مطالعے کا مضمون نمبر 28
گیت نمبر 123: تابعدار ہوں
کیا آپ سچائی کو پہچانتے ہیں؟
”ثابتقدم رہیں، اپنی کمر پر سچائی کی پیٹی باندھیں۔“ —اِفِس 6:14۔
غور کریں کہ . . .
ہم یہوواہ کی بتائی ہوئی سچائیوں اور شیطان کے پھیلائے جھوٹ میں فرق کرنا کیسے سیکھ سکتےہیں۔
1. آپ سچائی کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟
یہوواہ کے بندوں کے طور پر ہم اُس کے کلام میں پائی جانے والی سچائیوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ یہ سچائیاں ہمارے ایمان کی بنیاد ہیں۔ (روم 10:17) ہمیں اِس بات پر پکا یقین ہے کہ یہوواہ نے مسیحی کلیسیا کو قائم کِیا ہے ”جو سچائی کا ستون اور فصیل ہے۔“ (1-تیم 3:15) جب ہماری ”پیشوائی“ کرنے والے بھائی پاک کلام کی سچائیوں کی وضاحت کرتے ہیں اور خدا کی مرضی کے مطابق چلنے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں تو ہم خوشی سے اُن کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔—عبر 13:17۔
2. سچائی سیکھ لینے کے بعد بھی ہمیں یعقوب 5:19 کے مطابق کس خطرے کا سامنا ہو سکتا ہے؟
2 اگر ایک شخص نے سچائی کو قبول کر لیا ہے اور وہ اِس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اُسے خدا کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں پر عمل کرنا چاہیے تو اِس کے بعد بھی وہ سچائی کی راہ سے گمراہ ہونے کے خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ (یعقوب 5:19 کو پڑھیں۔) شیطان اِس کے سوا کچھ نہیں چاہتا کہ ہمارا بھروسا بائبل سے اور خدا کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں سے اُٹھ جائے۔—اِفِس 4:14۔
3. ہمیں سچائی کو کیوں تھامے رہنا چاہیے؟ (اِفِسیوں 6:13، 14)
3 اِفِسیوں 6:13، 14 کو پڑھیں۔ بہت جلد شیطان سب قوموں کو دھوکا دینے کے لیے یہوواہ کے بندوں کے بارے میں ایسے جھوٹ بولے گا جن کی وجہ سے قومیں یہوواہ کے بندوں کی مخالفت کرنے لگیں گی۔ (مُکا 16:13، 14) ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ شیطان یہوواہ کے بندوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو پہلے سے بھی زیادہ بڑھا دے گا۔ (مُکا 12:9) اِس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم سچائی اور جھوٹ میں فرق کرنا سیکھیں اور ’سچائی کے فرمانبردار‘ رہیں۔ (روم 6:17؛ 1-پطر 1:22) بڑی مصیبت سے زندہ بچ نکلنے کے لیے ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔
4. اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
4 اِس مضمون میں ہم دو ایسی خوبیوں پر بات کریں گے جو ہماری مدد کریں گی تاکہ ہم پاک کلام میں پائی جانے والی سچائیوں کو پہچانیں اور خدا کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں کو قبول کریں۔ اِس کے بعد ہم تین ایسے مشوروں پر غور کریں گے جن سے ہم سچائی کو تھامے رہنے کے قابل ہوں گے۔
ایسی خوبیاں جو سچائی کو پہچاننے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں
5. یہوواہ کا خوف سچائی کو پہچاننے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟
5 یہوواہ کا خوف۔ اگر ہمارے دل میں یہوواہ کا خوف ہوگا تو ہم اُس سے اِتنی زیادہ محبت کریں گے کہ ہم کوئی بھی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے اُس کا دل دُکھ سکتا ہے۔ ہم دل سے یہوواہ کو خوش کرنا چاہتے ہیں اِس لیے ہم صحیح اور غلط میں اور سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا سیکھنا چاہتے ہیں۔ (اَمثا 2:3-6؛ عبر 5:14) اِنسانوں کو خوش کرنے والی باتیں اکثر یہوواہ کو ناراض کر دیتی ہیں۔ اِس لیے ہمیں اِنسان کے ڈر کو خود پر اِتنا حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے کہ اِس کی وجہ سے ہمارے دل میں یہوواہ کی محبت دب جائے۔
