے گردونواح میں اپنے مالک کی جاگیر میں مویشیوں کی نگرانی کا کام سیکھ لیا۔
مجرموں سے ہر ہفتے ساڑھے پانچ دن یا ۵۶ گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ یہ نہایت عجیب بات تھی کیونکہ برطانیہ میں آزاد شہریوں کو بھی اس سے زیادہ کام کرنا پڑتا تھا، بعض کارخانوں میں تو ملازمین سے طلوعِآفتاب سے لیکر غروبِآفتاب تک کام کرنے کا تقاضا کِیا جاتا تھا۔ اگر مجرم مجوزہ وقت کے علاوہ کام کرتے تھے تو اُنہیں اُسکی اُجرت ملتی تھی اور وہ بعدازاں اکثر مویشیوں کیلئے چارا بیچنے جیسے چھوٹے چھوٹے کاروبار کر لیا کرتے تھے۔
اگرچہ کوڑوں کا آزادانہ استعمال ہوتا تھا توبھی، ایک سروے ظاہر کرتا ہے کہ نیو ساؤتھ ویلز میں ۶۶ فیصد مجرموں کو کوڑے نہیں لگائے گئے تھے یا شاید اپنی پوری سزا کے دوران اُنہیں صرف ایک بار ہی کوڑے لگے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ اُنکی مارپیٹ برطانوی فوج یا نیوی میں کام کرنے والے آدمیوں سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
ان حقائق کیساتھ ساتھ اس امکان کی وجہ سے کہ مجرم اپنی سزا ختم ہونے کے بعد یہاں ذاتی ملکیت حاصل کر سکتے تھے، بعض لوگوں میں یہاں بھیج دئے جانے کی خواہش پیدا کر دی تھی۔ سن ۱۸۳۵ میں، لندن میں بدنام نیوگیٹ جیل کے گورنر ڈبلیو. کوپ نے اُن قیدیوں کے ردِعمل کی بابت بتایا جنہیں یہاں بھیج دئے جانے کی دھمکی دی گئی تھی: ”بیس میں سے اُنیس بڑی خوشی سے وہاں جانا چاہتے ہیں۔“ ایک دوسرے نگران نے اپنی جیل کے قیدیوں کی بابت کہا: ”سو میں سے ننانوے وہاں جانے کے خواہشمند ہیں۔“
تاریک پہلو
اسکے برعکس، مسلسل قانونیشکنی کرنے والے لوگوں کیلئے زندگی انتہائی مشکل تھی۔ ایک رپورٹ نے بیان کِیا: ”اس کالونی میں بھیج دیا جانا کوئی آسان سزا نہیں ہے بلکہ یہ سزاؤں کا ایک سلسلہ ہے جس میں ہر قسم کا انسانیتسوز سلوک شامل ہے۔“ چکی پیسنا ایک ایسی ہی سزا تھی۔ فرانکوس اسے یوں بیان کرتا ہے: ”یہ دانے پیسنے کی ایک چکی ہے جسے مجرم چلاتے ہیں۔ ایک پہیے کے اُوپر ۱۸ آدمی متواتر بھاگتے ہیں جنکے وزن سے پہیہ اور چکی چلتی ہے۔ اکثر اِن آدمیوں کے پاؤں میں ایک ہی بیڑی ہوتی ہے مگر کبھیکبھار اُنکے پاؤں میں تین یا چار بیڑیاں بھی ہوتی ہیں اور اُنہیں دوسروں کی طرح کام کرنے پر مجبور کِیا جاتا ہے ورنہ اُنہیں بےرحمی سے ماراپیٹا جاتا ہے۔“
بدتمیزی کرنے والی مجرم خواتین کے گلے میں لوہے کے پٹے ڈال دئے جاتے تھے۔ ان کیساتھ دونوں طرف ایک ایک فٹ لمبی سلاخیں لگی ہوتی تھیں۔ یہ خیال کِیا جاتا تھا کہ یہ بھاری غیرفطری چیزیں ہی عورتوں کو قابو میں رکھنے کا واحد ذریعہ ہیں۔
تسمانیہ میں ہوبارٹ کے مشرق میں واقع پورٹ آرتھر جیسے سزا دینے والے ادارے، سلسلہوار سزائیں پانے والے مجرموں کو سخت سزا دینے کیلئے تیار کئے گئے تھے۔ اِن جگہوں پر کی جانے والی سختی کا اندازہ ایک سرکاری افسر کی رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس نے بیان کِیا: ”بعض مجرم قید کی بجائے موت کو ترجیح دیتے تھے اور سزائےموت پانے کیلئے جرم کرتے تھے۔“
بعض جلاوطن قیدیوں کے لئے خاندانوں سے الگ کر دیا جانا بڑی سزا تھی۔ فرانکوس لکھتا ہے: ”میرے عزیزو! یہ اسیری مجھے کب تک آپ سب سے جنہیں مَیں بہت زیادہ پیار کرتا ہوں دُور رکھے گی؟ یہ جدائی غمانگیز اور شکستہ کر دینے والی ہے۔ جوان بیوی اور محبت کرنے والے باپ کی شفقت سے ناآشنا چھوٹے بچوں سے بچھڑ جانا! میرے عزیزو! مَیں اکثر اپنا دھیان خدا کی طرف لگاتا ہوں اور اپنا دل اُس کے سامنے اُنڈیل دیتا ہوں تاکہ وہ میری اسیری کا باعث بننے والے ان تمام بندھنوں کو توڑ کر مجھے رہائی دلائے اور میری دلی تمنا کے مطابق مجھے میرے عزیز خاندان کے پاس واپس جانے کے قابل بنائے۔“
