مطالعے کا مضمون نمبر 18
ثابتقدمی سے دوڑ کو مکمل کریں
”مَیں نے دوڑ مکمل کر لی ہے۔“—2-تیم 4:7۔
گیت نمبر 129: ہم ثابتقدم رہیں گے
مضمون پر ایک نظر *
1. ہم سب کے لیے کیا کرنا لازمی ہے؟
کیا آپ کسی ایسی دوڑ میں دوڑنا چاہیں گے جس کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ اِسے دوڑنا آسان نہیں ہے؟ غالباً نہیں۔ اور اگر آپ بیمار یا تھکے ہوئے ہوں تو ایسی دوڑ میں دوڑنا آپ کو اَور بھی مشکل دِکھائی دے گا۔ پولُس رسول نے کہا کہ تمام سچے مسیحی ایک دوڑ میں دوڑ رہے ہیں۔ (عبر 12:1) اگر ہم اِس دوڑ میں وہ اِنعام حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کا وعدہ یہوواہ نے ہم سے کِیا ہے تو ہم سب کے لیے اِس دوڑ کو مکمل کرنا لازمی ہے پھر چاہے ہم میں زیادہ طاقت ہو یا کم یا ہم جوان ہوں یا بوڑھے۔—متی 24:13۔
2. دوسرا تیمُتھیُس 4:7، 8 کی روشنی میں بتائیں کہ پولُس مسیحیوں کو ثابتقدمی سے دوڑنے کی نصیحت کیوں کر سکتے تھے۔
2 پولُس مسیحیوں کو ثابتقدمی سے دوڑنے کی نصیحت اِس لیے کر سکتے تھے کیونکہ وہ خود کامیابی سے یہ ”دوڑ مکمل“ کر چُکے تھے۔ (2-تیمُتھیُس 4:7، 8 کو پڑھیں۔) مگر پولُس کس دوڑ میں دوڑنے کی بات کر رہے تھے؟
سچے مسیحی کس دوڑ میں دوڑ رہے ہیں؟
3. پولُس نے کس دوڑ کے بارے میں بات کی تھی؟
3 پولُس نے مسیحیوں کو اہم باتیں سمجھانے کے لیے کبھی کبھار اُن کاموں کی مثالیں دیں جو قدیم یونانی کھیلوں میں کیے جاتے تھے۔ (1-کُر 9:25-27؛ 2-تیم 2:5) پولُس نے مسیحیوں کی زندگی کو اکثر ایک دوڑ سے تشبیہ دی۔ (1-کُر 9:24؛ گل 5:7) ایک شخص اِس دوڑ میں تب شامل ہوتا ہے جب وہ خود کو یہوواہ کے لیے وقف کرتا ہے اور بپتسمہ لیتا ہے۔ (1-پطر 3:21) وہ اِس دوڑ کو تب مکمل کرتا ہے جب یہوواہ اُسے ہمیشہ کی زندگی کا اِنعام دیتا ہے۔—متی 25:31-34، 46؛ 2-تیم 4:8۔
4. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
4 ایک دوڑ میں دوڑنے اور مسیحیوں کے طور پر زندگی گزارنے میں کئی باتیں ملتی جلتی ہیں۔ آئیں، اِن میں سے تین پر بات کریں۔ پہلی یہ کہ ہمیں صحیح راستے پر دوڑنا چاہیے؛ دوسری یہ کہ ہمارا پورا دھیان منزل پر ہونا چاہیے اور تیسری یہ کہ ہمیں راستے میں آنے والی مشکلات کے باوجود دوڑتے رہنا چاہیے۔
صحیح راستے پر دوڑیں
5. ہمیں کس راستے پر دوڑنا چاہیے اور کیوں؟
5 دوڑ میں اِنعام حاصل کرنے کے لیے کھلاڑیوں کو اُسی راستے پر دوڑنا ہوتا ہے جو اُن کے لیے طے کِیا گیا ہوتا ہے۔ اِسی طرح اگر ہم ہمیشہ کی زندگی کا اِنعام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اُسی راستے پر دوڑنا چاہیے جو مسیح نے ہمیں دِکھایا ہے۔ (اعما 20:24؛ 1-پطر 2:21) لیکن شیطان اور اُس جیسے کام کرنے والے یہ نہیں چاہتے کہ ہم مسیح کے دِکھائے ہوئے راستے پر دوڑیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اُن کے ساتھ دوڑیں یعنی ”اُن کی طرح عیاشی کی زندگی“ گزاریں۔ (1-پطر 4:4) جب ہم اُس راستے پر دوڑتے ہیں جو مسیح نے ہمیں دِکھایا ہے تو وہ ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس راستے پر وہ دوڑ رہے ہیں، وہ بہتر ہے اور آزادی کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن اُن کا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے۔—2-پطر 2:19۔
