مطالعے کا مضمون نمبر 17
یہوواہ آپ سے بےحد محبت کرتا ہے!
”[یہوواہ] کو اپنے لوگوں سے محبت ہے۔“—2-توا 2:11۔
گیت نمبر 108: یہوواہ کی شفقت
مضمون پر ایک نظر *
1. یہوواہ اپنے بندوں کی کن باتوں پر غور کرتا ہے؟
یہوواہ خدا کو ”اپنے لوگوں سے محبت ہے۔“ (2-توا 2:11) اِس بات کو سُن کر ہمیں کتنی خوشی ملتی ہے! یہوواہ ہماری خوبیوں کو دیکھتا ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ ہم کتنے اچھے اِنسان بن سکتے ہیں اور وہ ہمیں اپنے قریب لے آتا ہے۔ اگر ہم اُس کے وفادار رہیں گے تو وہ ہمیشہ ہمارے قریب رہے گا۔—یوح 6:44۔
2. بعض بہن بھائیوں کو اِس بات پر یقین کرنا مشکل کیوں لگتا ہے کہ یہوواہ اُن سے محبت کرتا ہے؟
2 شاید بعض بہن بھائی کہیں: ”مَیں یہ تو جانتا ہوں کہ یہوواہ اپنے بندوں کے گروہ سے محبت کرتا ہے لیکن مَیں اِس بات کا یقین کیسے کر سکتا ہوں کہ وہ مجھ سے بھی محبت کرتا ہوگا؟“ ایک بہن یا بھائی کے ذہن میں اِس طرح کا سوال کیوں آ سکتا ہے؟ اِس سلسلے میں بہن اوکسانہ * کے تجربے پر غور کریں جنہوں نے بچپن میں بہت کچھ سہا۔ وہ کہتی ہیں: ”جب مَیں نے بپتسمہ لیا اور پہلکار کے طور پر خدمت کرنی شروع کی تو مَیں بہت خوش تھی۔ لیکن 15 سال بعد ماضی کی تلخ یادیں مجھے ستانے لگیں۔ مجھے لگا کہ مَیں نے یہوواہ کی خوشنودی کھو دی ہے اور مَیں اُس کی محبت کے لائق نہیں رہی۔“ یووا نامی پہلکار کی مثال پر بھی غور کریں جن کا بچپن بہن اوکسانہ کے بچپن کی طرح دُکھ بھرا تھا۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں نے اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کر دی کیونکہ مَیں اُسے خوش کرنا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے اِس بات پر بھی یقین تھا کہ یہوواہ مجھ سے کبھی محبت نہیں کر سکتا۔“
3. اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
3 شاید بہن اوکسانہ اور بہن یووا کی طرح آپ بھی یہوواہ سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن آپ کو اِس بات پر شک ہے کہ یہوواہ آپ سے محبت کرتا ہے۔ آپ کو اِس بات پر اپنا یقین مضبوط کیوں کرنا چاہیے کہ یہوواہ واقعی آپ کی بہت فکر رکھتا ہے؟ اور کون سی باتیں اُس وقت آپ کی مدد کر سکتی ہیں جب آپ کے سر پر یہ خیال حاوی ہونے لگتا ہے کہ یہوواہ آپ سے محبت نہیں کرتا؟ آئیں، اِن دونوں سوالوں کے جواب حاصل کرتے ہیں۔
یہوواہ کی محبت پر شک کرنا خطرے سے خالی نہیں
4. یہوواہ کی محبت پر شک کرنا خطرے سے خالی کیوں نہیں؟
4 محبت میں بہت طاقت ہے۔ اگر ہمیں اِس بات کا پکا یقین ہے کہ ہمیں یہوواہ کی محبت اور اُس کا ساتھ حاصل ہے تو ہمیں مشکلوں کے باوجود پورے دلوجان سے اُس کی خدمت کرنے کی ترغیب ملے گی۔ لیکن اگر ہمیں اِس بات پر شک ہے کہ یہوواہ ہماری فکر رکھتا ہے تو ہماری ”طاقت جاتی رہے گی۔“ (امثا 24:10، اُردو جیو ورشن) اور اگر ہماری طاقت جواب دے جائے گی اور ہم خدا کی محبت پر اپنا ایمان کھو بیٹھیں گے تو ہم آسانی سے شیطان کا شکار ہو سکتے ہیں۔—اِفس 6:16۔
