آپبیتی
مَیں ایک بامقصد زندگی کی تلاش میں تھا
مَیں بحیرۂروم کے ساحل سے بہت دُور اپنی کشتی چلا رہا تھا۔ لیکن اچانک کشتی پانی سے بھرنے لگی اور مَیں بہت گھبرا گیا۔ دراصل میری کشتی بہت پُرانی تھی اور اِس میں سوراخ ہو گیا تھا۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ سمندر میں طوفان بھی آ گیا۔ مَیں بہت زیادہ ڈر گیا اور دُعا کرنے لگا۔ مجھے تو یاد بھی نہیں کہ مَیں نے کتنے سالوں بعد دُعا کی تھی۔ آئیں، مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ مَیں اُس کشتی پر سفر کیوں کر رہا تھا۔ لیکن پہلے مَیں آپ کو اپنی زندگی کے شروع کے عرصے کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں۔
مَیں 1948ء میں نیدرلینڈز میں پیدا ہوا۔ میرے پیدا ہونے کے ایک سال بعد میرے گھر والے برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو شفٹ ہو گئے۔ میرے امی ابو بہت مذہبی تھے۔ ہر شام کھانے کے بعد ہم لوگ مل کر بائبل پڑھتے تھے۔ 1959ء میں ہم برازیل چھوڑ کر امریکہ چلے گئے جہاں ہم ریاست میساچوسٹس میں رہنے لگے۔
ابو ہم چھ بہن بھائیوں اور امی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بڑی محنت کرتے تھے۔ وہ ایک سیلزمین اور سڑک بنانے والے مزدور کے طور پر کام کرتے تھے اور ایک اِنٹرنیشنل ائیرلائن کمپنی میں بھی نوکری کرتے تھے۔ جب اُنہیں ائیرلائن کی نوکری ملی تو ہم سب گھر والے بہت خوش تھے کیونکہ اُن کی وجہ سے اب ہم کئی ملکوں کا آسانی سے سفر کر سکتے تھے۔
جب مَیں سکول میں پڑھ رہا تھا تو مَیں اکثر یہ سوچا کرتا تھا کہ ”بڑا ہو کر مَیں کیا کروں گا؟“ میرے کچھ دوستوں نے یونیورسٹی جانے کا اور کچھ نے فوج میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کِیا۔ جہاں تک میری بات تھی تو میرے لیے فوج میں جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مجھے جھگڑنا تو دُور بحث کرنا بھی پسند نہیں تھا۔ لہٰذا مَیں نے یونیورسٹی جانے کا فیصلہ کِیا تاکہ مجھے فوج میں بھرتی نہ ہونا پڑے۔ لیکن میری خواہش یہ تھی کہ مَیں دوسروں کی مدد کروں کیونکہ مَیں سوچتا تھا کہ اِس سے میری زندگی کو مقصد مل جائے گا۔
یونیورسٹی میں زندگی
جب مَیں یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا تو مجھے بشریات کا مطالعہ کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔ مجھے یہ جاننے کا تجسّس تھا کہ زندگی کی شروعات کیسے ہوئی۔ ہمیں اِرتقا کی تعلیم دی جا رہی تھی اور ہم سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ ہم اِسے ہی سچ مانیں۔ لیکن اِرتقا سے متعلق کچھ ایسی وضاحتیں تھیں جو بڑی بےتکی تھیں اور اِنہیں ماننے کے لیے تو بس یہ تھا کہ مَیں سائنسی ثبوتوں کو نظرانداز کر دوں۔
کلاسوں میں ہمیں اچھے اور اعلیٰ معیار نہیں سکھائے جاتے تھے۔ وہاں تو بس اِسی بات پر زور دیا جاتا تھا کہ ہم یونیورسٹی میں اچھے سے اچھے نمبر حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوں۔ مجھے اُس وقت بڑی خوشی ملتی تھی جب مَیں اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹیاں کرتا تھا اور فرق فرق منشیات لیتا تھا۔ لیکن یہ خوشی پَل بھر کی ہوتی تھی۔ مَیں سوچتا تھا: ”کیا مَیں واقعی ایک بامقصد زندگی گزار رہا ہوں؟“
