مطالعے کا مضمون نمبر 28
ایک دوسرے سے مقابلہبازی نہ کریں—صلح کو فروغ دیں
”آئیں، اناپرست نہ بنیں، ایک دوسرے سے مقابلہبازی نہ کریں اور نہ ہی ایک دوسرے سے حسد کریں۔“—گل 5:26۔
گیت نمبر 101: یہوواہ کی خدمت میں یکدل
مضمون پر ایک نظر *
1. مقابلہبازی کا کیا نقصان ہو سکتا ہے؟
آج دُنیا میں بہت سے لوگ خودغرض ہیں اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر شاید ایک بزنسمین دوسرے بزنسمین سے کامیاب ہونے کے لیے اُسے نقصان پہنچانے سے بھی پیچھے نہ ہٹے۔ یا شاید ایک کھلاڑی کھیل جیتنے کے لیے دوسری ٹیم کے کھلاڑی کو جان بُوجھ کر زخمی کر دے۔ یا پھر ایک طالبِعلم کسی بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے اِمتحان میں نقل کرے۔ مسیحیوں کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ ایسے کام بالکل غلط ہیں کیونکہ یہ ”جسم کے کام“ ہیں۔ (گل 5:19-21) لیکن کیا ہو سکتا ہے کہ خدا کے بندے بھی کلیسیا میں ایک دوسرے سے مقابلہبازی کرنے لگیں اور اُنہیں اِس کا احساس بھی نہ ہو؟ اِس سوال پر غور کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ کلیسیا میں مقابلہبازی ہمارے اِتحاد کو برباد کر سکتی ہے۔
2. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
2 اِس مضمون میں ہم ایسی باتوں پر غور کریں گے جن کی وجہ سے ہمارے اندر مقابلہبازی پیدا ہو سکتی ہے۔ اِس کے علاوہ ہم بائبل سے خدا کے بندوں کی مثالوں پر بھی غور کریں گے جنہوں نے اپنے دل میں مقابلہبازی پیدا نہیں ہونے دی۔ لیکن آئیں، پہلے غور کریں کہ ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ کہیں ہم تو کسی سے مقابلہبازی نہیں کر رہے۔
اپنا جائزہ لیں
3. ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں؟
3 یہ بہت اچھا ہوگا کہ ہم وقتاًفوقتاً اپنا جائزہ لیں اور خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں اپنی اہمیت کا اندازہ
اِس بات سے لگاتا ہوں کہ مَیں دوسروں سے کتنا اچھا ہوں؟ کیا مَیں کلیسیا میں اِس لیے محنت سے کوئی کام کرتا ہوں تاکہ مَیں خود کو کسی بہن یا بھائی سے بہتر ثابت کر سکوں؟ یا پھر کیا مَیں اِس لیے محنت کرتا ہوں تاکہ مَیں یہوواہ کو خوش کر سکوں؟“ ہمیں خود سے اِس طرح کے سوال کیوں پوچھنے چاہئیں؟ آئیں، دیکھیں کہ خدا کے کلام میں اِس حوالے سے کیا بتایا گیا ہے۔4. گلتیوں 6:3، 4 کے مطابق ہمیں دوسروں سے اپنا موازنہ کیوں نہیں کرنا چاہیے؟
4 بائبل میں ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ ہم دوسروں سے اپنا موازنہ نہ کریں۔ (گلتیوں 6:3، 4 کو پڑھیں۔) کیوں؟ اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اگر ہم یہ سوچیں گے کہ ہم اپنے کسی بہن یا بھائی سے بہتر ہیں تو ہم مغرور بن جائیں گے۔لیکن ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم فلاں بہن یا بھائی سے کمتر ہیں کیونکہ اِس طرح ہم بےحوصلہ ہو جائیں گے۔ چاہے ہم خود کو دوسروں سے بہتر سمجھیں یا کمتر، دونوں ہی صورتوں میں ہم سمجھداری سے کام نہیں لے رہے ہوں گے۔ (روم 12:3) اِس سلسلے میں آئیں، کترینا * نامی ایک بہن کی مثال پر غور کریں جو یونان میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں اکثر اپنا موازنہ اُن بہن بھائیوں سے کِیا کرتی تھی جو مجھ سے زیادہ خوبصورت دِکھتے تھے، مجھ سے زیادہ اچھی طرح سے مُنادی کرتے تھے اور بڑی آسانی سے دوسروں کے ساتھ دوستی کر لیتے تھے۔ اِن باتوں کی وجہ سے مَیں خود کو بےکار سمجھنے لگی۔“ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ یہوواہ خدا نے ہمیں اپنی طرف اِس لیے نہیں کھینچا کیونکہ ہم خوبصورت ہیں یا بڑی اچھی طرح سے بات کرتے ہیں یا پھر دوسرے ہمیں بہت پسند کرتے تھے بلکہ اُس نے ہمیں اِس لیے اپنی طرف کھینچا کیونکہ ہم اُس سے محبت کرنا اور اُس کے بیٹے کی بات سننا چاہتے تھے۔—یوح 6:44؛ 1-کُر 1:26-31۔
5. آپ نے بھائی ہیون کے تجربے سے کیا سیکھا ہے؟
5 ہم خود سے یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ ”کیا مَیں دوسروں کی نظر میں ایک صلحپسند شخص ہوں یا کیا اکثر میری دوسروں سے اَنبن ہو جاتی ہے؟“ اِس سلسلے میں ذرا کوریا میں رہنے والے ایک بھائی کے تجربے پر غور کریں جن کا نام ہیون ہے۔ ایک وقت آیا کہ بھائی ہیون یہ سوچنے لگے کہ کلیسیا میں جن بھائیوں کے پاس ذمےداریاں ہیں، وہ بھائی خود کو اُن سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھائی ہیون کہتے ہیں: ”مَیں اُن بھائیوں کی نکتہچینی کرنے لگا۔ مَیں اکثر اُن کی بات سے متفق نہیں ہوتا تھا۔“ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ بھائی ہیون بتاتے ہیں: ”میرے اِس رویے کی وجہ سے کلیسیا کا اِتحاد خراب ہو گیا۔“ بھائی ہیون کے کچھ دوستوں نے اُنہیں اُن کی غلطی کا احساس دِلایا۔ بھائی ہیون نے اپنے رویے کو بدل لیا اور اب وہ ایک بہت اچھے بزرگ ہیں۔ اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے دل میں مقابلہبازی پیدا ہو رہی ہے تو اِسے ختم کرنے کے لیے ہمیں فوراً قدم اُٹھانا چاہیے۔
غرور اور حسد سے بچیں
6. گلتیوں 5:26 کے مطابق کون سی چیزیں ہمارے اندر مقابلہبازی پیدا کر سکتی ہیں؟
6 گلتیوں 5:26 کو پڑھیں۔ کن چیزوں کی وجہ سے ہمارے اندر مقابلہبازی پیدا ہو سکتی ہے؟ اِن میں سے ایک تو اَناپرستی ہے۔ ایک اَناپرست شخص مغرور اور خودغرض ہوتا ہے۔ دوسری چیز حسد ہے۔ جو شخص دوسروں سے حسد کرتا ہے، وہ نہ صرف یہ چاہتا ہے کہ اُس کے پاس بھی ویسی ہی چیزیں ہوں جیسی دوسروں کے پاس ہیں بلکہ وہ دوسروں کی چیزوں کو بھی لے لینا چاہتا ہے۔ اِس لحاظ سے وہ دوسروں سے نفرت کر رہا ہوتا ہے۔ ہمیں اَناپرستی اور حسد سے ویسے ہی دُور بھاگنا چاہیے جیسے ہم کسی وبا سے بھاگتے ہیں۔
7. مثال دے کر بتائیں کہ اَناپرستی اور حسد کا کیا نقصان ہو سکتا ہے۔