6. آپ نے برائن کی مثال سے کیا سیکھا ہے؟
6 جب ایک شخص اُن لوگوں کے ساتھ دوڑنے لگتا ہے جو شیطان کی سوچ سے متاثر ہیں تو اُسے جلد ہی یہ احساس ہو جاتا ہے کہ وہ جس راستے پر دوڑ رہا ہے، وہ آزادی نہیں بلکہ غلامی کی طرف لے جاتا ہے۔ (روم 6:16) اِس حوالے سے ذرا برائن کی مثال پر غور کریں۔ اُن کے والدین نے اُنہیں سمجھایا کہ وہ اُس راستے پر دوڑیں جو مسیح نے دِکھایا ہے۔ لیکن جب وہ نوجوان تھے تو اُنہیں اِس بات پر شک ہونے لگا کہ یہ راستہ اُنہیں خوشی دِلائے گا۔ برائن نے اُن لوگوں کے ساتھ دوڑنے کا فیصلہ کِیا جو شیطان کے معیاروں کے مطابق زندگی گزار رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں: ”اُس وقت مجھے احساس نہیں تھا کہ مَیں جس آزادی کی جستجو میں ہوں، وہ مجھے طرح طرح کی بُری عادتوں کا غلام بنا دے گی۔ . . . مَیں منشیات لینے، جنسی بداخلاقی کرنے اور بہت زیادہ شراب پینے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مَیں نے طرح طرح کی منشیات لیں اور اُن میں سے بہت کا عادی بن گیا۔ . . . یہاں تک کہ مَیں اپنی لتوں کو پورا کرنے کے لیے منشیات بیچنے لگا۔“ آخرکار برائن نے فیصلہ کِیا کہ وہ یہوواہ کے معیاروں کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اُنہوں نے اپنا راستہ بدل لیا اور 2001ء میں بپتسمہ لے لیا۔ چونکہ اب وہ مسیح کے دِکھائے ہوئے راستے پر دوڑ رہے ہیں اِس لیے اُنہیں حقیقی خوشی حاصل ہے۔ *
7. متی 7:13، 14 کے مطابق ہمارے سامنے کون سے دو راستے ہیں؟
7 یہ بہت ضروری ہے کہ ہم صحیح راستے پر دوڑیں۔ شیطان چاہتا ہے کہ ہم سب اُس تنگ راستے پر دوڑنا چھوڑ دیں ”جو زندگی کی طرف لے جاتا ہے“ اور اُس کُھلے راستے پر دوڑنے لگ جائیں جس پر دُنیا میں زیادہتر لوگ دوڑ رہے ہیں۔ لوگوں کو یہ راستہ بہت پسند ہے کیونکہ یہ آسان راستہ ہے۔ مگر یہ ”تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔“ (متی 7:13، 14 کو پڑھیں۔) اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم صحیح راستے پر دوڑتے رہیں اور ہمارا دھیان نہ بھٹکے تو ہمیں یہوواہ پر بھروسا کرنا چاہیے اور اُس کی بات سننی چاہیے۔
اپنی نظریں منزل پر جمائے رکھیں
8. اگر ایک کھلاڑی دوڑ میں گِر جاتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے؟
8 دوڑ میں دوڑنے والے کھلاڑی اپنی نظریں اُس راستے پر رکھتے ہیں جس پر وہ دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ وہ ایسا اِس لیے کرتے ہیں تاکہ ٹھوکر کھا کر گِر نہ جائیں۔ پھر بھی ہو سکتا ہے کہ اُن کے ساتھ دوڑنے والا کوئی کھلاڑی اُن سے ٹکرا جائے یا اُن کا پاؤں کسی گڑھے میں آ جائے اور وہ لڑ کھڑا کر گِر جائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ فوراً اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر سے دوڑنے لگ جاتے ہیں۔ اُن کا دھیان اُس چیز پر نہیں ہوتا جس سے اُنہیں ٹھوکر لگی ہوتی ہے بلکہ اُن کا پورا دھیان منزل اور اُس اِنعام پر ہوتا ہے جسے پانے کے لیے وہ دوڑ رہے ہوتے ہیں۔
