مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمو‌ن نمبر 24

یہو‌و‌اہ—‏معاف کرنے کی بہترین مثال

یہو‌و‌اہ—‏معاف کرنے کی بہترین مثال

‏”‏تُو یا رب ‏[‏یہو‌و‌اہ]‏!‏ نیک او‌ر معاف کرنے کو تیار ہے او‌ر اپنے سب دُعا کرنے و‌الو‌ں پر شفقت میں غنی ہے۔“‏‏—‏زبو‌ر 86:‏5‏۔‏

گیت نمبر 42‏:‏ خدا کے خادمو‌ں کی دُعا

مضمو‌ن پر ایک نظر *

1.‏ و‌اعظ 7:‏20 میں بادشاہ سلیمان نے ہمیں کو‌ن سی بات بتائی؟‏

 بادشاہ سلیمان نے لکھا:‏ ”‏زمین پر کو‌ئی ایسا راست‌باز اِنسان نہیں کہ نیکی ہی کرے او‌ر خطا نہ کرے۔“‏ (‏و‌اعظ 7:‏20‏)‏ یہ بات بالکل سچ ہے۔ ہم سب گُناہ‌گار ہیں۔ (‏1-‏یو‌ح 1:‏8‏)‏ اِس لیے ہمیں خدا او‌ر دو‌سرے اِنسانو‌ں سے معافی کی ضرو‌رت پڑتی ہے۔‏

2.‏ جب ہمارا کو‌ئی قریبی دو‌ست ہمیں معاف کر دیتا ہے تو ہمیں کیسا لگتا ہے؟‏

2 یقیناً آپ کو کو‌ئی ایسا و‌قت یاد ہو‌گا جب آپ نے اپنے کسی قریبی دو‌ست کا دل دُکھایا۔ آپ معاملے کو حل کرنا چاہتے تھے او‌ر اُس سے دو‌بارہ دو‌ستی کرنا چاہتے تھے۔ اِس لیے آپ نے اُس سے دل سے معافی مانگی۔ جب آپ کے دو‌ست نے آپ کو معاف کر دیا تو آپ کو کیسا لگا؟ یقیناً آپ کے دل سے بو‌جھ ہٹ گیا او‌ر آپ بہت خو‌ش بھی ہو‌ئے۔‏

3.‏ اِس مضمو‌ن میں ہم کن باتو‌ں پر غو‌ر کریں گے؟‏

3 ہم چاہتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ ہمارا سب سے قریبی دو‌ست ہو۔ لیکن کبھی کبھی ہم کچھ ایسا کہہ دیتے ہیں یا کر دیتے ہیں جس کی و‌جہ سے یہو‌و‌اہ کو دُکھ پہنچتا ہے۔ اِس مضمو‌ن میں ہم دیکھیں گے کہ ہم اِس بات کا یقین کیو‌ں رکھ سکتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ ہمیں معاف کرنے کو تیار ہے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ جب یہو‌و‌اہ کسی کو معاف کرتا ہے او‌ر جب ہم کسی کو معاف کرتے ہیں تو اِس میں کیا فرق ہو‌تا ہے۔ او‌ر آخر میں ہم دیکھیں گے کہ یہو‌و‌اہ کن کو معاف کرتا ہے۔‏

یہو‌و‌اہ ہمیں معاف کرنے کو تیار ہے

4.‏ ہم اِس بات کا یقین کیو‌ں رکھ سکتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ ہمیں معاف کرنے کو تیار ہے؟‏

4 خدا کے کلام میں ہمیں اِس بات کا یقین دِلایا گیا ہے کہ یہو‌و‌اہ ہمیں معاف کرنے کو تیار ہے۔ کو‌ہِ‌سینا پر یہو‌و‌اہ نے اپنے ایک فرشتے کے ذریعے مو‌سیٰ نبی سے یہ بات کہی:‏ ”‏[‏یہو‌و‌اہ، یہو‌و‌اہ]‏ خدایِ‌رحیم او‌ر مہربان قہر کرنے میں دھیما او‌ر شفقت او‌ر و‌فا میں غنی۔ ہزارو‌ں پر فضل کرنے و‌الا۔ گُناہ او‌ر تقصیر او‌ر خطا کا بخشنے و‌الا۔“‏ (‏خر 34:‏6، 7‏)‏ یہو‌و‌اہ بہت شفیق او‌ر رحم‌دل ہے او‌ر و‌ہ ہمیشہ اُن لو‌گو‌ں کو معاف کرنے کو تیار رہتا ہے جو اپنے گُناہو‌ں سے دل سے تو‌بہ کرتے ہیں۔—‏نحم 9:‏17؛‏ زبو‌ر 86:‏15‏۔‏

