مطالعے کا مضمون نمبر 42
پورے یقین کے ساتھ سچائی کو تھامے رہیں!
”سب باتوں کا جائزہ لیں اور جو باتیں اچھی ہوں، اُن سے چپکے رہیں۔“—1-تھس 5:21۔
گیت نمبر 142: ہماری شاندار اُمید
مضمون پر ایک نظر *
1. بہت سے لوگ اُلجھن میں کیوں ہیں؟
آج دُنیا میں بہت سے مسیحی فرقے ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ جس طریقے سے وہ خدا کی عبادت کرتے ہیں، وہی خدا کو پسند ہے۔ اِسی لیے بہت سے لوگ اُلجھن کا شکار ہیں اور اُن کے ذہن میں اکثر یہ سوال آتا ہے: ”کیا واقعی کوئی سچا مذہب ہے یا کیا خدا کو سبھی مذہب پسند ہیں؟“ کیا ہمیں اِس بات پر پکا یقین ہے کہ یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہم لوگوں کو جو تعلیم دیتے ہیں، وہ سچی ہے اور ہم جس طریقے سے یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں، وہ اُسے پسند ہے؟ کیا ہم اِن باتوں پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں؟ آئیں، اِس سلسلے میں کچھ ثبوتوں پر غور کرتے ہیں۔
2. پہلا تھسلُنیکیوں 1:5 کے مطابق پولُس رسول کو اِس بات پر پکا یقین کیوں تھا کہ جن باتوں پر وہ ایمان رکھتے ہیں، وہ سچی ہیں؟
2 پولُس رسول کو اِس بات پر پورا یقین تھا کہ وہ جن باتوں پر ایمان رکھتے ہیں، وہ سچی ہیں۔ (1-تھسلُنیکیوں 1:5 کو پڑھیں۔) اُن کا یہ یقین جذبات پر نہیں ٹکا تھا بلکہ وہ خدا کے کلام کا گہرائی سے مطالعہ کرتے تھے۔ اُنہیں پکا یقین تھا کہ ”پاک صحیفوں میں جو کچھ بھی لکھا ہے، وہ خدا کے اِلہام سے ہے۔“ (2-تیم 3:16) اُنہوں نے خدا کے کلام سے کیا کچھ سیکھا؟ پاک صحیفوں کا مطالعہ کرنے سے پولُس کو اِس بات کے ٹھوس ثبوت ملے کہ یسوع ہی مسیح تھے۔ یہ وہ حقیقت تھی جسے یہودی مذہبی رہنماؤں نے تسلیم نہیں کِیا تھا۔ یہ منافق مذہبی رہنما خدا کے نمائندے ہونے کا دعویٰ تو کرتے تھے مگر اُن کے کام بالکل اُلٹ تھے۔ (طط 1:16) لیکن پولُس اِن مذہبی رہنماؤں جیسے نہیں تھے۔ اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ پاک کلام کی فلاں سچائی کو مانیں گے اور فلاں کو نہیں۔ اِس کی بجائے وہ لوگوں ”خدا کی مرضی“ کے بارے میں بتاتے تھے اور خود بھی اِس پر چلتے تھے۔—اعما 20:27۔
3. یہ جاننے کے لیے کہ ہم سچائی جان گئے ہیں، کیا ہمارے پاس اپنے تمام سوالوں کے جواب ہونے چاہئیں؟ (بکس ” یہوواہ کے خیال اور کام ”شمار سے باہر ہیں““ کو بھی دیکھیں۔)
1-تھس 5:21) اُنہوں نے لکھا: ”ہمارا علم نامکمل ہے۔“ پھر اُنہوں نے آگے کہا: ”ہم دُھندلی تصویر دیکھ رہے ہیں گویا ہم دھات کے آئینے میں دیکھ رہے ہوں۔“ (1-کُر 13:9، 12) پولُس رسول خدا کے بارے میں تمام سچائیوں کو نہیں سمجھ پائے تھے اور نہ ہی ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن پولُس خدا کے بارے میں بنیادی سچائیاں سمجھ گئے تھے۔ اُنہوں نے اِتنا علم حاصل کر لیا تھا کہ وہ پوری طرح سے قائل ہو گئے کہ وہ سچائی کو جان گئے ہیں۔
