مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

عام رسومات کی بابت متوازن نظریہ

عام رسومات کی بابت متوازن نظریہ

بائبل کا نقطۂ‌نظر

عام رسومات کی بابت متوازن نظریہ

‏”‏کوئی بھی ایسا کام نہیں جس کی کسی مخصوص وقت یا مقام پر مذمت نہ کی گئی ہو اور کسی دوسرے وقت یا مقام پر اُسے اخلاقی فرض خیال کرتے ہوئے اُس کی تاکید نہ کی گئی ہو۔‏“‏

اس مشاہدے کیساتھ،‏ آئرلینڈ کا مؤرخ ولیم لکی لوگوں کے متلون مزاج کو بیان کرتا ہے۔‏ اُس کی رائے کا اطلاق مختلف وقتوں کی عام رسومات اور روایات پر بھی کِیا جا سکتا ہے۔‏ واقعی،‏ جن رسومات کو کبھی روزمرّہ زندگی کا جزوِلازم خیال کِیا جاتا تھا،‏ اُنہیں بعد کے وقتوں میں ناقابلِ‌قبول قرار دے دیا گیا ہے۔‏ یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ مسیحی رسول پولس نے بیان کِیا،‏ ”‏دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۱‏۔‏

جی‌ہاں،‏ انسانی معاشرہ ہمیشہ بےثبات رہتا ہے۔‏ اس کا اظہار عموماً رویوں اور معاشرتی عادات میں وسیع تغیرات سے ہوتا ہے۔‏ مسیحی ”‏دُنیا کے نہیں“‏ یعنی وہ خدا سے دُور انسانی معاشرے سے الگ رہتے ہیں۔‏ بہرصورت،‏ بائبل یہ تسلیم کرتی ہے کہ مسیحی ”‏دُنیا میں“‏ رہتے ہیں اسلئے یہ اُنہیں تنہائی‌پسند بننے کا حکم نہیں دیتی۔‏ لہٰذا،‏ رسومات کی بابت متوازن نظریہ رکھنا نہایت ضروری ہے۔‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۱،‏ ۱۴-‏۱۶؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۴-‏۱۷؛‏ افسیوں ۴:‏۱۷-‏۱۹؛‏ ۲-‏پطرس ۲:‏۲۰‏۔‏

رسومات کیا ہوتی ہیں؟‏

رسومات ایسے کام ہیں جن کا تعلق معاشرتی زندگی سے ہوتا ہے اور یہ کسی خاص جگہ یا کسی خاص طبقے کے لوگوں میں مشترک ہوتے ہیں۔‏ بعض رسومات،‏ جیسےکہ دسترخوان کے آداب‌واطوار کا آغاز شاید اجتماعی سرگرمیوں میں لوگوں کو ایسا مہذب طرزِعمل سکھانے کیلئے ہؤا ہو جس سے اُن کی آپس میں شایستگی اور خوش‌اخلاقی سے پیش آنے میں مدد ہوگی۔‏ ایسی حالتوں میں،‏ معاشرتی نوازشات کو ایسے تیل سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے جو انسانی رشتوں کے پہیوں کو رواں رکھتا ہے۔‏

مذہب نے رسومات کو بہت زیادہ متاثر کِیا ہے۔‏ درحقیقت،‏ بیشتر کا آغاز ہی قدیم توہم‌پرست اور غیربائبلی مذہبی نظریات سے ہؤا ہے۔‏ مثال کے طور،‏ غمزدہ اشخاص کو پھول پیش کرنے کا آغاز بھی شاید مذہبی توہم‌پرستی سے ہؤا ہے۔‏ * مزیدبرآں،‏ نیلا رنگ—‏جس کا تعلق اکثر نر بچے کے ساتھ ہوتا ہے—‏اس کی بابت خیال کِیا جاتا تھا کہ یہ بدرُوحوں کو دُور رکھے گا۔‏ مسکارا یا کاجل نظرِبد سے بچانے کا کام دیتا تھا جبکہ لپ‌اسٹک بدرُوحوں کو عورت کے مُنہ میں داخل ہونے اور اُس پر قابض ہونے سے روکنے کیلئے استعمال ہوتی تھی۔‏ اسکے علاوہ جمائی لیتے وقت مُنہ کے آگے ہاتھ رکھنے کی رسم کا آغاز بھی شاید اس نظریے سے ہؤا تھا کہ پورے کھلے ہوئے مُنہ سے ایک شخص کی جان باہر نکل سکتی ہے۔‏ تاہم،‏ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مذہبی عنصر ختم ہو گیا ہے اور آجکل ان رسومات کی کوئی مذہبی اہمیت نہیں ہے۔‏

