’مجھے پتہ ہے کہ وہ جی اُٹھے گا‘
”ہمارے دوست لعزر سو گئے ہیں۔ لیکن مَیں اُنہیں جگانے جا رہا ہوں۔“—یوحنا 11:11۔
1. جب لعزر فوت ہو گئے تو مارتھا کو کس بات کا یقین تھا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
یسوع مسیح کی قریبی دوست اور شاگرد مارتھا غم سے نڈھال تھیں۔ اُن کا بھائی لعزر فوت ہو چُکا تھا۔ کیا ایسی حالت میں اُنہیں کسی طرح تسلی مل سکتی تھی؟ جی ہاں۔ یسوع مسیح نے اُن سے وعدہ کِیا: ”آپ کا بھائی جی اُٹھے گا۔“ یہ سچ ہے کہ یسوع کے اِن الفاظ سے مارتھا کا غم پوری طرح دُور نہیں ہوا ہوگا۔ لیکن مارتھا کو یسوع کے وعدے پر پورا بھروسا تھا۔ اُنہوں نے کہا: ”مجھے پتہ ہے کہ آخری دن جب مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا تو وہ بھی جی اُٹھے گا۔“ (یوحنا 11:20-24) مارتھا کو یقین تھا کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔ لیکن پھر یسوع مسیح نے ایک معجزہ کِیا۔ اُنہوں نے لعزر کو اُسی دن زندہ کر دیا۔
2. آپ بھی مارتھا کی طرح مُردوں کے جی اُٹھنے پر یقین کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟
2 آج ہم اِس بات کی توقع نہیں رکھتے کہ یہوواہ خدا یا یسوع مسیح ہمارے اُن عزیزوں کو ابھی زندہ کر دیں گے جو فوت ہو چُکے ہیں۔ لیکن کیا آپ کو مارتھا کی طرح اِس بات کا پورا یقین ہے کہ مستقبل میں آپ کے عزیزوں کو زندہ کِیا جائے گا؟ شاید آپ کا شوہر یا بیوی، ماں یا باپ، دادا دادی یا نانا نانی یا آپ کا بچہ موت کی وجہ سے آپ سے بچھڑ گیا ہے۔ آپ شدت سے اُس وقت کے منتظر ہوں گے جب آپ اپنے عزیز سے ملیں گے، اُسے گلے لگائیں گئے اور اُس سے باتیں کریں گے۔ بِلاشُبہ آپ بھی مارتھا کی طرح ٹھوس
وجوہات کی بِنا پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”مجھے پتہ ہے کہ جب مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا تو میرا عزیز بھی جی اُٹھے گا۔“ البتہ ہر مسیحی کو اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کن وجوہات کی بِنا پر مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتا ہے۔3، 4. یسوع مسیح نے حال ہی میں کیا کِیا تھا اور اِس سے مارتھا کا ایمان کیسے مضبوط ہوا؟
3 مارتھا یروشلیم کے نزدیک رہتی تھیں اِس لیے شاید اُنہوں نے وہ واقعہ نہیں دیکھا ہوگا جب یسوع نے گلیل کے نزدیک نائین میں ایک بیوہ کے بیٹے کو زندہ کِیا تھا۔ لیکن اُنہوں نے غالباً اِس کے بارے میں سنا ہوگا۔ اِس کے علاوہ شاید اُنہوں نے اُس واقعے کے بارے میں بھی سنا ہو جب یسوع مسیح نے یائیر کی بیٹی کو زندہ کِیا تھا۔ اُس بچی کے گھر میں موجود سب لوگ ”جانتے تھے کہ لڑکی مر گئی ہے۔“ لیکن یسوع نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اُس سے کہا: ”بیٹی، اُٹھ جاؤ!“ اور وہ بچی فوراً اُٹھ گئی۔ (لُوقا 7:11-17؛ 8:41، 42، 49-55) مارتھا اور اُن کی بہن مریم جانتی تھیں کہ یسوع بیماروں کو شفا دے سکتے ہیں۔ لہٰذا اُن کا ایمان تھا کہ اگر یسوع اُن کے ساتھ ہوتے تو لعزر نہ مرتے۔ مگر اب جبکہ لعزر فوت ہو چُکے تھے تو مارتھا کو کس بات کی اُمید تھی؟ ذرا غور کریں کہ مارتھا نے کہا کہ لعزر مستقبل میں ”آخری دن“ جی اُٹھیں گے۔ اُنہیں اِس بات کا یقین کیوں تھا؟ اور آپ یہ ایمان کیوں رکھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا جن میں شاید آپ کے عزیز بھی شامل ہوں گے؟
