”ہمارے خدا کا کلام ابد تک قائم ہے“
”گھاس مُرجھاتی ہے۔ پھول کملاتا ہے پر ہمارے خدا کا کلام ابد تک قائم ہے۔“—یسعیاہ 40:8۔
1، 2. (الف) بائبل کے بغیر ہماری زندگی کیسی ہوتی؟ (ب) ہم خدا کے کلام سے زیادہ فائدہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر آپ کے پاس بائبل نہ ہوتی تو آپ کی زندگی کیسی ہوتی؟ آپ کو روزمرہ زندگی کے لیے مفید مشورے نہ ملتے؛ آپ خدا، زندگی اور مستقبل کے بارے میں سوالوں کے تسلیبخش جواب حاصل نہ کر پاتے اور آپ کو یہ بھی پتہ نہ چلتا کہ خدا نے ماضی میں اِنسانوں کے لیے کیا کچھ کِیا۔
2 خدا کا شکر ہے کہ ہم ایسی صورتحال میں نہیں ہیں۔ یہوواہ نے ہمیں اپنا کلام، بائبل دیا ہے۔ اُس نے وعدہ کِیا ہے کہ اُس کا کلام ہمیشہ تک رہے گا۔ اِس سلسلے میں پطرس رسول نے یسعیاہ 40:8 میں درج الفاظ بیان کیے۔ اگرچہ یہ آیت خاص طور پر بائبل کے بارے میں نہیں ہے لیکن اِس کا اِطلاق بائبل کے پیغام پر ہوتا ہے۔ (1-پطرس 1:24، 25 کو پڑھیں۔) ہم اُس صورت میں بائبل سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اگر ہم اِسے اپنی زبان میں پڑھتے ہیں۔ اور یہ بات خدا کے کلام سے محبت کرنے والے لوگ شروع سے ہی جانتے ہیں۔ صدیوں کے دوران کچھ لوگوں نے شدید مخالفت اور کڑی مشکلات کے باوجود بائبل کا ترجمہ کرنے اور اِسے دوسروں تک پہنچانے کی سرتوڑ کوشش کی ہے۔ دراصل یہ یہوواہ خدا کی مرضی ہے کہ ”ہر طرح کے لوگ نجات پائیں اور سچائی کے بارے میں صحیح علم حاصل کریں۔“—1-تیمُتھیُس 2:3، 4۔
3. اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
3 اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ خدا کا کلام اِن رُکاوٹوں کے باوجود کیسے قائم رہا ہے: (1) زبان میں تبدیلیاں، (2) سیاسی تبدیلیاں جن کی وجہ سے لوگوں کی عامفہم زبان بدل گئی اور (3) بائبل کے ترجمے کی مخالفت۔ اِس موضوع پر بات کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ ہمارے دل میں خدا کے کلام کے لیے قدر بڑھے گی اور اپنے خالق کے لیے ہماری محبت گہری ہو جائے گی جس نے ہمیں بائبل دی ہے۔—میکاہ 4:2؛ رومیوں 15:4۔
زبان میں تبدیلیاں
4. (الف) وقت کے ساتھ ساتھ زبانوں میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ (ب) ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا کسی ایک زبان کو ترجیح نہیں دیتا اور یہ جان کر آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟
4 زبانیں وقت کے ساتھ ساتھ بدل جاتی ہیں۔ لفظوں اور اِصطلاحوں کے مطلب بالکل تبدیل ہو جاتے ہیں۔ شاید آپ کو بھی اپنی زبان کا کوئی ایسا لفظ یاد ہو جس کا اب وہ مطلب نہیں رہا جو پہلے ہوتا تھا۔ یہ بات قدیم زبانوں کے بارے میں بھی سچ ہے۔ لوگ آجکل جو عبرانی اور یونانی بولتے ہیں، وہ اُس عبرانی اور یونانی سے فرق ہے جس میں بائبل لکھی گئی تھی۔ زیادہتر لوگ بائبل کو اُن قدیم زبانوں میں نہیں سمجھ سکتے جن میں یہ لکھی گئی تھی بلکہ اُنہیں اِس کے ترجمے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر وہ قدیم عبرانی اور یونانی سیکھ لیں گے تو وہ بائبل کو اَور اچھی طرح سمجھ پائیں گے۔ لیکن ایسا کرنے کا اُنہیں اُتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا اُنہیں لگتا ہے۔ ہم خدا کے بہت شکرگزار ہیں کہ پوری بائبل یا اِس کے کچھ حصوں کا ترجمہ تقریباً 3000 زبانوں میں ہو چُکا ہے۔ دراصل یہ یہوواہ کی مرضی ہے کہ ”ہر قوم اور قبیلے اور زبان“ کے لوگ اُس کے کلام سے فائدہ حاصل کریں۔ (مکاشفہ 14:6 کو پڑھیں۔) یہ جان کر ہم خدا کے اَور قریب محسوس کرتے ہیں جو بہت شفیق ہے اور کسی سے تعصب نہیں کرتا۔—اعمال 10:34۔
