مطالعے کا مضمون نمبر 7
حلیم بنیں اور یہوواہ کو خوش کریں
”اَے ملک کے سب حلیم لوگو . . . فروتنی کی تلاش کرو۔“—صفن 2:3۔
گیت نمبر 1: یہوواہ خدا کی صفات
مضمون پر ایک نظر *
1، 2. (الف) بائبل میں موسیٰ کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے اور اُنہوں نے کیا کیا کِیا؟ (ب) ہمارے پاس حلم کی خوبی پیدا کرنے کی کون سی خاص وجہ ہے؟
بائبل میں موسیٰ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ”رویِزمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھا۔“ (گن 12:3) کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کمزور شخصیت کے مالک تھے، فیصلے کرنے کے حوالے سے ڈانواںڈول رہتے تھے اور مخالفت کی صورت میں ہتھیار ڈال دیتے تھے؟ شاید بعض لوگ ایک حلیم شخص کے بارے میں ایسا ہی سوچیں۔ لیکن یہ نظریہ حقیقت سے کوسوں دُور ہے۔ موسیٰ ایک مضبوط شخصیت کے مالک، اپنے فیصلوں کے پکے اور خدا کے دلیر خادم تھے۔ یہوواہ کی مدد سے اُنہوں نے مصر کے طاقتور بادشاہ کا سامنا کِیا، ویرانے میں غالباً 30 لاکھ لوگوں کی رہنمائی کی اور دُشمنوں پر فتح حاصل کرنے میں بنیاِسرائیل کی مدد کی۔
2 ہمیں ویسے مسائل کا سامنا تو نہیں ہے جیسے موسیٰ کو درپیش تھے لیکن ہمیں ہر روز ایسے لوگوں اور حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہمارے لیے حلم کی خوبی ظاہر کرنا مشکل بنا سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس اِس خوبی کو پیدا کرنے کی ایک خاص وجہ ہے۔ یہوواہ کا وعدہ ہے کہ ”حلیم ملک کے وارث ہوں گے۔“ (زبور 37:11) کیا آپ میں حلم کی خوبی ہے؟ کیا دوسرے آپ کو ایک حلیم شخص خیال کرتے ہیں؟ اِن اہم سوالوں کے جواب دینے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ حلم کیا ہے۔
حلم کیا ہے؟
3، 4. (الف) حلم کی خوبی کو کس چیز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے؟ (ب) حلیم بننے کے لیے ہمیں اپنے اندر کون سی چار خوبیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور کیوں؟
3 حلم * کی خوبی ہاتھ سے بنی ایک خوبصورت تصویر کی طرح ہے۔ جیسے ایک مُصوّر بہت سے دلکش رنگوں کو ملا کر ایک خوبصورت تصویر بناتا ہے ویسے ہی بہت سی دلکش خوبیوں کے ملنے سے حلم کی خوبی پیدا ہوتی ہے۔ اِن خوبیوں میں فروتنی، فرمانبرداری، نرممزاجی اور دلیری شامل ہیں۔ اگر ہم یہوواہ کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر اِن خوبیوں کو پیدا کریں۔ آئیں، دیکھیں کہ اِس کی کیا وجہ ہے۔
4 صرف فروتن لوگ ہی خدا کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اُس کی مرضی پر چلتے ہیں۔ اور اُس کی مرضی پر چلنے میں یہ شامل ہے کہ ہم نرممزاج بنیں۔ (متی 5:5؛ گل 5:23) جب ہم خدا کی مرضی کے مطابق عمل کرتے ہیں تو شیطان طیش میں آ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بہت سے لوگ جو شیطان کی دُنیا کا حصہ ہیں، ہمارے فروتن اور نرممزاج ہونے کے باوجود ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ (یوح 15:18، 19) لہٰذا شیطان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں دلیری کی ضرورت ہوتی ہے۔