پھر کچھ عرصے بعد مَیں شہر بوسٹن شفٹ ہو گیا اور مَیں نے وہاں کی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ اپنی پڑھائی کا خرچہ پورا کرنے کے لیے مَیں چھٹیوں میں نوکری کِیا کرتا تھا۔ تبھی میری ملاقات پہلی بار یہوواہ کے گواہوں سے ہوئی۔ میرے ساتھ کام کرنے والے گواہ نے مجھ سے ”سات دَور“ والی پیشگوئی پر بات کی جو دانیایل 4 باب میں لکھی ہے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں۔ (دان 4:13-17) اُس سے باتچیت کر کے مجھے جلد ہی یہ اندازہ ہو گیا کہ اگر مَیں ایسے ہی اُس کے ساتھ بائبل سے باتچیت کرتا رہا تو مجھے اِس میں لکھی باتوں پر یقین ہونے لگے گا اور پھر مجھے اپنی زندگی بدلنی پڑے گی۔ اِس لیے مَیں نے اُس گواہ سے دُور رہنے کی پوری کوشش کی۔
یونیورسٹی میں مَیں نے ایسے کورس کیے جن سے مَیں جنوبی امریکہ میں ایک رضاکار کے طور پر کام کر سکوں۔ مَیں سوچتا تھا کہ ضرورتمند لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرنے سے میری زندگی کو مقصد مل جائے گا۔ لیکن پھر مجھے محسوس ہوا کہ ایسا کرنے سے بھی میری زندگی کو مقصد نہیں ملنے والا۔ مَیں بہت مایوس ہو گیا اور یونیورسٹی چھوڑ دی۔
بامقصد زندگی کی تلاش دُوردراز ملکوں میں جانے کے بعد بھی جاری رہی
مئی 1970ء میں مَیں نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈیم شفٹ ہو گیا اور اُسی ائیرلائن کی کمپنی میں کام کرنے لگا جہاں میرے ابو کام کِیا کرتے تھے۔ اِس نوکری کی وجہ سے مَیں بہت زیادہ سفر کرنے لگا اور افریقہ، امریکہ، یورپ اور ایشیا کے کئی ملکوں میں گیا۔ جلد ہی مجھے یہ احساس ہو گیا کہ چاہے مَیں کسی بھی ملک میں جاؤں، وہاں لوگوں کو بڑے بڑے مسئلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کسی کے پاس بھی اِن مسئلوں کا حل نہیں ہے۔ مَیں ابھی بھی اپنی زندگی میں کچھ ایسا کرنا چاہتا تھا جس سے دوسروں کو فائدہ ہو۔ اِس لیے مَیں دوبارہ امریکہ گیا اور بوسٹن کی اُسی یونیورسٹی میں پھر سے داخلہ لیا۔
مگر جلد ہی مجھے محسوس ہوا کہ یونیورسٹی کی کلاسیں لینے پر بھی مجھے زندگی کے بارے میں اپنے سوالوں کے جواب نہیں مل رہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ اِس لیے مَیں نے اپنے ایک پروفیسر سے مشورہ مانگا۔ اُس نے مجھ سے جو بات کہی، اُسے سُن کر مَیں بڑا ہی حیران ہوا۔ اُس نے کہا: ”میرے خیال سے تو تمہیں یونیورسٹی چھوڑ دینی چاہیے۔“ مَیں تو جیسے یہی سننے کا اِنتظار کر رہا تھا۔ مَیں نے یونیورسٹی چھوڑ دی اور پھر کبھی مُڑ کر وہاں نہیں گیا۔