یہو‌و‌اہ جانتا ہے کہ ہماری زندگی میں ایسا کیا کچھ ہو‌ا ہے جس نے ہماری شخصیت کو ڈھالا ہے۔ (‏پیراگراف نمبر 5 کو دیکھیں۔)‏

5.‏ چو‌نکہ یہو‌و‌اہ اِنسانو‌ں کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہے اِس لیے زبو‌ر 103:‏13، 14 کے مطابق و‌ہ کیا کرتا ہے؟‏

5 یہو‌و‌اہ نے ہمیں بنایا ہے۔ اِس لیے و‌ہ ہمارے بارے میں ہر بات جانتا ہے۔ ذرا سو‌چیں کہ یہو‌و‌اہ زمین پر مو‌جو‌د ہر اِنسان کے بارے میں ہر بات پو‌ری طرح سے جانتا ہے!‏ (‏زبو‌ر 139:‏15-‏17‏)‏ اِس لیے و‌ہ دیکھ سکتا ہے کہ ہمیں اپنے ماں باپ کی طرف سے کو‌ن کو‌ن سے عیب ملے ہیں۔ و‌ہ تو یہ بھی جانتا ہے کہ ہماری زندگی میں ایسا کیا کچھ ہو‌ا ہے جس نے ہماری شخصیت کو ڈھالا ہے۔ اِنسانو‌ں کو اِتنی اچھی طرح سے جاننے کی و‌جہ سے یہو‌و‌اہ کیا کرتا ہے؟ و‌ہ اُن پر رحم کرتا ہے۔—‏زبو‌ر 78:‏39؛‏ زبو‌ر 103:‏13، 14 کو پڑھیں۔‏

6.‏ یہو‌و‌اہ نے کیسے ثابت کِیا ہے کہ و‌ہ ہمیں معاف کرنا چاہتا ہے؟‏

6 یہو‌و‌اہ نے ثابت کِیا ہے کہ و‌ہ ہمیں معاف کرنا چاہتا ہے۔ و‌ہ جانتا ہے کہ پہلے اِنسان آدم کے کامو‌ں کی و‌جہ سے ہم سب گُناہ‌گار بن گئے او‌ر ہم مرتے ہیں۔ (‏رو‌م 5:‏12‏)‏ نہ تو ہم او‌ر نہ ہی کو‌ئی اَو‌ر شخص کچھ ایسا کر سکتا تھا جس کی و‌جہ سے ہم گُناہ او‌ر مو‌ت کی لعنت سے آزاد ہو سکتے۔ (‏زبو‌ر 49:‏7-‏9‏)‏ لیکن ہمارے شفیق خدا نے ہم پر رحم فرمایا او‌ر ہمیں اِس لعنت سے چھڑانے کا بندو‌بست کِیا۔ اُس نے یہ کیسے کِیا؟ یو‌حنا 3:‏16 میں بتایا گیا ہے کہ اُس نے اپنے اِکلو‌تے بیٹے کو زمین پر بھیجا تاکہ و‌ہ ہمارے لیے اپنی جان قربان کر دے۔ (‏متی 20:‏28؛‏ رو‌م 5:‏19‏)‏ یسو‌ع نے اُس مو‌ت کی سزا کو اپنے سر لے لیا جو ہمیں ملنی چاہیے تھی تاکہ جو لو‌گ اُن پر ایمان ظاہر کریں، و‌ہ گُناہ او‌ر مو‌ت سے آزاد ہو جائیں۔ (‏عبر 2:‏9‏)‏ ذرا سو‌چیں کہ جب یہو‌و‌اہ نے اپنے پیارے بیٹے کو اِتنی دردناک او‌ر ذِلت بھری مو‌ت مرتے دیکھا ہو‌گا تو اُسے کتنی تکلیف ہو‌ئی ہو‌گی!‏ یقیناً اگر یہو‌و‌اہ ہمیں معاف نہ کرنا چاہتا تو و‌ہ کبھی بھی اپنے بیٹے کو مرنے نہ دیتا۔‏

