سچا ایمان—کیا یہ اب بھی ممکن ہے؟
سچا ایمان—کیا یہ اب بھی ممکن ہے؟
”دراصل ایمان سے مُراد خدا کے فضلوکرم پر زندہ اور دلیرانہ اعتماد ہے جو اتنا یقینی اور پُختہ ہوتا ہے کہ ایک باایمان شخص اس کیلئے ہزار مرتبہ اپنی جان بھی قربان کر سکتا ہے۔“—مـارٹـن لـوتـھـر، ۱۵۲۲۔
”ہم تقریباً ہر لحاظ سے ایک ایسے دُنیوی معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مسیحی ایمان اور دستور بڑی حد تک معدوم ہو چکے ہیں۔“—لڈوک کینیڈی، ۱۹۹۹۔
ایمان کے متعلق مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ ماضی میں خدا پر ایمان عام تھا۔ تاہم، آجکل شکوشبہات اور تکلیف میں مبتلا اِس دُنیا کے اندر خدا اور بائبل پر سچا ایمان بڑی تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
سچا ایمان
بہتیرے لوگوں کے نزدیک ”ایمان“ محض ایک مذہبی عقیدہ یا کسی مخصوص طرزِپرستش کی پابندی ہے۔ تاہم، بائبل کے مطابق ایمان بنیادی طور پر خدا اور اُسکے وعدوں پر مکمل اور غیرمتزلزل اعتماد کا نام ہے۔ یہ یسوع مسیح کے شاگرد کی شناخت کرانے والی خوبی ہے۔
یسوع مسیح نے ایک موقع پر دُعا کرنے اور ”ہمت“ نہ ہارنے کی ضرورت کو اُجاگر کِیا۔ اس سلسلے میں، اُس نے ایک سوال اُٹھایا کہ آیا سچا ایمان ہمارے زمانہ تک قائم رہیگا۔ اُس نے استفسار کِیا: ”جب ابنِآدم آئیگا تو کیا زمین پر ایمان پائیگا؟“ اُس نے ایسا سوال کیوں کِیا؟—لوقا ۱۸:۱، ۸۔
ایمان کھو بیٹھنا
لوگ بہتیری چیزوں کے باعث اپنا ایمان کھو بیٹھتے ہیں۔ ان میں روزمرّہ زندگی کی پریشانیاں اور مشکلات شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، جب ۱۹۵۸ میں میونخ کے ہوائی حادثے میں مانچسٹر یونائیٹڈ فٹبال ٹیم کے بیشتر کھلاڑی ہلاک ہوئے تو اس وقت پروفیسر مائیکل گولڈر مانچسٹر، انگلینڈ میں مقامی کلیسیا کا پادری تھا۔ بیبیسی ٹیلیویژن پروگرام میں اناؤنسر جون بیکول نے وضاحت کی کہ گولڈر ”لوگوں کے شدید غم کے سامنے بالکل بےبس تھا۔“ نتیجتاً، اُس نے ”ایک ایسے خدا پر ایمان رکھنا چھوڑ دیا جو انسان کی تقدیر بدل سکتا ہے۔“ گولڈر نے اپنی رائے پیش کی کہ ”بائبل خدا کا غلطی سے مبرا کلام نہیں بلکہ انسان کا غلطیوں سے پُر کلام ہے جس میں اِکادُکا الہامی باتیں بھی ہو سکتی ہیں۔“
بعضاوقات ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔ مصنف اور بروڈکاسٹر لڈوک آل اِن دی مائنڈ—اے فیرول ٹو گاڈ۔
کینیڈی کیساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ وہ بیان کرتا ہے کہ بچپن ہی سے اُسکے ”اندر وقتاًفوقتاً [خدا کی بابت] شکوشبہات پیدا ہوتے رہے اور [اُسکی] بےیقینی بڑھتی گئی۔“ بظاہر کوئی بھی اُسکے سوالوں کا تسلیبخش جواب دینے کے قابل نہیں تھا۔ سمندر میں اسکے باپ کی موت نے اُسکے کمزور ایمان کو مزید دھچکا پہنچایا۔ جب دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمن جنگی بحری جہازوں نے اُس بحری جہاز پر حملہ کرکے اُسے تباہ کر دیا جس میں اسکا باپ بھی تھا تو خدا سے ”سمندر کے خطرات اور دشمنوں کے حملوں سے تحفظ“ کی دُعائیں رائیگاں ثابت ہوئیں۔—ایسے تجربات غیرمعمولی نہیں ہیں۔ پولس رسول بیان کرتا ہے: ”سب میں ایمان نہیں۔“ (۲-تھسلنیکیوں ۳:۲) آپ کا کیا خیال ہے؟ دُنیا میں شکوشبہات بڑھنے کے باوجود کیا خدا اور اُس کے کلام پر سچا ایمان رکھنا ممکن ہے؟ غور کریں کہ اگلا مضمون اس سلسلے میں کیا بیان کرتا ہے۔