5، 6. (الف) شیطان حلیم لوگوں سے نفرت کیوں کرتا ہے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن سوالوں کے جواب حاصل کریں گے؟
5 ایک حلیم اِنسان کی شخصیت اُس شخص کے بالکل اُلٹ ہوتی ہے جو غرور کرتا ہے، غصے میں بےقابو ہو جاتا ہے اور یہوواہ کے حکم نہیں مانتا۔ شیطان بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ وہ حلیم لوگوں سے نفرت کرتا ہے۔ حلیم لوگ ایسی خوبیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں جو شیطان میں نہیں ہیں اور اِس طرح یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کتنا بُرا ہے۔ اِس کے علاوہ وہ شیطان کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔ وہ کیسے؟ دراصل حلیم لوگ شیطان کے تمامتر دعوؤں اور کوششوں کے باوجود یہوواہ کی خدمت کرنی نہیں چھوڑتے۔—ایو 2:3-5۔
6 ہمارے لیے حلم کی خوبی ظاہر کرنا کب مشکل ہو سکتا ہے؟ اور ہمیں حلم کی خوبی کو کیوں نکھارتے رہنا چاہیے؟ اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنے کے لیے ہم موسیٰ، بابل میں قید تین عبرانی جوانوں اور یسوع مسیح کی مثال پر غور کریں گے۔
ایسی صورتحال جن میں حلم کا مظاہرہ کرنا مشکل ہوتا ہے
7، 8. جب موسیٰ کی بےادبی کی گئی تو اُنہوں نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟
7 جب ہمارے پاس اِختیار ہو: اُن لوگوں کے لیے حلم کا مظاہرہ کرنا مشکل ہو سکتا ہے جن کے پاس اِختیار ہوتا ہے۔ ایسا خاص طور پر اُس صورت میں ہو سکتا ہے جب اُن کے ماتحت لوگ اُن کی بےادبی کرتے ہیں یا اُن کے فیصلوں پر اِعتراض کرتے ہیں۔ کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے؟ اگر آپ کے خاندان کا کوئی فرد آپ کے ساتھ ایسا کرے تو آپ کیا کریں گے؟ ذرا غور کریں کہ جب موسیٰ کی زندگی میں ایسی صورتحال کھڑی ہوئی تو اُنہوں نے کیسا ردِعمل دِکھایا۔
8 یہوواہ نے موسیٰ کو بنیاِسرائیل کا پیشوا مقرر کِیا تھا اور اُنہیں پوری قوم کے لیے حکم تحریر کرنے کا اعزاز دیا تھا۔ حالانکہ یہ صاف ظاہر تھا کہ گن 12:1-13) لیکن موسیٰ ایسا ردِعمل دِکھانے کے قابل کیسے ہوئے؟
یہوواہ، موسیٰ کے ساتھ ہے لیکن پھر بھی موسیٰ کی اپنی بہن مریم اور بھائی ہارون نے اُن کے خلاف باتیں کیں اور یہ اِعتراض اُٹھایا کہ اُنہوں نے ایک کوشی عورت سے شادی کیوں کی ہے۔ اگر موسیٰ کی جگہ کوئی اَور شخص ہوتا تو شاید وہ غصے سے بھر جاتا اور بدلہ لینے کی کوشش کرتا۔ لیکن موسیٰ نے ایسا نہیں کِیا۔ اُنہوں نے مریم اور ہارون کی باتوں کو دل پر نہیں لیا۔ اُنہوں نے تو یہوواہ سے درخواست کی کہ وہ مریم کی سزا کو ختم کر دے۔ (9، 10. (الف) یہوواہ نے موسیٰ کی کیا سمجھنے میں مدد کی؟ (ب) خاندان کے سربراہ اور کلیسیا کے بزرگ، موسیٰ کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