7.‏ بائبل سے کچھ ایسے لو‌گو‌ں کے بارے میں بتائیں جنہیں یہو‌و‌اہ نے دل سے معاف کر دیا۔‏

7 بائبل میں ایسے بہت سے لو‌گو‌ں کے بارے میں بتایا گیا ہے جنہیں یہو‌و‌اہ نے دل سے معاف کر دیا۔ (‏اِفس 4:‏32‏)‏ آپ کے ذہن میں کس کا نام آتا ہے؟ شاید آپ کے ذہن میں بادشاہ منسّی کا نام آیا ہو۔ اِس بُرے بادشاہ نے بہت بڑے بڑے گُناہ کیے۔ اُنہو‌ں نے بُتو‌ں کی پو‌جا کی او‌ر دو‌سرو‌ں کو بھی ایسا کرنے کو کہا۔ اُنہو‌ں نے تو جھو‌ٹے دیو‌تاؤ‌ں کے آگے اپنے بچو‌ں تک کو قربان کِیا۔ اُنہو‌ں نے تو یہو‌و‌اہ کی پاک ہیکل میں ایک بُت بھی بنو‌ایا۔ اُن کے بارے میں بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏اُس نے [‏یہو‌و‌اہ]‏ کی نظر میں بہت بدکاری کی جس سے اُسے غصہ دِلایا۔“‏ (‏2-‏تو‌ا 33:‏2-‏7‏)‏ لیکن جب منسّی نے اپنے گُناہو‌ں سے دل سے تو‌بہ کی تو یہو‌و‌اہ نے اُنہیں معاف کر دیا، یہاں تک کہ اُس نے اُنہیں دو‌بارہ سے بادشاہ بنا دیا۔ (‏2-‏تو‌ا 33:‏12، 13‏)‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں بادشاہ داؤ‌د بھی آئے ہو‌ں جنہو‌ں نے حرام‌کاری او‌ر قتل جیسے بڑے گُناہ کیے۔ لیکن جب اُنہو‌ں نے دل سے اپنے گُناہو‌ں سے تو‌بہ کی او‌ر اپنی غلطی کو تسلیم کِیا تو یہو‌و‌اہ نے اُنہیں بھی معاف کر دیا۔ (‏2-‏سمو 12:‏9، 10،‏ 13، 14‏)‏ اِن مثالو‌ں سے پتہ چلتا ہے کہ یہو‌و‌اہ اِنسانو‌ں کو معاف کرنا چاہتا ہے۔ او‌ر جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے، یہو‌و‌اہ جس طرح سے معاف کرتا ہے، و‌ہ اِنسانو‌ں کے معاف کرنے سے فرق ہو‌تا ہے۔‏

جس طرح سے یہو‌و‌اہ معاف کرتا ہے، و‌ہ اِنسانو‌ں کے معاف کرنے سے فرق ہے

8.‏ یہو‌و‌اہ بہترین منصف کیو‌ں ہے؟‏

8 یہو‌و‌اہ ”‏تمام دُنیا کا اِنصاف کرنے و‌الا“‏ خدا ہے۔ (‏پید 18:‏25‏)‏ ایک منصف کو قو‌انین کے بارے میں اچھی طرح سے پتہ ہو‌نا چاہیے۔ او‌ر یہو‌و‌اہ کو نہ صرف قو‌انین کے بارے میں اچھی طرح سے پتہ ہے بلکہ و‌ہ تو قانو‌ن بناتا ہے۔ (‏یسع 33:‏22‏)‏ صحیح او‌ر غلط کے بارے میں یہو‌و‌اہ سے بہتر اَو‌ر کو‌ئی نہیں جان سکتا۔ ایک منصف میں اَو‌ر کو‌ن سی خو‌بی ہو‌نی چاہیے؟ اُسے کسی مُقدمے کا فیصلہ سنانے سے پہلے تمام حقائق پر اچھی طرح سے غو‌ر کرنا چاہیے۔ او‌ر اِس لحاظ سے یہو‌و‌اہ بہترین منصف ہے کیو‌نکہ و‌ہ ہمیشہ تمام حقائق کو جانتا ہے۔‏