4 ہمارے پاس اِس بات پر ایمان رکھنے کی ٹھوس وجوہات ہیں کہ مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔ آئیں، اِن میں سے چند وجوہات پر غور کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ مُردوں کے جی اُٹھنے کے حوالے سے بائبل سے کچھ ایسی باتیں بھی سیکھیں جن پر آپ عموماً غور نہیں کرتے۔ یوں اِس بات پر آپ کا ایمان اَور مضبوط ہو جائے گا کہ آپ اپنے اُن عزیزوں سے دوبارہ ملیں گے جو فوت ہو چُکے ہیں۔
ہماری اُمید کو مضبوط کرنے والے واقعات
5. مارتھا کو یہ یقین کیوں تھا کہ لعزر کو زندہ کِیا جائے گا؟
5 ذرا غور کریں کہ مارتھا نے یہ نہیں کہا تھا کہ ”مجھے اُمید ہے کہ میرا بھائی جی اُٹھے گا۔“ اُنہوں نے کہا تھا: ’مجھے پتہ ہے کہ وہ جی اُٹھے گا۔‘ مارتھا یہ بات اِتنے یقین سے کیوں کہہ سکتی تھیں؟ کیونکہ وہ ماضی کے اُن واقعات سے واقف تھیں جن میں مُردوں کو زندہ کِیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے بچپن میں گھر پر اور عبادتگاہ میں اِن واقعات کے بارے میں سنا ہو۔ آئیں، اِن میں سے تین واقعات پر غور کریں۔
6. مارتھا کس معجزے کے بارے میں جانتی ہوں گی؟
6 وہ پہلا واقعہ جس میں کسی مُردے کو زندہ کِیا گیا، اُس زمانے میں پیش آیا جب ایلیاہ نبی خدا کی طاقت سے معجزے کِیا کرتے تھے۔ اِسرائیل کے شمال کی طرف صیدا کے قصبے صارپت میں ایک غریب بیوہ رہتی تھی جس نے ایلیاہ نبی کی مہماننوازی کی۔ پھر یہوواہ نے اُس بیوہ کے لیے ایک معجزہ کِیا۔ اُس نے اُس کے گھر سے آٹا اور تیل ختم نہ ہونے دیا تاکہ وہ اور اُس کا بیٹا زندہ رہ سکیں۔ (1-سلاطین 17:8-16) بعد میں اُس بیوہ کا بیٹا بیمار پڑ گیا اور مر گیا۔ اُس وقت ایلیاہ نے کیا کِیا؟ وہ اُس لڑکے کی لاش کے پاس گئے اور ”اپنے آپ کو تین بار اُس لڑکے پر پسار کر [یہوواہ] سے فریاد کی اور کہا اَے [یہوواہ] میرے خدا مَیں تیری مِنت کرتا ہوں کہ اِس لڑکے کی جان اِس میں پھر آ جائے۔“ ایلیاہ کی دُعا سنی گئی اور وہ لڑکا زندہ ہو گیا۔ یہ بائبل میں درج پہلا واقعہ ہے جس میں کسی مُردے کو زندہ کِیا گیا۔ (1-سلاطین 17:17-24 کو پڑھیں۔) بِلاشُبہ مارتھا اِس حیرتانگیز واقعے کے بارے میں جانتی ہوں گی۔
7، 8. (الف) اِلیشع نے ایک غمزدہ ماں کو تسلی بخشنے کے لیے کیا کِیا؟ (ب) اِلیشع کے معجزے سے یہوواہ خدا کے بارے میں کیا ثابت ہو گیا؟
7 بائبل میں درج وہ دوسرا واقعہ جس میں کسی مُردے کو زندہ کِیا گیا، اِلیشع کے زمانے میں پیش آیا۔ شونیم نامی شہر میں ایک اِسرائیلی عورت رہتی تھی جس کا کوئی بچہ نہیں تھا۔ چونکہ اُس عورت نے اِلیشع کی 2-سلاطین 4:8-31۔
مہماننوازی کی اِس لیے خدا نے اُسے اور اُس کے بوڑھے شوہر کو ایک بیٹا بخشا۔ لیکن کچھ سال کے بعد وہ لڑکا فوت ہو گیا۔ ذرا اُس لڑکے کی ماں کے غم کا تصور کریں۔ وہ اِتنی غمگین تھی کہ وہ 30 کلومیٹر (19 میل) کا فاصلہ طے کر کے کرمل کے پہاڑ پر اِلیشع کو ڈھونڈنے پہنچ گئی۔ اِلیشع نے اپنے خادم جیحازی کو کہا کہ وہ اُن سے پہلے شونیم جا کر اُس لڑکے کو زندہ کریں۔ لیکن جیحازی ایسا نہیں کر پائے۔ پھر اِلیشع غم میں ڈوبی اُس ماں کے ساتھ اُس کے گھر پہنچے۔—خدا نے ثابت کِیا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