مسیحیوں کی خاص دلچسپی

جب ایک مسیحی کو یہ فیصلہ درپیش ہوتا ہے کہ آیا وہ کسی مخصوص رسم پر عمل‌پیرا ہوگا یا نہیں تو اُسکی خاص دلچسپی اس بات میں ہونی چاہئے کہ اس کی بابت بائبل میں بیان‌کردہ خدا کا نظریہ کیا ہے؟‏ ماضی میں بھی خدا نے چند ایسے کاموں کی مذمت کی تھی جو بعض معاشروں میں شاید قابلِ‌قبول تھے۔‏ ان میں بچوں کی قربانی،‏ خون کا غلط استعمال اور مختلف جنسی کام شامل تھے۔‏ (‏احبار ۱۷:‏۱۳،‏ ۱۴؛‏ ۱۸:‏۱-‏۳۰؛‏ استثنا ۱۸:‏۱۰‏)‏ اسی طرح،‏ آجکل بھی بعض رسومات عام ہونے کے باوجود بائبل اُصولوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔‏ ان میں غیربائبلی روایات شامل ہیں جنکا تعلق کرسمس اور ایسٹر جیسے مذہبی تہواروں کیساتھ یا پھر ارواح‌پرستی سے وابستہ توہم‌پرستانہ کاموں سے ہے۔‏

تاہم،‏ ایسی رسومات کی بابت کیا ہے جنہیں ماضی میں قابلِ‌اعتراض کام کہا جاتا تھا مگر آج اُنہیں بنیادی طور پر معاشرتی آداب خیال کِیا جاتا ہے؟‏ مثال کے طور پر،‏ شادی کی کئی مقبول رسومات—‏جن میں ایک دوسرے کو انگوٹھیاں پہنانا اور کیک کھانا شامل ہے—‏بُت‌پرستانہ اصل سے ہو سکتی ہیں۔‏ کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ مسیحیوں کو ایسی رسومات ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے؟‏ کیا مسیحیوں سے یہ دیکھنے کیلئے علاقے کی ہر رسم کی بابت خوب چھان‌بین کرنے کا تقاضا کِیا جاتا ہے کہ آیا اس کا کہیں نہ کہیں یا کسی نہ کسی وقت پر کوئی غیرصحیفائی مفہوم تو نہیں رہا؟‏

پولس وضاحت کرتا ہے کہ ”‏جہاں کہیں [‏یہوواہ]‏ کا روح ہے وہاں آزادی ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۳:‏۱۷؛‏ یعقوب ۱:‏۲۵‏)‏ خدا چاہتا ہے کہ ہم اس آزادی کو خودغرضانہ خواہشات کو ترغیب دینے کیلئے نہیں بلکہ اپنے حواس کو نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کیلئے تربیت دینے کی غرض سے استعمال کریں۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۱۳؛‏ عبرانیوں ۵:‏۱۴؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۱۶‏)‏ لہٰذا،‏ ایسے معاملات میں جہاں بائبل اُصولوں کی صریحاً خلاف‌ورزی نہیں ہوتی،‏ یہوواہ کے گواہ بےلوچ قوانین نہیں بناتے۔‏ اسکی بجائے،‏ ہر مسیحی کو درپیش حالات کا جائزہ لینا اور ذاتی فیصلہ کرنا چاہئے۔‏