9. اگر ہم زندگی کی دوڑ میں گِر جاتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
9 ہم جس دوڑ میں دوڑ رہے ہیں اُس میں ہم بھی گِر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری زبان لڑکھڑا جائے اور ہم کچھ غلط بول دیں یا ہمارے قدم لڑکھڑا جائیں اور ہم کچھ غلط کر جائیں۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہمایمانوں سے کوئی ایسی غلطی ہو جائے جس کی وجہ سے ہمیں ٹھوکر لگ جائے۔ لیکن ہمیں اِس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ ہم سب عیبدار ہیں اور ایک ہی تنگ راستے پر دوڑ رہے ہیں جو زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اِس لیے کبھی کبھار ہم ایک دوسرے سے ٹکرا کر گِر سکتے ہیں۔ پولُس نے کہا کہ بعض اوقات ہمیں ”ایک دوسرے سے شکایت“ ہو سکتی ہے۔ (کُل 3:13) لیکن ہمارا دھیان اُس چیز پر نہیں ہونا چاہیے جس کی وجہ سے ہمیں ٹھوکر لگتی ہے بلکہ ہمارا دھیان اُس اِنعام پر ہونا چاہیے جو ہمیں ملے گا۔ اور اگر ہم کسی وجہ سے ٹھوکر کھا کر گِر بھی جاتے ہیں تو ہمیں فوراً اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے اور دوڑتے رہنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے دل میں تلخی اور ناراضگی پال لیں گے اور دل سے یہوواہ کی خدمت کرنا جاری نہیں رکھیں گے تو ہم اپنی منزل پر نہیں پہنچ پائیں گے اور اِنعام حاصل نہیں کر پائیں گے۔ اِس کے علاوہ شاید ہم اُن لوگوں کے لیے ایک رُکاوٹ بن جائیں جو زندگی کی طرف جانے والے تنگ راستے پر دوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
10. ہم دوسروں کے لیے ”ٹھوکر کا باعث“ بننے یا اُنہیں گمراہ کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
10 ایک اَور طریقہ بھی ہے جس کے ذریعے ہم اپنے بہن بھائیوں کے لیے ”ٹھوکر کا باعث“ بننے یا اُنہیں گمراہ کرنے سے بچ سکتے ہیں۔ (روم 14:13، 19-21؛ 1-کُر 8:9، 13) ہمیں ہمیشہ یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ دوسرے ہمارے طریقے سے کام کریں بلکہ جہاں بھی ممکن ہو، اُنہیں اُن کے طریقے سے کام کرنے دینا چاہیے۔ اِس معاملے میں ہم میں اور اصلی دوڑ میں دوڑنے والوں میں ایک فرق ہے۔ وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور ہر کھلاڑی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اِنعام اُسے ہی ملے۔ وہ کھلاڑی صرف اپنے فائدے کا سوچتے ہیں۔ اِس لیے کبھی کبھار وہ ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کھلاڑیوں کے برعکس ہم ایک دوسرے سے مقابلہ نہیں کرتے۔ (گل 5:26؛ 6:4) ہم تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہمارے ساتھ منزل پر پہنچیں اور زندگی کا اِنعام حاصل کریں۔ اِس لیے ہم پولُس کی اِس نصیحت پر عمل کرتے ہیں کہ ”صرف اپنے فائدے کا ہی نہیں بلکہ دوسروں کے فائدے کا بھی سوچیں۔“—فل 2:4۔
11. دوڑ میں دوڑنے والا کھلاڑی کس چیز پر نظریں جمائے رکھتا ہے اور کیوں؟
