ایوب 15‏:1‏-‏35

  • اِلیفز کا دوسرا بیان ‏(‏1-‏35‏)‏

    • اِلیفز کا دعویٰ کہ ایوب کو خدا کا خوف نہیں ‏(‏4‏)‏

    • اِلیفز کا دعویٰ کہ ایوب مغرور ہیں ‏(‏7-‏9‏)‏

    • خدا کو ”‏اپنے مُقدسوں پر بھروسا نہیں“‏ ‏(‏15‏)‏

    • بُرا شخص ساری زندگی اذیت اُٹھاتا ہے ‏(‏20-‏24‏)‏

15  تب اِلیفز تیمانی نے کہا:‏  2  ‏”‏کیا ایک دانش‌مند شخص جواب میں کھوکھلی دلیلیں*‏ دے گایا اپنا دل غلط خیالوں سے*‏ بھرے گا؟‏  3  خالی لفظوں سے اِصلاح کرنا بے‌کار ہےاور بس باتیں کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‏  4  تُم لوگوں کے دل سے خدا کا خوف ختم کر رہے ہواور اُنہیں خدا کے بارے میں سوچ بچار کرنے سے روک رہے ہو  5  کیونکہ تُم اپنی غلطی کی وجہ سے ایسی باتیں کر رہے ہواور تمہاری زبان سے مکاری جھلک رہی ہے۔‏  6  مَیں نہیں بلکہ تمہارا اپنا مُنہ تمہیں قصوروار ٹھہرا رہا ہے؛‏تمہارے اپنے ہونٹ تمہارے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔‏  7  کیا اِنسانوں میں سب سے پہلے تُم پیدا ہوئے تھے؟‏کیا تمہاری پیدائش پہاڑوں سے بھی پہلے ہوئی تھی؟‏  8  کیا تُم خدا کی راز کی باتیں سنتے ہو؟‏کیا تُم نے دانش‌مندی کا ٹھیکا لے رکھا ہے؟‏  9  تُم ایسا کیا جانتے ہو جو ہم نہیں جانتے؟‏ تُم ایسا کیا سمجھتے ہو جو ہم نہیں سمجھتے؟‏ 10  ہمارے بیچ سفید سر والے اور بوڑھے لوگ موجود ہیںجن کی عمر تمہارے والد سے بھی زیادہ ہے۔‏ 11  کیا تمہارے لیے یہ کافی نہیں کہ خدا تمہیں تسلی دے رہا ہےیا تُم سے نرمی سے بات کی جا رہی ہے؟‏ 12  تمہارا دل تُم پر حاوی کیوں ہےاور تمہاری آنکھیں غصے سے دہک کیوں رہی ہیں؟‏ 13  تمہارے دل میں خدا کے خلاف غصہ ہے*اِسی لیے تُم اپنے مُنہ سے ایسی باتیں نکال رہے ہو۔‏ 14  بھلا فانی اِنسان پاک کیسے ہو سکتا ہےاور جو عورت سے پیدا ہوا ہے، نیک کیسے ہو سکتا ہے؟‏ 15  دیکھو، اُسے اپنے مُقدسوں*‏ پر بھروسا نہیں ہےاور آسمان بھی اُس کی نظر میں پاک نہیں ہے۔‏ 16  تو پھر وہ ایک ایسے شخص پر بھروسا کیسے کر سکتا ہے جو گھناؤنا اور بگڑا ہوا ہواور جو بُرائی کو پانی کی طرح پی جاتا ہو!‏ 17  میری بات سنو، مَیں تمہیں بتاؤں گا؛‏ جو کچھ مَیں نے دیکھا ہے، مَیں اُسے بیان کروں گا۔‏ 18  مَیں تمہیں ایسی باتیں بتاؤں گا جو دانش‌مند لوگوں نے اپنے باپ‌دادا سے سنی ہیں،‏ایسی باتیں جو اُنہوں نے چھپا کر نہیں رکھیں۔‏ 19  صرف اُنہیں وہ ملک دیا گیا جس میں وہ رہتے ہیںاور کوئی اجنبی اُن کے بیچ سے نہیں گزرا۔