دوسروں کی بہتری کے خواہاں ہوں

کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جب تک کوئی رسم بائبل تعلیمات کی براہِ‌راست خلاف‌ورزی نہیں کرتی اُس میں شرکت کرنا ہمیشہ مناسب ہے؟‏ نہیں۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۱۳‏)‏ پولس نے واضح کِیا کہ ایک مسیحی کو صرف اپنا ہی نہیں ”‏بلکہ بہتوں“‏ کے فائدے کا خیال رکھنا چاہئے۔‏ اُسے ”‏سب خدا کے جلال کے لئے“‏ کرنا چاہئے اور کسی کیلئے ٹھوکر کا باعث نہیں بننا چاہئے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳۱-‏۳۳‏)‏ پس جو شخص خدا کی خوشنودی کا طالب ہے وہ خود سے یہ ضرور پوچھے گا:‏ ’‏دوسرے اس رسم کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏ کیا لوگ اس سے کوئی غلط مطلب تو نہیں لیتے؟‏ کیا میری شمولیت یہ تاثر دے گی کہ مَیں اُن کاموں یا نظریات کی حمایت کرتا ہوں جو خدا کو پسند نہیں ہیں؟‏‘‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۱۹،‏ ۲۳؛‏ ۱۰:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

عام طور پر بےضرر ہونے کے باوجود،‏ بعض رسومات شاید مقامی طور پر ایسے طریقوں سے عمل میں لائی جائیں جو بائبل اُصولوں کے بالکل برعکس ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ مخصوص مواقع پر پھول دینا ایسا خاص مطلب رکھ سکتا ہے جو بائبل تعلیمات سے ٹکراتا ہے۔‏ پس،‏ ایک مسیحی بنیادی طور پر کس چیز کی بابت فکرمند ہوگا؟‏ اگرچہ کسی خاص رسم کے آغاز کی بابت جانچ‌پڑتال کرنا معقول ہو سکتا ہے توبھی بعض حالتوں میں اس بات پر غور کرنا زیادہ اہم ہوتا ہے کہ جہاں آپ اس وقت رہتے ہیں وہاں ماحول کے اعتبار سے یہ رسم لوگوں کیلئے کیا مطلب رکھتی ہے۔‏ اگر کوئی رسم غیرصحیفائی یا بصورتِ‌دیگر سال کے کسی خاص وقت کے دوران یا مخصوص حالات کے تحت کوئی منفی مفہوم رکھتی ہے تو مسیحی دانشمندی کیساتھ اُس وقت اس سے کنارہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‏

پولس نے دُعا کی تھی کہ مسیحیوں کی محبت علم اور ہر طرح کی تمیز کیساتھ اَور بھی زیادہ ہوتی جائے۔‏ عام رسومات کی بابت متوازن نظریہ رکھنے سے مسیحی ”‏زیادہ اہم باتوں کا یقین کر سکتے ہیں تاکہ [‏وہ]‏ .‏ .‏ .‏ صاف دل رہ سکیں اور دوسروں کیلئے ٹھوکر کا باعث نہ ہوں۔‏“‏ (‏فلپیوں ۱:‏۹،‏ ۱۰‏،‏ این‌ڈبلیو‏)‏ اس کیساتھ ساتھ،‏ وہ اپنی ”‏نرم‌مزاجی [‏معقولیت]‏ سب آدمیوں پر ظاہر“‏ کرنے کے قابل ہونگے۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۵‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 بعض ماہرِبشریات کے مطابق،‏ کسی زمانے میں پھولوں کے گلدستوں کو مُردوں کے حضور نذرانے کے طور پر بھی پیش کِیا جاتا تھا تاکہ وہ زندوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویریں]‏

جمائی لیتے وقت مُنہ پر ہاتھ رکھنا اور لواحقین کو پھول دینا جیسی بعض قدیم رسومات اپنی اصلی اہمیت کھو چکی ہیں