7 حسد اور اَناپرستی اُس گندگی جیسی ہے جو ہوائی جہاز کے تیل میں آ جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جہاز اُڑ تو جائے لیکن گندگی کی وجہ سے تیل صحیح طرح انجن تک پہنچ نہیں پائے گا جس کی وجہ سے انجن خراب ہو جائے گا اور جہاز زمین پر اُترنے سے پہلے ہی تباہ ہو جائے گا۔ اِسی طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کافی عرصے سے یہوواہ کی خدمت کر رہا ہو۔ لیکن اگر اُس کے دل میں غرور اور حسد آ جائے گا تو وہ برباد ہو امثا 16:18) وہ یہوواہ خدا کی خدمت کرنا چھوڑ دے گا اور خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچائے گا۔ تو پھر ہم اَناپرستی اور حسد سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
سکتا ہے۔ (8. ہم اَناپرست بننے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
8 ہم اَناپرستی سے بچنے کے لیے پولُس رسول کی اُس نصیحت پر عمل کر سکتے ہیں جو اُنہوں نے فِلپّس میں رہنے والے مسیحیوں کو دی۔ اُنہوں نے کہا: ”جھگڑالو اور اناپرست نہ ہوں بلکہ خاکسار ہوں اور دوسروں کو اپنے سے بڑا سمجھیں۔“ (فل 2:3) اگر ہم دوسروں کو خود سے بہتر سمجھتے ہیں تو ہم کبھی بھی اُن لوگوں سے مقابلہبازی نہیں کریں گے جن میں ہم سے زیادہ صلاحیتیں ہیں۔ اِس کی بجائے ہم اُن کی خوشی میں خوش ہوں گے، خاص طور پر اُس صورت میں جب وہ اپنی صلاحیتوں کو یہوواہ کی بڑائی کرنے میں اِستعمال کرتے ہیں۔ اور جن بہن بھائیوں میں بہت سی صلاحیتیں ہیں،اُنہیں فِلپّیوں 2:3 میں دی گئی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کی خوبیوں پر دھیان دینا چاہیے اور اِن کی قدر کرنی چاہیے۔ یوں کلیسیا میں امنواِتحاد کو فروغ ملے گا۔
9. ہم حسد سے بچنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
9 خاکساری کی خوبی پیدا کرنے سے ہم حسد کو اپنے دل میں جڑ پکڑنے سے روک سکتے ہیں۔ اگر ہم اِس بات کو تسلیم کریں گے کہ کچھ کاموں کو ہم اِتنی اچھی طرح سے نہیں کر سکتے تو ہم اپنے بھائی یا بہن سے حسد نہیں کریں گے۔ اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم کبھی بھی خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اِس کی بجائے ہم اُن بہن بھائیوں سے سیکھنے کی کوشش کریں گے جن میں ہم سے زیادہ صلاحیتیں ہیں۔ فرض کریں کہ ایک بھائی کلیسیا میں بڑی اچھی تقریریں کرتا ہے۔ ہم اُس سے پوچھ سکتے ہیں کہ وہ اپنی تقریریں کیسے تیار کرتا ہے۔ یا ایک بہن بہت اچھے کھانے پکاتی ہے۔ اگر ہمیں اچھا کھانا پکانا نہیں آتا تو ہم اُس سے مشورے لے سکتے ہیں۔ یا اگر کسی نوجوان کو دوست بنانا مشکل لگتا ہے تو وہ کسی ایسے بھائی یا بہن سے مشورے لے سکتا ہے جو بڑی آسانی سے دوست بنا لیتا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم حسد سے بچیں گے اور اپنی صلاحیتوں کو نکھار پائیں گے۔
بائبل میں ذکرکردہ خدا کے بندوں سے سیکھیں
10. جدعون کو کس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا؟