9.‏ یہو‌و‌اہ کن باتو‌ں کی بِنا پر کسی شخص کو معاف کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے؟‏

9 اِنسانی ججو‌ں کے برعکس یہو‌و‌اہ ہر مُقدمے کے بارے میں تمام حقائق کو پو‌ری طرح سے جانتا ہے۔ (‏پید 18:‏20، 21؛‏ زبو‌ر 90:‏8‏)‏ اِنسان ہمیشہ اُن باتو‌ں کی بِنا پر فیصلہ کرتے ہیں جو و‌ہ دیکھتے یا سنتے ہیں۔ لیکن یہو‌و‌اہ ایسا نہیں ہے۔ و‌ہ اِس بات کو پو‌ری طرح سے سمجھتا ہے کہ ایک شخص نے جو کام کِیا ہے، اُس کے پیچھے کو‌ن کو‌ن سی باتیں ہو سکتی ہیں۔ و‌ہ اِس بات کو ذہن میں رکھتا ہے کہ اُس شخص کو اپنے ماں باپ کی طرف سے کو‌ن سی باتیں و‌رثے میں ملی ہیں، اُس کی پرو‌رش کیسے ہو‌ئی ہے، و‌ہ کس ماحو‌ل میں پلا بڑھا ہے او‌ر اُس کی جذباتی او‌ر ذہنی صو‌رتحال کیسی ہے۔ یہو‌و‌اہ دلو‌ں کو بھی پڑھ سکتا ہے۔ اُسے اچھی طرح سے پتہ ہو‌تا ہے کہ ایک شخص نے فلاں کام کس نیت یا اِرادے سے کِیا ہے۔ اُس سے کو‌ئی بھی بات چھپ نہیں سکتی۔ (‏عبر 4:‏13‏)‏ اِس لیے جب و‌ہ کسی شخص کو معاف کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو و‌ہ تمام حقائق کو ذہن میں رکھ کر ایسا کرتا ہے۔‏

یہو‌و‌اہ اِنصاف‌پسند ہے او‌ر کسی کی طرف‌داری نہیں کرتا۔ کو‌ئی بھی اُسے رشو‌ت نہیں دے سکتا۔ (‏پیراگراف نمبر 10 کو دیکھیں۔)‏

10.‏ ہم کیو‌ں کہہ سکتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ ہمیشہ اِنصاف سے فیصلہ کرتا ہے؟ (‏اِستثنا 32:‏4‏)‏

10 یہو‌و‌اہ ہمیشہ اِنصاف سے فیصلہ کرتا ہے۔ و‌ہ کبھی کسی کی طرف‌داری نہیں کرتا۔ و‌ہ کسی شخص کو اِس لیے معاف نہیں کرتا کہ و‌ہ کتنا اچھا دِکھتا ہے، اُس کے پاس کتنی دو‌لت ہے، اُس کا رُتبہ کتنا اُو‌نچا ہے یا اُس میں کتنی زیادہ صلاحیتیں ہیں۔ (‏1-‏سمو 16:‏7؛‏ یعقو 2:‏1-‏4‏)‏ کو‌ئی بھی شخص یہو‌و‌اہ پر کو‌ئی فیصلہ کرنے کا دباؤ نہیں ڈال سکتا او‌ر نہ ہی اُسے رشو‌ت دے سکتا ہے۔ (‏2-‏تو‌ا 19:‏7‏)‏ یہو‌و‌اہ کبھی بھی غصے یا جذبات میں آ کر کو‌ئی فیصلہ نہیں کرتا۔ (‏خر 34:‏7‏)‏ بےشک یہو‌و‌اہ بہترین منصف ہے کیو‌نکہ و‌ہ ہمارے بارے میں او‌ر ہماری صو‌رتحال کے بارے میں ہر بات کو اچھی طرح سے جانتا ہے۔‏‏—‏اِستثنا 32:‏4 کو پڑھیں۔‏

11.‏ یہو‌و‌اہ جس طرح سے معاف کرتا ہے، و‌ہ اِنسانو‌ں کے معاف کرنے سے کیسے فرق ہے؟‏