5. ہمارے کچھ ایسے بہن بھائیوں کے ساتھ کیا ہوا جو اِس بات پر شک کرنے لگے کہ یہوواہ اُن سے محبت کرتا ہے؟
5 ہمارے کچھ بہن بھائیوں کا ایمان اِس وجہ سے کمزور پڑ گیا کیونکہ وہ اِس بات پر شک کرنے لگے کہ یہوواہ اُن سے محبت کرتا ہے اور اُسے اُن کی فکر ہے۔ اِس سلسلے میں غور کریں کہ جیمز نامی بزرگ نے کیا کہا۔ اُنہوں نے کہا: ”حالانکہ مَیں بیتایل میں خدمت کر رہا تھا اور مجھے دوسری زبان والی کلیسیا میں خدمت کر کے بھی بہت مزہ آ رہا تھا لیکن مَیں سوچتا تھا کہ پتہ نہیں یہوواہ میری خدمت سے خوش ہے بھی یا نہیں۔ ایک وقت تو ایسا آیا کہ مَیں اِس بات پر ہی شک کرنے لگا کہ یہوواہ میری دُعاؤں کو سنتا ہے۔“ ذرا ایوا نامی بہن کی مثال پر بھی غور کریں جو کُلوقتی طور پر خدمت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”مَیں نے خود اِس بات کا تجربہ کِیا ہے کہ یہوواہ کی محبت پر شک کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا کیونکہ جب ہم ایسا کرنے لگتے ہیں تو اِس کا اثر خدا کی خدمت سے تعلق رکھنے والے ہر کام پر پڑنے لگتا ہے۔ ہمارے دل سے اُن کاموں کو کرنے کی خواہش مٹنے لگتی ہے جو یہوواہ ہم سے چاہتا ہے اور ہم اُس کی خدمت میں اپنی خوشی کھو بیٹھتے ہیں۔“ بھائی مائیکل جو کہ ایک پہلکار اور بزرگ ہیں، کہتے ہیں: ”اگر آپ کو اِس بات پر یقین نہیں کہ یہوواہ کو آپ کی فکر ہے تو آپ اُس سے دُور ہو جائیں گے۔“
6. ہمیں اُس وقت کیا کرنا چاہیے جب ہمارے دل میں یہوواہ کی محبت کو لے کر شک پیدا ہوتے ہیں؟
6 اِن بہن بھائیوں کے تجربوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہم یہوواہ کی محبت پر شک کرتے ہیں تو ہمارا ایمان کمزور پڑ سکتا ہے۔ تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ یہ شک ہمارے دل میں گھر نہ کرے؟ ہمیں اِسے فوراً رد کر دینا چاہیے۔ یہوواہ سے درخواست کریں کہ وہ آپ کی مدد کرے تاکہ آپ اپنے ”بےچین خیالات“ کی جگہ وہ اِطمینان حاصل کریں ”جو سمجھ سے باہر ہے“ اور جو ”آپ کے دل اور سوچ کو محفوظ“ رکھ سکتا ہے۔ (زبور 139:23، اُردو جیو ورشن؛ فل 4:6، 7) یہ بھی یاد رکھیں کہ آپ کے علاوہ اَور بھی کئی ایسے بہن بھائی ہیں جو اپنی منفی سوچ سے لڑ رہے ہیں۔ اَور تو اَور ماضی میں بھی یہوواہ کے کچھ بندوں کے دل میں کبھی کبھار یہ خیال آیا کہ یہوواہ اُن سے محبت نہیں کرتا۔ اِس حوالے سے آئیں، پولُس رسول کی مثال پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اُن سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔
ہم پولُس رسول سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
7. پولُس کو کن مشکلوں کا سامنا تھا؟