9 موسیٰ نے یہوواہ سے تربیت پائی تھی۔ کوئی 40 سال پہلے جب موسیٰ مصر کے شاہی گھرانے کا حصہ تھے تو وہ حلیم نہیں تھے۔ وہ غصے کے اِتنے تیز تھے کہ ایک بار اُنہوں نے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا جو اُن کے مطابق دوسرے شخص سے نااِنصافی کر رہا تھا۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اُن کی یہ حرکت یہوواہ کی نظر میں صحیح ہوگی۔ یہوواہ خدا نے 40 سال تک موسیٰ کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ بنیاِسرائیل کی پیشوائی کرنے کے لیے اُنہیں دلیری سے زیادہ حلم کی ضرورت ہے۔ اور حلیم بننے کے لیے اُنہیں اپنے اندر فروتنی، فرمانبرداری اور نرممزاجی بھی پیدا کرنی چاہیے تھی۔ موسیٰ نے یہ سبق بڑی اچھی طرح سیکھا اور وہ بہت اچھے پیشوا بنے۔—خر 2:11، 12؛ اعما 7:21-30، 36۔
10 خاندان کے سربراہو اور کلیسیا کے بزرگو، موسیٰ کی مثال پر عمل کریں۔ جب آپ کی بےادبی کی جاتی ہے تو فوراً بُرا نہ مان جائیں۔ اگر کسی معاملے میں آپ کی غلطی ہے تو اِسے تسلیم کریں۔ (واعظ 7:9، 20) مسئلوں کو حل کرنے کے لیے فرمانبرداری سے یہوواہ کی رہنمائی میں چلیں۔ اور دوسروں کو ہمیشہ نرمی سے جواب دیں۔ (امثا 15:1) ایسا کرنے سے آپ یہوواہ کو خوش کریں گے، امن کو فروغ دیں گے اور حلم کا مظاہرہ کرنے کی اچھی مثال قائم کریں گے۔
11-13. تین عبرانی جوانوں نے ہمارے لیے کیسی مثال قائم کی؟
11 جب ہمیں اذیت دی جائے: اِنسانی حکمران شروع سے ہی یہوواہ کے بندوں کو اذیت پہنچاتے آ رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ہم پر طرح طرح کے جھوٹے اِلزام لگائیں لیکن وہ ہمارے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں، اُس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم ”خدا کا کہنا ماننا اِنسانوں کا کہنا ماننے سے زیادہ ضروری“ سمجھتے ہیں۔ (اعما 5:29) شاید ہمارا مذاق اُڑایا جائے، ہمیں قید میں ڈال دیا جائے، یہاں تک کہ مارا پیٹا بھی جائے۔ لیکن ہم یہوواہ کی مدد سے ایسے کٹھن حالات میں بھی نرممزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بدلہ نہیں لیتے۔
12 ذرا شہر بابل میں قید تین عبرانی جوانوں کی مثال پر غور کریں جن کے نام حننیاہ، میساایل اور عزریاہ تھے۔ * بابل کے بادشاہ نے سونے کی ایک بڑی مورت کو سجدہ کرنے کا حکم صادر کِیا تھا۔ لیکن اُن تین جوانوں نے بڑی نرمی سے بادشاہ کو بتایا کہ وہ اُس مورت کو سجدہ نہیں کریں گے۔ حالانکہ بادشاہ نے اُنہیں یہ دھمکی دی کہ وہ اُنہیں آگ کی بھٹی میں پھینک دے گا لیکن پھر بھی وہ خدا کے فرمانبردار رہے۔ یہوواہ نے اُنہیں بچانے کے لیے فوراً کارروائی کی۔ لیکن اُن جوانوں نے یہ نہیں سوچا ہوا تھا کہ خدا ضرور اُن کی جان بچائے گا۔ اِس کی بجائے وہ تینوں وہ سب کچھ سہنے کے لیے تیار تھے جس کی یہوواہ اِجازت دیتا۔ (دان 3:1، 8-28) اُن کی مثال سے یہ ثابت ہوا کہ حلیم لوگ واقعی دلیر ہوتے ہیں۔ کوئی بھی حکمران، کسی بھی طرح کی دھمکی یا کوئی بھی سزا اُن کے اِس عزم کو نہیں توڑ سکتی کہ وہ صرف اور صرف یہوواہ کی عبادت کریں گے۔—خر 20:4، 5۔