3 کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ سچا مذہب وہی ہوتا ہے جو ہر سوال کا جواب دے، اُن سوالوں کا بھی جن کے بارے میں بائبل میں بات نہیں کی گئی۔ لیکن کیا ایسی توقع کرنا سمجھداری کی بات ہوگی؟ اِس سلسلے میں ذرا پولُس کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے اپنے ہمایمانوں سے کہا کہ وہ ”سب باتوں کا جائزہ لیں۔“ لیکن اُنہوں نے یہ بھی تسلیم کِیا کہ بہت سی ایسی باتیں تھیں جنہیں وہ سمجھ نہیں پائے۔ (4. (الف) ہم اپنے اِس یقین کو مضبوط کیسے کر سکتے ہیں کہ ہم سچائی کو جان گئے ہیں؟ (ب) ہم سچے مسیحیوں کے بارے میں کون سی باتوں پر غور کریں گے؟
4 ایک طریقہ کیا ہے جس سے ہم اِس بات پر اپنے یقین کو مضبوط کر سکتے ہیں کہ ہم سچائی کو جان گئے ہیں؟ اِس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ یسوع مسیح نے یہوواہ کی عبادت کیسے کی اور آج یہوواہ کے گواہ کس طرح سے یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں۔اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ سچے مسیحی (1) بُتپرستی سے کنارہ کرتے ہیں، (2) یہوواہ کے نام کا احترام کرتے ہیں، (3) سچائی سے پیار کرتے ہیں اور (4) دل کی گہرائی سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
بُتپرستی سے کنارہ
5. ہم صحیح طریقے سے یہوواہ کی عبادت کرنے کے سلسلے میں یسوع مسیح سے کیا سیکھتے ہیں؟
5 یسوع مسیح یہوواہ خدا سے بےپناہ محبت کرتے ہیں۔ اِس لیے چاہے وہ آسمان پر تھے یا زمین پر، اُنہوں نے صرف اور صرف یہوواہ کی عبادت کی۔ (لُو 4:8) اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو بھی ایسا کرنا سکھایا۔ یہوواہ کی عبادت کرتے وقت نہ تو یسوع مسیح نے اور نہ ہی اُن کے شاگردوں نے بُتوں کو اِستعمال کِیا۔ خدا روح ہے اِس لیے دُنیا کا کوئی بھی کوئی اِنسان ایسی شبیہ نہیں بنا سکتا جو خدا کی ذرا سی بھی جھلک پیش کرے۔ (یسع 46:5) لیکن کیا اُن اِنسانوں کی تصویروں یا مورتوں سے دُعا کرنا ٹھیک ہے جنہیں لوگ مُقدس سمجھتے ہیں؟ غور کریں کہ خدا کے دیے ہوئے دس حکموں میں سے دوسرا حکم کیا تھا۔ یہوواہ نے کہا: ”تُو اپنے لئے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا۔ نہ کسی چیز کی صورت بنانا جو اُوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر . . . ہے۔ تُو اُن کے آگے سجدہ نہ کرنا۔“ (خر 20:4، 5) جو لوگ خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اِن الفاظ کے مطابق خدا یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ ہم بُتوں کی عبادت کریں۔
6. یہوواہ کے گواہ عبادت کرتے وقت کن کی مثال پر عمل کرتے ہیں؟
6 تاریخدان مانتے ہیں کہ یسوع مسیح کے اِبتدائی شاگرد صرف خدا کی بندگی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر تاریخ کی ایک کتاب میں بتایا گیا کہ اِبتدائی مسیحی تو عبادت کی جگہوں پر بُتوں اور تصویروں کو لگانے کے ”خیال سے ہی گِھن کھاتے تھے۔“ آج یہوواہ کے گواہ بھی پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔ ہم مُقدسین یا فرشتوں کی تصویروں کے سامنے دُعائیں نہیں کرتے۔ ہم تو یسوع مسیح سے بھی دُعا نہیں کرتے۔ اِس کے علاوہ ہم جھنڈے کو سلامی نہیں دیتے اور نہ ہی کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ ہم اپنے ملک کی حکومت کی تعظیم کرتے ہیں۔ چاہے کوئی ہمیں ایسے کام کرنے پر کتنا ہی مجبور کرے، ہم نے یسوع مسیح کی اِس بات پر عمل کرنے کا عزم کِیا ہے: ”صرف یہوواہ اپنے خدا کی پرستش کرو اور صرف اُسی کی عبادت کرو۔“—متی 4:10۔