7 کیا کبھی کبھار آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ پر بہت سی ذمےداریاں ہیں اور آپ کے لیے اِن سب کو نبھانا بہت مشکل ہے؟ اگر ایسا ہے تو آپ پولُس کے احساسات کو سمجھ سکتے ہیں۔ اُنہیں صرف ایک کلیسیا کی نہیں بلکہ تمام ”کلیسیاؤں کی فکر ستاتی رہتی“ تھی۔ (2-کُر 11:23-28) کیا آپ کو صحت کے کسی سنگین مسئلے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے آپ اکثر اپنی خوشی کھو بیٹھتے ہیں؟ پولُس نے کہا کہ اُنہیں ”ایک تکلیف دی گئی ہے جو ایک کانٹے کی طرح [اُن کے] جسم میں چبھتی رہتی ہے۔“ یہ شاید صحت کا کوئی مسئلہ تھا جس سے چھٹکارا پانے کے لیے وہ بےتاب تھے۔ (2-کُر 12:7-10) کیا آپ اپنی خامیوں کی وجہ سے بےحوصلہ ہو جاتے ہیں؟ پولُس کے ساتھ بھی کبھی کبھار ایسا ہوا۔ اُنہیں اپنی خامیوں سے لگاتار جنگ لڑنی پڑ رہی تھی اور اِس وجہ سے وہ خود کو بہت بےبس محسوس کرتے تھے۔—روم 7:21-24۔
8. پولُس کو آزمائشوں اور مشکلوں سے لڑنے کی ہمت کیسے ملی؟
8 حالانکہ پولُس کو بہت سی آزمائشوں اور مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ پھر بھی یہوواہ کی خدمت کرتے رہے۔ اُنہیں ایسا کرنے کی ہمت کیسے ملی؟ پولُس اپنی خامیوں سے اچھی طرح واقف تھے لیکن وہ فدیے پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔ وہ یسوع کے اِس وعدے کو جانتے تھے کہ ’جو کوئی اُن پر ایمان ظاہر کرے گا، وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا۔‘ (یوح 3:16؛ روم 6:23) پولُس یقیناً اُن لوگوں میں سے ایک تھے جو یسوع کے فدیے پر ایمان ظاہر کر رہے تھے۔ وہ اِس بات پر بھی پکا یقین رکھتے تھے کہ یہوواہ اُن لوگوں کو بھی معاف کرنے کو تیار ہے جو سنگین گُناہ کرتے ہیں بشرطیکہ وہ توبہ کر لیں۔—زبور 86:5۔
9. ہم گلتیوں 2:20 میں درج پولُس کے الفاظ سے کیا سیکھتے ہیں؟
9 پولُس اِس بات پر پکا ایمان رکھتے تھے کہ یہوواہ اُن سے بہت محبت کرتا ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اُس نے یسوع کو اُن کی خاطر جان قربان کرنے کے لیے بھیجا۔ (گلتیوں 2:20 کو پڑھیں۔) غور کریں کہ 20 آیت کے آخر میں پولُس نے ”مجھ سے“ اور ”میرے لیے“ جیسی اِصطلاحیں اِستعمال کیں۔ اُنہوں نے کہا: ”خدا کے بیٹے . . . نے مجھ سے محبت کی اور میرے لیے جان دے دی۔“ پولُس نے یہ نہیں سوچا: ”اگر یہوواہ میرے بہن بھائیوں سے محبت کرتا ہے تو اِس کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن مجھ میں ایسا کِیا ہے جو یہوواہ مجھ سے محبت کرے۔“ پولُس خود بھی اُس بات کو تسلیم کرتے تھے جو اُنہوں نے روم میں رہنے والے مسیحیوں کو یاد دِلائی: ”جب ہم گُناہگار ہی تھے تو مسیح ہمارے لیے مرا۔“ (روم 5:8) یہوواہ ہمارے لیے جو محبت رکھتا ہے، اُس کی کوئی حد نہیں۔
10. ہم رومیوں 8:38، 39 میں درج بات سے کیا سیکھتے ہیں؟
10 رومیوں 8:38، 39 کو پڑھیں۔ پولُس کو اِس بات پر پکا یقین تھا کہ یہوواہ اُن سے شدید محبت کرتا ہے۔ اُنہوں نے لکھا کہ کوئی بھی چیز ہمیں ’خدا کی محبت سے جُدا‘ نہیں کر سکتی۔ پولُس جانتے تھے کہ یہوواہ خدا بنیاِسرائیل کے ساتھ بڑے صبر سے پیش آیا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہوواہ نے اُن پر کتنا رحم کِیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو پولُس یہ کہہ رہے تھے کہ ”جب یہوواہ نے اپنے بیٹے کو میری خاطر جان قربان کرنے کے لیے بھیجا تو کیا میرے پاس اُس کی محبت پر شک کرنے کی کوئی وجہ رہتی ہے؟“—روم 8:32۔