13 کبھی کبھار شاید ہماری زندگی میں بھی ایسی صورتحال کھڑی ہو جس میں یہوواہ کے لیے ہماری وفاداری کا اِمتحان ہو۔ ایسے حالات میں ہم اُن تین عبرانی جوانوں کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ ہمیں فروتنی سے اِس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ یہوواہ ہماری مدد کرے گا۔ (زبور 118:6، 7) جو لوگ ہم پر غلط کام کرنے کا اِلزام لگاتے ہیں، ہمیں اُنہیں بڑی نرمی اور احترام سے جواب دینا چاہیے۔ (1-پطر 3:15) اور ہمیں ہر ایسے کام سے اِنکار کرنا چاہیے جس کی وجہ سے ہمارے آسمانی باپ کے ساتھ ہماری دوستی میں دراڑ آ سکتی ہے۔
14، 15. (الف) جب ہم ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں تو ہمارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟ (ب) یسعیاہ 53:7، 10 کے پیشِنظر ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یسوع نے ذہنی دباؤ کے تحت حلم کا مظاہرہ کرنے کی اعلیٰ مثال قائم کی؟
14 جب ہم ذہنی دباؤ میں ہوں: ہم سب فرق فرق حالات میں ذہنی دباؤ محسوس کر سکتے ہیں، مثلاً سکول میں اِمتحان سے پہلے یا ملازمت کی جگہ پر کوئی خاص کام کرتے وقت۔ ہم اُس وقت بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں جب ہمیں کوئی علاج یا آپریشن وغیرہ کروانا ہو۔ جب ہم ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں تو حلم کی خوبی ظاہر کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ایسی صورتحال میں شاید ہم اُن باتوں کی وجہ سے بھی چڑنے لگیں جنہیں ہم عام طور پر خاطر میں نہیں لاتے اور شاید ہماری باتیں اور لہجہ سخت ہو جائے۔ اگر آپ کبھی ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے ہیں تو ذرا یسوع کی مثال پر غور کریں۔
15 زمین پر اپنے آخری چند مہینوں کے دوران یسوع شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اُنہیں سخت اذیت پہنچائی جائے گی اور قتل کر دیا جائے گا۔ (یوح 3:14، 15؛ گل 3:13) اپنی موت سے کچھ مہینے پہلے اُنہوں نے کہا کہ وہ بہت پریشان ہیں۔ (لُو 12:50) اور پھر اپنی موت سے چند دن پہلے بھی اُنہوں نے ایسی ہی بات کہی کہ ”مَیں پریشان ہوں۔“ ایسے حالات میں بھی اُنہوں نے جس طرح سے خدا کے سامنے اپنے احساسات کا اِظہار کِیا، اُس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فروتن اور خدا کے فرمانبردار تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”باپ، مجھے اِس گھڑی سے بچا لے۔ لیکن مَیں اِسی گھڑی کے لیے تو آیا ہوں۔ باپ، اپنے نام کی بڑائی کر۔“ (یوح 12:27، 28) جب اُن کی گِرفتاری کا وقت آیا تو اُنہوں نے بڑی دلیری سے خود کو خدا کے دُشمنوں کے حوالے کر دیا جنہوں نے اُنہیں اِنتہائی دردناک اور ذِلتآمیز طریقے سے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ سخت تکلیف اور ذہنی دباؤ کا شکار ہونے کے باوجود یسوع نے حلم کا مظاہرہ کِیا اور خدا کی مرضی پوری کی۔ بِلاشُبہ یسوع نے ذہنی دباؤ کے تحت بھی حلم کی خوبی ظاہر کرنے کی اعلیٰ مثال قائم کی۔—یسعیاہ 53:7، 10 کو پڑھیں۔
