زبور 80‏:1‏-‏19

  • اِسرائیل کے چرواہے سے بحالی کی اِلتجا

    • ‏”‏اَے خدا!‏ ہمیں بحال کر“‏ ‏(‏3‏)‏

    • اِسرائیل خدا کی انگور کی بیل ‏(‏8-‏15‏)‏

موسیقار کے لیے۔ اِس نغمے کو ”‏سوسن کے پھولوں“‏*‏ کے مطابق گایا جائے۔ یاددہانی کے لیے آسَف کا نغمہ۔‏ 80  اَے اِسرائیل کے چرواہے!‏تُو جو یوسف کو گلّے کی طرح راستہ دِکھاتا ہے، سُن!‏ تُو جو کروبیوں کے اُوپر*‏ تخت‌نشین ہے،‏اپنا نور چمکا۔‏  2  اِفرائیم، بِنیامین اور منسّی کے سامنےاپنی طاقت کا جلوہ دِکھا؛‏آ اور ہمیں بچا۔‏  3  اَے خدا!‏ ہمیں بحال کر؛‏اپنے چہرے کا نور ہم پر چمکا تاکہ ہم بچ سکیں۔‏  4  اَے فوجوں کے خدا یہوواہ!‏ تُو کب تک غضب‌ناک رہے گا اور اپنے بندوں کی دُعائیں اَن‌سنی کرے گا؟‏  5  تُو اُنہیں کھانے کے لیے روٹی کی بجائے آنسو دیتا ہے؛‏تُو اُنہیں آنسوؤں کے پیالے بھر بھر کے پلاتا ہے۔‏  6  تُو ہمارے پڑوسیوں کو ہم پر قبضہ کرنے کے لیے آپس میں لڑنے دیتا ہے؛‏ہمارے دُشمن جیسے چاہیں، ہمارا مذاق اُڑاتے رہتے ہیں۔‏  7  اَے فوجوں کے خدا!‏ ہمیں بحال کر؛‏اپنے چہرے کا نور ہم پر چمکا تاکہ ہم بچ سکیں۔‏  8  تُو مصر سے انگور کی بیل لایا۔‏ تُو نے قوموں کو نکال کر اُن کی جگہ اِسے لگایا۔‏  9  تُو نے اِس کے لیے جگہ تیار کیاور یہ جڑ پکڑ کر پورے ملک میں پھیل گئی۔‏ 10  پہاڑ اِس کے سائے سے ڈھک گئےاور خدا کے دیودار اِس کی شاخوں سے۔‏ 11  اِس کی شاخیں دُور سمندر تک پھیل گئیںاور اِس کی ٹہنیاں بڑے دریا*‏ تک۔‏ 12  تُو نے انگور کے باغ کی پتھر کی دیواریں کیوں توڑ دی ہیں؟‏اب ہر آنے جانے والا اِس سے پھل توڑتا ہے۔‏ 13  جنگلی سؤر اِسے برباد کرتے ہیںاور زمین کے جنگلی جانور اِسے چرتے ہیں۔‏ 14  اَے فوجوں کے خدا!‏ مہربانی سے لوٹ آ!‏ آسمان سے نیچے دیکھ اور اِس بیل کی دیکھ‌بھال کر،‏ 15  ہاں، اُس بیل*‏ کی جسے تُو نے اپنے دائیں ہاتھ سے لگایا تھا؛‏اُس بیٹے*‏ پر نظر کر جسے تُو نے اپنے لیے مضبوط بنایا تھا۔‏ 16  اِس بیل کو کاٹ ڈالا گیا ہے اور جلا دیا گیا ہے۔‏ لوگ تیری ڈانٹ سے فنا ہو جاتے ہیں۔‏ 17  تیرا ہاتھ اُس آدمی کو سہارا دے جو تیری دائیں طرف ہے،‏ہاں، اِنسان کے بیٹے کو جسے تُو نے اپنے لیے مضبوط بنایا ہے۔‏ 18  تب ہم تجھ سے مُنہ نہیں موڑیں گے۔‏ ہمیں زندہ رکھ تاکہ ہم تیرا نام لیں۔‏ 19  اَے فوجوں کے خدا یہوواہ!‏ ہمیں بحال کر؛‏اپنے چہرے کا نور ہم پر چمکا تاکہ ہم بچ سکیں۔‏

فٹ‌ نوٹس

شاید یہ کوئی تاردار ساز، موسیقی کا کوئی انداز یا کوئی دُھن تھی۔‏
یا شاید ”‏بیچ“‏
یعنی دریائے‌فرات
یا ”‏انگور کی اُس بیل کے تنے“‏
یا ”‏شاخ“‏