مجھے اپنی زندگی ابھی بھی بڑی بےمقصد سی لگ رہی تھی۔ اِس لیے مَیں ایک ایسے گروہ کا حصہ بن گیا جو سماج کی روایتوں پر نہیں چلتا تھا اور لگتا تھا کہ وہ امن اور محبت کو فروغ دیتا ہے۔ مَیں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ امریکہ کو پار کر کے میکسیکو کے شہر اکاپولکو گیا۔ ہم کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ رہنے لگے جو اپنی مرضی کی زندگی جی رہے تھے اور اُنہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ مشکلوں اور پریشانیوں سے بالکل آزاد ہیں۔ لیکن اُن کے ساتھ کچھ وقت گزار کر مجھے اندازہ ہوا کہ وہ لوگ جس طرح سے زندگی گزار رہے ہیں، وہ بالکل بےمقصد ہے اور سچی خوشی نہیں دے سکتی۔ مَیں نے تو یہ بھی دیکھا کہ اُن میں سے بہت سے لوگ بےایمان اور دھوکےباز تھے۔
بامقصد زندگی کی میری تلاش ختم نہیں ہوئی
اِسی دوران مَیں اپنے اُسی خواب کو پورا کرنے کا سوچنے لگا جو مَیں بچپن میں دیکھا کرتا تھا۔ میرا خواب تھا کہ مَیں سمندر میں کشتی چلاؤں۔ ایک ملاح کے طور پر نہیں بلکہ ایک کیپٹن بن کر۔ اور ایسا اُسی صورت میں ہو سکتا تھا اگر میرے پاس اپنی کشتی ہوتی۔ چونکہ میرے دوست ٹام کی بھی یہی خواہش تھی اِس لیے ہم نے فیصلہ کِیا کہ ہم کشتی کے ذریعے دُنیا بھر کا سفر کریں گے۔ مَیں ایک ایسے خوبصورت جزیرے کی تلاش میں تھا جہاں کوئی قاعدہ قانون نہ ہو۔
ٹام اور مَیں آرنیس دی مار گئے جو سپین کے شہر بارسیلونا کے قریب ہے۔ وہاں ہم نے 4.9 میٹر (31 فٹ) لمبی کشتی خریدی جسے ہم نے لیگرا کا نام دیا۔ ہم اپنی چھوٹی سی کشتی کی کچھ مرمت وغیرہ کرنے لگے تاکہ ہم محفوظ طریقے سے سمندر میں سفر کر سکیں۔ چونکہ ہمیں اپنی منزل تک پہنچنے کی اِتنی جلدی نہیں تھی اِس لیے ہم نے کشتی کا انجن نکال دیا تاکہ ہمارے پاس اَور زیادہ پینے کا پانی رکھنے کی جگہ ہو۔ کشتی کو بندرگاہ پر آسانی سے موڑنے کے لیے ہم نے 5 میٹر (16 فٹ) لمبے چپّو خریدے۔ پھر ہم نے بحرِہند میں واقع سیشلز جزیرے پر جانے کا سفر شروع کِیا۔ ہمارا اِرادہ تھا کہ ہم افریقہ کے مغربی ساحل اور جنوبی افریقہ کے ایک جزیرے کے آسپاس کشتی چلائیں گے۔ ہم نے صحیح سمت جانے کے لیے ستاروں، کچھ نقشوں، کتابوں اور سادہ سے اوزاروں کو اِستعمال کِیا۔ مجھے بڑی حیرانی ہو رہی تھی کہ اِن چیزوں کی مدد سے ہم بالکل صحیح سمت میں جا رہے تھے۔
لیکن جلد ہی ہمیں اندازہ ہوا کہ ہماری چھوٹی اور پُرانی سی لکڑی کی کشتی سمندری سفر کرنے کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ اِس میں ہر ایک گھنٹے بعد تقریباً 22 لیٹر (چھ گیلن)کے برابر پانی بھر جاتا تھا۔ اور جیسا کہ مَیں نے مضمون کے شروع میں ذکر کِیا تھا، جب سمندر میں طوفان آیا تو مَیں اِتنا ڈر گیا کہ مَیں نے بہت سالوں بعد خدا سے دُعا کی۔ مَیں نے اُس سے وعدہ کِیا کہ اگر مَیں زندہ بچ گیا تو مَیں اُس کے بارے میں سیکھنے کی پوری کوشش کروں گا۔ تھوڑی دیر بعد طوفان تھم گیا اور مَیں نے اپنا وعدہ نبھایا۔
مَیں نے سفر کے دوران بائبل پڑھنا شروع کر دی۔ آپ لوگ تصور کر سکتے ہیں کہ بحیرۂروم کے بیچ کشتی میں بیٹھے اپنے اِردگِرد فرق فرق قسموں کی مچھلیوں اور دُور تک پھیلے سمندر کو دیکھ کر مجھے کتنا اچھا لگ رہا تھا۔ اور رات کے وقت جب مَیں نے ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھا تو مَیں حیرت میں ڈوب گیا اور مجھے اِس بات پر اَور بھی پکا یقین ہو گیا کہ خدا موجود ہے اور وہ اِنسانوں میں بہت دلچسپی رکھتا ہے۔