7. یہوواہ کے گواہ کن طریقوں سے دوسرے تمام مذہبوں سے فرق ہیں؟
7 آج بہت سے لوگ چرچ کے جانے مانے رہنماؤں کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ اُنہیں اِس قدر چاہتے اور سراہتے ہیں کہ وہ ایک طرح سے اُن کی عبادت کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اُنہی کے چرچ جاتے ہیں، اُنہی کی کتابیں خریدتے ہیں اور اُنہی تنظیموں کو ڈھیروں ڈھیر عطیہ دیتے ہیں جن کی وہ رہنما حمایت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو اُن کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے رہنماؤں کو دیکھ کر خوشی سے اِتنے پاگل ہو جاتے ہیں کہ جیسے یسوع اُن کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے ہوں! لیکن یہوواہ کی عبادت کرنے والے لوگ کسی اِنسان کی پیروی نہیں کرتے۔ حالانکہ ہم اُن بھائیوں کا احترام کرتے ہیں جو ہماری پیشوائی کر رہے ہیں لیکن ہم یسوع مسیح کی اِس تعلیم کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں: ”آپ سب بھائی ہیں۔“ (متی 23:8-10) ہم اِنسانوں کے پرستار نہیں بنتے پھر چاہے وہ مذہبی رہنما ہوں یا سیاسی رہنما۔ ہم اُن کے کسی مذہبی یا سیاسی منصوبے کی حمایت نہیں کرتے۔ ہم کسی کی طرفداری نہیں کرتے اور نہ ہی اِس دُنیا کا حصہ بنتے ہیں۔ اِن سب باتوں میں ہم دوسرے مسیحی مذہبوں سے بالکل فرق ہیں۔—یوح 18:36۔
یہوواہ کے نام کا احترام
8. ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ اُس کے نام کی بڑائی ہو اور سب لوگ اُس کے نام کو جانیں؟
8 ایک موقعے پر یسوع مسیح نے دُعا میں یہوواہ سے کہا: ”باپ، اپنے نام کی بڑائی کر۔“ یہوواہ نے خود یسوع کی دُعا کا جواب دیتے ہوئے وعدہ کِیا کہ وہ اپنے نام کی بڑائی کرے گا۔ (یوح 12:28) زمین پر یہوواہ کی خدمت کرتے وقت یسوع مسیح نے ہمیشہ اُس کے نام کی بڑائی کی۔ (یوح 17:26) اِس لیے سچے مسیحی بھی خدا کے نام کو اِستعمال کرنے کو ایک اعزاز خیال کرتے ہیں اور بڑے فخر سے دوسروں کو اِس کے بارے میں بتاتے ہیں۔
9. پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے یہ کیسے ثابت کِیا کہ وہ خدا کے نام کا احترام کرتے ہیں؟
9 پہلی صدی عیسوی میں مسیحی کلیسیا قائم ہونے کے کچھ ہی دیر بعد یہوواہ نے ”غیریہودیوں پر توجہ دی ہے تاکہ اُن میں سے ایک ایسی قوم چُن لے جو اُس کے نام سے کہلائے۔“ (اعما 15:14) یہ مسیحی بڑے فخر سے خدا کا نام اِستعمال کرتے تھے اور دوسروں کو اِس کے بارے میں بتاتے تھے۔ جب رسولوں اور شاگردوں نے مُنادی کی اور پاک کلام کی کتابیں لکھیں تو اُنہوں نے خدا کا نام اِستعمال کِیا۔ * یوں اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ لوگ ایک ایسی قوم کا حصہ ہیں جو خدا کے نام سے کہلاتی ہے۔—اعما 2:14، 21۔
10. کن باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہوواہ کے گواہ وہ قوم ہیں جو یہوواہ کے نام سے کہلائی جاتی ہے؟