8 گھر پہنچ کر اِلیشع اُس جگہ گئے جہاں لڑکے کی لاش رکھی تھی۔ پھر اُنہوں نے یہوواہ سے دُعا کی۔ یہوواہ نے اِلیشع کی دُعا کا جواب دیا اور معجزانہ طور پر اُس لڑکے کو زندہ کر دیا۔ جب اُس کی ماں نے اپنے بیٹے کو زندہ دیکھا تو اُس کی خوشی کی اِنتہا نہ رہی۔ (2-سلاطین 4:32-37 کو پڑھیں۔) ہو سکتا ہے کہ اُسے حنّہ کی دُعا کے الفاظ یاد آئے ہوں۔ حنّہ ایک لمبے عرصے تک بانجھ رہیں لیکن پھر خدا نے اُنہیں بیٹا بخشا جس کا نام اُنہوں نے سموئیل رکھا۔ جب حنّہ سموئیل کو خیمۂاِجتماع میں لے کر آئیں تو اُنہوں نے یہوواہ کی بڑائی کرتے ہوئے کہا: ”وہی قبر میں اُتارتا اور اُس سے نکالتا ہے۔“ (1-سموئیل 2:6) خدا نے شونیمی عورت کے بیٹے کو بھی ایک لحاظ سے قبر سے نکالا تھا اور یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ مُردوں کو زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
9. بائبل میں درج وہ تیسرا واقعہ کون سا ہے جس میں ایک مُردہ زندہ ہوا؟
9 اِلیشع کی موت کے بعد بھی ایک حیرانکُن واقعہ پیش آیا۔ اِلیشع نے 50 سال سے زیادہ عرصے تک نبی کے طور پر خدمت کی لیکن پھر ”اِلیشعؔ کو وہ مرض لگا جس سے وہ مر گیا۔“ اِلیشع کو دفن کر دیا گیا اور ایک وقت گزرنے کے بعد اُن کی صرف ہڈیاں باقی رہ گئیں۔ ایک دن کچھ اِسرائیلی ایک آدمی کو دفن کرنے کے لیے لے جا رہے تھے۔ اچانک اُنہوں نے دیکھا کہ دُشمن اُن پر حملہ کرنے کے لیے اُن کی طرف آ رہے ہیں۔ اُنہوں نے فوراً وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی اور ہڑبڑی میں لاش کو اِلیشع کی قبر میں پھینک دیا۔ بائبل میں لکھا ہے: ”وہ شخص اِلیشعؔ کی ہڈیوں سے ٹکراتے ہی جی اُٹھا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔“ (2-سلاطین 13:14، 20، 21) اِن واقعات پر غور کرنے سے مارتھا کو یہ یقین ہو گیا کہ خدا مُردوں کو زندگی بخشنے کی طاقت رکھتا ہے۔ جب ہم اِن واقعات پر سوچ بچار کرتے ہیں تو ہمارا بھی ایمان مضبوط ہوتا ہے کہ خدا کی طاقت لامحدود ہے۔
پہلی صدی میں مُردوں کے جی اُٹھنے کے واقعات
10. پہلی صدی عیسوی میں جب ایک بہن فوت ہو گئی تو پطرس نے کیا کِیا؟
10 یونانی صحیفوں میں بھی ایسے واقعات کا ذکر کِیا گیا ہے جن میں خدا کے بندوں نے مُردوں کو زندہ کِیا۔ ہم اِس بارے میں پہلے ہی بات کر چُکے ہیں کہ یسوع مسیح نے شہر نائین کی بیوہ کے بیٹے اور یائیر کی بیٹی کو زندہ کِیا تھا۔ اِن واقعات کے کچھ عرصے بعد پطرس رسول نے ڈورکس کو زندہ کِیا جنہیں تبیتا بھی کہا جاتا تھا۔ پطرس اُس کمرے میں گئے جہاں تبیتا کی لاش پڑی تھی۔ پھر اُنہوں نے دُعا کی اور کہا: ”تبیتا، اُٹھیں!“ تبیتا فوراً جی اُٹھیں اور پطرس نے وہاں موجود مسیحیوں کو ”دِکھایا کہ تبیتا زندہ ہیں۔“ اِس واقعے کا اُس شہر کے لوگوں پر اِتنا گہرا اثر ہوا کہ اُن میں سے بہت سے ”ہمارے مالک پر ایمان لے آئے۔“ اب یہ نئے مسیحی دوسروں کو یسوع مسیح اور اُن کی تعلیمات کے بارے میں سکھا سکتے تھے اور اُنہیں یہ بتا سکتے تھے کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔—اعمال 9:36-42۔