10 ذرا جدعون کی مثال پر غور کریں جو منسّی کے قبیلے سے تھے۔ آئیں، دیکھیں کہ اُن کے اور اِفرائیم کے قبیلے کے آدمیوں کے بیچ کیا ہوا۔ یہوواہ خدا نے جدعون اور اُن کے 300 آدمیوں کو جنگ میں بڑی قضا 8:1۔
فتح بخشی جس پر وہ لوگ شیخی مار سکتے تھے۔ مگر جب اِفرائیم کے قبیلے کے آدمی جدعون سے ملے تو وہ اُن کی تعریف کرنے کی بجائے اُن سے لڑنے جھگڑنے لگے۔ ایسا لگتا ہے کہ اِن آدمیوں کی اَنا کو ٹھیس پہنچی تھی کیونکہ جدعون نے خدا کے دُشمنوں سے لڑنے کے لیے اُنہیں اپنے ساتھ آنے کو نہیں کہا تھا۔ اُن آدمیوں کا پورا دھیان بس اِس بات پر تھا کہ اُن کی قبیلے کی واہ واہ نہیں ہوئی نہ کہ اِس بات پر کہ جدعون نے یہوواہ کی نام کی بڑائی کی اور اُس کے لوگوں کو بچایا۔—11. جدعون نے اِفرائیمیوں سے کیا کہا؟
11 جدعون نے بڑی خاکساری سے اِفرائیمیوں سے کہا: ”مَیں نے تمہاری طرح بھلا کِیا ہی کیا ہے؟“ اِس کے بعد جدعون نے اُنہیں بتایا کہ اصل میں یہوواہ نے جنگ میں اُن کی مدد کی۔ اِن باتوں کو سُن کر اُن آدمیوں کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ (قضا 8:2، 3) جدعون نے خدا کے بندوں کے بیچ صلح قائم رکھنے کے لیے خاکساری سے کام لیا۔
12. ہم اِفرائیمیوں اور جدعون سے کیا سیکھتے ہیں؟
12 ہم اِس واقعے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ اِفرائیمیوں سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہمیں اپنا دھیان یہوواہ کی بڑائی کرنے پر رکھنا چاہیے نہ کہ اپنی واہ واہ چاہنے پر۔ گھر کے سربراہ اور کلیسیا کے بزرگ جدعون سے ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ہمارے کسی کام یا کسی بات کی وجہ سے ہم سے ناراض ہو جاتا ہے تو ہمیں معاملے کو اُس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اِس کے علاوہ ہم اُس شخص کو اُس کام کے لیے داد دے سکتے ہیں جو اُس نے بڑی اچھی طرح سے کِیا۔ ایسا کرنے کے لیے خاکساری کی ضرورت ہے، خاص طور پر اُس وقت جب سامنے والا شخص غلط ہو۔ یاد رکھیں کہ صلح قائم رکھنا اپنی اَنا کو تسکین پہنچانے سے زیادہ ضروری ہے۔
13. حنّہ کو کس مسئلے کا سامنا تھا اور اُنہوں نے اِس مسئلے پر کیسے قابو پایا؟
13 آئیں، اب حنّہ کی مثال پر غور کریں۔ اُن کی شادی القانہ نامی آدمی سے ہوئی تھی جو لاوی کے قبیلے سے تھے۔ القانہ حنّہ سے بہت پیار کرتے تھے۔ مگر القانہ کی ایک اَور بیوی بھی تھی جس کا نام فننہ تھا۔ القانہ فننہ سے زیادہ حنّہ کو چاہتے تھے۔ لیکن فننہ نے اُنہیں اولاد دی تھی جبکہ حنّہ ’بےاولاد تھیں۔‘ اِس لیے فننہ حنّہ کو جلانے کے لیے اُنہیں طعنے دیتی تھی۔ اِس پر حنّہ اِتنی دُکھی ہو جاتی تھیں کہ ’وہ روتی تھیں اور کھانا نہیں کھاتی تھیں۔‘ (1-سمو 1:2، 6، 7) لیکن بائبل میں یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ حنّہ نے کبھی فننہ سے بدلہ لینے کی کوشش کی۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے یہوواہ کے سامنے اپنا دل اُنڈیل دیا اور اِس بات پر بھروسا کِیا کہ وہ معاملے کو ٹھیک کر دے گا۔ تو کیا فننہ کا رویہ بدل گیا؟ بائبل میں اِس حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔ مگر ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ دُعا کرنے کے بعد حنّہ تازہدم ہو گئیں اور اُنہیں دلی سکون ملا۔ بائبل میں لکھا ہے: ”پھر [اُن] کا چہرہ اُداس نہ رہا۔“—1-سمو 1:10، 18۔