11 جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے، دوڑ میں دوڑنے والے کھلاڑی اپنی نظریں اُس راستے پر رکھتے ہیں جس پر وہ دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن کی نظریں منزل پر بھی جمی ہوتی ہیں۔ اگر وہ اپنی آنکھوں سے منزل کو نہیں بھی دیکھ پاتے تو بھی وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ منزل پر پہنچ گئے ہیں اور اِنعام حاصل کر رہے ہیں۔ اِنعام کو اپنے ذہن میں رکھنے سے اُنہیں دوڑتے رہنے کی ترغیب ملتی ہے۔
12. یہوواہ نے ہمیں کون سا اِنعام دینے کا وعدہ کِیا ہے؟
12 یہوواہ نے ہم سے پکا وعدہ کِیا ہے کہ اگر ہم اپنی دوڑ کو مکمل کریں گے تو وہ ہمیں ہمیشہ کی زندگی کا اِنعام دے گا۔ ہم میں سے کچھ کو یہ اِنعام آسمان پر ملے گا جبکہ زیادہتر کو زمین پر۔ بائبل پڑھنے سے ہم اُس اِنعام کی جھلکیاں دیکھ سکتے ہیں اور یہ تصور کر سکتے ہیں کہ اُس وقت زندگی کتنی شاندار ہوگی۔ اگر ہم اپنی اُمید کو اپنے ذہن میں رکھیں گے اور اِس پر سوچ بچار کرتے رہیں گے تو ہم کسی بھی چیز سے ٹھوکر کھا کر اپنی دوڑ کو بیچ میں نہیں چھوڑ دیں گے۔
مشکلات کے باوجود دوڑتے رہیں
13. ہماری صورتحال اصلی دوڑ میں دوڑنے والے کھلاڑیوں سے کیسے بہتر ہے؟
13 قدیم یونان میں جو کھلاڑی دوڑ میں حصہ لیتے تھے، اُنہیں کچھ باتوں کی وجہ سے مسلسل دوڑتے رہنا مشکل لگ سکتا تھا۔ مثال کے طور پر وہ تھک سکتے تھے اور اُن کے جسم میں درد ہو سکتا تھا۔ایسی صورتحال میں وہ اپنی طاقت اور تربیت کے بلبوتے پر دوڑ جاری رکھتے تھے۔ ہم میں اور اُن کھلاڑیوں میں ایک بات ملتی جلتی ہے۔ اور وہ بات یہ ہے کہ ہمیں بھی اُس دوڑ میں دوڑنے کی تربیت دی جاتی ہے جو ہم دوڑ رہے ہیں۔ لیکن ایک لحاظ سے ہماری صورتحال اُن کھلاڑیوں سے کہیں بہتر ہے۔ وہ کھلاڑی اپنی طاقت کے بلبوتے پر دوڑتے تھے لیکن ہم یہوواہ سے طاقت حاصل کر سکتے ہیں جو کہ لامحدود طاقت کا مالک ہے۔ یہوواہ ہم سے وعدہ کرتا ہے کہ اگر ہم اُس کی مدد پر بھروسا کریں گے تو وہ ہماری تربیت بھی کرے گا اور ہمیں مضبوط بھی بنائے گا۔—1-پطر 5:10۔
14. دوسرا کُرنتھیوں 12:9، 10 پر غور کرنے سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمت کیسے ملتی ہے؟
14 پولُس رسول کی زندگی میں بھی کچھ ایسی باتیں تھیں جن کی وجہ سے اُن کے لیے مسلسل دوڑتے رہنا مشکل ہو سکتا تھا۔ لوگوں نے اُن کی بےعزتی کی اور اُنہیں اذیت کا نشانہ بنایا۔ اِس کے علاوہ پولُس کبھی کبھار کمزور محسوس کرتے تھے اور اُنہیں ایک ایسی تکلیف کا سامنا تھا ”جو ایک کانٹے کی طرح [اُن کے] جسم میں چبھتی رہتی“ تھی۔ (2-کُر 12:7) لیکن پولُس نے اِن مشکلات کی وجہ سے ہمت نہیں ہاری۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے یہ سوچا کہ اُنہیں یہوواہ کی مدد پر بھروسا ظاہر کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ (2-کُر 12:9، 10 کو پڑھیں۔) چونکہ پولُس ایسی سوچ رکھتے تھے اِس لیے یہوواہ نے اُن کی تمام مشکلات میں اُن کی مدد کی۔
15. اگر ہم پولُس کی مثال پر عمل کریں گے تو ہم کیا دیکھیں گے؟