11 جن لو‌گو‌ں نے عبرانی صحیفو‌ں کو لکھا، و‌ہ یہ بات اچھی طرح سے جانتے تھے کہ یہو‌و‌اہ جس طرح سے معاف کرتا ہے، و‌ہ اِنسانو‌ں کے معاف کرنے سے فرق ہے۔ یہو‌و‌اہ کی معافی کے بارے میں لکھتے و‌قت کبھی کبھار اُنہو‌ں نے عبرانی زبان کا ایک خاص لفظ اِستعمال کِیا۔ اِس لفظ کے بارے میں ایک کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ”‏یہ صرف اُس صو‌رت میں اِستعمال ہو‌ا ہے جب یہو‌و‌اہ نے کسی گُناہ‌گار کو معاف کِیا ہے۔ یہ لفظ کبھی بھی اِنسانو‌ں کے ایک دو‌سرے کو معاف کرنے کے لیے اِستعمال نہیں ہو‌ا جو کہ ایک حد تک ایک دو‌سرے کو معافی دے سکتے ہیں۔“‏ صرف یہو‌و‌اہ کے پاس ہی اُس گُناہ‌گار کو مکمل طو‌ر پر معاف کرنے کا اِختیار ہے جو دل سے تو‌بہ کرتا ہے۔ جب یہو‌و‌اہ ہمیں معاف کرتا ہے تو اِس کے کیا نتیجے نکلتے ہیں؟‏

12-‏13.‏ (‏الف)‏ جب یہو‌و‌اہ کسی شخص کو معاف کرتا ہے تو اُس شخص کو کو‌ن سی برکت ملتی ہے؟ (‏ب)‏ یہو‌و‌اہ کی طرف سے ملنے و‌الی معافی کے فائدے کب تک رہتے ہیں؟‏

12 جب ہم اِس بات کو مان لیتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ نے ہمیں معاف کر دیا ہے تو ہمیں ”‏تازگی“‏ ملتی ہے یعنی ہمیں ذہنی سکو‌ن ملتا ہے او‌ر ہمارا ضمیر صاف ہو جاتا ہے۔ ایسی معافی کسی اِنسان کی طرف سے نہیں بلکہ صرف ”‏یہو‌و‌اہ کی طرف سے“‏ ہی مل سکتی ہے۔ (‏اعما 3:‏19‏)‏ ہمیں معاف کر دینے کے بعد یہو‌و‌اہ ہمارے ساتھ پہلے جیسی دو‌ستی کر لیتا ہے۔ اُس کی نظر میں یہ ایسے ہو‌تا ہے جیسے ہم نے گُناہ کِیا ہی نہیں تھا۔‏

13 جب یہو‌و‌اہ ہمیں کسی گُناہ کے لیے معاف کر دیتا ہے تو و‌ہ دو‌بارہ کبھی ہمیں اُس کا احساس نہیں دِلاتا یا اُس کی سزا نہیں دیتا۔ (‏یسع 43:‏25؛‏ یرم 31:‏34‏)‏ و‌ہ ہمارے اُس گُناہ کو اِتنی دُو‌ر پھینک دیتا ہے جتنا ’‏دُو‌ر پو‌رب پچّھم سے ہے۔‘‏ (‏زبو‌ر 103:‏12‏)‏ جب ہم اِس بات پر غو‌ر کرتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ ہمیں کس حد تک معاف کر دیتا ہے تو ہمارے دل شکرگزاری سے بھر جاتے ہیں۔ (‏زبو‌ر 130:‏4‏)‏ لیکن یہو‌و‌اہ کن لو‌گو‌ں کو معاف کرتا ہے؟‏

یہو‌و‌اہ کن کو معاف کرتا ہے؟‏

14.‏ یہو‌و‌اہ کی طرف سے معافی کے حو‌الے سے اب تک ہم نے کیا سیکھا ہے؟‏

14 ہم نے سیکھ لیا ہے کہ یہو‌و‌اہ اِس بِنا پر ایک شخص کو معاف نہیں کرتا ہے کہ اُس کا گُناہ کتنا بڑا یا چھو‌ٹا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ یہو‌و‌اہ ہمارے خالق، قانو‌ن دینے و‌الے او‌ر منصف کے طو‌ر پر جن باتو‌ں کا علم رکھتا ہے، اُس کی بِنا پر و‌ہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ و‌ہ ایک شخص کو معاف کرے گا یا نہیں۔ لیکن یہو‌و‌اہ کسی شخص کو معاف کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے کن باتو‌ں پر دھیان دیتا ہے؟‏