ہم خدا کے شکرگزار ہیں کہ بائبل یا اِس کے کچھ حصوں کا ترجمہ تقریباً 3000 زبانوں میں ہو چُکا ہے۔
5. ”کنگ جیمز ورشن“ کس وجہ سے بہت اہم بن گیا؟
5 زبانوں میں تبدیلی کا اثر بائبل کے ترجموں پر بھی ہوتا ہے۔ شاید بائبل کا جو ترجمہ ایک زمانے میں بڑا آسان لگے، اُسے بعد میں سمجھنا مشکل ہو جائے۔ اِس کی ایک مثال ”کنگ جیمز ورشن“ ہے جسے پہلی بار 1611ء میں تیار کِیا گیا۔ بائبل کا یہ انگریزی ترجمہ بہت مشہور ہوا۔ اِس ترجمے میں جو الفاظ اِستعمال کیے گئے، اُن کا اثر انگریزی زبان پر بھی ہوا۔ * لیکن اِس ترجمے میں خدا کا نام چند ایک بار ہی اِستعمال کِیا گیا۔ عبرانی صحیفوں میں زیادہتر جگہوں پر خدا کے نام کی جگہ انگریزی کے بڑے حروف میں لفظ ”لارڈ“ (جس کا مطلب ”مالک“ ہے) لگا دیا گیا۔ ”کنگ جیمز ورشن“ کے بعد میں آنے والے ایڈیشنوں میں یونانی صحیفوں کی کچھ آیتوں میں بھی خدا کے نام کی جگہ انگریزی کے بڑے حروف میں لفظ ”لارڈ“ لگا دیا گیا۔ یوں اِس ترجمے کو شائع کرنے والوں نے اِس بات کو تسلیم کِیا کہ خدا کا نام یونانی صحیفوں میں بھی جنہیں مسیحی فرقے نیا عہدنامہ کہتے ہیں، پایا جاتا ہے۔
6. ہم ”ترجمہ نئی دُنیا“ کے لیے خدا کے شکرگزار کیوں ہیں؟
6 جب ”کنگ جیمز ورشن“ پہلی بار شائع ہوا تو اِس میں اُس زمانے کے لحاظ سے انگریزی کے جدید الفاظ اِستعمال کیے گئے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ پُرانے ہوتے گئے اور آج اِنہیں سمجھنا مشکل ہے۔ یہی بات بائبل کے دوسرے ترجموں کے بارے میں بھی سچ ہے۔ لہٰذا ہم خدا کے بےحد شکرگزار ہیں کہ ہمارے پاس ”کتابِمُقدس—ترجمہ نئی دُنیا“ ہے جس میں جدید زبان اِستعمال کی گئی ہے۔ یہ ترجمہ یا اِس کے کچھ حصے 150 سے زیادہ زبانوں میں دستیاب ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ دُنیا میں زیادہتر لوگ اِس ترجمے کو اپنی زبان میں پڑھ سکتے ہیں۔ اِس ترجمے میں اِستعمال کیے گئے جدید اور آسان الفاظ کی وجہ سے خدا کا پیغام ہمارے دلوں پر گہرا اثر کرتا ہے۔ (زبور 119:97) لیکن ”ترجمہ نئی دُنیا“ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اِس میں خدا کا نام اُن تمام جگہوں پر اِستعمال کِیا گیا ہے جہاں یہ اصلی متن میں پایا جاتا ہے۔
عامفہم زبان
7، 8. (الف) تیسری صدی قبلازمسیح میں بہت سے یہودی عبرانی صحیفوں کو کیوں نہیں سمجھتے تھے؟ (ب) ”سپتواجنتا“ کیا ہے؟
7 کبھی کبھار دُنیا میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے لوگوں کی زبان بدل جاتی ہے۔ لیکن یہوواہ خدا نے اِس بات کو یقینی بنایا ہے کہ لوگوں کو بائبل ایسی زبان میں ملے جسے وہ سمجھ سکیں۔ مثال کے طور پر بائبل کی پہلی 39 کتابوں کو یہودیوں نے لکھا۔ ”خدا کے پیغام یہودیوں کے سپرد کیے گئے تھے۔“ (رومیوں 3:1، 2) اُنہوں نے اُن کتابوں کو عبرانی یا ارامی زبان میں لکھا۔ لیکن تیسری صدی قبلازمسیح میں بہت سے یہودی عبرانی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ اِس کی کیا وجہ تھی؟ جب سکندرِاعظم نے دُنیا کے ایک بڑے حصے کو فتح کر لیا تو یونانی حکومت بہت پھیل گئی۔ جن علاقوں میں یونان کی حکومت قائم ہو گئی، یونانی زبان اُن علاقوں کی عامفہم زبان بن گئی اور بہت سے لوگ اپنی زبان کی بجائے یونانی بولنے لگے۔ (دانیایل 8:5-7، 20، 21) اِن میں کئی یہودی بھی شامل تھے۔ لہٰذا اُن کے لیے عبرانی صحیفوں کو سمجھنا مشکل ہو گیا۔ اِس مسئلے کا حل کیا تھا؟