15 ہو سکتا ہے کہ ہمیں بھی ہمارے ایمان کی وجہ سے بےعزتی یا اذیت کا سامنا کرنا پڑے۔ یا شاید ہم صحت کے مسائل سے دوچار ہوں یا جسمانی یا جذباتی طور پر تھک کر چُور ہو جائیں۔ اگر ہم پولُس کی مثال پر عمل کریں گے تو ہمیں یہ دیکھنے کا موقع ملے گا کہ ہمارا شفیق خدا یہوواہ مشکلات میں کیسے اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔
16. عمررسیدہ یا خراب صحت کا شکار ہونے کے باوجود بھی آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں؟
16 کیا آپ اپنی بیماری کی وجہ سے بستر پر پڑ گئے ہیں یا کیا آپ ویلچیئر کے سہارے کہیں آتے جاتے ہیں؟ کیا آپ کے گھٹنے یا نظر کمزور ہو گئی ہے؟ کیا ایسے حالات میں بھی آپ جوان اور صحتمند لوگوں کے ساتھ مل کر زندگی کی دوڑ میں دوڑ سکتے ہیں؟ بےشک۔ بہت سے عمررسیدہ اور کمزور بہن بھائی ثابتقدمی سے اُس راستے پر دوڑ رہے ہیں جو ہمیشہ کی زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ ایسا اپنی طاقت کے بلبوتے پر نہیں کر سکتے۔ وہ یہوواہ سے طاقت حاصل کرنے کے لیے ہمارے اِجلاسوں کی ریکارڈنگ دیکھتے ہیں۔ اِس کے علاوہ وہ ڈاکٹروں، نرسوں اور اپنے رشتےداروں کو گواہی دیتے ہیں اور یوں شاگرد بنانے کے کام میں حصہ لیتے ہیں۔
17. یہوواہ اُن بہن بھائیوں کے متعلق کیسا محسوس کرتا ہے جو بڑھتی عمر یا خراب صحت کے مسائل سے دوچار ہیں؟
زبور 9:10) اِس کی بجائے وہ آپ کے اَور زیادہ قریب آئے گا۔ ذرا ایک بہن کے بیان پر غور کریں جنہیں صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ وہ کہتی ہے: ”جیسے جیسے میری صحت کے مسئلے بڑھ رہے ہیں میرے لیے دوسروں کو گواہی دینے کے موقعے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن مَیں جانتی ہوں کہ اگر مَیں یہوواہ کے لیے کوئی چھوٹا سا بھی کام کرتی ہوں تو وہ خوش ہوتا ہے اور اِس بات سے مجھے بہت خوشی ملتی ہے۔“ جب آپ بےحوصلہ ہوں تو یاد رکھیں کہ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ پولُس کی مثال کے بارے میں سوچیں اور اُن کے اِن حوصلہافزا الفاظ کو یاد کریں: ”مَیں . . . بڑی خوشی سے کمزوری . . . برداشت کروں گا کیونکہ جب مَیں کمزور ہوتا ہوں تب مَیں طاقتور ہوتا ہوں۔“—2-کُر 12:10۔
17 اگر آپ بڑھتی عمر یا خراب صحت کی وجہ سے یہوواہ کی زیادہ خدمت نہیں کر سکتے تو بےحوصلہ نہ ہوں اور نہ ہی یہ سوچیں کہ آپ زندگی کی دوڑ کو کامیابی سے مکمل نہیں کر سکتے۔ یہوواہ آپ سے پیار کرتا ہے کیونکہ آپ اُس پر ایمان رکھتے ہیں اور ثابتقدمی سے اُس کی خدمت کر چُکے ہیں۔ اب آپ کو پہلے سے کہیں زیادہ اُس کی مدد کی ضرورت ہے اور وہ آپ کو کبھی ترک نہیں کرے گا۔ (18. خدا کے کچھ بندوں کی مشکل اِتنی سنگین کیوں ہے؟