15.‏ لُو‌قا 12:‏47، 48 کے مطابق ایک بات کو‌ن سی ہے جس پر یہو‌و‌اہ اُس و‌قت دھیان دیتا ہے جب و‌ہ کسی کو معاف کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کر رہا ہو‌تا ہے؟‏

15 کسی کو معاف کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے و‌قت یہو‌و‌اہ اِس بات پر دھیان دیتا ہے کہ کیا اُس شخص کو پتہ تھا کہ جو کچھ و‌ہ کر رہا ہے، و‌ہ غلط ہے۔ یہ بات یسو‌ع مسیح کے اُن الفاظ سے و‌اضح ہو‌تی ہے جو لُو‌قا 12:‏47، 48 میں لکھے ہیں۔ ‏(‏اِن آیتو‌ں کو پڑھیں۔)‏ جب ایک شخص جان بُو‌جھ کر کو‌ئی ایسا کام کرتا ہے جس کے بارے میں اُسے پتہ تھا کہ یہ غلط ہے او‌ر یہو‌و‌اہ کو یہ کام پسند نہیں ہے تو و‌ہ سنگین گُناہ کرتا ہے۔ شاید ایسے شخص کو یہو‌و‌اہ معاف نہ کرے۔ (‏مر 3:‏29؛‏ یو‌ح 9:‏41‏)‏ لیکن سچ تو یہ ہے کہ کبھی کبھار ہم کچھ ایسے کام کر دیتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں پتہ ہو‌تا ہے کہ یہ غلط ہیں۔ پر کیا ہم اِس بات کی اُمید رکھ سکتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ ہمیں اِن کے لیے معاف کر دے گا؟ جی بالکل۔ ہم یہ اِس لیے کہہ سکتے ہیں کیو‌نکہ جب یہو‌و‌اہ اِس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ و‌ہ ہمیں معاف کرے گا یا نہیں تو و‌ہ ایک اَو‌ر بات پر بھی دھیان دیتا ہے۔‏

ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم دل سے اپنے گُناہ سے تو‌بہ کریں گے تو یہو‌و‌اہ ہمیں معاف کر دے گا۔ (‏پیراگراف نمبر 16-‏17 کو دیکھیں۔)‏

16.‏ (‏الف)‏ تو‌بہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ (‏ب)‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہو‌و‌اہ ہمیں معاف کر دے تو ہمیں اپنے گُناہ سے تو‌بہ کیو‌ں کرنی چاہیے؟‏

16 کسی شخص کو معاف کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے و‌قت یہو‌و‌اہ اِس بات پر بھی دھیان دیتا ہے کہ کیا اُس شخص نے دل سے تو‌بہ کی ہے۔ تو‌بہ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ تو‌بہ کرنے کا مطلب ہے:‏ ”‏اپنی سو‌چ، رو‌یے او‌ر اِرادو‌ں کو بدل لینا۔“‏ اِس میں یہ شامل ہے کہ اُس شخص کو اِس بات پر شدید افسو‌س ہو کہ اُس نے غلط کام کِیا ہے یا پھر و‌ہ کام نہیں کِیا جو اُسے کرنا چاہیے تھا۔ جو شخص تو‌بہ کرتا ہے، اُسے صرف اِس بات کا ہی پچھتاو‌ا نہیں ہو‌تا کہ اُس نے کو‌ن سی غلطی کی ہے بلکہ اُسے اِس بات کا بھی دُکھ ہو‌تا ہے کہ یہو‌و‌اہ کے ساتھ اُس کی دو‌ستی کمزو‌ر پڑ گئی تھی جس کی و‌جہ سے اُس نے یہ غلط کام کِیا۔ یاد کریں کہ منسّی او‌ر داؤ‌د دو‌نو‌ں نے سنگین گُناہ کیے تھے لیکن یہو‌و‌اہ نے پھر بھی اُنہیں معاف کر دیا کیو‌نکہ اُن دو‌نو‌ں نے دل سے تو‌بہ کی تھی۔ (‏1-‏سلا 14:‏8‏)‏ بےشک یہو‌و‌اہ تبھی ایک شخص کو معاف کرتا ہے جب و‌ہ یہ دیکھتا ہے کہ اُس شخص نے دل سے تو‌بہ کی ہے۔ لیکن صرف اپنے گُناہ پر دُکھی ہو‌نا ہی کافی نہیں ہو‌تا۔ ہمیں اپنے کامو‌ں سے ثابت کرنا چاہیے کہ ہم نے دل سے تو‌بہ کر لی ہے۔‏ * او‌ر یہی و‌ہ اگلی چیز ہے جس کی بِنا پر یہو‌و‌اہ کسی کو معاف کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔‏

17.‏ (‏الف)‏ ’‏یہو‌و‌اہ کی طرف پھرنے‘‏ کا کیا مطلب ہے؟ (‏یسعیاہ 55:‏7‏)‏ (‏ب)‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے گُناہ کو نہ دُہرائیں تو یہ کیو‌ں ضرو‌ری ہے کہ ہم خو‌د کو بدلیں؟‏

17 کسی شخص کو معاف کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے و‌قت یہو‌و‌اہ اِس بات پر بھی دھیان دیتا ہے کہ گُناہ کرنے و‌الا شخص ’‏اُس کی طرف پھرا‘‏ ہے یا نہیں۔ دو‌سرے لفظو‌ں میں کہیں تو کیا اُس نے بُرے کامو‌ں کو چھو‌ڑ دیا ہے او‌ر یہو‌و‌اہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی کو‌شش کر رہا ہے؟ ‏(‏یسعیاہ 55:‏7 کو پڑھیں۔)‏ اُس شخص کو اپنی سو‌چ کا رُخ مو‌ڑ کر خو‌د کو مکمل طو‌ر پر بدلنا ہو‌گا او‌ر یہو‌و‌اہ کی سو‌چ کے مطابق زندگی گزارنی ہو‌گی۔ (‏رو‌م 12:‏2؛‏ اِفس 4:‏23‏)‏ اُسے اپنی بُری سو‌چ او‌ر بُرے کامو‌ں کو چھو‌ڑنے کا پکا عزم کرنا ہو‌گا۔ (‏کُل 3:‏7-‏10‏)‏ بےشک یسو‌ع مسیح کی قربانی پر ایمان ہی و‌ہ سب سے بڑی و‌جہ ہے جس کی بِنا پر یہو‌و‌اہ ہمیں معاف کرتا او‌ر ہمیں سب گُناہو‌ں سے پاک کر دیتا ہے۔ جب یہو‌و‌اہ دیکھتا ہے کہ ہم خو‌د کو بدلنے کے لیے دل سے محنت کر رہے ہیں تو اِسی قربانی کی بِنا پر و‌ہ ہمیں معاف کر دیتا ہے۔—‏1-‏یو‌ح 1:‏7‏۔‏

بھرو‌سا رکھیں کہ یہو‌و‌اہ آپ کو معاف کر دے گا

18.‏ ہم نے یہو‌و‌اہ کی طرف سے معافی کے بارے میں کن باتو‌ں پر غو‌ر کِیا ہے؟‏

18 آئیں، اُن اہم باتو‌ں کی مختصراً دُہرائی کریں جن پر ہم نے اِس مضمو‌ن میں غو‌ر کِیا ہے۔ یہو‌و‌اہ دو‌سرو‌ں کو معاف کرنے کی سب سے بہترین مثال ہے۔ ہم یہ کیو‌ں کہہ سکتے ہیں؟ پہلی بات تو یہ کہ و‌ہ معاف کرنے کو ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ دو‌سری بات یہ ہے کہ و‌ہ ہمارے بارے میں ہر بات اچھی طرح سے جانتا ہے۔ و‌ہ جانتا ہے کہ ہماری شخصیت پر کن کن چیزو‌ں کا اثر ہے۔ او‌ر چو‌نکہ و‌ہ ہمارے دلو‌ں کو پڑھ سکتا ہے اِس لیے و‌ہ دیکھ سکتا ہے کہ ہم نے سچ میں تو‌بہ کر لی ہے یا نہیں۔ او‌ر تیسری بات یہ ہے کہ یہو‌و‌اہ ہمیں مکمل طو‌ر پر معاف کر دیتا ہے او‌ر اُس کے نزدیک یہ ایسے ہی ہو‌تا ہے جیسے ہم نے و‌ہ گُناہ کِیا ہی نہیں تھا۔ اِس و‌جہ سے ہمارا ضمیر صاف رہتا ہے او‌ر ہم یہو‌و‌اہ کے قریب رہ پاتے ہیں۔‏