‏ 20  ایک بُرا اور ظالم شخص ساری زندگی اذیت اُٹھاتا ہے؛‏وہ جتنے بھی سال زندہ رہتا ہے، تڑپتا رہتا ہے۔‏ 21  اُس کے کانوں میں خوف‌ناک آوازیں گُونجتی ہیںاور امن کے دَور میں لُٹیرے اُس پر حملہ کر دیتے ہیں۔‏ 22  وہ جانتا ہے کہ وہ تباہی*‏ سے نہیں بچے گا؛‏یہ طے ہے کہ وہ تلوار سے مرے گا۔‏ 23  وہ روٹی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ کہاں ملے گی۔‏ اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ تباہی*‏ کا دن نزدیک ہے۔‏ 24  پریشانی اور تکلیف اُسے خوف‌زدہ کرتی رہتی ہیں؛‏وہ ایک ایسے بادشاہ کی طرح اُس پر حاوی ہو جاتی ہیں جو حملہ کرنے کے لیے تیار ہو 25  کیونکہ وہ خدا کے خلاف ہاتھ اُٹھاتا ہےاور لامحدود قدرت کے مالک کو للکارنے*‏ کی کوشش کرتا ہے۔‏ 26  وہ اپنی موٹی اور مضبوط ڈھال لے کرڈھٹائی سے خدا کی طرف بڑھتا ہے۔‏ 27  اُس کا چہرہ چربی سے ڈھکا ہوا ہےاور اُس کی توند بڑھ گئی ہے۔‏ 28  وہ ایسے شہروں میں رہتا ہے جنہیں تباہ کر دیا جائے گا؛‏ایسے گھروں میں جن میں کوئی نہیں بسے گااور جو پتھروں کا ڈھیر بن جائیں گے۔‏ 29  وہ امیر نہیں ہوگا اور اُس کی دولت جمع نہیں ہوگی،‏نہ ہی اُس کے مال مویشی ملک میں پھیلیں گے۔‏ 30  وہ تباہی*‏ سے بچ نہیں پائے گا؛‏وہ ایک ایسے درخت کی طرح ہو جائے گا جس کی شاخ ایک شعلے سے جُھلس گئی ہو*اور وہ خدا*‏ کے مُنہ کی ایک پھونک سے فنا ہو جائے گا۔‏ 31  اُسے بھٹکنا نہیں چاہیے اور بے‌کار چیزوں پر بھروسا نہیں کرنا چاہیےکیونکہ بدلے میں اُسے جو کچھ ملے گا، وہ کسی کام کا نہیں ہوگا۔‏ 32  اُس کے ساتھ بہت جلد ایسا ہوگا؛‏وہ ایک ایسے درخت کی طرح ہوگا جس کی شاخیں کبھی ہری بھری نہیں ہوں گی۔‏ 33  وہ انگور کی ایسی بیل کی طرح ہوگا جس کا پھل پکنے سے پہلے گِر جاتا ہےاور زیتون کے ایسے درخت کی طرح جس کے پھول جھڑ جاتے ہیں۔‏ 34  بُرے*‏ لوگوں کی محفل ویران ہو جائے گیاور رشوت لینے والوں کے خیمے آگ سے بھسم ہو جائیں گے۔‏ 35  اُن کی کوکھ میں فساد کا حمل ٹھہرتا ہے اور وہ بُرائی کو جنم دیتے ہیںاور اُن کے پیٹ میں دھوکا پرورش پاتا ہے۔“‏

فٹ‌ نوٹس

یا ”‏بے‌تکاُ علم“‏
لفظی ترجمہ:‏ ”‏اپنا پیٹ مشرقی ہوا سے“‏
لفظی ترجمہ:‏ ”‏تُم نے اپنی روح کو خدا کے خلاف پھیر لیا ہے“‏
غالباً یہاں فرشتوں کی بات ہو رہی ہے۔‏
لفظی ترجمہ:‏ ”‏تاریکی“‏
لفظی ترجمہ:‏ ”‏تاریکی“‏
یا ”‏پر غالب آنے“‏
لفظی ترجمہ:‏ ”‏تاریکی“‏
اِس کا مطلب ہے کہ اُس کی بحالی کی کوئی اُمید نہیں بچے گی۔‏
لفظی ترجمہ:‏ ”‏اُس“‏
یا ”‏برگشتہ“‏