6. بنیاِسرائیل کے 10 سرداروں نے سچائی کو کیوں توڑ مروڑ دیا؟
6 اگر ہمارے دل میں یہوواہ کے خوف سے زیادہ اِنسانوں کا خوف ہوگا تو ہم سچائی کی راہ سے گمراہ ہونے کے خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اِس سلسلے میں ذرا اُن 12 سرداروں کی مثال پر غور کریں جنہیں اُس ملک میں جاسوسی کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا جسے دینے کا وعدہ یہوواہ نے بنیاِسرائیل سے کِیا تھا۔ اُن میں سے 10 جاسوسوں کے دل میں کنعانیوں کا خوف، یہوواہ کی محبت سے زیادہ تھا۔ اُنہوں نے باقی اِسرائیلیوں سے کہا: ”ہم اِس لائق نہیں ہیں کہ اُن لوگوں پر حملہ کریں کیونکہ وہ ہم سے زیادہ زورآور ہیں۔“ (گن 13:27-31) اگر اِنسانی نظر سے دیکھا جائے تو اِس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ کنعانی اِسرائیلیوں سے زیادہ طاقتور تھے۔ لیکن جب اُن 10 جاسوسوں نے یہ کہا کہ اِسرائیلی اپنے دُشمنوں پر غالب آ ہی نہیں سکتے تو اصل میں وہ یہوواہ کو بھول رہے تھے۔ اُن 10 جاسوسوں کو اِس بات پر اپنا دھیان رکھنا چاہیے تھا کہ یہوواہ اِسرائیلیوں سے کیا چاہتا ہے۔ اُنہیں اِس بات پر بھی سوچ بچار کرنی چاہیے تھی کہ یہوواہ نے حال ہی میں اُن کے لیے کیا کچھ کِیا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو اُنہیں احساس ہوتا کہ لامحدود قدرت کے مالک یہوواہ کی طاقت کے سامنے کنعانیوں کی طاقت کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن 12 میں سے 2 جاسوس یعنی یشوع اور کالِب یہوواہ پر مضبوط ایمان رکھتے تھے۔ وہ یہوواہ کو خوش کرنا چاہتے تھے اِس لیے اُنہوں نے لوگوں سے کہا: ”اگر[یہوواہ]خدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم کو اُس ملک میں پہنچائے گا۔“—گن 14:6-9۔
7. ہم اپنے دل میں یہوواہ کا خوف کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
7 اپنے دل میں یہوواہ کا خوف بڑھانے کے لیے ہمیں اپنا دھیان اِس بات پر رکھنا چاہیے کہ ہم اپنی زندگی میں ایسے فیصلے کریں جن سے یہوواہ خوش ہو۔ (زبور 16:8) بائبل میں لکھے واقعات کو پڑھتے وقت خود سے پوچھیں: ”اگر مَیں اِس صورتحال میں ہوتا تو مَیں کیا فیصلہ کرتا؟“ مثال کے طور پر تصور کریں کہ آپ اُن 10 اِسرائیلی سرداروں کی بات سُن رہے ہیں جو اِسرائیلیوں کو بُری خبر سنا رہے ہیں۔ کیا آپ اُن کی بات پر یقین کرتے اور کنعانیوں سے ڈر جاتے؟ یا کیا یہوواہ کے لیے آپ کی محبت اور اُسے خوش کرنے کی آپ کی خواہش اِنسان کے ڈر پر غالب آ جاتی؟ بنی اِسرائیل میں سے زیادہتر لوگ اُس سچ کو نہیں پہچان پائے جو یشوع اور کالِب اُنہیں بتا رہے تھے۔ اِسی وجہ سے وہ اُس ملک میں جانے کا موقع گنوا بیٹھے جسے دینے کا وعدہ یہوواہ نے اُن سے کِیا تھا۔—گن 14:10، 22، 23۔
8. ہمیں کس خوبی کو پیدا کرنے کے لیے سخت محنت کرنی چاہیے اور کیوں؟
8 خاکساری۔ یہوواہ خدا اُن لوگوں پر سچائی ظاہر کرتا ہے جو خاکسار ہوتے ہیں۔ (متی 11:25) ہم نے سچائی کو سیکھنے کے لیے خاکساری سے مدد کو قبول کِیا تھا۔ (اعما 8:30، 31) لیکن ہمیں آئندہ بھی محتاط رہنا چاہیے کہ ہم مغرور نہ بن جائیں۔ اگر ہمارے دل میں غرور سما جائے گا تو ہم یہ سوچنے لگیں گے کہ ہماری رائے بھی اُتنی ہی درست ہے جتنی بائبل میں لکھے اصول اور یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتیں۔