14. ہم حنّہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
14 ہم حنّہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ یہ کہ اگر کوئی ہمارے ساتھ مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اُس صورتحال میں کیسا ردِعمل دِکھائیں گے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم معاملے کو سلجھانے کے لیے اُس شخص سے بحثوتکرار کریں۔ بُرائی کے بدلے بُرائی کرنے کی بجائے ہمیں اُس شخص کے ساتھ صلح کرنے روم 12:17-21) بھلے ہی وہ ہماری کوششوں کے بعد بھی خود کو نہ بدلے مگر ہم مطمئن رہیں گے۔
کی کوشش کرنی چاہیے۔ (15. اپلّوس اور پولُس میں کون سی باتیں ملتی جلتی تھیں؟
15 آئیں، اب آخر میں اپلّوس اور پولُس کی مثال پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اُن سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔ وہ دونوں ہی صحیفوں کا گہرا علم رکھتے تھے اور بڑے جانے مانے اور اچھے اُستاد تھے۔ اِس کے علاوہ اُن دونوں کی محنت کی وجہ سے بہت سے لوگ مسیح کے شاگرد بنے تھے۔ لیکن اُن دونوں نے کبھی ایک دوسرے سے مقابلہبازی نہیں کی۔
16. اپلّوس کس طرح کے شخص تھے؟
16 اپلّوس ’ایک یہودی تھے جو اِسکندریہ میں پیدا ہوئے تھے۔‘ اِسکندریہ تعلیمی لحاظ سے بڑا جانا مانا شہر تھا۔ اپلّوس ”بڑے مؤثر طریقے سے بات کرتے تھے اور صحیفوں کا بڑا علم رکھتے تھے۔“ (اعما 18:24) جب اپلّوس شہر کُرنتھس میں خدمت کر رہے تھے تو کلیسیا میں کچھ بہن بھائیوں نے یہ ظاہر کِیا کہ وہ پولُس اور دوسرے بھائیوں سے زیادہ اپلّوس کو پسند کرتے ہیں۔ (1-کُر 1:12، 13) کیا اپلّوس نے بہن بھائیوں کی اِس سوچ کو ہوا دی؟ بےشک اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا۔ دراصل جب اپلّوس کُرنتھس سے چلے گئے تو اِس کے کچھ عرصے بعد پولُس نے اُنہیں کہا کہ وہ دوبارہ وہاں جائیں۔ (1-کُر 16:12) اگر پولُس کو یہ لگا ہوتا کہ اپلّوس نے کلیسیا میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی تھی تو وہ کبھی بھی اُنہیں کُرنتھس واپس جانے کو نہ کہتے۔ یہ صاف ظاہر تھا کہ اپلّوس نے اپنی صلاحیتوں کو اچھے کاموں میں یعنی بادشاہت کی خوشخبری سنانے اور اپنے بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے میں اِستعمال کِیا۔ ہم یہ بات بھی پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اپلّوس ایک خاکسار شخص تھے۔ مثال کے طور پر بائبل میں یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ جب اکوِلہ اور پرِسکِلّہ نے اُنہیں ”خدا کی راہ کے بارے میں اَور تفصیل سے بتایا“ تو اُنہوں نے بُرا مانا۔—اعما 18:24-28۔