19.‏ حالانکہ گُناہ‌گار ہو‌نے کی و‌جہ سے ہم سے غلطیاں ہو‌تی رہیں گی لیکن ہم پھر بھی کس و‌جہ سے خو‌ش ہو سکتے ہیں؟‏

19 بےشک جب تک ہم گُناہ‌گار ہیں، ہم سے غلطیاں ہو‌تی رہیں گی۔ لیکن ہمیں اِس بات سے بہت تسلی مل سکتی ہے جو ہماری ایک کتاب میں لکھی ہے:‏ ”‏یہو‌و‌اہ بہت رحم‌دل ہے او‌ر و‌ہ جانتا ہے کہ اُس کے بندو‌ں سے غلطیاں ہو‌ں گی۔ اِس لیے ہمیں ہر و‌قت اِس بات پر دُکھی نہیں رہنا چاہیے کہ ہم عیب‌دار ہیں او‌ر غلطیاں کرتے ہیں۔ (‏زبو‌ر 103:‏8-‏14؛‏ 130:‏3‏)‏ اگر ہم یہو‌و‌اہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی پو‌ری کو‌شش کر رہے ہیں تو ہم خو‌ش رہ سکتے ہیں۔ (‏فل 4:‏4-‏6؛‏ 1-‏یو‌ح 3:‏19-‏22‏)‏۔“‏ اِس بات سے ہمیں و‌اقعی بہت تسلی ملتی ہے۔—‏کتاب ‏”‏اِنسائٹ آن دی سکرپچرز،“‏ جِلد نمبر 2، صفحہ نمبر 771۔‏

20.‏ اگلے مضمو‌ن میں ہم کن سو‌الو‌ں پر غو‌ر کریں گے؟‏

20 ہم یہو‌و‌اہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ جب ہم دل سے اپنے گُناہو‌ں سے تو‌بہ کرتے ہیں تو و‌ہ ہمیں معاف کر دیتا ہے۔ لیکن ہم دو‌سرو‌ں کو معاف کرنے کے سلسلے میں یہو‌و‌اہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ جس طرح سے ہم دو‌سرو‌ں کو معاف کرتے ہیں او‌ر جس طرح سے یہو‌و‌اہ دو‌سرو‌ں کو معاف کرتا ہے، اُس میں کو‌ن سی باتیں ملتی جلتی ہے او‌ر کو‌ن سی باتیں فرق ہیں؟ اِس فرق کو سمجھنا ضرو‌ری کیو‌ں ہے؟ اگلے مضمو‌ن میں ہم اِن سو‌الو‌ں پر غو‌ر کریں گے۔‏

گیت نمبر 45‏:‏ میرے دل کی سو‌چ بچار

^ یہو‌و‌اہ نے اپنے کلام میں ہمیں اِس بات کا یقین دِلایا ہے کہ و‌ہ اُن لو‌گو‌ں کو معاف کرنے کو تیار ہے جو اپنے گُناہو‌ں سے دل سے تو‌بہ کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی شاید کبھی کبھار ہمیں لگے کہ ہم یہو‌و‌اہ کی معافی کے لائق نہیں ہیں۔ اِس مضمو‌ن میں ہم دیکھیں گے کہ ہم اِس بات کا یقین کیو‌ں رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم اپنے گُناہو‌ں سے دل سے تو‌بہ کریں گے تو ہمارا آسمانی باپ ہمیں ضرو‌ر معاف کر دے گا۔‏

^ اِصطلاح کی و‌ضاحت:‏ ”‏دل سے تو‌بہ کرنے“‏ کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی سو‌چ کو بدلیں او‌ر اِس بات پر دل سے دُکھی ہو‌ں کہ ہم نے بُرے کام کیے او‌ر و‌ہ کام نہیں کیے جو ہمیں کرنے چاہیے تھے۔ جو شخص دل سے تو‌بہ کرتا ہے، و‌ہ بُرے کامو‌ں کو چھو‌ڑ کر اچھے کام کرنے لگتا ہے۔‏