11. حالانکہ پولُس نے وہ گُناہ کیے جن کا ذکر 1-تیمُتھیُس 1:12-15 میں کِیا گیا ہے تو بھی وہ خدا کی محبت پر یقین کیوں رکھتے تھے؟
11 پہلا تیمُتھیُس 1:12-15 کو پڑھیں۔ پولُس نے ماضی میں جو کچھ کِیا، اُس کی تلخ یادیں اُنہیں کبھی کبھار ستاتی تھیں۔ اُنہوں نے اپنے بارے میں کہا: ”مَیں . . . سب سے بڑا گُناہگار ہوں۔“ اِس بات کو سُن کر ہمیں حیرانی نہیں ہوتی کیونکہ مسیح کا شاگرد بننے سے پہلے پولُس نے مسیحیوں کو شہر شہر جا کر اذیت پہنچائی، اُن میں سے بعض کو قید میں ڈلوایا اور جب دیگر مسیحیوں کو سزائےموت سنائی گئی تو اُنہوں نے اِس کے حق میں ووٹ دیا۔ (اعما 26:10، 11) ذرا سوچیں کہ پولُس کو اُس وقت کیسا لگتا ہوگا جب وہ ایک ایسے جوان مسیحی سے ملتے ہوں گے جس کے والدین کو سزائےموت دِلوانے میں اُن کا ہاتھ تھا۔ پولُس کو اپنی غلطیوں پر بہت پچھتاوا تھا۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ اپنے ماضی کو نہیں بدل سکتے۔ اُنہوں نے اِس بات کو تسلیم کیا کہ مسیح نے اُن کی خاطر اپنی جان قربان کی۔ اِس لیے اُنہوں نے پورے یقین سے کہا: ”خدا کی عظیم رحمت کی بِنا پر مجھے رسول کا مرتبہ ملا۔“ (1-کُر 15:3، 10) اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ اِس بات کو تسلیم کریں کہ مسیح آپ کے لیے مرے اور یوں اُنہوں نے آپ کے لیے یہ ممکن بنایا کہ آپ خدا کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کر سکیں۔ (اعما 3:19) یاد رکھیں کہ خدا اِس بات پر دھیان دیتا ہے کہ ہم ابھی کیا کر رہے ہیں اور مستقبل میں کیا کریں گے نہ کہ اِس بات پر کہ ہم نے ماضی میں کون سی غلطیاں کیں، چاہے اُس وقت ہم اُس کے گواہ تھے یا نہیں۔—یسع 1:18۔
12. اگر ہمارے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم یہوواہ کی محبت کے لائق نہیں ہیں تو 1-یوحنا 3:19، 20 میں درج بات پر غور کرنے سے ہمیں حوصلہ کیسے مل سکتا ہے؟
12 ہو سکتا ہے کہ جب آپ اِس بارے میں سوچیں کہ یسوع نے آپ کے گُناہوں کا کفارہ دینے کے لیے اپنی جان دی تو آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے: ”مَیں تو اِس کے بالکل لائق نہیں ہوں۔“ ہم ایسا کیوں سوچ سکتے ہیں؟ اپنے دھوکےباز دل کی وجہ سے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم خدا کے کسی کام کے نہیں اور نہ ہی اُس کی محبت کے لائق ہیں۔ (1-یوحنا 3:19، 20 کو پڑھیں۔) جب ہمارے ذہن میں ایسی سوچ آتی ہے تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ”خدا ہمارے دل سے بڑا ہے۔“ ہمارے آسمانی باپ کی محبت اور اُس کی طرف سے ملنے والی معافی ہماری منفی سوچ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ ہمیں خود کو اِس بات پر قائل کرنا چاہیے کہ یہوواہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں باقاعدگی سے یہوواہ کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے، اُس سے دُعا کرنے میں لگے رہنا چاہیے اور اُس کے بندوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہیے۔ ہمارے لیے اِن کاموں کو کرنا اِتنا ضروری کیوں ہے؟