17. پولُس رسول نے امن کو کیسے فروغ دیا؟
17 پولُس اُن کاموں کے بارے میں اچھی طرح سے جانتے تھے جو اپلّوس کر رہے تھے۔ لیکن وہ کبھی اِس بات کی وجہ سے فکرمند نہیں ہوئے 1-کُر 3:3-6۔
کہ دوسرے لوگ اپلّوس کو اُن سے زیادہ بہتر سمجھنے لگیں گے۔ پولُس کی خاکساری اور سمجھداری اُس نصیحت سے صاف نظر آئی جو اُنہوں نے کُرنتھس کی کلیسیا کو کی۔ جب کلیسیا میں کچھ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ”مَیں پولُس کا شاگرد ہوں“ تو پولُس اِس بات پر اِترائے نہیں بلکہ اُنہوں نے اُن کا دھیان یہوواہ خدا اور یسوع مسیح پر دِلایا۔—18. پہلا کُرنتھیوں 4:6، 7 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ ہم اپلّوس اور پولُس سے کیا سیکھتے ہیں۔
18 ہم اپلّوس اور پولُس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ ہم بڑی لگن سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہوں اور ہم نے بہت سے لوگوں کی مدد کی کہ وہ بپتسمہ لے سکیں۔ لیکن ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمیں جو بھی کامیابی ملی ہے، وہ صرف یہوواہ کی مدد سے ملی ہے۔ اپلّوس اور پولُس سے ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس کلیسیا میں زیادہ ذمےداریاں ہیں تو ہمارے پاس کلیسیا میں صلح اور امن کو فروغ دینے کا زیادہ موقع ہے۔ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ کلیسیا میں ذمےداریاں نبھانے والے بھائی امن اور اِتحاد کو فروغ دینے کے لیے خدا کے کلام سے ہدایتیں دیتے ہیں اور اپنی پوری توجہ خود پر نہیں بلکہ یسوع مسیح پر رکھتے ہیں۔—1-کُرنتھیوں 4:6، 7 کو پڑھیں۔
19. ہم سب کیا کر سکتے ہیں؟ (بکس ” مقابلہبازی سے بچیں“ کو دیکھیں۔)
19 یہوواہ خدا نے ہم سب کو کوئی نہ کوئی صلاحیت دی ہے جسے ہم ”ایک دوسرے کی خدمت کرنے کے لیے اِستعمال“ کر سکتے ہیں۔ (1-پطر 4:10) شاید ہمیں لگے کہ جو کام ہم کر رہے ہیں، وہ بہت معمولی اور چھوٹے ہیں۔ مگر یاد رکھیں کہ جس طرح چھوٹی چھوٹی سلائیوں سے ایک خوبصورت لباس تیار ہوتا ہے اُسی طرح ہمارے چھوٹے چھوٹے کاموں سے ہی کلیسیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ آئیں، ہم سب مقابلہبازی سے بچنے کی پوری کوشش کریں اور یہ عزم کریں کہ ہم کلیسیا میں امن اور اِتحاد کو فروغ دینے کے لیے جو بھی ممکن ہوگا، وہ کریں گے۔—اِفس 4:3۔
گیت نمبر 80: آزما کر دیکھو کہ یہوواہ کتنا مہربان ہے
^ پیراگراف 5 جس طرح مٹی کا برتن چھوٹی سی دراڑ کی وجہ سے ٹوٹ سکتا ہے اُسی طرح کلیسیا کا اِتحاد مقابلہبازی کی وجہ سے ٹوٹ سکتا ہے۔ اگر ایک کلیسیا مضبوط اور متحد نہیں ہوگی تو یہ ایک ایسی جگہ نہیں رہے گی جہاں امن سے یہوواہ کی عبادت کی جائے۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہمیں مقابلہبازی سے کیوں بچنا چاہیے اور ہم کلیسیا میں امن کو کیسے فروغ دے سکتے ہیں۔
^ پیراگراف 4 فرضی نام اِستعمال کیے گئے ہیں۔