8 یسوع مسیح کی پیدائش سے تقریباً 250 سال پہلے بائبل کی پہلی پانچ کتابوں کا یونانی زبان میں ترجمہ کِیا گیا۔ بعد میں باقی عبرانی صحیفوں کا بھی یونانی زبان میں ترجمہ کِیا گیا۔ اِس ترجمے کو ”سپتواجنتا“ کہا جاتا ہے۔ یہ تمام عبرانی صحیفوں کا پہلا تحریری ترجمہ ہے۔
9. (الف) ”سپتواجنتا“ اور دوسرے ترجموں کی وجہ سے اُن لوگوں کو کیا فائدہ ہوا جو خدا کے کلام کو پڑھتے تھے؟ (ب) آپ کو عبرانی صحیفوں کا کون سا حصہ سب سے زیادہ پسند ہے؟
9 ”سپتواجنتا“ کی وجہ سے یونانی بولنے والے یہودی یونانی زبان میں عبرانی صحیفوں کو پڑھ سکے۔ ذرا تصور کریں کہ وہ یہودی اِس بات پر کتنے خوش ہوئے ہوں گے کہ اب وہ خدا کے کلام کو اپنی زبان میں پڑھ یا سُن سکتے ہیں۔ آخرکار بائبل کے حصوں کا ترجمہ دوسری عامفہم زبانوں میں بھی کِیا جانے لگا جیسے کہ سُریانی، گاتھک اور لاطینی۔ جب لوگ اپنی زبان میں خدا کے کلام کو پڑھ سکے اور اِسے سمجھ پائے تو وہ اِس سے محبت کرنے لگے۔ ہو سکتا ہے کہ اُن کی کچھ پسندیدہ آیتیں بھی ہوں جیسے آج ہماری ہوتی ہیں۔ (زبور 119:162-165 کو پڑھیں۔) بِلاشُبہ خدا کا کلام سیاسی تبدیلیوں اور زبان میں تبدیلیوں کے باوجود قائم رہا ہے۔
بائبل کے ترجمے کی مخالفت
10. جان وِکلف کے زمانے میں زیادہتر لوگ بائبل کو کیوں نہیں پڑھ سکتے تھے؟
10 سالوں کے دوران بہت سے طاقتور حکمرانوں نے یہ کوشش کی کہ عام لوگ بائبل کو نہ پڑھ سکیں۔ لیکن خدا سے محبت کرنے والے اشخاص نے یہ کوشش کی کہ سب لوگوں کے پاس بائبل ہو۔ اُن اشخاص میں سے ایک جان وِکلف تھے جو چودہویں صدی میں اِنگلینڈ میں رہتے تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ ہر شخص بائبل کو پڑھے۔ لیکن اُن کے زمانے میں اِنگلینڈ میں رہنے والے زیادہتر لوگوں نے بائبل کا پیغام کبھی اپنی زبان میں نہیں سنا تھا۔ بائبل بہت مہنگی تھی اور اِس کی ہر کاپی ہاتھ سے لکھی جاتی تھی۔ اِس لیے بہت کم لوگوں کے پاس بائبل تھی۔ اِس کے علاوہ اُس وقت زیادہتر لوگ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ جو لوگ چرچ جاتے تھے، اُنہیں شاید لاطینی زبان میں بائبل پڑھ کر سنائی جاتی تھی۔ لیکن لاطینی بھی پُرانی زبان تھی جسے عام لوگ نہیں سمجھتے تھے۔ تو پھر بائبل کا بیشقیمت پیغام لوگوں تک کیسے پہنچا؟—امثال 2:1-5۔
11. وِکلف بائبل کا لوگوں پر کیا اثر ہوا؟
11 سن 1382ء میں جان وِکلف اور اُن کے ساتھیوں نے انگریزی زبان میں بائبل کا ترجمہ کِیا جسے وِکلف بائبل کہا جاتا ہے۔ یہ ترجمہ لوگوں کے ایک گروہ میں بہت مقبول ہو گیا۔ وہ لوگ بائبل سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ پورے اِنگلینڈ میں پیدل ہی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جاتے، لوگوں کو وِکلف بائبل پڑھ کر سناتے اور اُنہیں اِس کے حصوں کی ہاتھ سے لکھی ہوئی کاپیاں دیتے۔ اُن کی محنت کی وجہ سے لوگوں نے ایک بار پھر بائبل میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔
12. پادریوں نے وِکلف اور اُن کے کام کے سلسلے میں کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟
12 لیکن پادریوں کو وِکلف، اُن کی بائبل اور اُن کے پیروکاروں سے نفرت تھی۔ اُنہوں نے اُس گروہ کو اذیت دی جو لوگوں کو وِکلف بائبل پہنچاتا تھا اور وِکلف بائبل کی وہ ساری کاپیاں ضائع کر دیں جو اُنہیں ملیں۔ اگرچہ وِکلف فوت ہو چُکے تھے لیکن پھر بھی
پادریوں نے اُنہیں چرچ کا دُشمن قرار دیا۔ اُنہوں نے وِکلف کی قبر کھود کر اُن کی ہڈیاں نکالیں، اُنہیں جلا دیا اور راکھ کو دریا میں پھینک دیا۔ مگر بہت سے لوگ بائبل کو پڑھنا اور سمجھنا چاہتے تھے اور چرچ اُنہیں روک نہیں سکتا تھا۔ اِس کے بعد سینکڑوں سال کے دوران یورپ اور دُنیا کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ایسی زبانوں میں بائبل کے ترجمے اور چھپائی کا کام شروع کِیا جنہیں بہت سے لوگ سمجھ سکتے تھے۔یہوواہ ہمیں مفید تعلیم دیتا ہے
13. ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں اور اِس سے ہمارا ایمان کیسے مضبوط ہوتا ہے؟
13 بائبل خدا کے اِلہام سے ہے۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ”سپتواجنتا،“ وِکلف بائبل، ”کنگ جیمز ورشن“ یا بائبل کے دیگر ترجمے خدا کے اِلہام سے ہیں۔ لیکن جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ بائبل کے یہ ترجمے کیسے تیار کیے گئے تو ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہوواہ کے وعدے کے مطابق اُس کا کلام قائم ہے۔ یوں اِس بات پر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے کہ یہوواہ کے باقی وعدے بھی ضرور پورے ہوں گے۔—یشوع 23:14۔
14. بائبل کے ذریعے ہمارے دل میں خدا کے لیے محبت کیسے بڑھ جاتی ہے؟
14 جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے کیسے اپنے کلام کی حفاظت کی ہے تو اُس پر ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے اور ہمارے دل میں اُس کے لیے محبت بڑھتی ہے۔ * لیکن یہوواہ خدا نے ہمیں بائبل کیوں دی اور ساتھ ہی ساتھ اِس کی حفاظت کرنے کا وعدہ کیوں کِیا؟ کیونکہ وہ ہم سے پیار کرتا ہے اور ہمیں یہ سکھانا چاہتا ہے کہ ہم اچھی زندگی کیسے گزار سکتے ہیں۔ (یسعیاہ 48:17، 18 کو پڑھیں۔) اِس وجہ سے ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم یہوواہ سے محبت کریں اور اُس کے حکموں کو مانیں۔—1-یوحنا 4:19؛ 5:3۔
15. اگلے مضمون میں کن سوالوں پر بات کی جائے گی؟
15 ہم خدا کے کلام سے گہری محبت کرتے ہیں۔ لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم بائبل پڑھنے سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکیں؟ ہم اُن لوگوں کے دل میں بائبل کے لیے قدر کیسے پیدا کر سکتے ہیں جو ہمیں مُنادی کے دوران ملتے ہیں؟ کلیسیا میں تعلیم دینے والے بھائی کیا کر سکتے ہیں تاکہ وہ جو کچھ سکھائیں، وہ بائبل پر مبنی ہو؟ اِن سوالوں پر اگلے مضمون میں بات کی جائے گی۔
^ پیراگراف 5 انگریزی زبان کی بہت سی مشہور اِصطلاحیں ”کنگ جیمز ورشن“ سے ہی لی گئی ہیں۔
^ پیراگراف 14 بکس ”خود آ کر دیکھیں!“ کو دیکھیں۔