10 کیا یہوواہ کے گواہ وہ قوم ہیں جو یہوواہ کے نام سے کہلائی جاتی ہے؟ جی ہاں۔ اِس سلسلے میں ذرا کچھ ثبوتوں پر غور کریں۔ آج بہت سے مذہبی رہنماؤں نے خدا کے ذاتی نام کو چھپانے کے لیے اپنی پوری طاقت لگا دی ہے۔ اُنہوں نے اِسے بائبل کے ترجموں سے نکال دیا ہے اور بعض نے تو اپنے چرچوں میں اِس نام کو لینے پر ہی پابندی لگا دی ہے۔ * کیا کوئی اِس بات سے اِنکار کر سکتا ہے کہ صرف یہوواہ کے گواہ ہی یہوواہ کے نام کو وہ عزت دے رہے ہیں جو اِسے دی جانی چاہیے؟ کسی بھی دوسرے مذہب کی بجائے ہم خدا کے ذاتی نام کو دُنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں۔ یوں ہم اُس نام پر پورا اُتر رہے ہیں جس سے ہم کہلاتے ہیں یعنی یہوواہ کے گواہ کیونکہ ہم اُس کے بارے میں گواہی دیتے ہیں۔ (یسع 43:10-12) ہم نے ”کتابِمُقدس—ترجمہ نئی دُنیا“ کی 24 کروڑ سے زیادہ کاپیاں شائع کی ہیں۔ اِن میں یہوواہ کا نام اُن جگہوں پر دوبارہ ڈالا گیا ہے جہاں بائبل کے دوسرے ترجموں میں سے اِسے نکال دیا گیا تھا۔ ہم 1000 سے زیادہ زبانوں میں بائبل پر مبنی بہت سی کتابیں اور ویڈیوز بھی تیار کرتے ہیں جن میں یہوواہ کا نام اِستعمال کِیا جاتا ہے۔
سچائی سے پیار
11. پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے سچائی کے لیے محبت کیسے ظاہر کی؟
11 یسوع مسیح سچائی سے محبت کرتے تھے۔ یہ سچائیاں خدا اور اُس کے یوح 18:37) پہلی صدی عیسوی میں رہنے والے سچے مسیحی بھی سچائی سے گہری محبت کرتے تھے۔ (یوح 4:23، 24) پطرس رسول نے تو مسیحیوں کے ایمان کو ہی ”سچائی کی راہ“ کہا۔ (2-پطر 2:2) سچائی سے گہری محبت کرنے کی وجہ سے اُن مسیحیوں نے ایسی رسموں اور مذہبی اور ذاتی نظریوں کو رد کِیا جو سچائی کے مطابق نہیں تھے۔ (کُل 2:8) اِسی طرح آج بھی سچے مسیحی یہوواہ کے کلام کے مطابق اپنی زندگی اور اپنے تمام عقیدوں کو ڈھالتے ہیں اور یوں ’سچائی کے مطابق چلنے‘ کی پوری کوشش کرتے ہیں۔—3-یوح 3، 4۔
مقصد کے بارے میں تھیں۔ یسوع مسیح نے اِن سچائیوں کے مطابق زندگی گزاری اور اِنہیں دوسروں کو بھی بتایا۔ (12. (الف) یہوواہ کے گواہوں کی پیشوائی کرنے والے بھائی اُس وقت کیا کرتے ہیں جب اُنہیں لگتا ہے کہ خدا کے کلام کی کسی سچائی کی وضاحت کو بدلنے کی ضرورت ہے؟ (ب) وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
12 یہوواہ کے گواہ کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ بائبل میں لکھی ایک ایک بات کو پوری طرح سے سمجھتے ہیں۔ کبھی کبھار اُنہوں نے بائبل کی کسی تعلیم کی جو وضاحت کی یا جس طرح کلیسیا کو ہدایتیں دیں، اُس میں کچھ غلطیاں ہوئیں۔ لیکن اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ بائبل میں صاف بتایا گیا ہے کہ خدا کے بندے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سچائیوں کو بہتر طور پر سمجھیں گے۔ (کُل 1:9، 10) یہوواہ خدا آہستہ آہستہ ہم پر سچائیاں ظاہر کرتا ہے۔ لہٰذا ہمیں صبر سے اُس وقت تک اِنتظار کرنا چاہیے جب تک سچائی کی روشنی بڑھ نہیں جاتی۔(امثا 4:18) جب یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی کو لگتا ہے کہ اُنہیں بائبل کی کسی تعلیم کی وضاحت میں تبدیلی کرنی چاہیے تو وہ فوراً ایسا کرتی ہے۔ آج بہت سے مسیحی مذاہب کے رہنما بائبل کی تعلیمات کو اِس لیے بدل دیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے چرچ کے لوگوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں یا اپنی واہ واہ چاہتے ہیں۔ لیکن یہوواہ کی تنظیم اِس لیے تبدیلیاں کرتی ہے تاکہ ہم اپنے خدا کے اَور قریب ہو سکیں اور اُسی طرح سے اُس کی عبادت کر سکیں جس طرح سے یسوع مسیح کرتے تھے۔ (یعقو 4:4) جب ہم بائبل کی کسی تعلیم کی نئی وضاحت کرتے ہیں تو ہم ایسا اِس لیے نہیں کرتے کیونکہ دُنیا میں لوگوں کے نظریے بدل گئے ہیں بلکہ ہم ایسا اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہم بائبل کی اُس تعلیم کو بہتر طور پر سمجھ جاتے ہیں۔—1-تھس 2:3، 4۔
ایک دوسرے سے دل کی گہرائی سے محبت
13. پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے کس اہم خوبی کو ظاہر کِیا اور یہ خوبی آج یہوواہ کے گواہوں میں کیسے نظر آتی ہے؟
13 پہلی صدی عیسوی کے مسیحی اپنی بہت سی عمدہ خوبیوں کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ لیکن جس خوبی کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ جانے جاتے تھے، وہ تھی محبت۔ یسوع مسیح نے کہا: ”اگر آپ کے درمیان محبت ہوگی تو سب لوگ پہچان جائیں گے کہ آپ میرے شاگرد ہیں۔“ (یوح 13:34، 35) آج پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ ایک دوسرے سے سچی محبت کرتے ہیں اور آپس میں متحد ہیں۔ حالانکہ ہم مختلف پسمنظروں، ثقافتوں اور ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہم سب ایک خاندان کی طرح ہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو کسی اَور مذہب کے لوگوں میں نہیں پائی جاتی۔ ایک دوسرے کے لیے ہماری محبت کا ثبوت ہماری عبادتوں اور اِجتماعوں پر ملتا ہے۔ اِس سے ہمیں اِس بات پر اَور بھی پکا یقین ہو جاتا ہے کہ ہم یہوواہ کی اُسی طرح سے عبادت کر رہے ہیں جس طرح سے وہ چاہتا ہے اور جس سے اُسے خوشی ملتی ہے۔
14. کُلسّیوں 3:12-14 کے مطابق ایک دوسرے کے لیے گہری محبت ظاہر کرنے کا ایک اہم طریقہ کیا ہے؟
14 پاک کلام میں ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ ہم ”دل کی گہرائی سے ایک دوسرے سے محبت رکھیں۔“ (1-پطر 4:8) ایک طریقہ جس سے ہم یہ محبت ظاہر کر سکتے ہیں، وہ دل سے ایک دوسرے کو معاف کرنا اور ایک دوسرے کی خامیوں کو نظرانداز کرنا ہے۔ ہم محبت ظاہر کرنے کے لیے ایسے موقعوں کی تلاش میں بھی رہ سکتے ہیں جب ہم کلیسیا کے سب بہن بھائیوں کے لیے فراخدلی ظاہر کر سکیں اور اُن کی مہماننوازی کر سکیں، ایسے بہن بھائیوں کی بھی جنہوں نے شاید ہمارا دل دُکھایا ہو۔ (کُلسّیوں 3:12-14 کو پڑھیں۔) جب ہم دل کی گہرائی سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم یسوع کے سچے شاگرد ہیں۔
’ایک ایمان ہے‘
15. اَور کن طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اُسی طرح سے یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں جس طرح سے پہلی صدی عیسوی کے مسیحی کرتے تھے؟