16، 17. (الف) یسوع کے رسولوں نے اُن کے حلم کا اِمتحان کیسے لیا؟ (ب) ہم یسوع کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
16 زمین پر یسوع کی زندگی کی آخری رات اُن کے سب سے قریبی دوستوں یعنی اُن کے رسولوں نے اُن کے حلم کا اِمتحان لیا۔ ذرا سوچیں کہ اُس رات یسوع کس قدر ذہنی دباؤ سے گزر رہے ہوں گے۔ اُنہیں مرتے دم تک خدا کا وفادار رہنا تھا کیونکہ یہ کروڑوں لوگوں کی زندگی اور موت کا معاملہ تھا۔ (روم 5:18، 19) اور سب سے بڑھ کر اُن کے کسی بھی قدم سے اُن کے آسمانی باپ کی یا تو بڑائی ہو سکتی تھی یا پھر بدنامی۔ (ایو 2:4) لیکن پھر جب وہ آخری بار اپنے رسولوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے تو اُن میں یہ ”گرماگرم بحث چھڑ گئی“ کہ ”اُن میں سے کس کو سب سے بڑا سمجھا جاتا ہے۔“ یسوع پہلے بھی کئی بار اِس معاملے میں اُن کی اِصلاح کر چُکے تھے، یہاں تک کہ اُس شام بھی اُنہوں نے ایسا کِیا تھا۔ البتہ قابلِغور بات یہ ہے کہ یسوع پھر بھی اُن کی باتوں پر غصے میں نہیں آئے۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے بڑی نرمی سے مگر واضح طور پر اُنہیں سمجھایا کہ اُنہیں خاکسار ہونا چاہیے۔ اِس کے بعد یسوع نے اِس بات کے لیے اپنے رسولوں کو شاباش دی کہ وہ وفاداری سے اُن کے ساتھ رہے ہیں۔—لُو 22:24-28؛ یوح 13:1-5، 12-15۔
17 اگر ہمیں ایسی کسی صورتحال کا سامنا ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم یسوع کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں اور ذہنی دباؤ میں بھی نرممزاجی سے کام لے سکتے ہیں۔ ہم فرمانبرداری دِکھاتے ہوئے یہوواہ کے اِس حکم پر عمل کر سکتے ہیں کہ ”ایک دوسرے کی برداشت کریں۔“ (کُل 3:13) ہمارے لیے اِس حکم پر عمل کرنا اُس وقت آسان ہوگا جب ہم یہ یاد رکھیں گے کہ ہم سب ایسی باتیں کہتے یا کام کرتے ہیں جن سے دوسروں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ (امثا 12:18؛ یعقو 3:2، 5) اِس کے علاوہ ہم دوسروں کی خوبیوں کے لیے اُن کی تعریف کر سکتے ہیں۔—اِفس 4:29۔
حلم کی خوبی کو نکھارنے کے فائدے
18. یہوواہ اچھے فیصلے کرنے میں حلیم لوگوں کی مدد کیسے کرتا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
18 ہم اچھے فیصلے کر پائیں گے۔ کبھی کبھار ہماری زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جب ہمیں یہ طے کرنا مشکل لگتا ہے کہ ہمیں کس راہ جانا چاہیے۔ ایسے حالات میں یہوواہ اچھے فیصلے کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔ لیکن وہ ایسا اُسی صورت میں کرے گا اگر ہم حلیم ہوں گے۔ اُس کا وعدہ ہے کہ وہ ”حلیموں کا مُدعا“ یعنی عرض سنے گا۔ (زبور 10:17) لیکن وہ اِس کے علاوہ بھی اُن کے لیے کچھ کرے گا۔ اُس کے کلام میں لکھا ہے: ”وہ حلیموں کو اِنصاف کی ہدایت کرے گا۔ ہاں وہ حلیموں کو اپنی راہ بتائے گا۔