11. (الف) جب یُوتِخُس نامی نوجوان کھڑکی سے نیچے گِر گیا تو معالج لُوقا نے اُس کے بارے میں کیا بتایا؟ (ب) یُوتِخُس کے جی اُٹھنے کے واقعے کا لوگوں پر کیا اثر ہوا؟
11 یونانی صحیفوں میں ایک اَور واقعہ بیان کِیا گیا ہے جس میں لوگوں نے ایک شخص کو زندہ ہوتے دیکھا۔ ایک مرتبہ پولُس رسول شہر تروآس گئے جو اب شمال مغربی ترکی میں واقع ہے۔ وہ وہاں ایک گھر کے اُوپر والے کمرے میں لوگوں کو پاک کلام سے تعلیم دے رہے تھے۔ پولُس آدھی رات تک تقریر کرتے رہے۔ وہاں یُوتِخُس نامی ایک نوجوان بھی موجود تھا جو کھڑکی میں بیٹھا پولُس کی باتیں سُن رہا تھا۔ لیکن پھر اُسے نیند آ گئی اور وہ تیسری منزل سے زمین پر گِر گیا۔ اُس وقت شاید لُوقا وہ پہلے شخص تھے جو یُوتِخُس کے پاس پہنچے۔ ایک معالج ہوتے ہوئے اُنہیں پتہ چل گیا کہ یُوتِخُس زخمی یا بےہوش نہیں تھے بلکہ وہ مر چُکے تھے۔ اِتنی دیر میں پولُس بھی نیچے آ گئے۔ اُنہوں نے یُوتِخُس کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور پھر یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا: ”یہ زندہ ہے۔“ اِس معجزے کا وہاں موجود تمام لوگوں پر گہرا اثر ہوا۔ یہ جان کر کہ یُوتِخُس مر گئے تھے لیکن اُنہیں زندہ کر دیا گیا تھا، اُنہیں ”بڑی تسلی ملی۔“—ایک ٹھوس اُمید
12، 13. ہم نے مُردوں کے جی اُٹھنے کے حوالے سے جن واقعات پر بات کی ہے، اُن کی بِنا پر کون سے سوال پیدا ہوتے ہیں؟
12 ہم نے بائبل سے کچھ ایسے واقعات پر بات کی ہے جن میں مُردوں کو زندہ کِیا گیا۔ اِن واقعات پر غور کرنے سے ہمارا ایمان ویسے ہی مضبوط ہونا چاہیے جیسے مارتھا کا ہوا تھا۔ ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ جس خدا نے ہمیں زندگی دی ہے، وہ مُردوں کو زندہ بھی کر سکتا ہے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ جب بھی کسی مُردے کو زندہ کِیا گیا تو خدا کا کوئی نہ کوئی وفادار بندہ، مثلاً ایلیاہ، یسوع یا پطرس اُس موقعے پر موجود تھا۔ اور اِن مُردوں کو اُس زمانے کے دوران زندہ کِیا گیا جب خدا نے اپنے بندوں کو معجزے کرنے کی صلاحیت بخشی ہوئی تھی۔ لیکن اُن لوگوں کا کیا ہوگا جو اُس زمانے کے دوران فوت ہوئے جب خدا نے اپنے بندوں کو معجزے کرنے کی صلاحیت نہیں بخشی تھی؟ کیا اُس زمانے میں رہنے والے خدا کے وفادار بندے یہ اُمید رکھ سکتے تھے کہ خدا مستقبل میں مُردوں کو زندہ کرے گا؟ کیا وہ مارتھا جیسا اِعتماد رکھ سکتے تھے جنہوں نے اپنے بھائی کے بارے میں کہا: ”مجھے پتہ ہے کہ آخری دن جب مُردوں کو زندہ کِیا
جائے گا تو وہ بھی جی اُٹھے گا“؟ مارتھا اِس بات پر بھروسا کیوں رکھتی تھیں کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا اور آپ اِس بات پر ایمان کیوں رکھ سکتے ہیں؟13 خدا کے کلام میں کئی ایسے موقعوں کا ذکر کِیا گیا ہے جن پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کے بندے اِس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔ آئیں، اِن میں سے چند ایک پر غور کریں۔