15 اَور بھی کئی طریقوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اُسی طرح سے یہوواہ فل 1:1؛ طط 1:5) اِس کے علاوہ پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کی طرح ہم بھی خون کے اِستعمال، جنسی تعلقات اور شادی کے حوالے سے یہوواہ کے قوانین کا احترام کرتے ہیں۔ اُن مسیحیوں کی طرح ہم بھی اپنی کلیسیاؤں کو اُن لوگوں سے محفوظ رکھتے ہیں جو سنگین گُناہ کرتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے۔—اعما 15:28، 29؛ 1-کُر 5:11-13؛ 6:9، 10؛ عبر 13:4۔
کی عبادت کرتے ہیں جس طرح سے پہلی صدی عیسوی کے مسیحی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ہماری کلیسیا میں بھی وہی اِنتظام ہے جو پہلی صدی عیسوی کی کلیسیا میں تھا۔ اُن کی طرح ہمارے بھی حلقے کے نگہبان، بزرگ اور خادم ہیں۔ (16. ہم اِفسیوں 4:4-6 میں لکھی بات سے کیا سیکھتے ہیں؟
16 یسوع مسیح نے کہا تھا کہ بہت سے لوگ اُن کے شاگرد ہونے کا دعویٰ کریں گے لیکن وہ سب اُن کے سچے شاگرد نہیں ہوں گے۔ (متی 7:21-23) اِس کے علاوہ پاک کلام میں ہمیں پہلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ آخری زمانے میں بہت سے لوگ ”دِکھنے میں . . . بڑے خداپرست لگیں گے۔“ (2-تیم 3:1، 5) لیکن اِس میں ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ صرف ’ایک ایمان‘ ہے جس سے یہوواہ خوش ہے۔—اِفسیوں 4:4-6 کو پڑھیں۔
17. آج کون لوگ یسوع مسیح کی پیروی کر رہے ہیں اور سچا ایمان ظاہر کر رہے ہیں؟
17 آج کون لوگ سچے ایمان کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں؟ ہم نے اِس سلسلے میں کئی ثبوتوں پر غور کِیا ہے۔ ہم نے عبادت کرنے کے اُس طریقے پر غور کِیا جو یسوع مسیح نے سکھایا اور جس پر پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں نے عمل کِیا۔ لہٰذا آج صرف یہوواہ کے گواہ سچے ایمان کے مطابق چلتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے کتنے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ہم یہوواہ کے بندے ہیں اور اُس کے مقاصد کے بارے میں سچائی جانتے ہیں! آئیں، آئندہ بھی پورے یقین کے ساتھ سچائی کو تھامے رہیں۔
گیت نمبر 3: یہوواہ، ہمارا سہارا اور آسرا
^ پیراگراف 5 اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ یسوع مسیح نے صحیح طریقے سے یہوواہ کی عبادت کرنا سکھایا اور اُن کے اِبتدائی شاگردوں نے اُن کی مثال پر کیسے عمل کِیا۔ ہم کچھ ایسے ثبوتوں پر بھی غور کریں گے جن سے پتہ چلے گا کہ آج یہوواہ کے گواہ بھی اُسی طریقے کے مطابق یہوواہ کی عبادت کرتے ہیں۔
^ پیراگراف 9 مینارِنگہبانی، 1 اگست 2010ء میں صفحہ نمبر 6 پر بکس ”“کیا اِبتدائی مسیحی خدا کا نام لیتے تھے؟“ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 10 مثال کے طور پر 2008ء میں پوپ بینیڈکٹ نے کہا کہ کسی بھی کیتھولک مذہبی رسم کو مناتے وقت، گیت گاتے یا دُعا کرتے وقت خدا کا نام ”نہ تو اِستعمال کِیا جائے اور نہ ہی اِسے زبان پر لایا جائے۔“
^ پیراگراف 63 تصویر کی وضاحت: یہوواہ خدا کی تنظیم نے ”ترجمہ نئی دُنیا“ 200 سے زیادہ زبانوں میں شائع کی ہے تاکہ لوگ اپنی زبان میں بائبل کا ایک ایسا ترجمہ پڑھ سکیں جس میں خدا کے نام کو اِستعمال کِیا گیا ہے۔