“ (زبور 25:9) یہوواہ اپنے بندوں کو یہ ہدایت بائبل، اِس پر مبنی مطبوعات * اور ”وفادار اور سمجھدار غلام“ کی تیارکردہ ویڈیوز اور اِجلاسوں کے ذریعے دیتا ہے۔ (متی 24:45-47) لیکن ہمیں بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں فروتنی سے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمیں اُس کی مدد کی ضرورت ہے۔ پھر ہمیں بائبل اور اُن تمام مطبوعات کا مطالعہ کرنا چاہیے جو یہوواہ فراہم کرتا ہے۔ اور اِس کے بعد ہمیں فرمانبرداری سے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا چاہیے۔
19-21. موسیٰ نے قادس میں کون سی غلطی کی اور ہم اِس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
19 ہم غلطیاں کرنے سے بچیں گے۔ ذرا ایک بار پھر موسیٰ کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے کئی سال تک حلم کی خوبی ظاہر کی اور یہوواہ کے دل کو شاد کِیا۔ لیکن پھر ویرانے میں 40 سالہ مشکل سفر کے اِختتام پر وہ اِس خوبی کو ظاہر کرنے میں ناکام ہو گئے۔ اُن کی وہ بہن جس نے غالباً مصر میں اُن کی جان بچائی تھی، تھوڑی دیر پہلے ہی فوت ہوئی تھی اور اُنہوں نے اُسے قادس میں دفن کِیا تھا۔ تبھی ایک بار پھر بنیاِسرائیل یہ شکایت کرنے لگے کہ اُن کی اچھے سے دیکھبھال نہیں کی جا رہی۔ اب کی بار وہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے ”موسیٰؔ سے جھگڑنے . . . لگے۔“ حالانکہ یہوواہ، موسیٰ کے ذریعے کئی معجزے کر چُکا تھا اور موسیٰ بھی سالوں سے بےغرضی کے ساتھ لوگوں کی رہنمائی کر رہے تھے لیکن اِس کے باوجود لوگ اُن گن 20:1-5، 9-11۔
کے خلاف بڑبڑانے لگے۔ ایک تو اُنہوں نے پانی دستیاب نہ ہونے کی شکایت کی اور اُوپر سے موسیٰ کو اِس کا ذمےدار ٹھہرایا۔—20 اِس پر موسیٰ بھڑک اُٹھے اور حلم کا دامن اُن کے ہاتھ سے چُھوٹ گیا۔ یہوواہ کے حکم کے مطابق چٹان سے بات کرنے کی بجائے موسیٰ سخت غصے میں لوگوں سے ہمکلام ہوئے اور اُنہیں یہ تاثر دیا کہ وہ اپنی طاقت سے معجزہ کرنے والے ہیں۔ پھر اُنہوں نے دو بار چٹان پر لاٹھی ماری اور اِس میں سے وافر مقدار میں پانی بہہ نکلا۔ تکبّر اور غصے کی وجہ سے موسیٰ ایک سنگین غلطی کر بیٹھے۔ (زبور 106:32، 33) چند لمحوں کے لیے حلم کی خوبی ظاہر نہ کرنے کی موسیٰ کو بھاری قیمت چُکانی پڑی۔ اُنہیں اُس ملک میں جانے کی اِجازت نہیں ملی جو یہوواہ بنیاِسرائیل کو دینے والا تھا۔—گن 20:12۔
21 اِس واقعے سے ہم بہت اہم باتیں سیکھتے ہیں۔ پہلی یہ کہ ہمیں مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ حلم کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہ چُھوٹے۔ اگر ہم لمحے بھر کے لیے بھی اِس خوبی کو ظاہر کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو ہمارے دل میں غرور سر اُٹھا سکتا ہے اور ہم کوئی احمقانہ کام یا بات کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ذہنی دباؤ کی صورت میں حلم کی خوبی ظاہر کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اِس لیے ایسی صورتحال میں ہمیں حلم کا مظاہرہ کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