بائبل کا مطالعہ، دُعا اور خدا کے بندوں کا ساتھ ضروری کیوں ہے؟
13. خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے سے ہم منفی سوچ کو دُور کرنے کے قابل کیسے ہوں گے؟ (بکس ” خدا کے کلام نے اُن کی مدد کیسے کی؟“ کو دیکھیں۔)
13 ہر روز خدا کے کلام کا مطالعہ کریں۔ یوں آپ یہ واضح طور پر دیکھ پائیں گے کہ یہوواہ کتنی شاندار خوبیوں کا مالک ہے۔ آپ یہ بھی جان پائیں گے کہ یہوواہ آپ کے لیے کتنے محبت بھرے جذبات رکھتا ہے۔ ہر روز بائبل میں لکھی باتوں پر سوچ بچار کرنے سے ہم ”معاملوں کو سدھارنے“ یعنی اپنے بارے میں صحیح سوچ اپنانے کے قابل ہوں گے۔ (2-تیم 3:16) ذرا کیون نامی بزرگ کی بات پر غور کریں جو اِس منفی احساس سے لڑ رہے تھے کہ وہ خدا کے کسی کام کے نہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”زبور 103 کو پڑھنے اور اِس پر سوچ بچار کرنے سے مَیں اپنی سوچ کو درست کرنے کے قابل ہوا اور یہ سمجھ پایا کہ یہوواہ میرے بارے میں کیسے احساسات رکھتا ہے۔“ بہن ایوا جن کا اِس مضمون میں پہلے بھی ذکر ہوا ہے، کہتی ہیں: ”ہر دن کے آخر پر مَیں یہوواہ کے خیالات اور احساسات پر سوچ بچار کرتی ہوں۔ اِس سے میرے دل کو سکون ملتا ہے اور میرا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔“
14. دُعا میں لگے رہنا اِتنا اہم کیوں ہے؟
14 دُعا کرنے میں لگے رہیں۔ (1-تھس 5:17) کسی شخص سے مضبوط دوستی قائم کرنے کے لیے ہم اُس سے اکثر باتچیت کرتے ہیں اور اُسے اپنے احساسات بتاتے ہیں۔ یہ بات یہوواہ کے ساتھ دوستی پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ جب ہم دُعا میں یہوواہ کو اپنے احساسات، خیالات اور فکریں بتاتے ہیں تو ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں اُس پر بھروسا ہے اور ہم اُس کی محبت پر یقین رکھتے ہیں۔ (زبور 94:17-19؛ 1-یوح 5:14، 15) بہن یووا جن کا پہلے بھی ذکر ہوا ہے، کہتی ہیں: ”جب مَیں یہوواہ سے دُعا کرتی ہوں تو مَیں صرف اُسے دن کے دوران ہونے والی باتوں کے بارے میں ہی نہیں بتاتی بلکہ مَیں اپنا دل اُس کے سامنے کھول کر رکھ دیتی ہوں۔ اب مَیں یہوواہ کو کسی کمپنی کا باس نہیں سمجھتی بلکہ اُسے ایک شفیق باپ خیال کرتی ہوں جو اپنے بچوں سے بہت پیار کرتا ہے۔“
15. یہوواہ نے یہ کیسے ظاہر کِیا ہے کہ وہ ہماری بھلائی میں دلچسپی رکھتا ہے؟
15 خدا کے بندوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ وہ یہوواہ کی طرف سے ہمارے لیے ایک تحفہ ہیں۔ (یعقو 1:17) ہمارے آسمانی باپ نے ہمیں کلیسیا کے بہن بھائی دینے سے یہ ظاہر کِیا ہے کہ وہ ہماری بھلائی میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ بہن بھائی ہمارے لیے ”ہر وقت محبت دِکھاتے ہیں۔“ (امثا 17:17) کُلسّیوں کے نام خط میں پولُس رسول نے کچھ ایسے مسیحیوں کا ذکر کِیا جنہوں نے اُن کا ساتھ دیا۔ پولُس نے اُن کے بارے میں کہا کہ ”اِن کی وجہ سے مجھے بڑی تسلی ملی ہے۔“ (کُل 4:10، 11) یسوع مسیح کو بھی کبھی کبھار اپنے دوستوں کی طرف سے مدد کی ضرورت پڑی اور وہ اِس کے لیے اُن کے بہت شکرگزار بھی تھے۔ اِن دوستوں میں فرشتے اور اِنسان دونوں شامل تھے۔—لُو 22:28، 43۔