سزایافتہ مجرموں کا حصہ
سن ۱۸۳۷ میں گورنر برک نے کہا: ”سزایافتہ مجرموں کی مدد سے نیو ساؤتھ ویلز میں، محنتی اور ماہر آبادکاروں نے پچاس سال کے اندر اندر اس ویرانے کو خوبصورت اور روزافزوں ترقی کرنے والی کالونی بنا دیا ہے۔“ اس وقت تک کام کرنے والے مزدوروں کی دو تہائی مجرم یا ماضی کے مجرموں کی تھی جو کہ بعد میں نقلمکانی کر کے آنے والے لوگوں کی اس غیرمعمولی کام کو انجام دینے میں مدد کر رہے تھے۔ تمام سزایافتہ مجرموں میں سے ۹۰ فیصد یا اس سے بھی زیادہ نے اپنی مرضی سے یا حالات کے پیشِنظر آسٹریلیا کو اپنا وطن بنا لیا۔
نوجوان جوب بھی اِن مستقل باشندوں میں سے ایک بن گیا کیونکہ جب اُسے آزادی ملی تو اُس نے شادی کر لی اور وہیں آباد ہو گیا اور بالآخر آسٹریلیا اور نیو زیلینڈ کے سینکڑوں باشندوں کا جد بن گیا۔ اس کے برعکس، فرانکوس اُن چند لوگوں میں شامل تھا جو رہائی پانے کے بعد وطن واپس آئے اور اپنے عزیز خاندانوں سے ملنے کے قابل ہوئے۔
اُن ابتدائی دنوں کی نسبت آج زمانہ بہت بدل گیا ہے اور یکےبعددیگرے صرف تین نسلوں کے بعد، ”وہ خوبصورت اور روزافزوں ترقی کرنے والی کالونی“ اب مختلف ثقافتوں پر مشتمل ایک قوم بن گئی ہے۔ اب ہر سال ایشیا، کینیڈا اور برطانیہ سمیت یورپ سے ہزاروں لوگ خوشی سے آسٹریلیا کی سیر کرنے اور یہاں رہنے کیلئے درخواست دیتے ہیں۔ جب وہ یہاں پہنچتے ہیں تو اُنہیں ہر طرف سیمنٹ کی بلند عمارتیں اور بڑی بڑی شاہرائیں نظر آتی ہیں جنہیں سزایافتہ مجرموں نے انتہائی محنتومشقت سے تیار کِیا تھا۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا کے جدید پُرہجوم بازاروں میں پتھروں کی قدیم عمارتیں آج بھی اُن ابتدائی لوگوں کی محنتوں کی شاہد ہیں جو خلیج بوٹنی میں قید تھے۔
[صفحہ ۲۰ پر نقشہ/تصویریں]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
خلیج بوٹنی
[تصویریں]
جیمز کک
جوزف بینکس
[تصویروں کے حوالہجات]
Dictionary of American/Painting by John Weber :Cook
Dickinson, W. Portrait of Sir Joseph Banks :Banks ;Dover/Portraits
when Mr. Banks. Rex Nan Kivell Collection; NK10667. By permission
.Fittler, James :bay scene ;of the National Library of Australia
Sydney, New South Wales, with entrance into Port Jackson. By
permission of the National Library of Australia
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
(اُوپر) سڈنی کا یہ وسطی کاروباری علاقہ اُسی جگہ پر واقع ہے جو سزایافتہ مجرموں کی خلیج بوٹنی کالونی کہلاتی تھی
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
قیدی مزدوروں کا تعمیرکردہ قدیم سڈنی ہسپتال اب سٹیٹ ٹکسالی عجائب گھر ہے
[تصویر کا حوالہ]
Image Library, State Library of New South Wales
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
ہائیڈ پارک بیرکس، ایک قیدخانہ جسکی نقشہسازی اور تعمیر سزایافتہ مجرموں نے کی تھی
[تصویر کا حوالہ]
Hyde Park Barracks Museum )1817(. Historic Houses Trust of New
South Wales, Sydney, Australia
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
دی گریٹ نارتھ روڈ۔ مجرموں نے اس ۲۶۴ کلومیٹر لمبی شاہراہ کو ہاتھوں سے پہاڑیاں توڑ توڑ کر تیار کِیا تھا۔ یہ سڈنی اور نیوکیسل کے قریب واقع ہنٹر ویلی کو ملاتا ہے۔ یہ اس کالونی کے اہمترین سول انجینئرنگ کے کارناموں میں سے ایک تھا
[تصویر کا حوالہ]
.Managed by the National Parks and Wildlife Service, N.S.W