22، 23. (الف) ہمیں حلم کی خوبی ظاہر کیوں کرتے رہنا چاہیے؟ (ب) صفنیاہ 2:3 سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
22 ہمیں یہوواہ کی پناہ حاصل ہوگی۔ بہت جلد یہوواہ زمین سے تمام بُرے لوگوں کو ختم کر دے گا اور اِس میں صرف حلیم لوگ رہیں گے۔ اُس وقت زمین امنوسلامتی کا گہوارہ بن جائے گی۔ (زبور 37:10، 11) کیا آپ بھی اُن حلیم لوگوں میں شامل ہوں گے؟ اگر آپ صفنیاہ کی کتاب میں درج یہوواہ کی کہی بات پر عمل کریں گے تو آپ اُن لوگوں میں ضرور شامل ہو سکتے ہیں۔—صفنیاہ 2:3 کو پڑھیں۔
23 صفنیاہ 2:3 میں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ ”شاید . . . تُم کو پناہ ملے“؟ اِس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہوواہ اپنے اُن بندوں کو بچا نہیں سکتا جو اُسے خوش کرنا چاہتے ہیں اور جن سے وہ پیار کرتا ہے۔ دراصل اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم یہوواہ کی پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم حلم کی خوبی ظاہر کرنے اور یہوواہ کو خوش کرنے کی پوری کوشش کریں گے تو ہمارے پاس یہ اُمید ہوگی کہ ہم ”[یہوواہ] کے غضب کے دن“ سے بچ جائیں اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں۔
گیت نمبر 21: رحمدل مبارک ہیں
^ پیراگراف 5 ہم میں سے کوئی بھی پیدائشی طور پر حلیم نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنے اندر حلم کی خوبی پیدا کرنی پڑتی ہے۔ شاید ہمارے لیے صلحپسند لوگوں کے ساتھ حلم سے پیش آنا تو آسان ہو لیکن ایسے حالات میں حلم کا مظاہرہ کرنا مشکل ہو سکتا ہے جب ہمارا واسطہ مغرور لوگوں سے پڑتا ہے۔ اِس مضمون میں ہم کچھ ایسی صورتحال پر بات کریں گے جن میں ہمارے لیے حلم کی خوبی ظاہر کرنا مشکل ہو سکتا ہے اور اِس حوالے سے کچھ مشوروں پر غور کریں گے۔
^ پیراگراف 3 اِصطلاحوں کی وضاحت: حلم۔ جو لوگ حلیم ہوتے ہیں، وہ دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں اور دوسروں کے غصہ دِلانے پر بھی نرممزاجی سے کام لیتے ہیں۔ فروتنی۔ جو لوگ فروتن ہوتے ہیں، اُن میں غرور نہیں ہوتا اور وہ دوسروں کو خود سے بہتر سمجھتے ہیں۔ جب یہوواہ کی فروتنی کی بات کی جاتی ہے تو اِس سے مُراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ محبت اور رحم سے پیش آتا ہے۔
^ پیراگراف 12 بابلیوں نے اِن تین عبرانی جوانوں کو سدرک، میسک اور عبدنجو کے نام دیے ہوئے تھے۔—دان 1:7۔
^ پیراگراف 18 مثال کے طور پر ”مینارِنگہبانی،“ 1 اپریل 2011ء میں مضمون ”ایسے فیصلے کریں جن سے خدا کی بڑائی ہو“ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 59 تصویر کی وضاحت: جب یسوع کے شاگرد اِس بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ اُن میں بڑا کون ہے تو یسوع نرممزاجی سے کام لے رہے ہیں اور پیار سے اُن کی اِصلاح کر رہے ہیں۔