16. ہمارے بہن بھائی یہوواہ کے اَور قریب جانے میں ہماری مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
16 یہوواہ نے ہمیں جن دوستوں کا ساتھ دیا ہے، کیا ہم اُن سے مدد حاصل کرتے ہیں یا اُن کی طرف سے ملنے والی مدد کو قبول کرتے ہیں؟ جب ہم اپنے دوستوں کو اپنی فکریں اور پریشانیاں بتاتے ہیں تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہمارا ایمان کمزور ہے بلکہ اِس سے ہماری حفاظت ہو سکتی ہے۔ غور کریں کہ بھائی جیمز نے جن کا پہلے بھی ذکر ہوا ہے، اِس حوالے سے کیا کہا۔ وہ کہتے ہیں: ”پُختہ مسیحیوں سے دوستی کرنے سے مجھے بہت فائدہ ہوا ہے۔ جب میرے ذہن پر منفی خیالات حاوی ہونے لگتے ہیں تو میرے یہ دوست بڑے صبر سے میری بات کو سنتے ہیں اور مجھے اپنی محبت کا احساس دِلاتے ہیں۔ اُن کی محبت سے مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہوواہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے اور اُسے میری فکر ہے۔“ واقعی یہ بہت اہم ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ قریبی دوستی قائم کریں اور اِسے برقرار رکھیں۔
یہوواہ کی محبت میں قائم رہیں
17-18. ہمیں کس کی بات سننی چاہیے اور کیوں؟
17 شیطان چاہتا ہے کہ ہم صحیح کام کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دیں۔ وہ ہمیں اِس بات کا یقین دِلانا چاہتا ہے کہ یہوواہ ہم سے محبت نہیں کرتا اور ہم اِس لائق نہیں کہ یہوواہ ہمیں بچا لے۔ لیکن جیسا کہ ہم دیکھ چُکے ہیں، یہ بات سچ سے کوسوں دُور ہے۔
18 یہوواہ آپ سے بےپناہ محبت کرتا ہے اور آپ کو بہت بیشقیمت خیال کرتا ہے۔ اگر آپ اُس کے حکموں پر عمل کریں گے تو ’آپ اُس کی محبت میں قائم رہیں گے۔‘ (یوح 15:10) لہٰذا شیطان کی نہ سنیں اور نہ ہی اپنے دل کی سنیں جو آپ کو قصوروار ٹھہراتا ہے۔ اِس کی بجائے یہوواہ کی سنیں جو ہم میں سے ہر ایک کی خوبیوں پر نظر کرتا ہے۔ اِس بات پر پکا یقین رکھیں کہ یہوواہ کو ”اپنے لوگوں سے محبت ہے“ جس میں آپ بھی شامل ہیں۔
گیت نمبر 141: زندگی—خدا کی بیش قیمت نعمت
^ پیراگراف 5 کچھ بہن بھائیوں کو اِس بات پر یقین کرنا مشکل لگتا ہے کہ یہوواہ اُن جیسے شخص سے کبھی محبت کر سکتا ہے۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم اِس بات پر یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہم میں سے ہر ایک سے پیار کرتا ہے۔ ہم اِس بات پر بھی غور کریں گے کہ جب ہمارے دل میں خدا کی محبت کو لے کر شک پیدا ہوتے ہیں تو ہم اِن پر کیسے قابو پا سکتے ہیں۔
^ پیراگراف 2 کچھ نام فرضی ہیں۔
^ پیراگراف 64 تصویر کی وضاحت: مسیح کا شاگرد بننے سے پہلے پولُس نے بہت سے مسیحیوں کو اذیت دی اور اِن میں سے کئی کو قید میں ڈلوایا۔ جب پولُس نے یہ تسلیم کِیا کہ مسیح نے اُن کے لیے کیا کچھ کِیا ہے تو وہ بدل گئے اور اُنہوں نے اپنے مسیحی بہن بھائیوں کی حوصلہافزائی کی۔ اِن میں سے کچھ بہن بھائی شاید اُن مسیحیوں کے رشتےدار تھے جنہیں پولُس نے اذیت پہنچائی تھی۔