9. ہم خاکسار کیسے رہ سکتے ہیں؟
9 خاکسار رہنے کے لیے ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ کی عظمت کے آگے ہم کتنے چھوٹے ہیں۔ (زبور 8:3، 4) اِس بات کو یاد رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہوواہ سے یہ دُعا بھی کرنی چاہیے کہ ہم اپنے اندر اَور زیادہ خاکساری پیدا کریں اور کبھی یہ نہ سوچیں کہ ہمیں اَور زیادہ سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس طرح یہوواہ ہماری مدد کرے گا کہ ہم اپنی سوچ سے زیادہ اُس کی سوچ کو اہمیت دیں جو ہمیں اُس کے کلام اور اُس کی تنظیم کے ذریعے پتہ چلتی ہے۔ بائبل پڑھتے وقت ایسی باتوں پر غور کریں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہوواہ کو خاکساری سے کتنی محبت ہے اور غرور، گھمنڈ اور تکبّر سے کتنی نفرت ہے۔ اگر یہوواہ کی خدمت کے حوالے سے آپ کو کوئی ایسی ذمےداری مل جاتی ہے جس میں آپ کے پاس کسی حد تک اِختیار آ جاتا ہے تو اَور بھی زیادہ محتاط رہیں کہ آپ مغرور نہ بن جائیں۔
ہم سچائی پر قائم کیسے رہ سکتے ہیں؟
10. یہوواہ اپنے بندوں کو تعلیم اور ہدایتیں دینے کے لیے کون سا ذریعہ اِستعمال کرتا ہے؟
10 یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں پر بھروسا کرتے رہیں۔ پُرانے زمانے میں یہوواہ نے موسیٰ اور پھر یشوع کے ذریعے اپنے بندوں کو ہدایتیں دیں۔ (یشو 1:16، 17) جب بنیاِسرائیل نے اِن آدمیوں کو یہوواہ کے نمائندوں کے طور پر تسلیم کِیا تو یہوواہ نے اُنہیں برکتیں دیں۔ اِس کے سینکڑوں سال بعد جب مسیحی کلیسیا قائم ہوئی تو یہوواہ نے 12 رسولوں کے ذریعے اپنے بندوں کو ہدایتیں دیں۔ (اعما 8:14، 15) بعد میں اِن 12 رسولوں کے گروہ میں یروشلم کے اَور بھی بزرگ شامل ہو گئے۔ اِن آدمیوں کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں کو قبول کرنے سے ”کلیسیائیں ایمان میں مضبوط ہوتی گئیں اور شاگردوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی گئی۔“ (اعما 16:4، 5) ہمارے زمانے میں یہوواہ اپنی تنظیم کے ذریعے ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔ وہ ہمیں بھی اُس وقت برکت دیتا ہے جب ہم اُس کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں کو مانتے ہیں۔ لیکن ذرا سوچیں کہ یہوواہ کو اُس وقت کیسا لگتا ہے جب ہم اُن آدمیوں کو قبول نہیں کرتے جنہیں اُس نے ہماری پیشوائی کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے؟ اِس سوال کا جواب جاننے کے لیے آئیے دیکھیں کہ جب بنیاِسرائیل ملک کنعان میں داخل ہونے والے تھے تو اُس وقت کیا ہوا۔
11. پُرانے زمانے میں اُن اِسرائیلیوں کے ساتھ کیا ہوا جو یہ تسلیم نہیں کر رہے تھے کہ یہوواہ نے اپنے بندوں کی پیشوائی کرنے کے لیے موسیٰ کو چُنا ہے؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
11 جب بنیاِسرائیل ملک کنعان جا رہے تھے تو ایک وقت آیا کہ کچھ اثرورسوخ رکھنے والے آدمی موسیٰ کے خلاف بغاوت کرنے لگے اور اِس بات پر شک کرنے لگے کہ یہوواہ نے موسیٰ کو اُن کی پیشوائی کرنے کے لیے مقرر کِیا ہے۔ اُن آدمیوں نے کہا: ”جماعت کا ایکایک آدمی مُقدس ہے[صرف موسیٰ ہی نہیں]اور[یہوواہ]اُن کے بیچ رہتا ہے۔“ (گن 16:1-3) یہ سچ ہے کہ یہوواہ کی نظر میں ”جماعت کا ایک ایک آدمی مُقدس“ یا پاک تھا۔ لیکن یہوواہ نے اپنے بندوں کی پیشوائی کرنے کے لیے موسیٰ کو چُنا تھا۔ (گن 16:28) تو موسیٰ کے خلاف باتیں کرنے سے دراصل وہ آدمی یہوواہ کے خلاف باتیں کر رہے تھے۔ وہ اِس بات پر دھیان دینے کی بجائے کہ یہوواہ کیا چاہتا ہے، اِس بات پر دھیان دے رہے تھے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ وہ اَور زیادہ اِختیار اور رُتبہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہوواہ نے اِس بغاوت میں پیشوائی کرنے والے آدمیوں کو اور اُن ہزاروں لوگوں کو مار ڈالا جو اُن کا ساتھ دے رہے تھے۔ (گن 16:30-35، 41، 49) آج بھی یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہوواہ اُن لوگوں کو بالکل پسند نہیں کرتا جو اُس کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں کے لیے احترام نہیں دِکھاتے۔
12. ہم یہوواہ کی تنظیم پر اپنے بھروسے کو قائم کیسے رکھ سکتے ہیں؟
12 ہم یہوواہ کی تنظیم پر اپنے بھروسے کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ جب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمیں بائبل کی کسی سچائی کے حوالے سے اپنی سمجھ میں بہتری لانے کی ضرورت ہے یا خوشخبری سنانے کے کام کو منظم کرنے کے لیے اپنے طریقے کو بدلنے کی ضرورت ہے تو یہوواہ کی تنظیم میں پیشوائی کرنے والے بھائی اِن تبدیلیوں کو کرنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ (اَمثا 4:18) وہ ایسا اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ اُن کی نظر میں یہوواہ کو خوش کرنا سب سے اہم بات ہے۔ وہ اِس بات کا بھی پورا خیال رکھتے ہیں کہ اُن کے فیصلے خدا کے کلام کے مطابق یعنی اُس معیار کے مطابق ہوں جس پر خدا کے سبھی بندوں کو چلنا چاہیے۔
13. اِصطلاح ”صحیح تعلیم کے معیار“ کا کیا مطلب ہے اور ہمیں اِس معیار کے حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟
13 ”صحیح تعلیم کے معیار پر قائم رہیں۔“ (2-تیم 1:13) اِصطلاح ’صحیح تعلیم کا معیار‘ اُن تعلیمات کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو ہمیں بائبل سے ملتی ہیں۔ (یوح 17:17) یہ تعلیمات اُن سب عقیدوں کی بنیاد ہیں جو ہم مانتے ہیں۔ یہوواہ کی تنظیم نے ہمیں صحیح تعلیم کے معیار کے مطابق چلنا سکھایا ہے۔ جب تک ہم اِس معیار پر قائم رہیں گے، یہوواہ ہمیں برکتیں دے گا۔
14. کچھ مسیحی ”صحیح تعلیم کے معیار پر قائم“ کیوں نہیں رہے؟
14 اگر ہم ”صحیح تعلیم کے معیار پر قائم“ نہیں رہتے تو کیا ہو سکتا ہے؟ اِس سلسلے میں ذرا اِس مثال پر غور کریں۔ پہلی صدی عیسوی میں کچھ مسیحی یہ جھوٹی افواہ پھیلا رہے تھے کہ یہوواہ کا دن آ چُکا ہے۔ شاید اُن کے پاس ایک خط تھا جس کے بارے میں اُنہیں لگ رہا تھا کہ یہ اُنہیں پولُس کی طرف سے ملا ہے اور پولُس نے یہ بات کی ہے۔ تھسلُنیکے میں رہنے والے کچھ مسیحیوں نے حقائق جانے بغیر اِن جھوٹی افواہوں پر یقین کر لیا یہاں تک کہ وہ اِنہیں پھیلانے بھی لگے۔ اگر وہ مسیحی یہ یاد رکھتے کہ پولُس نے اُنہیں اُس وقت کیا سکھایا تھا جب وہ اُن کے ساتھ تھے تو وہ کبھی بھی اِن جھوٹی باتوں کے دھوکے میں نہ آتے۔ (2-تھس 2:1-5) اِس لیے پولُس نے اپنے اِن بہن بھائیوں کو نصیحت کی کہ وہ ہر سنی سنائی بات پر یقین نہ کریں۔ پولُس نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے بہن بھائی پھر سے اِس خطرے میں پڑیں۔ اِس لیے جب اُنہوں نے تھسلُنیکے کے نام اپنا دوسرا خط لکھا تو اُنہوں نے اِس کا اِختتام اِن الفاظ سے کِیا: ”مَیں پولُس، اپنے ہاتھ سے آپ کو سلام لکھ رہا ہوں۔ یہ میرے خطوں کی نشانی ہے اور مَیں اِسی طرح لکھتا ہوں۔“—2-تھس 3:17۔