14. ابراہام کی مثال پر غور کرنے سے ہم مُردوں کے جی اُٹھنے کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
14 ذرا ابراہام کی مثال پر غور کریں۔ یہوواہ نے اُنہیں اِتنے لمبے عرصے کے بعد ایک بیٹا بخشا لیکن جب وہ جوان ہو گیا تو یہوواہ نے اُن سے کہا: ”تُو اپنے بیٹے اِضحاؔق کو جو تیرا اِکلوتا ہے اور جسے تُو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موؔریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے . . . سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔“ (پیدایش 22:2) آپ کے خیال میں یہوواہ کے اِس حکم کو سُن کر ابراہام کو کیسا لگا ہوگا؟ یہوواہ نے اُن سے وعدہ کِیا تھا کہ اُن کی نسل کے ذریعے سب قوموں کو برکت ملے گی۔ (پیدایش 13:14-16؛ 18:18؛ رومیوں 4:17، 18) اِس کے علاوہ یہوواہ نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ برکت اِضحاق کے وسیلے سے ملے گی۔ (پیدایش 21:12) لیکن اگر ابراہام اپنے بیٹے کو قربان کر دیتے تو خدا کا یہ وعدہ کیسے پورا ہوتا؟ پولُس رسول نے خدا کے اِلہام سے لکھا کہ ابراہام کا ایمان تھا کہ خدا اِضحاق کو زندہ کر سکتا ہے۔ (عبرانیوں 11:17-19 کو پڑھیں۔) لیکن بائبل میں اِس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ ابراہام یہ سوچتے تھے کہ اُن کے بیٹے کو اُسی وقت یا شاید کچھ گھنٹوں، ایک دن یا ایک ہفتے کے بعد زندہ کر دیا جائے گا۔ ابراہام نہیں جانتے تھے کہ اِضحاق کو کب زندہ کِیا جائے گا۔ لیکن اُنہیں یہ یقین تھا کہ خدا اِضحاق کو زندہ ضرور کرے گا۔
15. خدا کے وفادار بندے ایوب کیا اُمید رکھتے تھے؟
15 خدا کے وفادار بندے ایوب بھی جانتے تھے کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔ اُنہیں پتہ تھا کہ اگر ایک درخت کو کاٹ ڈالا جائے تو وہ دوبارہ سے بڑھ کر نیا درخت بن سکتا ہے۔ لیکن یہ بات اِنسان کے سلسلے میں سچ نہیں ہے۔ (ایوب 14:7-12؛ 19:25-27) اگر ایک اِنسان مر جائے تو وہ خود کو زندہ نہیں کر سکتا۔ (2-سموئیل 12:23؛ زبور 89:48) مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خدا ایک شخص کو زندہ نہیں کر سکتا۔ ایوب کو یقین تھا کہ خدا ایک وقت مقرر کرے گا جب وہ اُنہیں یاد فرمائے گا۔ (ایوب 14:13-15 کو فٹنوٹ سے پڑھیں۔ *) ایوب نہیں جانتے تھے کہ وہ وقت کب آئے گا۔ لیکن اُنہیں یقین تھا کہ یہوواہ جو زندگی کا سرچشمہ ہے، اُنہیں یاد کرے گا اور دوبارہ زندگی بخشے گا۔
16. ایک فرشتے نے دانیایل کا حوصلہ کیسے بڑھایا؟
16 ذرا خدا کے ایک اَور بندے دانیایل کی مثال پر غور کریں۔ وہ ساری عمر یہوواہ خدا کے وفادار رہے اور یہوواہ بھی اُن کے ساتھ رہا۔ ایک مرتبہ ایک فرشتہ اُن کے پاس آیا، اُنہیں ”عزیز مرد“ کہہ کر مخاطب کِیا اور اُن سے کہا: ”تیری سلامتی ہو۔ مضبوطوتوانا ہو۔“—دانیایل 9:22، 23؛ 10:11، 18، 19۔
17، 18. یہوواہ خدا نے دانیایل سے کیا وعدہ کِیا؟