18 زندگی کی دوڑ میں دوڑنے والے کچھ بہن بھائیوں کو فرق قسم کی مشکل کا سامنا ہے۔ اُن کی زندگی میں ایسے مسائل چل رہے ہیں جنہیں دوسرے دیکھ نہیں سکتے اور شاید سمجھ بھی نہیں سکتے۔ مثال کے طور پر شاید وہ ڈپریشن میں مبتلا ہیں یا شاید کسی وجہ سے بہت پریشان رہتے ہیں۔ لیکن خدا کے اِن عزیز بندوں کی مشکل اِتنی سنگین کیوں ہے؟ کیونکہ اگر کسی شخص کی بازو ٹوٹی ہو یا وہ ویلچیئر تک محدود ہو تو ہر کوئی اُس کی مشکل کو دیکھ سکتا ہے اور اُس کی مدد کرنے کی ترغیب پا سکتا ہے۔ مگر جو لوگ کسی جذباتی یا ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں، شاید اُن کی مشکل دوسروں پر ظاہر نہ ہو حالانکہ اُن کی صورتحال اُتنی ہی سنگین ہوتی ہے جتنی کہ کسی معذور شخص کی۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ لوگ اُنہیں ویسی محبت اور توجہ نہ دیں جیسی وہ کسی معذور شخص کو دیتے ہیں۔
19. ہم مفیبوست کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
19 اگر آپ اپنی صورتحال کی وجہ سے یہوواہ کی زیادہ خدمت نہیں کر سکتے اور آپ کو لگتا ہے کہ دوسرے آپ کی صورتحال کو نہیں سمجھتے تو مفیبوست کی مثال پر غور کرنے سے آپ کو بڑا حوصلہ مل سکتا ہے۔ (2-سمو 4:4) وہ معذور تھے اور بادشاہ داؤد نے اُن کی صورتحال سے پوری طرح واقف نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے بارے میں غلط رائے قائم کر لی تھی۔ مفیبوست کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، اُس میں اُن کا کوئی قصور نہیں تھا۔ مگر پھر بھی اُنہوں نے اپنے دل میں تلخی پیدا نہیں ہونے دی۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے اُن مثبت باتوں پر دھیان دیا جو اُن کی زندگی میں ہوئی تھیں۔ وہ اُس مہربانی کے لیے داؤد کے بڑے شکرگزار تھے جو اُنہوں نے ماضی میں اُن کے لیے دِکھائی تھی۔ (2-سمو 9:6-10) اِس لیے جب داؤد نے اُن کو غلط سمجھا اور اُن کے ساتھ نااِنصافی کی تو مفیبوست نے تصویر کا ایک رُخ دیکھنے کی بجائے پوری صورتحال کو سامنے رکھا۔ اُنہوں نے داؤد کی غلطی کی وجہ سے اپنے دل میں رنجش نہیں پالی۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے یہوواہ سے بھی یہ شکایت نہیں کی کہ داؤد نے اُن کے ساتھ نااِنصافی کیوں کی ہے۔ مفیبوست نے اپنا دھیان اِس بات پر رکھا کہ وہ یہوواہ کے مقررکردہ بادشاہ کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں۔ (2-سمو 16:1-4؛ 19:24-30) یہوواہ نے مفیبوست کی زبردست مثال اِس لیے اپنے کلام میں لکھوائی ہے تاکہ ہم اِس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔—روم 15:4۔
20. کچھ لوگوں پر پریشانی کا کیا اثر ہو سکتا ہے لیکن وہ کس بات پر پورا بھروسا رکھ سکتے ہیں؟
20 ہمارے کچھ بہن بھائی شدید پریشانی کا شکار ہونے کی وجہ سے لوگوں کی موجودگی میں گھبرائے گھبرائے سے رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ ایسی جگہوں پر جانے سے گھبراتے ہیں جہاں زیادہ لوگ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ اِجلاسوں اور اِجتماعوں میں حاضر ہوتے ہیں۔ حالانکہ اُنہیں اجنبیوں سے بات کرنا مشکل لگتا ہے لیکن پھر بھی وہ مُنادی کے دوران لوگوں سے بات کرتے ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہے تو اِس بات کا یقین رکھیں کہ آپ اکیلے اِس صورتحال سے نہیں گزر رہے۔ بہت سے لوگ آپ کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں کہ جب آپ دلوجان سے یہوواہ کے لیے کچھ کرتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی صورتحال کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہوواہ آپ کو طاقت اور برکت دے رہا ہے۔ * (فل 4:6، 7؛ 1-پطر 5:7) اگر آپ کسی سنگین بیماری یا جذباتی دباؤ کے باوجود یہوواہ کی خدمت انجام دے رہے ہیں تو آپ اِس بات پر پورا بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ آپ یہوواہ کو خوش کر رہے ہیں۔
21. ہم سب یہوواہ کی مدد سے کیا کر پائیں گے؟
21 ہمارے لیے یہ تسلی کی بات ہے کہ ہم جس دوڑ میں دوڑ رہے ہیں، اُس میں اور اصلی دوڑ میں کچھ باتیں فرق ہیں۔ قدیم زمانے میں دوڑ کے جو مقابلے ہوتے تھے، اُن میں صرف ایک شخص کو اِنعام ملتا تھا۔ مگر جو لوگ اُس راستے پر دوڑ رہے ہیں جو مسیح نے دِکھایا ہے، اُن میں سے ہر ایک کو یہ دوڑ مکمل کرنے پر ہمیشہ کی زندگی کا اِنعام ملے گا۔ (یوح 3:16) اِس کے علاوہ اصلی دوڑ میں تمام کھلاڑیوں کا جسمانی لحاظ سے تندرستوتوانا ہونا ضروری ہوتا تھا ورنہ اُن کے لیے جیتنا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ اِس کے برعکس ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی صحت اِتنی اچھی نہیں ہے مگر ہم ثابتقدمی سے اپنی دوڑ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (2-کُر 4:16) ہمیں یقین ہے کہ یہوواہ کی مدد سے ہم سب اپنی دوڑ کو مکمل کر پائیں گے!
گیت نمبر 144: اِس اُمید کو تھام لیں
^ پیراگراف 5 آج یہوواہ کے بہت سے بندوں کو بڑھتی عمر کی مشکلات کا سامنا ہے اور بہت سے بہن بھائی ایسے ہیں جو کسی سنگین بیماری سے لڑ رہے ہیں۔ دراصل ہم سب کبھی کبھار جسمانی اور جذباتی طور پر تھک جاتے ہیں۔اِس لیے شاید ہمیں کسی دوڑ میں دوڑنے کا خیال عجیب لگے۔ اِس مضمون میں بتایا جائے گا کہ ہم زندگی کی اُس دوڑ میں ثابتقدمی سے کیسے دوڑ سکتے ہیں جس کا ذکر پولُس رسول نے کِیا اور اِس دوڑ میں کیسے جیت سکتے ہیں۔
^ پیراگراف 6 ”مینارِنگہبانی،“ 1 جنوری 2013ء میں مضمون ”پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے“ کو دیکھیں۔
^ پیراگراف 20 ®jw.org پر مئی 2019ء کا ماہانہ پروگرام ہندی میں دیکھیں۔ اِس میں پریشانی سے نمٹنے کے حوالے سے مشورے دیے گئے ہیں اور ایسے بہن بھائیوں کے تجربے دِکھائے گئے ہیں جو کامیابی سے پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ حصہ ”لائبریری“ کے تحت ”جےڈبلیو براڈکاسٹنگ“ پر جائیں۔
^ پیراگراف 63 تصویر کی وضاحت: مُنادی کے کام میں مشغول رہنے سے یہ بڑی عمر والا بھائی صحیح راستے پر دوڑتے رہنے کے قابل ہے۔
^ پیراگراف 65 تصویر کی وضاحت: اگر ہم دوسروں کو زیادہ شراب پینے پر مجبور کرتے ہیں یا خود حد میں رہ کر شراب نہیں پیتے تو ہم دوسروں کے لیے ٹھوکر کا باعث بن سکتے ہیں۔
^ پیراگراف 67 تصویر کی وضاحت: ایک بھائی اپنی بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں بستر سے لگ گیا ہے مگر وہ پھر بھی اپنی دیکھبھال کرنے والوں کو گواہی دینے سے زندگی کی دوڑ میں دوڑ رہا ہے۔