15. ہم اُن جھوٹی باتوں میں آنے سے کیسے بچ سکتے ہیں جو دِکھنے میں سچی لگتی ہیں؟ ایک مثال دیں۔ (تصویروں کو بھی دیکھیں۔)
15 پولُس رسول نے تھسلُنیکے میں رہنے والے مسیحیوں کے نام جو خط لکھا، اُس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ جب ہم کوئی ایسی بات یا خبر سنتے ہیں جو بائبل میں لکھی تعلیمات سے میل نہیں کھاتیں تو ہمیں اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو اِستعمال کرنا چاہیے۔ اِس سلسلے میں ذرا ایک واقعے پر غور کریں۔ سابقہ سوویت یونین میں حکومت کے کچھ لوگوں نے ہمارے بھائیوں کو ایک ایسا خط بھیجا جسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہ خط اُنہیں ہمارے مرکز ی دفتر کی طرف سے ملا ہے۔ اِس خط میں یہ حوصلہافزائی کی گئی تھی کہ کچھ بھائی الگ سے ایک تنظیم قائم کریں۔ خط کو دیکھ کر بھائیوں کو لگ رہا تھا کہ یہ اُنہیں مرکزی دفتر کی طرف سے ہی ملا ہے۔ لیکن ہمارے بھائی دھوکے میں نہیں آئے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ خط میں لکھی باتیں اُن تعلیمات کے مطابق نہیں ہیں جو اُنہوں نے بائبل سے سیکھی ہیں۔ آج بھی سچائی کے دُشمن کبھی کبھار جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمیں گمراہ کرنا اور ہم میں پھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو ’فوراً اُلجھن میں پڑنے اور پریشان ہونے‘ کی بجائے ہم اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یا سُن رہے ہیں، کیا وہ اُن سچائیوں کے مطابق بھی ہے جو ہم نے سیکھی ہیں؟ اِس طرح ہم خود کو جھوٹی باتوں سے محفوظ رکھ پائیں گے۔—2-تھس 2:2؛ 1-یوح 4:1۔
16. رومیوں 16:17، 18 کے مطابق ہمیں اُس وقت کیا کرنا چاہیے جب کچھ لوگ سچائی کے مطابق چلنا چھوڑ دیتے ہیں؟
16 اُن لوگوں کے ساتھ متحد رہیں جو یہوواہ کے وفادار ہیں۔ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے ہمایمانوں کے ساتھ متحد ہوکر اُس کی عبادت کریں۔ لیکن ہم تب تک ہی ایک دوسرے کے ساتھ متحد رہ سکیں گے جب تک ہم سچائی سے لپٹے رہیں گے۔ جو شخص سچائی سے دُور ہو جاتا ہے، وہ کلیسیا میں اِختلافات پیدا کرتا ہے۔ خدا نے ہمیں ”ایسے لوگوں سے دُور“ رہنے کو کہا ہے تاکہ ہم بھی سچائی سے دُور نہ ہو جائیں۔—رومیوں 16:17، 18 کو پڑھیں۔
17. ہمیں سچائی کو پہچاننے اور اِسے تھامے رہنے سے کون سے فائدے ہوں گے؟
17 اگر ہم سچائی کو پہچان جائیں گے اور اِسے مضبوطی سے تھام لیں گے تو ہم یہوواہ کے قریب رہ پائیں گے اور اپنے ایمان کو مضبوط رکھ پائیں گے۔ (اِفِس 4:15، 16) اِس طرح ہم شیطان کے پھیلائے جھوٹ پر یقین نہیں کریں گے اور اُس کے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ اِس کے علاوہ بڑی مصیبت کے دوران ہم یہوواہ کی پناہ میں بھی رہیں گے۔ اِس لیے آئیے اُن باتوں کو تھامے رکھیں جو سچی ہیں۔ پھر ”خدا جو اِطمینان کا بانی ہے، آپ کے ساتھ رہے گا۔“—فِل 4:8، 9۔
گیت نمبر 122: سچائی کی راہ پر قائم رہیں
a تصویر کی وضاحت: اصلی واقعے پر مبنی منظر۔ بہت سال پہلے سابقہ سوویت یونین میں رہنے والے ہمارے بھائیوں کو ایک خط ملا جسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہ خط اُنہیں ہمارے مرکزی دفتر کی طرف سے ملا ہے۔ لیکن اصل میں یہ اُن کے مخالفوں کی طرف سے تھا۔ ہمارے زمانے میں ہمارے مخالف شاید اِنٹرنیٹ کے ذریعے یہوواہ کی تنظیم کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلائیں۔