کچھ ہفتوں تک سمندری سفر کرنے کے بعد ہم سپین کے شہر الیکانتے کی بندرگاہ پر پہنچے۔ وہاں ہم نے اپنی کشتی کو بیچنے کی کوشش کی تاکہ ہم ایک بہتر کشتی خرید سکیں۔ اور جیسا کہ ہمیں توقع تھی، اپنی پُرانی، بغیر انجن اور سوراخ والی کشتی کو بیچنا آسان نہیں تھا۔ لیکن اِس دوران مجھے بائبل پڑھنے کا اچھا خاصا وقت مل گیا۔
جتنا زیادہ مَیں بائبل کو پڑھتا گیا، مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ اِس کتاب میں لکھی ہدایتوں پر عمل کرنے سے ہم خوشیوں بھری زندگی گزار سکتے ہیں۔ مَیں اِس بات سے بہت متاثر ہوا کہ بائبل میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ ہمیں پاک صاف زندگی گزارنی چاہیے۔ مَیں سوچنے لگا کہ ہم تو بائبل میں لکھی باتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں تو پھر ہم خود کو مسیحی کیسے کہہ سکتے ہیں۔
مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں اپنی زندگی کو پاک صاف کرنے کے لیے قدم اُٹھاؤں گا۔ اِس لیے مَیں نے منشیات لینی چھوڑ دیں۔ مَیں نے سوچا کہ ایسے لوگ کہیں نہ کہیں تو ضرور ہوں گے جو بائبل میں لکھے اصولوں پر عمل کرتے ہوں گے اور مَیں اُن سے ملنا چاہتا تھا۔ پھر مَیں نے زندگی میں دوسری بار خدا سے دُعا کی اور کہا کہ وہ ایسے لوگوں کو ڈھونڈنے میں میری مدد کرے۔
سچے مذہب کی تلاش
مَیں نے سوچا کہ جب تک مجھے سچا مذہب نہیں مل جاتا، مجھے ہر مذہب کا ایک ایک کر کے جائزہ لینا چاہیے۔ جب مَیں شہر الیکانتے کی گلیوں میں چل رہا تھا تو مَیں نے بہت سی مذہبی عمارتیں دیکھیں۔ لیکن اِن میں سے زیادہتر میں
بُت تھے۔ اِس لیے مَیں سمجھ گیا کہ اِن عمارتوں میں عبادت کرنے والے لوگوں کا مذہب سچا نہیں ہے۔لیکن پھر ایک اِتوار کی دوپہر مَیں ایک پہاڑ سے بندرگاہ کو دیکھ رہا تھا اور یعقوب 2:1-5 کو پڑھ رہا تھا جن میں بتایا گیا ہے کہ ایک شخص کے پیسے کی وجہ سے اُس کی طرفداری کرنا غلط ہے۔ جب مَیں اپنی کشتی کی طرف لوٹ رہا تھا تو راستے میں میری نظر ایک عمارت پر پڑی جس پر لگے بورڈ پر لکھا تھا: ”یہوواہ کے گواہوں کی عبادتگاہ۔“
مَیں نے سوچا کہ ”مجھے اِن لوگوں کو بھی پرکھ لینا چاہیے۔ چلو دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ مجھ سے کیسے ملتے ہیں۔“ مَیں ننگے پاؤں اُن کی عبادتگاہ کے اندر گیا۔ مَیں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور پھٹی ہوئی جینز پہنی تھی۔ وہاں موجود حاضرباش نے مجھے بیٹھنے کی جگہ بتائی۔ میرے برابر والی سیٹ پر ایک عمررسیدہ عورت بیٹھی تھیں جو مجھے اپنی بائبل سے وہ آیتیں دِکھانے لگیں جن کا مقرر ذکر کر رہا تھا۔ جب عبادت ختم ہوئی تو مَیں اِس بات سے بہت ہی متاثر ہوا کہ سب لوگ مجھ سے اِتنے پیار اور محبت سے ملے۔ ایک آدمی نے تو مجھ سے بائبل سے باتچیت کرنے کے لیے مجھے اپنے گھر چلنے کو کہا۔ لیکن چونکہ مَیں نے ابھی بائبل پڑھنی ختم نہیں کی تھی اِس لیے مَیں نے اُس سے کہا: ”مَیں آپ کو بتاؤں گا کہ ہم کب بائبل سے باتچیت کر سکتے ہیں۔“ لیکن تب تک مَیں گواہوں کی ہر عبادت پر جانے لگا۔