17 جب دانیایل تقریباً 100 سال کے تھے اور اُن کی زندگی ختم ہونے والی تھی تو اُنہوں نے سوچا ہوگا کہ مستقبل میں اُن کا کیا ہوگا۔ کیا دانیایل اِس بات کی توقع رکھتے تھے کہ وہ دوبارہ زندہ ہوں گے؟ بےشک۔ دانیایل کی کتاب کے آخر میں لکھا ہے کہ خدا نے دانیایل سے یہ وعدہ کِیا: ”تُو اپنی راہ لے جب تک کہ مُدت پوری نہ ہو کیونکہ تُو آرام کرے گا۔“ (دانیایل 12:13) دانیایل جانتے تھے کہ مُردے ایک لحاظ سے آرام کر رہے ہیں اور قبر میں جہاں وہ جانے والے ہیں، ”نہ کام ہے نہ منصوبہ۔ نہ علم نہ حکمت۔“ (واعظ 9:10) لیکن دانیایل ہمیشہ کے لیے قبر میں نہیں رہیں گے۔ یہوواہ نے اُن سے مستقبل کے سلسلے میں ایک شاندار وعدہ کِیا۔
18 یہوواہ کے فرشتے نے دانیایل سے کہا: ”تُو . . . ایّام کے اِختتام پر اپنی میراث میں اُٹھ کھڑا ہوگا۔“ (دانیایل 12:13) دانیایل نہیں جانتے تھے کہ ایسا کب ہوگا۔ اُنہیں پتہ تھا کہ وہ مر جائیں گے اور پھر آرام کریں گے۔ لیکن جب اُنہوں نے خدا کا یہ وعدہ سنا کہ ”تُو . . . اپنی میراث میں اُٹھ کھڑا ہوگا“ تو وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ اُنہیں مستقبل میں زندہ کِیا جائے گا۔ ایسا ”ایّام کے اِختتام“ پر یعنی اُن کی موت کے ایک لمبے عرصے بعد ہونا تھا۔ ”اُردو جیو ورشن“ کے مطابق خدا نے اُن سے کہا تھا: ”تُو . . . دنوں کے اِختتام پر جی اُٹھ کر اپنی میراث پائے گا۔“
19، 20. (الف) ہم نے اِس مضمون میں جن واقعات پر غور کِیا ہے، اُن کا اُس بات سے کیا تعلق ہے جو مارتھا نے یسوع سے کہی تھی؟ (ب) ہم اگلے مضمون میں کن باتوں پر غور کریں گے؟
19 بِلاشُبہ مارتھا ٹھوس وجوہات کی بِنا پر اپنے بھائی لعزر کے بارے میں یہ کہہ سکتی تھیں کہ ”آخری دن جب مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا تو وہ بھی جی اُٹھے گا۔“ جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہوواہ نے دانیایل سے کون سا وعدہ کِیا تھا اور مارتھا مستقبل میں مُردوں کے جی اُٹھنے پر کتنا پُختہ یقین رکھتی تھیں تو ہمارا ایمان بھی مضبوط ہوتا ہے۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔
20 ہم نے ماضی کے اُن واقعات پر غور کِیا ہے جن میں مُردوں کو زندہ کِیا گیا۔ اِن واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ مُردے زندہ ہو سکتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی سیکھا ہے کہ خدا کے وفادار بندے مستقبل میں مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتے تھے۔ لیکن کیا اِس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ اگر کسی شخص کے جی اُٹھنے کا وعدہ کِیا جائے تو یہ وعدہ ایک لمبے عرصہ بعد بھی پورا ہو سکتا ہے؟ اگر اِس سوال کا جواب ہاں ہے تو پھر اِس بات پر ہمارا ایمان اَور مضبوط ہو جاتا ہے کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔ لیکن وہ وقت کب آئے گا؟ اِن باتوں پر ہم اگلے مضمون میں غور کریں گے۔
^ پیراگراف 15 ایوب 14:13-15 (نیو اُردو بائبل ورشن): ”کاش کہ تُو مجھے پاتال [یعنی قبر] میں چھپا لیتا اور اپنا غضب ٹلنے تک مجھے چھپائے رکھتا! کاش تُو میرے لیے کوئی وقت مقرر کرتا اور پھر مجھے یاد فرماتا! اگر اِنسان مر جائے تو کیا وہ پھر سے جی سکے گا؟ اپنی مشقت کے تمام ایّام تک مَیں اپنی مخلصی کا منتظر رہوں گا۔ تُو آواز دے گا اور مَیں تجھے جواب دوں گا؛ تُو اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی مخلوق کی طرف متوجہ ہوگا۔“