کئی ہفتوں بعد مَیں اُس آدمی کے گھر گیا۔ اُس نے بائبل سے متعلق میرے سوالوں کے جواب دیے۔ اِس کے ایک ہفتے بعد اُس نے مجھے ایک بیگ دیا جو بڑے ہی اچھے کپڑوں سے بھرا ہوا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ یہ کپڑے جس آدمی کے ہیں، وہ اِس وقت جیل میں ہے۔ اُسے جیل میں اِس لیے ڈالا گیا ہے کیونکہ اُس نے بائبل کے اِس حکم پر عمل کِیا کہ ہمیں ایک دوسرے سے محبت کرنی چاہیے اور جنگ نہیں کرنی چاہیے۔ (یسع 2:4؛ یوح 13:34، 35) اب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ مجھے وہ لوگ مل گئے ہیں جن کی مجھے تلاش تھی یعنی ایسے لوگ جو بائبل کے اِس واضح حکم پر عمل کرتے ہیں کہ ہمیں پاک صاف زندگی گزارنی چاہیے۔ اب میری زندگی کا یہ مقصد نہیں تھا کہ مَیں ایک خوبصورت جزیرے کو ڈھونڈ لوں بلکہ اب میرا مقصد یہ تھا کہ مَیں بائبل کا گہرائی سے مطالعہ کروں۔ اِس لیے مَیں واپس نیدرلینڈز چلا گیا۔
نوکری کی تلاش
مجھے نیدرلینڈز کے شہر خرونیگین جانے کے لیے چار دن کا سفر کرنا پڑا۔ وہاں مجھے اپنا گزربسر کرنے کے لیے نوکری تلاش کرنی تھی۔ مَیں نے ایک ترکھان کی دُکان میں نوکری کرنے کی درخواست دی۔ اِس نوکری کے فارم پر ایک سوال یہ تھا کہ میرا تعلق کس مذہب سے ہے۔ مَیں نے لکھا: ”یہوواہ کا گواہ۔“ جب وہاں کے باس نے اِسے پڑھا تو مَیں نے نوٹ کِیا کہ اُس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ اُس نے مجھ سے کہا: ”مَیں تمہیں فون کر کے بتاؤں گا کہ تمہیں نوکری ملی ہے یا نہیں۔“ مگر اُس نے مجھے کبھی فون نہیں کِیا۔
پھر مَیں ایک اَور ترکھان کی دُکان پر گیا اور اُس سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے نوکری زبور 37:4) مَیں نے اُس بھائی کی دُکان پر ایک سال کام کِیا۔ اِس دوران وہ مجھے بائبل کورس کراتا رہا۔ اِس کے بعد جنوری 1974ء میں مَیں نے یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔
پر رکھ سکتا ہے۔ اُس نے مجھ سے میری تعلیم کی سند مانگی اور میری پُرانی ملازمت کے مالک کی طرف سے ایک خط مانگا۔ مَیں نے اُسے بتایا کہ مَیں نے ایک لکڑی کی کشتی کی مرمت کی ہے۔ میری حیرت کی اُس وقت اِنتہا نہیں رہی جب اُس نے مجھ سے کہا: ”تُم اِسی دوپہر سے کام شروع کر سکتے ہو۔ مگر صرف ایک شرط پر۔ مَیں نہیں چاہتا کہ تُم میری دُکان میں کسی طرح کی مشکل کھڑی کرو کیونکہ مَیں یہوواہ کا گواہ ہوں اور بائبل میں لکھے اصولوں پر عمل کرتا ہوں۔“ مَیں اُسے حیرت سے دیکھنے لگا اور کہا: ”مَیں بھی یہوواہ کا گواہ ہوں!“ شاید میرے لمبے بال اور داڑھی کو دیکھ کر ہی اُس نے مجھ سے کہا: ”تو پھر مَیں تمہیں بائبل کورس کراؤں گا۔“ مَیں اُس سے بائبل کورس کرنے پر راضی ہو گیا۔ اب مجھ پر واضح ہو گیا تھا کہ یہوواہ نے مجھے میری دُعاؤں کا جواب دیا ہے۔ اِسی لیے تو دوسری جگہ کے مالکوں نے مجھے دوبارہ فون ہی نہیں کِیا۔ (آخرکار مجھے زندگی کا مقصد مل گیا!
ایک مہینے بعد مَیں پہلکار بن گیا جس سے مجھے بہت زیادہ خوشی ملی۔ اور پھر اِس کے ایک مہینے بعد مَیں نیدرلینڈز کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم شفٹ ہو گیا۔ وہاں شفٹ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں سپینش زبان کا ایک نیا گروپ قائم ہوا تھا اور مَیں اِس کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ ایمسٹرڈیم میں مَیں نے سپینش اور پُرتگالی بولنے والے لوگوں کو بائبل کورس کرایا جس سے مجھے بڑی خوشی ملی! مئی 1975ء میں مجھے خصوصی پہلکار بننے کا اعزاز ملا۔
ایک دن اِنیکے نامی خصوصی پہلکار ہمارے اِجلاس پر آئیں۔ اُنہوں نے ہمارا تعارف بولیویا سے تعلق رکھنے والی ایک عورت سے کرایا جنہیں وہ بائبل کورس کرا رہی تھیں۔ اِنیکے اور مَیں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔ ہم نے خطوں کے ذریعے ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جاننے کا فیصلہ کِیا۔ جلد ہی ہمیں اندازہ ہو گیا کہ یہوواہ کی خدمت میں ہمارے منصوبے ایک جیسے ہیں۔ ہم نے 1976ء میں شادی کر لی اور 1982ء تک خصوصی پہلکار رہے۔ اِس کے بعد ہمیں گلئیڈ سکول کی 73ویں کلاس میں شامل ہونے کی دعوت ملی۔ ہم اُس وقت بہت ہی حیران اور خوش ہوئے جب ہمیں مشرقی افریقہ میں یہوواہ کی خدمت کرنے کو کہا گیا۔ ہم نے کینیا کے شہر ممباسا میں پانچ سال تک لوگوں کو بائبل کی تعلیم دی۔ 1987ء میں ہمیں ملک تنزانیہ بھیجا گیا جہاں ہمارے مُنادی کے کام سے پابندی ہٹ گئی تھی۔ ہم وہاں 26 سال تک رہے اور اِس کے بعد واپس کینیا آ گئے۔
خاکسار لوگوں کو بائبل کی سچائیاں سکھانے سے ہماری زندگی کو اصل مقصد ملا۔ مثال کے طور پر ممباسا میں میرے پہلے طالبِعلم سے میری ملاقات عوامی جگہوں پر گواہی دیتے وقت ہوئی تھی۔ جب مَیں نے اُسے دو رسالے پڑھنے کے لیے دیے تو اُس نے مجھ سے کہا: ”جب مَیں اِنہیں پڑھ لوں تو اِس کے بعد کیا کروں؟“ اگلے ہفتے مَیں اُسے کتاب ”آپ زمین پر فردوس میں ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہیں“ سے بائبل کورس کرانے لگا جو سواحلی زبان میں حال ہی میں ریلیز ہوئی تھی۔ اُس شخص نے ایک سال بعد بپتسمہ لے لیا اور پہلکار بن گیا۔ تب سے اُس نے اور اُس کی بیوی نے تقریباً 100 لوگوں کی مدد کی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کریں اور بپتسمہ لیں۔
جب مَیں زندگی کا مقصد سمجھ گیا تو شروع شروع میں مجھے ایسے لگا کہ جیسے مَیں اُس سوداگر کی طرح ہوں جسے ایک بہت ہی قیمتی موتی مل گیا تھا اور جو کسی بھی قیمت پر اِسے کھونا نہیں چاہتا تھا۔ (متی 13:45، 46) مَیں ساری زندگی یہی چاہتا تھا کہ مَیں زندگی کا اصل مقصد تلاش کرنے میں دوسروں کی مدد کروں۔ مَیں نے اور میری بیوی نے اِس بات کا تجربہ کِیا ہے کہ یہوواہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے کہ وہ ایک بامقصد زندگی جئیں۔